امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز کا کہنا ہے کہ امریکہ کو ایک ایسے یوکرینی قیادت کی ضرورت ہے جو کہ روس کے ساتھ دیرپا امن قائم کر سکیں۔ ’تاہم یہ واضح نہیں ولادیمیر زیلینسکی یہ کرنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں؟‘برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز کا کہنا ہے کہ واشنگٹن ماسکور اور کیئف کے درمیان مستقل امن قائم کرنا چاہتا ہے جس کے تحت یورپ کی سربراہی میں سکیورٹی کی ضمانت کے بدلے میں کچھ علاقوں کے حوالے سے رعایت دینی پڑے گی۔جب سی این این کے ’سٹیٹ آف دی یونین‘ پروگرام میں میں پوچھا گیا کہ کیا صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ولادیمیر زیلنسکی استعفیٰ دے دیں تو مائیک والٹز نے کہا کہ ’ہم ایک ایسا لیڈر چاہتے ہیں جو ہمارے ساتھ ڈیل کریں اور نتیجتاً روس کے ساتھ کریں تاکہ جنگ ختم ہو۔‘
’اگر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کہ صدر زیلنسکی کے ذاتی یا سیاسی مقاصد جنگ ختم کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں تو یہ ہمارے لیے اہم مسئلہ ہوگا۔‘
امریکی ایوان نمائندگان کے سپیکر مائیک جانس نے بھی یہ رائے دی ہے کہ اگر زیلنسکی امریکی مطالبات نہیں مانتے تو یوکرین میں ایک مختلف رہنما کی ضرورت ہوگی۔ایوان نمائندگان کے سپیکر نے این بی سی کے میٹ دی پریس پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی ایک کو تو بدلنا ہے، یا وہ (زیلنسکی) اپنے ہوش میں آئیں اور شکرگزاری کے ساتھ ٹیبل پر واپس آئیں یا کسی اور کو ایسا کرنے کے لیے ملک کی سربراہی کرنی ہوگی۔‘اوول آفس میں صدر ٹرمپ اور ولادیمیر زیلینسکی کے درمیان ملاقات کے دوران جھڑپ نے دونوں کے درمیان کشیدگی کو عوام کے سامنے لے آیا۔ اس کے نتیجے میں یوکرین کے معدنی ذخائر کو نکالنے لیے دونوں ممالک کے درمیان معاہدے پر دستخط نہیں ہوسکا اور اب اس معاہدے کی قسمت غیر یقینی ہے۔والٹز نے کہا کہ یہ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ صدر زیلنسکی اچھی نیت کے ساتھ اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔اے بی سی ٹیلی ویژن کے ’دس ویک‘ میں امریکی وزیر خارجہ مارک روبیو نے کہا کہ ان کی جمعے سے صدر زیلنسکی سے بات نہیں ہوئی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی صدر ٹرمپ اور زیلینسکی کے درمیان تلخ جملوں کے تبادلے کے بعد یوکرین کے وزیرخارجہ سے بھی بات نہیں ہوئی ہے۔روبیو نے کہا کہ ہم یوکرین کے ساتھ دوبارہ انگیجمنٹ کے لیے تیار ہیں اگر وہ امن کے لیے تیار ہیں۔