گلوکار بننے کا خواب دیکھنے والے اداکار افتخار جو بالی وُڈ کے ’پولیس کمشنر‘ کہلائے

اردو نیوز  |  Mar 05, 2025

اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ پولیس کمشنر سنگھ، پولیس انسپکٹر کھرانا، گینگسٹر ملک راج ڈاور، ٹھاکر کے دوست نرمل جی اور ڈی ایس پی ڈی سلوا میں کیا مشترک ہے تو آپ کو شاید بات سمجھ میں نہ آئے۔

لیکن اگر آپ فلموں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور بالی وڈ کے شہنشاہ امیتابھ بچن کے فین ہیں تو آپ نے انھیں فلم ’زنجیر‘ میں پولیس کمشنر سنگھ کے روپ میں، ’مجبور‘ میں پولیس انسپکٹر کھرانا کے روپ میں، فلم ’دیوار‘ میں ڈاور کے روپ میں اور فلم ’ڈان‘ میں ڈی ایس پی ڈی سلوا کے روپ میں دیکھا ہوگا۔ اور فلم شعلے میں وہ ٹھاکر کے سمدھی کے روپ میں نظر آتے ہیں۔

آپ نے یہ مشہور مکالمہ الفاظ کے تھوڑے بہت الٹ پھیر کے ساتھ ضرور سنا ہوگا کہ ’بھاگنے کی کوشش مت کرنا۔ ہم نے تمہیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ بھلائی اسی میں ہے کہ تم اپنے آپ کو قانون کے حوالے کر دو۔‘

فلم ’ڈان‘ کا یہ مشہور مکالمہ ڈی ایس پی ڈی سلوا ادا کرتے ہیں جسے اداکار افتخار پر فلمایا گیا۔

جی ہاں! ہم اسی اداکار افتخار کی بات کر رہے ہیں جنہوں نے 100 سے زیادہ فلموں میں پولیس والے کا کردار ادا کیا اور ہندی فلم انڈسٹری ’بالی وڈ کے پولیس کمشنر‘ کہلائے۔

آج ہم افتخار احمد شریف کو اس لیے یاد کر رہے ہیں کیونکہ وہ آج سے پورے 30 سال قبل چار مارچ 1995 کو انتہائی رنج و الم اور دلی تکلیف کے عالم میں اس دنیا کو الوداع کہہ گئے تھے۔

افتخار 22 فروری 1920 کو جالندھر میں پیدا ہوئے، کانپور میں تھوڑے دنوں رہے اور لکھنؤ سے انہوں نے پینٹنگ میں ڈپلومہ کیا۔ لیکن ان کا اصل خواب گلوکار بننا تھا۔ وہ اس زمانے میں رفیع، مکیش یا کسی بھی گلوکار کی طرح اپنے زمانے کے معروف پلے بیک سنگر کندن لال سہگل کے فین تھے۔

لیکن قسمت انہیں اداکاری کی دنیا میں لے آئی۔ افتخار کی اپنی زندگی کی کہانی بھی کسی فلم سے کم نہیں۔ وہ سنگر بننے کا خواب سجائے کلکتے (اب کولکتہ) پہنچے جو کہ اس وقت بمبئی کے بجائے انڈیا میں سینیما کا مرکز تھا۔

یہ سنہ 1942 کی بات ہے جب وہ ایک آدیشن کے لیے کلکتہ میں موجود معروف میوزک کمپنی ایچ ایم وی کے دفتر پہنچے جہاں کمپوزر کمل داس گپتا سے ان کی ملاقات ہوئی۔

کمل داس گپتا نے 22 سال کے حسین، چھریرے بدن کے وجیہہ نوجوان کو دیکھتے ہی انہیں گلوکاری کے بجائے اداکاری کا مشورہ دے ڈالا اور افتخار نے اس موقعے کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔

افتخار احمد 30 برس قبل چار مارچ 1995 کو دنیا سے گزر گئے تھے۔ فائل فوٹوانہوں نے ایم پی پروڈکشن کی فلم ’تکرار‘ میں اداکاری کی۔ اس طرح دیکھا جائے تو ان کی ابتدا اداکار دلیپ کمار کے ساتھ ہوتی ہے جن کی پہلی فلم ’جوار بھاٹا‘ بھی 1944 میں آئی تھی۔

افتخار نے کلکتہ میں سکونت اختیار کر لی اور بہت سے فلموں میں سپورٹنگ رول کرنے لگے۔ انہوں نے ایک یہودی خاتون حنّا جوزف سے شادی کی۔ حنا نے اسلام قبول کرتے ہوئے اپنا نام ریحانہ احمد رکھ لیا، بعض جگہ ان کا نام حنا احمد بتایا گيا ہے۔

ان کے ہاں پہلی بیٹی سلمیٰ 1946 میں پیدا ہوئی جبکہ اس کے ایک سال بعد سعیدہ پیدا ہوئیں لیکن پھر کلکتہ تقسیم ہند کی زد میں آ گيا اور وہاں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔

افتخار کے والدین اور دوسرے بھائی بہن نے پاکستان کی راہ لی جبکہ افتخار نے انڈیا کو ہی اپنا وطن بنانے کا فیصلہ کیا۔

لیکن پھر انہیں کولکتہ سے ہجرت کر کے ممبئی جانا پڑا جہاں انہیں کافی مشکلات کا سامنا رہا۔ اداکار اشوک کمار سے ان کی کلکتہ میں ملاقات ہو چکی تھی اور انہی کی مدد سے افتخار کو فلموں میں کردار ملنے لگے لیکن اس کے باوجود بھی زندگی مشکل تھی۔

افتخار کی بیٹی سلمیٰ نے ایک نیوز آؤٹ لیٹ کو بتایا تھا کہ ’میں اور میری بہن ابھی چھوٹے چھوٹے تھے، اور ہمیں کئی کئی وقت فاقہ کشی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لیکن جب راج کپور کی فلم ’شری 420‘ آئی اور اس میں ابو کو جو ایماندرا پولیس افسر کا کردار ملا، اس کے بعد سے ہماری زندگی بدل گئی اور یہ کردار ان کی زندگی کا ٹریڈ مارک بن گیا۔‘

ان کی اہلیہ حنا نے ان کی پولیس کی شبیہہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک بار وہ اور ان کے شوہر افتخار بمبئی (اب ممبئی) میں کار سے کہیں جا رہے تھے کہ ’ہم غلطی سے ’نو انٹری‘ والی لین میں داخل ہو گئے۔ ایک حوالدار نے ہمیں روک لیا، لیکن جب ڈرائیوںگ سیٹ پر افتخار کو بیٹھے دیکھا تو انہیں پولیس کے انداز میں سلیوٹ کیا اور ہم لوگوں کو جانے دیا، جرمانے کا تو پوچھنا ہی کیا تھا۔‘

چنانچہ ہم انھیں زیادہ تر پولیس کے کردار میں ہی دیکھتے ہیں۔ افتخار نے کم و بیش 400 فلموں میں اداکاری کی اور  زیادہ تر فلموں میں مثبت کردار ادا کیے۔ اگرچہ دیکھا جائے تو انہوں نے چند ایک فلموں میں منفی کردار بھی ادا کیے ہیں، جن میں ’بندنی‘، ’کھیل کھیل میں‘، ’کال گرل‘، ’ساون بھادوں‘ اور ’ایجنٹ ونود‘ شامل ہیں۔ انہیں انڈیا کے تمام معروف اداکاروں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔

افتخار احمد نے کم و بیش 400 فلموں میں اداکاری کی۔ فائل فوٹو: سکرین گریباگرچہ امیتابھ بچن کی فلموں میں ان کے یادگار کردار ہیں, لیکن انہوں نے اس سے قبل راجیش کھنہ کے ساتھ فلم ’جورو کا غلام‘، ’محبوب کی مہندی‘، ’خاموشی، سفر‘، ’راجہ رانی‘ اور ’اتفاق‘ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ دلیپ کمار کے ساتھ ’سنگھرش‘ میں دیکھے جا سکتے ہیں اور ’دیوداس‘ میں تو وہ ان کے بڑے بھائی بنے ہیں۔

ان سب کے باوجود انہیں اپنی پینٹنگ سے بھی لگاؤ رہا۔ دی پرنٹ نے افتخار پر ایک مضمون میں ان کی پینٹنگ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’انہیں نہ صرف پینٹنگ سے لگاؤ تھا بلکہ ان کے سکیچز کو ایک فلم میں شامل بھی کيا گیا اور انہوں نے اداکار اشوک کمار کو پینٹنگ بھی سکھائی۔‘

ایک انٹرویو میں افتخار کی اہلیہ نے بتایا: ’ہم بہت گہرے دوست تھے، اور اب بھی ہیں۔ دادا مونی (اشوک کمار) نے پینٹنگ اور خاکہ نگاری افتی (افتخار) سے سیکھی۔ ایک دفعہ دادا مونی بیمار ہو گئے اور کافی دیر تک بستر پر رہنے کی وجہ سے وہ بہت چڑچڑے ہو گئے تھے۔ دادا مونی ہمیشہ مصروف رہنے والے شخص تھے اور بستر پر ہونے کی وجہ سے وہ بہت گھٹا گھٹا محسوس کر رہے تھے۔ افتی نے مشورہ دیا کہ وہ کوئی مشغلہ اپنا لیں اور پھر انہوں نے دادا مونی کو پینٹ کرنا سکھایا۔ یہی وجہ ہے کہ دادا مونی اتنے اچھے پینٹر ہیں۔‘

اسی طرح 1964 میں کشور کمار کی فلم ’دور گگن کی چھاؤں میں‘ افتخار نے صرف اداکاری سے زیادہ کام کیا۔ یہ ایک نادر موقع تھا جب ان کا آرٹ ورک ٹائٹل کریڈٹس میں نمایاں تھا۔ افتخار نے اپنے برش سے اس میں شامل اداکاروں کی غیرمعمولی عکاسی کی تھی۔

افتخار چار بھائی تھے، ان کے ایک بھائی امتیاز احمد نے پاکستانی ٹی وی سیریل سے اپنا مقام بنایا۔ افتخار اپنے اہل خانہ سے بہت محبت کرتے تھے چنانچہ جب سات فروری 1995 کو ان کی چھوٹی بیٹی سعیدہ کینسر کے موذی مرض کے باعث انتقال کر گئیں، تو افتخار کو اتنا گہرا صدمہ پہنچا کہ وہ بیمار ہو گئے اور جانبر نہ ہو سکے۔ محض ایک ماہ کے اندر ہی چار مارچ کو انہوں نے بھی داعی اجل کو لبیک کہا۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More