Getty Images
لاکھ جتن کر کے بھی جو کام جے شاہ نہ کر پائے، اس سے کہیں بڑا کارنامہ روہت شرما کی ٹیم نے کر ڈالا اور ستم یہ کہ معرکہ اٹھانے میں انھیں ہزار جتن بھی نہ کرنے پڑے جو پاکستان خود اپنی ہی کوتاہ بینی کے ہاتھوں ڈھیر ہو گیا۔
جو رونق میزبانی بچا پانے کے غلغلے سے پاکستان میں اٹھی تھی، اب اسے ایونٹ سے بے دخلی کی سسکیوں میں منہ چھپانا ہے کہ پی سی بی کا دھیان اس ایونٹ کی کامیابی پر تو خوب رہا مگر اس ایونٹ میں ٹیم کی کامیابی کیسے ہو گی، یہ سب کچھ محض ڈیٹا اور لیپ ٹاپ پر چھوڑ دیا گیا۔
جو ندامت پاکستان نے دبئی میں کمائی اُس کی ذمہ دار یہ ٹیم تو ہے ہی، مگر اس کے لیے سب سے بڑا فرشی سلام اس سلیکشن کمیٹی کو جانا چاہیے جنھیں اپنی ہوم کنڈیشنز کے لیے ٹیم چنتے ہوئے یہ ہوش بھی نہ رہا کہ یہاں دو باقاعدہ سپنرز تو ہر ٹیم کی ضرورت ہوں گے۔
ڈیٹا کے محدب عدسوں سے کھلاڑیوں کے مستقبل جھانکنے والے یہ بزرجمہران لیپ ٹاپ سکرینوں کے حضور بیٹھ کر جب ٹیم طے کر رہے تھے تو کیا یہ جانتے نہ تھے کہ دبئی میں جب اُن کا انڈیا سے پالا پڑے گا تو لیفٹ آرم لیگ سپنر کس قدر مفید ہو سکے گا؟
جن سلیکشن تبدیلیوں کے سبب پاکستان نے حال ہی میں آسٹریلیا جا کر نایاب فتح حاصل کی اور جنوبی افریقہ میں بھی نادر کلین سویپ اپنے نام کیا، وہ سبھی باصلاحیت نام چیمپئینز ٹرافی آتے ہی تہہ کر کے الماریوں میں کیوں سنبھال لیے گئے؟
کیا ڈیٹا کے اسیر یہ اذہان اتنا بھی نہیں سمجھ سکتے کہ جیسے صائم ایوب کا متبادل خوشدل شاہ نہیں ہو سکتے، ویسے ہی امام الحق کی احتیاط پسندی بھی فخر زمان کے غیض و غضب کا کوئی بدل نہیں ہو سکتی؟
اور پھر پاکستان کے وہ ستارے جنھیں وراٹ کوہلی سے تقابل کا کوئی شوق ہے یا وسیم اکرم و وقار یونس سے تشبیہہ پر افتخار امڈ آتا ہے، انھیں یہ ادراک کب ہو گا کہ بڑا کھلاڑی روزمرہ کی دو طرفہ کرکٹ میں اعدادوشمار کے انبار لگانے سے نہیں، ورلڈ سٹیج پر اپنا ہنر جگانے سے بنتا ہے؟
انڈیا سے شکست کے بعد پاکستانی فینز نالاں: ’سیلیکٹرز، کوچ اور محسن نقوی کے علاوہ سب جانتے ہیں کہ ٹیم میں کس کو ہونا چاہیے‘دماغ ماؤف کر دینے والے روایتی ٹاکرے میں پاکستان کے لیے انڈیا کو ہرانا اتنا مشکل کیوں رہا ہے؟
وراٹ کوہلی عظیم ترین اس لیے ہیں کہ وہ اپنا سب سے بہترین کھیل رچانے کو سب سے بڑا سٹیج ڈھونڈتے ہیں۔ رکی پونٹنگ، سچن ٹنڈولکر، برائن لارا، وسیم اکرم، وقار یونس، میک گرا وغیرہ سبھی اس قبیل سے تھے جو تب اپنا بہترین دکھاتے جب پوری دنیا کی نگاہیں ان پر جمی ہوتیں۔
پاکستان کی سلیکشن کمیٹی میں جو ڈھونڈے سے کوئی ایک آدھ کرکٹر کا چہرہ نظر آتا بھی ہے تو وہ بھی بذاتِ خود پریشر کرکٹ کے تجربے سے محروم ہے۔ درحقیقت پاکستان ٹیم کے اس انتظامی سیٹ اپ میں عاقب جاوید کے سوا کوئی ایک بھی نام ایسا نہیں جسے پریشر کرکٹ جیتنے کی مہارت حاصل ہو۔
Getty Images
اور پھر اس الیون میں بھی کچھ سٹارز وہ ہیں جنھیں سری لنکا، بنگلہ دیش، زمبابوے، ویسٹ انڈیز وغیرہ کے خلاف تو جیت کے سبھی گُر معلوم ہیں مگر شامی، پانڈیا، سٹارک، ہیزل ووڈ، ربادا، آرچر وغیرہ کی کلاس سے نمٹنا بالکل نہیں جانتے۔
جب کوئی بلے باز پے در پے ایسی ٹیموں کے خلاف رنز کے انبار لگاتے ہوئے آئی سی سی رینکنگ کے چارٹ پھاڑے گاتو ورلڈ ایونٹس میں پھر قلعی بھی تو کُھلے گی ہی۔ جو پاور پلے میں چھکوں کی کمی کا ذمہ دار ہمت کی نہیں، پروٹین کی کمی کو قرار دیں، وہ پانڈیا جیسے نڈر کھلاڑی کا مقابلہ کیسے کر پائیں گے؟
پاکستان کرکٹ مسلسل ایڈہاک بنیادوں پر چل رہی ہے، یہاں توازن و تسلسل کا فقدان ایسا ہے کہ نہ صرف کپتان کے سینٹرل کنٹریکٹ میں تنخواہ اس کی کپتانی سے مشروط کی جاتی ہے بلکہ پریس کانفرنس میں نبفسِ نفیس ایسی مضحکہ خیزی کا دفاع بھی کیا جاتا ہے۔
محسن نقوی سب کچھ اپنی تھالی میں چاہتے ہیں اور اُن کی اس لاشعوری کوشش کے نیچے پی سی بی ایک فیملی فرنچائز کمپنی کی مانند بنتا جا رہا ہے جہاں بالآخر ہر تنخواہ دار کا مستقبل مالک کی خوشنودی سے ہی جڑا ہے۔
گرچہ گورننس اور ڈپلومیسی اُن کی قوت ہو سکتی ہے، کرکٹنگ معاملات پر از حد گرفت صرف اُن کی ہی نہیں، پاکستان کرکٹ کی بھی کمزوری کا باعث بن رہی ہے۔ جبکہ بہتر یہی ہے کہ کرکٹ کے معاملات انہی اذہان پر چھوڑ دیے جائیں جو اس کی نبض سے واقف ہیں۔
گو ایسے نصائح بہرے کانوں پر پڑی دھول سے بڑھ کر نہیں مگر پھر بھی پاکستان کو مستقبل میں ایسی رسوائیوں سے بچنے کی اگر کوئی آرزو ہے تو وزیراعظم پاکستان قوم پر احسان کرتے ہوئے 'پیٹرن ان چیف' کا عہدہ آئینی طور پہ ختم کریں اور پی سی بی میں سیاسی مداخلت کی راہ بند کر کے اسے پیشہ ور ادارہ بننے کی اجازت دیں جو کم از کم اپنے اعمال کا خود ذمے دار تو ہو۔
انڈیا سے شکست کے بعد پاکستانی فینز نالاں: ’سیلیکٹرز، کوچ اور محسن نقوی کے علاوہ سب جانتے ہیں کہ ٹیم میں کس کو ہونا چاہیے‘پاکستان بمقابلہ انڈیا: ’یہ بابر اعظم کے کریئر کی بقا کا سوال ہے‘دماغ ماؤف کر دینے والے روایتی ٹاکرے میں پاکستان کے لیے انڈیا کو ہرانا اتنا مشکل کیوں رہا ہے؟’طیب طاہر کی تکنیک اور پاکستانی بلے بازوں کی آزمائش‘