BBC
پاکستان میں منعقد ہونے والی آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے لیے انڈیا کی ٹیم تو پاکستان نہیں آئی تاہم حال ہی میں انڈیا سے چند صحافی کرکٹ کے اِن مقابلوں کی کوریج کرنے کے لیے پاکستان میں موجود تھے۔
ان میں وکرانت گپتا نامی صحافی بھی شامل تھے جو خاص طور پر پاکستان کے سوشل میڈیا صارفین میں کافی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ کرکٹ کے حوالے سے ان کے تجزیے پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شیئر کیے جاتے رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں موجودگی کے دوران وکرانت گپتا اور ان کے چند ساتھی سوشل میڈیا اور مقامی ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں کافی نظر آتے رہے۔
لاہور میں حال ہی میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وکرانت گپتا نے بتایا کہ انھیں یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ انھیں اور ان کے ساتھیوں کو ان کی توقعات سے زیادہ پاکستان میں عزت اور احترام ملا۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے لیے پاکستان میں گزرے تین دن یادگار رہے۔ ’میں غلط بیانی نہیں کر رہا ہے۔ (میں نے پاکستان میں) بہت حیران کن تین دن گزرے ہیں۔ اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ میں اپنے کام کرنے سے زیادہ انٹرویوز دے رہا ہوں۔ میں سب سے کہہ رہا ہوں کہ میں خبر نہیں ہوں۔‘
خیال رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدہ سیاسی تعلقات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے لوگوں اور صحافیوں کے لیے ویزے حاصل کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔
سنہ 2023 میں انڈیا میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے پاکستان سے مداحوں اور صحافیوں کو انڈیا کے ویزے لینے میں مشکلات اور تاخیر کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
Getty Imagesبی بی سی کی ٹیم کی وکرانت گپتا سے ملاقات
جن دنوں وہ لاہور میں موجود تھے یہاں بارشوں کا سلسلہ کافی شدید تھا تو وکرانت گپتا سے ہماری ملاقات بارش کے دوران ہی لبرٹی چوک کے آس پاس ہو پائی جہاں وہ عام لوگوں میں گھرے تھے اور چند مقامی صحافی ان کی میزبانی کر رہے تھے۔
ایم ایم عالم روڈ پر واقع ایک کیفے میں اپنے میزبانوں کے ہمراہ بیٹھے وکرانت گپتا نے پاکستان میں گزارے گئے اپنے وقت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں توقع نہیں تھی کہ پاکستان میں انھیں اس قدر پہچان اور گرم جوشی ملے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کسی مہمان کو تحفہ دے دینا، اس کے کھانے کے پیسے نہ ادا کرنے دینا وغیرہ یہ بہت چھوٹی سے باتیں ہیں۔ میرے خیال میں آج کل کے دور میں اگر کوئی آپ کو اپنا وقت دے رہا ہے تو اس سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں۔ اور یہاں دوستوں نے ہمیں بہت پیار اور اپنا قیمتی وقت دیا۔‘
وہ کہتے ہیں انھیں یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی جب لبرٹی چوک میں لوگوں نے ان کو پہچان لیا اور ان سے باتیں کرنے لگے۔
’بچے آ گئے، انھوں نے مجھے پہچان لیا کہ یہ صحافی ہیں، انڈیا سے آئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کبھی وراٹ اور روہت کو پاکستان لے کر آئیں۔ انھوں نے کہا کہ کتنا اچھا ہوتا اگر انڈیا قذافی سٹیڈیم میں کھیلتا۔‘
فٹبالر پر ریپ کے الزامات: ’کوئی بات نہیں، میں 10 ہزار خواتین کے ساتھ سیکس کر چکا ہوں‘ارشد ندیم کا گاؤں، ’روسی ٹریکٹر‘ اور والدہ کی خوشی: ’آج تم نے میرا دل بہت بڑا کر دیا‘سعید انور: بولرز کے لیے ’ڈراؤنا خواب‘ بننے والے اوپنر جو عمران خان کی طرح کرکٹ کی دنیا چھوڑنا چاہتے تھےاحمد آباد کا تاریخی ٹیسٹ میچ: جب عمران خان نے انڈین شائقین کے پتھراؤ پر فیلڈرز کو ہیلمٹ پہنا دیے
وکرانت گپتا کو وہ دن بھی یاد ہیں جب وہ سنہ 2004 میں انڈیا کی ٹیم کے ہمراہ پاکستان آئے تھے اور ان دنوں انھوں نے پاکستان میں لوگوں میں انڈین کرکٹ سٹارز سچن ٹنڈولکر، ورندر سہواگ اور مہندر سنگھ دھونی کے لیے کافی پذیرائی دیکھی تھی۔
انھیں پاکستان میں اب بھی انڈین کرکٹرز کے لیے کافی پذیرائی نظر آئی۔ اس سے قبل انھوں نے یہ سن اور پڑھ رکھا تھا کہ پاکستان میں کہیں کرکٹ فینز وراٹ کوہلی کی جرسی پہن کر گراونڈ میں آ گئے یا انھوں نے کوہلی اور جسپرت بمرا کے لیے پسندیدگی اظہار کیا ہو۔
’لیکن یہاں آ کر میں نے خود دیکھا کہ لوگ وراٹ اور بمرا وغیرہ کو کتنا پسند کرتے ہیں۔ میں یہاں کرکٹ اکیڈمی میں گیا، وہاں مجھے بچے ملے جو وراٹ بننا چاہتے ہیں اور ان کو پسند کرتے ہیں۔ میرے لیے یہ دیکھنا بہت ہی دلچسپ ہے۔ کمال ہے۔‘
BBCانڈین ٹیم پاکستان کیوں نہیں آ پائی؟
پاکستان میں منعقد ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی سے قبل اس ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے انڈیا کی کرکٹ ٹیم کا پاکستان کا سفر کرنا کافی دنوں تک ایک موضوع بنا رہا۔ یہ سوال بھی کافی زیر بحث رہا کہ اگر انڈیا ایسا نہیں کرتا تو پھر چیمپیئنز ٹرافی کہاں ہو گی؟ کیا پاکستان اسے کھو دے گا؟
آخر میں فیصلہ یہ ہوا کہ ٹرافی پاکستان ہی میں ہو گی تاہم انڈیا اپنے تمام میچز پاکستان سے باہر متحدہ عرب امارات میں کھیلے گا۔ اس کے بدلے میں انڈیا نے پاکستان کی اس تجویز کو بھی تسلیم کیا کہ پاکستان آئندہ تین برس کے لیے انڈیا میں ہونے والے کسی کرکٹ کے عالمی مقابلے میں شرکت کے لیے انڈیا نہیں جائے گا اور اپنے میچز انڈیا سے باہر کھیلے گا۔
تاہم چیمپیئنز ٹرافی سے قبل پاکستان میں خاص طور پر سوشل میڈیا پر صارفین کے ایک بڑے طبقے کی رائے یہ تھی کہ انڈیا کو پاکستان کا سفر کرنا چاہیے۔ تاہم اس وقت انڈیا میں لوگ کیا بات کر رہے تھے؟
انڈیں صحافی وکرانت گپتا کہتے ہیں کہ انڈیا میں شاید اس وقت یہ کوئی بہت بڑی بحث نہیں تھی۔
'شاید انڈیا میں یہ انڈر سٹینڈنگ تھی کہ جب تک پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کسی موقع پر جا کر بہتر ہوں، مجھے لگ رہا تھا کہ انڈیا چیمپیئنز ٹرافی کے لی نہیں جائے گا۔‘
گو کہ اب وہ اس کو کچھ الگ نظریے سے دیکھتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ انھیں اس وقت یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ کچھ کھلاڑی بھی ایسے تھے جن کو تحفظات تھے کہ جب انڈین ٹیم پاکستان جائے گی تو شاید سکیورٹی تھریٹ مختلف ہو جائے گا۔
وکرانت کہتے ہیں کہ ’لیکن معلوم نہیں کہ وہ شاید بڑی وجہ تھی یا نہیں۔ میرے خیال میں اس کی بڑی اور بنیادی وجہہمارے ہاںدونوں ممالک کی حکومتوں میں موجود کھٹاس ہے۔‘
وکرانت گپتا نے بتایا کہ انھیں معلوم تھا جو اس وقت پاکستان کی طرف سے نقطہ نظر سامنے آ رہا تھا کہ کھیل کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے اور انڈیا کو آنا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کہنا بڑا آسان ہوتا ہے لیکن ایک ملک کھیل اور سیاست کو الگ نہیں رکھ سکتا۔‘
Getty Imagesکیا انھیں پاکستان میں سکیورٹی کا مسئلہ محسوس ہوا؟
وکرانت گپتا کہتے ہیں کہ وہ جب پہلے بھی پاکستان آئے تھے تو اس وقت بھی اور اب بھی انھیں یہی لگتا ہے کہ پاکستان اور انڈیا میں لوگ ایک جیسے ہی ہیں، کلچر بھی ایک جیسا ہے۔ ان کے خیال میں شمالی انڈیا کے لوگوں کا کلچر پاکستان کے کلچر سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔
اس لیے وہ کہتے ہیں کہ وہ جب پاکستان آ رہے تھے تو ذاتی طور پر ان کے لیے سیکیورٹی مسئلہ نہیں تھا۔
’مجھے پتا تھا کہ میں ایک اکیلا شخص ہوں، اور میں پہلے بھی تین مرتبہ پاکستان آ چکا تھا اس لیے سکیورٹی انفرادی طور پر میرے لیے مسئلہ نہیں تھا۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہے کہ اگر میں آ سکتا ہوں تو انڈین ٹیم کیوں نہیں آ سکتی تو ان کے خیال میں یہ موازنہ موزوں نہیں ہو گا۔
’ٹیم کا جو سکیورٹی تھریٹ پرسیپشن ہو گا وہ مختلف ہو گا۔ ہم نے وہ دیکھا تھا جو 2004 میں یا 2006 میں صدارتی لیول کی سکیورٹی ہوتی تھی، وہ بہت اچھی ہوتی تھی۔ لیکن بات پھر وہی آ جاتی ہے کہ جب حکومتوں کا ہی آپس میں کوئی رابطہنہیں ہے تو پھر ہم کیا کر سکتے ہیں۔'
وکرانت گپتا سمجھتے ہیں کہ جب تک پاکستان اور انڈیا کی حکومتوں کے درمیان تعلقات بہتر نہیں ہوتے اس وقت تک کرکٹ کے لیے بھی دونوں ملکوں کے لوگوں کے درمیان پُل کا کام کرنا بہت مشکل ہو گا۔
جب انڈیا کی پہلی خاتون پہلوان حمیدہ بانو نے کہا ’مجھے دنگل میں ہرانے والا مجھ سے شادی کر سکتا ہے‘دنیا کا ’تیز ترین‘ پاکستانی بولر جو صرف پانچ ٹیسٹ میچ ہی کھیل پایا’بغیر اجازت‘ بوسہ لینے کے تنازع پر ہسپانوی خواتین کھلاڑیوں کا بائیکاٹارشد ندیم کا گاؤں، ’روسی ٹریکٹر‘ اور والدہ کی خوشی: ’آج تم نے میرا دل بہت بڑا کر دیا‘فٹبالر پر ریپ کے الزامات: ’کوئی بات نہیں، میں 10 ہزار خواتین کے ساتھ سیکس کر چکا ہوں‘