زیلنسکی سمیت عالمی رہنماؤں سے ’تلخی‘ سے پیش آنے والے ٹرمپ کے نائب جے ڈی وینس جو امریکی خارجہ پالیسی کو نیا رخ دے رہے ہیں

بی بی سی اردو  |  Mar 02, 2025

جے ڈی وینس کی جانب سے جمعہ کے روز اوول آفس میں یوکرین کے صدر زیلنسکی کو دوٹوک جواب دینا اس بات کا مظہر تھا کہ امریکی نائب صدر کسی جھجک کے بغیر مرکزی کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ وہ اپنے پیشروؤں کی طرح محض ایک خاموش سیاسی معاون بننے کے بجائے بھرپور انداز میں جارحانہ مؤقف اختیار کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔

یہ وینس ہی تھے جنھوں نے زیلنسکی پر سب سے پہلے سخت تنقید کا آغاز کیا اور پھر صدر ٹرمپ اس میں شامل ہوئے۔

یہ ملاقات اس وقت تک خوشگوار چل رہی تھی جب تک کہ وینس نے روس یوکرین جنگ کو روکنے کے لیے سفارتی حل تلاش کرنے پر ٹرمپ کی تعریف کرنا نہیں شروع کی۔

زیلنسکی، جو واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان براہ راست مذاکرات کے سخت ناقد رہے ہیں، وینس کی بات کاٹتے ہوئے بولے: ’آپ کس قسم کی سفارت کاری کی بات کر رہے ہیں، جے ڈی؟ آپ کا مطلب کیا ہے؟‘

وینس نے فوری جواب دیا ’میں اس سفارت کاری کی بات کر رہا ہوں جو آپ کے ملک کی تباہی کو ختم کر سکے۔‘

ان کے سخت لہجے نے یوکرینی صدر کو حیران کر دیا۔

’جنابِ صدر پورے احترام کے ساتھ، میرے خیال میں یہ مناسب نہیں کہ آپ اوول آفس میں آ کر اس معاملے کو امریکی میڈیا کے سامنے اچھالیں۔‘

Getty Images

وینس نے زیلنسکی پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ انھوں نے 2024 کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کی بالواسطہ حمایت کی۔ اس الزام کی بنیاد زیلنسکی کا گذشتہ ستمبر میں سوئنگ سٹیٹس میں سے ایک (فیصلہ کن ریاستیں) پینسلوینیا میں ایک اسلحہ بنانے والی فیکٹری کا دورہ اور وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی حریف کملا ہیرس، سے ملاقات تھی۔

وینس کی جانب سے زیلنسکی کو اس طرح جھاڑ پلانے پر ریپبلکن رہنماؤں کی طرف سے زبردست حمایت دیکھنے میں آئی ہے۔

جنوبی کیرولائنا کے سینیٹر لنڈسے گراہم، جو یوکرین کے حمایتی اور سخت گیر خارجہ پالیسی کے حامی سمجھے جاتے ہیں، نے کہا ’مجھے جے ڈی وینس پر فخر ہے کہ وہ ہمارے ملک کے مفاد کے لیے کھڑے ہوئے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ زیلنسکی کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔

الاباما کے سینیٹر ٹومی ٹیوبرول نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ زیلنسکی ’یوکرینی لومڑی‘ ہیں۔

ادھر نیویارک کے کانگریس مین مائیک لاولر نے نسبتاً محتاط ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقات ’امریکہ اور یوکرین دونوں کے لیے ایک ایسا موقع تھی جسے انھوں نے کھو دیا ہے۔‘

’یوکرین میں کیا ہوتا ہے مجھے اس کی کوئی خاص پرواہ نہیں ہے‘Getty Images

امریکی نائب صدر کے لیے ان کے ملک کے دورے پر آئے ہوئے سربراہ مملکت پر یہ حملہ معمول کی بات نہیں ہے۔

عام طور پر ان کا کام صدر کے انتخاب میں مدد دینا اور پھر خاموشی سے اپنے باس کے ساتھ کھڑے رہنا ہوتا ہے۔ وہ وفادار معاون کے طور پر بیرونی دوروں کے دوران صدر کی نمائندگی کرتے ہیں۔۔۔ اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ نائب صدر صدارت سے بس ایک قدم دور ہوتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے نائب صدر، نرم مزاج مائیک پینس کے برعکس وینس کا انداز بالکل مختلف ہے۔

لیکن وینس، جنھیں وسیع پیمانے پر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے بنیادی نظریات کو واضح کرنے والا شخص سمجھا جاتا ہے، طویل عرصے سے یوکرین کے لیے امریکی امداد کے بارے میں شدید شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

جب وہ 2022 میں اوہائیو سینیٹ کی نشست کے لیے انتخاب لڑ رہے تھے تو ایک پوڈکاسٹ میں انھوں نے صاف کہا: ’مجھے آپ سے سچ بولنا ہے، یوکرین میں کیا ہوتا ہے مجھے اس کی کوئی خاص پرواہ نہیں ہے۔‘

ٹرمپ زیلنسکی تکرار کے بعد یورپی ممالک کی یوکرینی صدر کی حمایت لیکن پھر بھی امریکہ سے عسکری امداد کی خواہش کیوں؟زیلنسکی پر وائٹ ہاؤس میں سوٹ نہ پہننے پر تنقید: کیا ٹرمپ سے بحث کی ایک وجہ یہ تھی؟پوتن کو رعایت دینے کی ’غلطی‘ یا سیاسی چال: ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی نے کیسے دنیا کو الجھا دیاریاض کے بند کمرے کی غیرمعمولی تصویر اور وہ ’سفارتی دھماکہ‘ جس نے مغربی دنیا کو ہلا کر رکھ دیاجب وینس نے ٹرمپ کو احمق کہہ کر ان کا مذاق اڑایا تھا

دلچسپ بات یہ ہے کہ آٹھ سال پہلے وینس نے ٹرمپ کو ’احمق‘ کہہ کر مذاق اُڑایا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ان کی سیاسی سوچ میں تغیر آیا کہ اب وہ صدر کے ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ (ماگا) نظریے کے ممکنہ جانشین سمجھے جا رہے ہیں۔

اگرچہ قدامت پسند ووٹرز میں وینس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، مگر حال ہی میں فاکس نیوز کو دیے ایک انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا کہ یہ کہنا ’ابھی قبل از وقت‘ ہوگا کہ آیا وینس 2028 میں صدارت کے لیے امیدوار بنیں گے یا نہیں۔

تاہم وینس اس سے بے پروا دکھائی دیتے ہیں اور خود کو ایک جارحانہ سیاسی جنگجو کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔۔۔ حتیٰ کہ بعض مواقع پر وہ صدر سے بھی زیادہ سخت لہجہ اختیار کر رہے ہیں اور انتظامیہ کے مخالفین پر بے باک تنقید کر رہے ہیں۔

Getty Images

اس معاملے میں ایک مشترکہ بات یہ ہے کہ امریکہ کے نائب صدر وینس کے سخت گیر مؤقف کا سامنا زیادہ تر واشنگٹن کے اتحادی رہنماؤں نے ہی کیا ہے۔

یہ سلسلہ گذشتہ مہینے میونخ سکیورٹی کانفرنس سے شروع ہوا، جہاں امریکی نائب صدر باقاعدگی سے جاتے ہیں۔ کملا ہیرس کی یہاں کی جانے والی تقاریروں میں وہ بات نہیں۔

اس مقام پر امریکی نائب صدر نے یورپ میں جمہوریت، آزادی اظہار رائے پر قدغنوں اور امیگریشن پر کنٹرول نہ حاصل کرنے کے الزامات عائد کر کے یورپی ریاستوں کی خوب خبر لی۔

انھوں نے کہا ’اگر آپ کو اپنے ووٹر سے ڈر لگ رہا ہے تو پھر امریکہ آپ کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔‘

انھوں نے سیاستدانوں، جرنیلوں اور سفارتکاروں سے ملاقاتوں میں سخت رویہ روا رکھا۔ یہ غیرمعمولی ہے مگر اب یہ ایک نیا معمول بن کر رہ گیا ہے کہ یورپ کو اب اپنے دفاع اور سکیورٹی کے لیے خود زیادہ خرچ کرنا چاہیے۔

یہ نئی امریکی انتظامیہ کا یورپ کے ساتھ ایک نیا مگر انتہائی سخت رویہ ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ ناصرف یورپ سے دور ہو رہا ہے بلکہ اب اس کی زیادہ توجہ چین پر ہے۔ اور یہ کہ امریکہ اب یورپی خطے میں بھی ٹرمپ طرز پاپولزم کی ترویج کر رہا ہے۔

امریکی نائب صدر نے جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈیپارٹی کی قیادت کے ساتھ اپنی تقریر کے بعد ڈنر کیا۔ ان کی تقریر پر یورپی رہنماؤں، ادیبوں، لکھاریوں اور ماہرین تعلیم نے تنقید بھی کی۔

Getty Images

اس کے باوجود امریکی نائب صدر نے ان کی تنقید پر آن لائن ہی ردعمل دینے کا فیصلہ کیا۔ مورخ نیل فرگوسن سمیت دیگر سے انھوں نے ایکس پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔

جے ڈی وینس نیل فرگوسن پر انتہائی سخت تنقید بھی کر چکے ہیں اور انھیں عالمگیریت کا علمبردار تک قرار دے چکے ہیں۔

اس ہفتے کے آغاز پر اوول آفس میں برطانوی وزیراعظم سے بھی جے ڈی وینس نے ایسا ہی رویہ رکھا۔

انھوں نے برطانوی وزیر اعظم سر کیئر سٹارمر سے کہا کہ انھوں نے اپنے ملک میں آزادی اظہار پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جو ناصرف خود برطانیہ کو متاثر کر رہی ہیں جو کہ بہرحال یہ آپ کا اندرونی معاملہ ہے مگر اس سے امریکہ کی ٹیکنالوجی کی کمپنیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں جس سے بالآخر امریکی شہری متاثر ہوں گے۔'

برطانوی وزیراعظم نے اپنے ملک کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے کہا جہاں تک برطانیہ میں آزادی اظہار رائے کی بات ہے تو مجھے اپنی تاریخ پر بہت فخر ہے، ہمارے ہاں بہت طویل عرصے سے آزادی اظہار رائے ہے اور یہ بہت طویل عرصے تک رہے گی۔'

میونخ میں امریکی نائب صدر نے اے آئی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے یورپی قواعد کے خلاف جو تنقید کی تھی یہ اس کا بھی جواب تھا۔

ان یورپی قواعد کا مقصد غلط معلومات اور نفرت انگیزی سے نمٹنا ہے جس سے بدامنی کو ہوا مل سکتی ہے اور یہلوگوں کو بنیاد پرست بنا سکتی ہے۔ تاہم وینس کو ان سب میں سیاسی مضمرات نظر آتے ہیں اور وہ اسے امریکی مفادات اور بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

Getty Images

یہاں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کیا زیلنسکی کے خلاف نائب صدر نے پہلے سے ذہن بنا رکھا تھا، جیسا کہ کچھ سفارت کاروں کا خیال ہے؟

وائٹ ہاؤس کے ذرائع نے امریکی میڈیا کو بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے یعنی یہ پہلے سے طے شدہ نہیں تھا۔

کیا امریکی نائب صدر اب صدر ٹرمپ کے اشارے پر یہ سب کر رہے ہیں اور کیا وہ ایلون مسک کے ساتھ مل کر ٹرمپ کے ناقدین کو سبق سکھا رہے ہیں؟

یا یہ کہ نائب صدر خود سے ہی یہ خدمات انجام دے رہے ہیں اور یوں وہ اگلے تین سال بعد صدارتی مہم کے لیے ماحول سازگار کر رہے ہیں جب صدر ٹرمپ امریکی صدارت کے لیے امیدوار بننے کے اہل نہیں ہوں گے۔

ان سوالات کا جو بھی جواب ہے مگر یہ بات اٹل ہے کہ وینس ٹرمپ کے نمبر دو سے کچھ زیادہ ہی بن کر سامنے آ رہے ہیں۔

ٹرمپ زیلنسکی تکرار کے بعد یورپی ممالک کی یوکرینی صدر کی حمایت لیکن پھر بھی امریکہ سے عسکری امداد کی خواہش کیوں؟ریاض کے بند کمرے کی غیرمعمولی تصویر اور وہ ’سفارتی دھماکہ‘ جس نے مغربی دنیا کو ہلا کر رکھ دیاپوتن کو رعایت دینے کی ’غلطی‘ یا سیاسی چال: ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی نے کیسے دنیا کو الجھا دیازیلنسکی پر وائٹ ہاؤس میں سوٹ نہ پہننے پر تنقید: کیا ٹرمپ سے بحث کی ایک وجہ یہ تھی؟یوکرین کے صدر روس کے خلاف ’یورپ کی فوج‘ کیوں بنانا چاہتے ہیں؟روس کی جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق نئی پالیسی میں خاص کیا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More