Getty Images
پاکستان کے صوبے بلوچستان میں 11 مارچ کو جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے کے پانچ ہی دن بعد نوشکی میں ایک بم دھماکے میں تین سکیورٹی اہلکاروں سمیت پانچ افراد ہلاک اور 32 زخمی ہوئے جبکہ دوسری جانب خیبر پختونخوا میں بھی دو دن کے اندر مسلح شدت پسندوں کی جانب سے ایک درجن کے لگ بھگ حملے اس بات کی نشان دہی ہیں کہ پاکستان کو شدت پسندی کی ایک نئی لہر کا سامنا ہے۔
اس لہر میں، جو گزشتہ کچھ عرصے سے جاری ہے، نئے سال میں شدت آئی اور ایسے میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ بدلتے عالمی منظر نامے میں پاکستان کی حکومت اور فوج کو اس نئی لہر کے خلاف کن چینلجز کا سامنا ہے۔
ہم نے اس مضمون میں ماہرین کے سامنے یہی سوال رکھا۔
ہمسائیہ ممالک
جعفر ایکسپریس حملے کے بعد پاکستان فوج کے ترجمان، ڈی جی آئی ایس پی آر، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے دعویٰ کیا کہ ’یہ دہشت گرد دوران آپریشن افغانستان میں اپنے سہولت کاروں اور ماسٹر مائنڈ سے سیٹلائیٹ فون کے ذریعے رابطے میں تھے۔‘
اس بیان کے بعد افغانستان کی وزارت حارجہ نے سختی سے تردید کی اور پاکستان کو اپنے سلامتی سے متعلق اندرونی معاملات درست کرنے کا بیان جاری کیا۔ پاکستان کی جانب سے انڈیا پر بھی الزامات لگائے جاتے رہے ہیں جن کے جواب میں حال ہی میں نئی دلی نے پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد سمیت نسلی تشدد کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کی۔
تو ’مشکل ہمسائے‘ پاکستان کے لیے موجودہ صورت حال میں کتنا بڑا چیلینج ہیں؟
اس سوال کے جواب میں دفاعی اور خارجہ امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر سیاستدان سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ ’جب افغانستان میں امریکہ کی فوج تھی تب بھی صورت حال پاکستان کے لیے باعث تقویت نہیں بلکہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف مہم میں رکاوٹ کا باعث تھی۔‘
ان کے خیال میں ’بنیادی مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ پاکستان کی افغانستان کے لیے دیرینہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔‘
’پاکستان کی خام خیالی تھی کہ افغان طالبان کی حکومت آئے گی اور اس کے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہوں گے کیونکہ پاکستان نے ماضی میں افغان طالبان کی بہت مدد کی۔ تاہم وہ مفروضہ علط ثابت ہوا۔‘
ان کے مطابق ’افغان سرزمین اس وقت پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے تو یہ ایک بڑا چیلینج ہے۔ امریکی فوج کے انخلا سے بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں آیا بلکہ حالات اور بگڑے ہیں۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’امریکہ کے زمانے میں بھی دہشت گردی کے اڈے انڈیا نے پاکستان کے خلاف وہاں بنا لیے تھے اور امریکہ کو اس کا علم تھا تاہم امریکہ نے اس کو روکا نہیں تھا۔‘
EPA
دوسری جانب سینیئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار فردوس کہتے ہیں کہ ’پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تنہا نہیں ہوا۔ دنیا نے دیکھا کہ امریکہ کی حکومت نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے حوالے سے تعریف کی ہے۔‘
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس سے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ سنہ 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے دوران کابل ایئرپورٹ پر امریکی اہلکاروں پر خودکش حملے کے ذمہ دار مرکزی دہشت گرد کو پکڑ لیا گیا ہے اور اس میں مدد کرنے پر وہ ’حکومت پاکستان‘ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
افتخار فردوس نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ’جو دیگر علاقائی طاقتیں یعنی سپر پاورز ہیں، جن میں چین اور روس شامل ہیں، ان کا دہشت گردی کے خاتمے میں کیا کردار رہتا ہے، یہ بھی اہم ہو گا۔‘
مشاہد حسین سید کے مطابق بھی ’دہشت گردی کے خاتمے کی حکمت عملی میں علاقائی اپروچ کے استعمال کو مد نظر رکھنا صروری ہے۔‘
’بوگیوں میں جگہ، جگہ خون اور مسافروں کا بکھرا سامان‘: حملے کے بعد جعفر ایکسپریس کا دورہ کرنے والے صحافیوں نے کیا دیکھا؟جب اسامہ بن لادن کو بندوق نہیں مگر بلڈوزر چلانا آتا تھا: ’اسامہ کا بیٹا ہونا بہت مشکل ہے، لوگ آج بھی ہم سے رابطہ کرنے سے ڈرتے ہیں‘دولت اسلامیہ، طالبان اور امریکی ہتھیار: کیا افغانستان پاکستان اور امریکہ کو دوبارہ قریب لا سکتا ہے؟طورخم میں افغان طالبان اور پاکستانی فورسز کے درمیان جھڑپ: سرحد کی بندش اور چوکی کی تعمیر پر تنازع
ان کے مطابق ’چین، روس، ایران، ترکمانستان، ازبکستان یہ سب ممالک پاکستان کے ساتھ اس (دہشت گردی) مسئلے پر بہت ہمدردی رکھتے ہیں کیونکہ افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردی کا خطرہ صرف پاکستان کو نہیں بلکہ سب کے لیے یکساں ہے چاہے ایران ہو چین ہو یا ازبکستان اور روس ہو۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’شنگھائی تعاون تنظیم کا ایک ادارہ ریجنل اینٹی ٹیررازم سسٹم بھی ہے۔ اس کو بروئے کار لانا بھی ضروری ہے جو ہم ابھی تک نہیں لائے۔‘
انھوں نے رائے دی کہ ’پاکستان کو چاہیے کہ کم سے کم اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں انڈیا کے کراس بارڈر ٹیررازم کے کردار کو بے نقاب کریں جیسا کہ کینیڈا نے بھی بے نقاب کیا اور امریکہ نے بھی تنقید کی۔‘
بیانیے کی جنگ
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اور ان کے تدارک کے لیے سکیورٹی آپریشن کوئی بہت نئی بات نہیں۔ 2001 کے بعد سے دہشت گردی کے واقعات کا سلسلہ 2007 میں بتدریج بڑھا یہاں تک کے 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کو اس وقت کا سب سے بڑا سانحہ قرار دیا گیا۔
تاہم دہشت گردی کے حالیہ واقعات کا بڑھتا تسلسل اور شدت ایک بار پھر اس دور کی بدامنی اور دل دہلانے والے واقعات کی یاد کو تازہ کر رہا ہے۔
Getty Images
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار فردوس کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے دہشت گردی کے حوالے سے 2024 اور رواں سال کے اعداد و شمار کا موازنہ 2014 اور 2009 کریں تو حالیہ واقعات کی نوعیت کہیں زیادہ شدید ہے۔ تاپم وقت کے ساتھ ہم نے خود کو نہیں ڈھالا۔‘
’2001 میں ہم امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی تھے اور دنیا کی نظریں بھی پاکستان پر تھیں۔ اور اس وقت پہلے مشرف کی آمریت اور پھر جمہوریت کی طرف بتدریج منتقلی کا دور تھا جس میں کسی حد تک سیاسی اتفاق رائے تھا اور تمام صوبوں اور جماعتوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی تھی اور مفادات بھی کم و بیش ملتے جلتے تھے۔‘
ان کے مطابق 2021 میں ’پاکستان ںہ صرف بین الاقوامی فوکس سے نکل گیا بلکہ 2018 کے بعد سے دہشت گردی کے خلاف عالمی فنڈنگ بھی بتدریج کم ہو گئی۔‘
’وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنے آپ کو نہیں بدلا۔ ہم اس کو ابھی بھی 2001 یا 2009 یا 2014 کی طرح ڈیل کر رہے ہیں جبکہ جن کے خلاف ہم لڑ رہے ہیں ان کی حکمت عملی میں تبدیلی آ چکی ہے۔ ان کے پاس پروپیگنڈا نیٹ ورک، جدید اور ماڈرن ٹیکنالوجی اور موثر حکمت عملی ہے۔‘
انھوں نے دہشت گردی کے خلاف موثر حکمت عملی میں سب سے اہم سیاسی استحکام کو قرار دیا۔
’سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے سٹیٹ کا بیانیہ کوئی خریدنے کو تیار نہیں۔ اور پھر ایسے میں یہ ہوتا ہے کہ آپ فیصلہ نہیں لے سکتے، اگر فیصلہ لے لیا ہے تو اس پر عمل نہیں کر سکتے اور اگر عمل کرتے ہیں تو شدید عوامی ردعمل کا سامنا ہوتا ہے۔‘
حکمت عملی
دہشت گردی کی حالیہ لہر کی روک تھام کے لیے حکومت اور اداروں کو کس حکمت عملی کو اپنانے کی ضرورت ہے؟
اس سوال کے جواب میں سینیٹر مشاہد حسین سید نے زور دیا کہ ’پاکستان کو ایسی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے جو دہشت گردی کے خلاف اس نئی صورت حال کا موثر طریقے سے مقابلہ کر سکے۔‘
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری ترجیحات میں یہ نہ پہلے تھا نہ اب ہے کہ ہمارے پاس سرکاری طور پر واضح اور موثر انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی ہو بلکہ ہماری ایک ری ایکٹیو اپروچ ہے۔‘
اپنی بات کی مزید وصاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جب کوئی دہشت گردی کا بڑا واقعہ ہوتا ہے تو سٹیٹ کا ایک ری ایکشن آتا ہے۔ چاہے اکتوبر 2024 میں ہونے والا چینی باشندوں کا قتل ہو یا دو ہفتے قبل بنوں کنٹونمنٹ کا حملہ ہو یا پھر بلوچستان ٹرین حملے کا سانحہ ہو تو ایسے واقعات کے بعد ایک ردعمل آتا ہے۔‘
انھوں نے زور دیا کہ ’دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سرکاری سطح پر ایک جامع اور موثر حکمت عملی بنائی جائے جس کے لیے ایک ادارہ نیکٹا بھی بنایا گیا تھا۔‘
نیکٹا کے سابق سربراہ احسان غنی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2018 میں جب دہشت گردی کا سلسلہ کچھ تھم گیا تو ’اس کے بعد اس بات کی ضرورت تھی کہ سیاسی قیادت ایسی قانون سازی کرتی کہ تنازعات، چاہے معاشرتی ہوں یا معاشی، کو حل کیا جائے تاکہ ایسی صورت حال دوبارہ پیدا نہ ہو۔‘
ان کے مطابق 2018 تک ’شدت پسندی کافی حد تک کم ہو چکی تھی لیکن سیاسی قیادت اس کے بعد وہ کام نہیں کر سکی جس کی ضرورت تھی۔‘
’جو بھی اس وقت کے لوگ تھے یا لیڈر تھے وہ حکومت چلی گئی، دوسری حکومت آ گئی، پھر ملٹری اور آئی ایس ائی کے لوگ بھی بدل گئے۔‘
اندرونی سیاست
جعفر ایکسپریس حملے کے بعد جمعرات کو اپنے دورہ کوئٹہ کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان تو سامنے آیا مگر اس کا انعقاد کب ہونا ہے اس کی تفصیلات تاحال سامنے نہیں آ سکی ہیں۔
ماہرین اس ساری صورتحال سے نمٹنے کے لیے قومی ڈائیلاگ اور سیاسی یکجہتی کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہیں۔
سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ ’ہماری حکمت عملی کا اہم حصہ داخلی سیاست ہونا چاہیے۔ اس میں ہمیں ’ہیلینگ ٹچ‘ کی ضرورت ہے جس میں عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی اور لاپتا افراد کا بازیاب ہونا شامل ہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ایسا کرنے سے اندرونی استحکام لانےکی کوششوں کا 50 فیصد مشن مکمل ہو گا اور ساتھ ہی دہشت گردی کے خلاف ایک موثر قومی حکمت عملی کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ اس وقت خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سورش ہے اور دونوں ہی حساس صوبے ہیں تو موثر حکمت عملی کے لیے ہمیں ان نکات پر تیزی سے کام کرنا ہو گا تاکہ بات آگے بڑھے۔‘
افتخار فردوس ایک قومی ڈائیلاگ کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
’سب سے اہم ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیں خاص طور پر جو سیاسی جماعتیں سسٹم سے نالاں ہیں ان کو ٹیبل پر لائیں اور عوام کی سپورٹ بھی حاصل کریں۔‘
’پاکستان فوج بار بار بات کرتی ہے کہ یہ جنگ صرف فوج کی نہیں بلکہ عوام کی ہے۔ دہشت گردی پر نیشل ڈائیلاگ کی اشد ضرورت ہے۔‘
ان کے مطابق ’پشاور میں پولیس لائن میں حملے کے بعد قومی کانفرنس کی بات ہوئی جو نہ ہو سکی۔ اب جعفر ایکسپریس کے واقعے پر اے پی سی بلانے کا اعلان تو ہوا لیکن اس پر اب تک خاموشی ہے۔‘
’بوگیوں میں جگہ، جگہ خون اور مسافروں کا بکھرا سامان‘: حملے کے بعد جعفر ایکسپریس کا دورہ کرنے والے صحافیوں نے کیا دیکھا؟جعفر ایکسپریس پر حملہ کیسے ہوا؟ شدت پسندوں سے لڑنے والے پولیس اہلکار کے مغوی بننے سے فرار تک کی کہانیجب اسامہ بن لادن کو بندوق نہیں مگر بلڈوزر چلانا آتا تھا: ’اسامہ کا بیٹا ہونا بہت مشکل ہے، لوگ آج بھی ہم سے رابطہ کرنے سے ڈرتے ہیں‘دولت اسلامیہ، طالبان اور امریکی ہتھیار: کیا افغانستان پاکستان اور امریکہ کو دوبارہ قریب لا سکتا ہے؟طورخم میں افغان طالبان اور پاکستانی فورسز کے درمیان جھڑپ: سرحد کی بندش اور چوکی کی تعمیر پر تنازعبلوچستان میں شدت پسندوں کا ٹرین پر حملہ: بی ایل اے کیا ہے اور اس کی قیادت سرداروں سے متوسط طبقے تک کیسے پہنچی؟