برفانی تودے تلے دب جانے والے 46 افراد جو معجزاتی طور پر زندہ بچ گئے

بی بی سی اردو  |  Mar 03, 2025

Indo-Tibetan Border Police

انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ میں ہمالیہ کے برفانی پہاڑوں میں برفانی تودہ گرنے سے آٹھ افراد کی ہلاکت ہو گئی مگر تودے تلے دبنے والے 46 افراد کو معجزانہ طور پر کنٹینروں سے زندہ نکال لیا گیا ہے۔

یہ واقعہ جمعہ کے روز اس وقت پیش آیا جب مانا گاؤں کے قریب ایک تعمیراتی کیمپ پر برفانی تودہ گرنے سے 54 مزدور دب گئے۔ یہ ریسکیو آپریشن تقریباً 60 گھنٹے تک جاری رہا۔

بارڈر روڈز آرگنائزیشن کا کیمپ 28 فروری کی صبح 7.15 بجے برفانی تودے کی زد میں آ گیا۔ اس وقت اس کیمپ میں 54 کارکن رہ رہے تھے۔

برفانی تودے گرنے کی اطلاع ملتے ہی انڈین فوج کی آئی بیکس بریگیڈ (IBEX) نے چارج سنبھال لیا اور صبح 8 بجے سے لوگوں کو بچانےکا کام شروع کر دیا۔

کچھ مزدور تقریباً دو دن تک برف کے نیچے دبے رہے مگر خوش قسمتی سے وہ زندہ بچ گئے کیونکہ جن کنٹینرز میں وہ رہ رہے تھے ان میں اتنی آکسیجن موجود تھی کہ امدادی ٹیموں کے پہنچنے تک وہ سانس لے پا رہے تھے۔

انڈین میڈیا نے حکام کے حوالے سے بتایا کہ یہ آکسیجن ہی ان کی بقا کا سبب بنی۔

انڈین فوج کی بریگیڈ ’آئی بیکس‘

انڈین فوج میں آئی بیکس ایک خصوصی بریگیڈ ہے۔ اس کا نام پہاڑی بکرے کی نسل آئی بیکس کے نام پر رکھا گیا ہے۔

یہ بکرے بہت تیز رفتاری سے پہاڑیوں پر چڑھنے میں ماہر ہیں۔ یہ منفی 46 ڈگری درجہ حرارت میں بھی آرام سے رہ سکتے ہیں۔

انڈین فوج کی یہ بریگیڈ انتہائی تجربہ کار اور پہاڑی علاقے میں کسی بھی قسم کا آپریشن کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انھیں کسی بھی اونچائی پر اور مشکل حالات میں آپریشن کرنے کی تربیت دی گئی ہے۔

اس کے فوجیوں کی تربیت ایسی ہے کہ وہ 9 سے 15 ہزار فٹ کی بلندی والے علاقوں میں آسانی سے آپریشن کر سکتے ہیں۔ شدید برف باری میں بھی انھیں سخت تربیت دی جاتی ہے۔

کرنل منیش اوجھا (ریٹائرڈ) نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’آئی بیکس پہاڑی بریگیڈ ہے۔ یہ کسی بھی ناقابل رسائی اور اونچائی والے علاقے میں کام کرنے کے لیے پوری طرح سے تربیت یافتہ ہے۔ یہ ہر حال میں کسی بھی فوجی آپریشن کو انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘

آئی بیکس بریگیڈ چین سے متصل اتراکھنڈ کی گڑھوال سرحد کے لیے ذمہ دار ہے۔ یہ بریگیڈ اونچائی پر کارروائیاں کرنے کے لیے ہنر مند اور تربیت یافتہ ہے۔

پاکستان: شدید برفباری سے ہونے والی تباہی کے مناظرکے ٹو: لاپتہ کوہ پیماؤں کو کیا حادثہ پیش آیا ہو گا، سرچ مشن میں کیا ہو رہا ہے؟اناپورنا کے ڈیتھ زون میں 27 گھنٹے گزارنے والی بلجیت کور: ’کیمپ فور کی روشنی دیکھ کر میں رات بھر خود کو گھسیٹتی رہی‘اے 23 اے: دنیا کا سب سے بڑا برفانی تودا جو سمندری بھنور کا قیدی بن گیا ہے

انڈین فوج میں اتراکھنڈ کے ترجمان کرنل منیش سریواستو کا کہنا ہے کہ ’انڈین فوج کے ہر سپاہی کو ایسے حالات سے لڑنے اور اس طرح کی کارروائیاں کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔‘

منا گاؤں کے قریب برفانی تودہ گرنے کی اطلاع ملتے ہی انڈین فوج نے فوری کارروائی کی۔ ایک یونٹ وہاں تعینات تھا اور دوسری یونٹ کے سپاہیوں کے ساتھ مل کر تقریباً 170 فوجیوں نے واقعہ کے آدھے گھنٹے کے اندر جائے وقوعہ پر پہنچ کر کام سنبھال لیا۔

کرنل منیش سریواستو نے کہا ہے کہ سڑک 15 کلومیٹر تک مکمل طور پر بند تھی۔ ایسے میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریسکیو آپریشن مکمل کیا گیا۔

آئی بیکس بریگیڈ کو کن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا؟

برفانی تودہ گرنے کے بعد بارش اور برف باری کے درمیان جاری امداری کارروائیوں کے دوران آئی بیکس بریگیڈ کو پانچ چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔

موسم: برفانی تودہ گرنے کے بعد سے موسم بہت خراب ہے۔ تیز ہواؤں کے ساتھ بارش اور برف باری ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے کیمپ میں لوگوں کو تلاش کرنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔

دھند: مانا گاؤں سے جوشی مٹھ تک ابتدائی 15 کلومیٹر کا راستہ بند ہے۔ خراب موسم کی وجہ سے حد نگاہ کم ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کی پرواز میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔

ہائپوتھرمیا: برف باری میں پھنسے کارکنوں کو سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اتنی دیر تک برف کے نیچے دبے رہنے کی وجہ سے وہ ہائپوتھرمیا کا شکار ہو گئے۔

ہائپوتھرمیا ایک طبی ایمرجنسی ہے جس میں جسم کا درجہ حرارت 35 ڈگری سیلسیس سے کم ہونے پر سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ جسم کے کئی حصے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور دل کی دھڑکن بے ترتیب ہونے لگتی ہے۔

وسائل : برفانی تودے کی وجہ سے سڑک بلاک ہوگئی اور بعد میں ریسکیو آپریشن کو تیزی سے انجام دینے کے لیے وسائل ناکافی ثابت ہوئے۔

رابطہ: برفانی تودہ گرنے کے بعد بارش اور برف باری کے باعث رابطہ کرنا ایک بڑا چیلنج بن گیا۔ جائے وقوعہ اور اڈے کے درمیان رابطہ کاری میں دشواری بھی ایک بڑا چیلنج تھا۔

دھاتی شیلٹرز ان کی زندگی کے محافظ بن گئےIndian Armyیہ ریسکیو آپریشن 60 گھنٹے تک جاری رہا

زیادہ تر مزدور ہائی وے کی توسیعی منصوبے پر کام کر رہے تھے۔

ریسکیو اہلکاروں نے دی انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ ان کے برفانی تودے سے بچنے کا سہرا دھاتی کنٹینرز کو جاتا ہے جنھوں نے انھیں محفوظ رکھا۔

ایک سینیئر ریسکیو افسر نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا ’یہ دھاتی شیلٹرز ان کی زندگی کے محافظ بن گئے۔ ان کے پاس اتنی آکسیجن تھی کہ وہ ہمارے پہنچنے تک زندہ رہ سکے۔‘

اخبار کے مطابق برفانی تودے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ اس نے آٹھ دھاتی کنٹینرز اور ایک شیڈ کو پہاڑ سے نیچے دھکیل دیا۔

اتراکھنڈ کے وزیراعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے مشکل ترین حالات میں انتھک محنت کرنے والی ریسکیو ٹیموں کا شکریہ ادا کیا۔

مزدوروں کو نکالنے کے لیے انڈین فوج، قومی اور ریاستی آفات سے نمٹنے والے اداروں اور مقامی انتظامیہ کے اہلکاروں نے مشترکہ طور پر کام کیا اور اس ریسکیو آپریشن میں ہیلی کاپٹرز اور ڈرونز کا استعمال بھی کیا گیا۔

’برفانی تودہ ہمارے کنٹینر سے ایسے ٹکرایا جیسے زمین کھسک رہی ہو‘

بچ جانے والے افراد کا ہسپتال میں علاج جاری ہے۔

زندہ بچ جانے والوں میں ستیہ پرکاش یادو بھی شامل ہیں جن کا تعلق اتر پردیش سے ہے۔ انھوں نے فوج کی جانب سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں بتایا کہ ’برفانی تودہ ہمارے کنٹینر سے ایسے ٹکرایا جیسے زمین کھسک رہی ہو۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ برف کی شدید ٹکر سے کنٹینر ٹوٹ گیا اور بہتے ہوئے دریا کے قریب جا گرا۔

’ہم نے کسی طرح خود کو باہر نکالا اور ایک قریبی فوجی گیسٹ ہاؤس پہنچے جہاں ہم نے رات گزاری۔‘

اتراکھنڈ سے تعلق رکھنے والے مزدور راج نیش کمار کے مطابق جب برفانی تودہ گرا اس وقت زیادہ تر مزدور گہری نیند میں تھے۔

ویڈیو میں وہ کہتے ہیں ’تودہ گرنے سے کنٹینر تقریباً 50 سے 60 میٹر نیچے جا گرا۔ فوج فوری طور پر پہنچی اور ہمیں بچا لیا۔‘

مانا گاؤں کے سابق پنچایت رکن گورو کنور نے بی بی سی کو بتایا کہ جس علاقے میں برفانی تودہ گرا وہاں کوئی مستقل رہائش نہیں رکھتا۔

’سردیوں میں وہاں صرف وہ مزدور رہتے ہیں جو سرحدی سڑکوں پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔‘ انھوں نے مزید بتایا کہ برفانی تودہ گرنے سے دو دن قبل علاقے میں موسلا دھار بارش ہوئی تھی۔

انڈیا کے محکمہ موسمیات نے ہماچل پردیش، اتراکھنڈ اور جموں و کشمیر میں منگل تک بارش اور برف باری کی پیش گوئی کی ہے۔

ہمالیہ میں خاص طور پر سردیوں کے موسم میں برفانی تودے اور لینڈ سلائیڈنگ عام ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے شدید موسم کو زیادہ خطرناک اور غیر متوقع بنا دیا ہے۔ حالیہ برسوں میں اتراکھنڈ کے پہاڑی علاقوں میں جنگلات کی کٹائی اور بڑے پیمانے پر تعمیرات میں تیزی آئی ہے جس سے خطرات مزید بڑھ گئے ہیں۔

2021 میں ہمالیہ کے ایک گلیشیئر کا ٹکڑا دریا میں گرنے سے اچانک شدید سیلاب آیا تھا جس میں تقریباً 100 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اے 23 اے: دنیا کا سب سے بڑا برفانی تودا جو سمندری بھنور کا قیدی بن گیا ہےاناپورنا کے ڈیتھ زون میں 27 گھنٹے گزارنے والی بلجیت کور: ’کیمپ فور کی روشنی دیکھ کر میں رات بھر خود کو گھسیٹتی رہی‘کے ٹو: لاپتہ کوہ پیماؤں کو کیا حادثہ پیش آیا ہو گا، سرچ مشن میں کیا ہو رہا ہے؟پاکستان: شدید برفباری سے ہونے والی تباہی کے مناظر
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More