BBC
انتباہ: اس تحریر میں شامل چند معلومات آپ کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔
سائرہ بلوچ جب بلوچستان کے شہر خصدار کے سرکاری ہسپتال کے مردہ خانے میں پہلی بار پہنچیں تو اُن کی عمر صرف 15 برس تھی۔ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ اس مردہ خانے میں اُن کے سامنے پڑیں ’نامعلوم‘ لاشیں کس حالت میں ہوں گی اور یہ کہ آنے والے برسوں میں یہ منظر اُن کی زندگی کا مستقل حصہ بن جائے گا۔
’جب میں پہلی لاش کی طرف گئی، تو اُس کی آنکھیں نکال لی گئی تھیں۔ اُس کے چہرے پر داغ تھے۔ اُس کے دانت بھی نکال لیے گئے تھے۔ اس کے سینے پر داغ تھے اور وہ بالکل بھی پہچانا نہیں جا رہا تھا۔ اس کے ہاتھ، پاؤں جلے ہوئے تھے۔‘
یہ سنہ 2019 کی بات ہے جب سائرہ بلوچ اپنے بھائی محمد آصف کی تلاش میں مردہ خانہ پہنچیں تھیں اور انھوں نے اپنی زندگی میں پہلی بار کسی لاش کو اِتنی بُری حالت میں دیکھا تھا۔
سائرہ اور اُن کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ اُن کے بھائی محمد آصف اپنے بہنوئی عبدالرشید اور دیگر دوستوں کے ہمراہپکنک منانے کی غرض سے 31 اگست 2018 کو گھر سے نکلے تھے جس کے بعد اُن کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔
BBCسائرہ بلوچ: ’مسخ شدہ لاشوں کے بیچ اپنے لاپتہ بھائی کو ڈھونڈنا ایک خوفناک تجربہ تھا جسے بھلانا بہت مشکل ہے‘
محمد آصف کے ’لاپتہ‘ ہونے کے اگلے ہی دن پاکستان کے مقامی ذرائع ابلاغ پر ’سکیورٹی ذرائع‘ کے حوالے سے ایک خبر نشر ہوئی کہ ’انسداد دہشت گردی کے ادارے سی ٹی ڈی اور سکیورٹی فورسز نے دو کارروائیوں میں کوئٹہ کے ہزار گنجی کے علاقے سے تین جبکہ نوشکی کے علاقے سے کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے 11 دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا ہے۔‘
شائع ہونے والی اس خبر میں بتایا گیا تھا کہ ’نوشکی سے گرفتار کیے گئے دہشت گرد تربیت کے لیے افغانستان جانے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
یہ خبر ’سکیورٹی ذرائع‘ کے حوالے سے مقامی ٹی وی چینلز پر بھی نشر کی گئی اور ساتھ میں چند مبینہ ’دہشت گردوں‘ کی مبینہ گرفتاری کے بعد کی ویڈیو بھی دکھائی گئی۔
سائرہ بلوچ اور اُن کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ اس ویڈیو میں جن افراد کو دکھایا گیا ان میں سے ایک اُن کے بھائی محمد آصف بھی تھے۔ بی بی سی آزادانہ طور پر اس ویڈیو اور اس میں دکھائے گئے مواد کی تصدیق نہیں کر سکا ہے جبکہ ٹی وی رپورٹس اور اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں میں بھی ’سکیورٹی ذرائع‘ نے گرفتار کیے گئے افراد کے نام یا اور کوئی شناخت ظاہر نہیں کی تھی۔
سی ٹی ڈی، بلوچستان پولیس یا کسی بھی دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے یا ایجنسی نے محمد آصف کو کبھی بھی حراست میں لینے یا گرفتار کرنے کی تصدیق نہیں کی۔
سائرہ بلوچ کے مطابق ’پہلے تو ہمیں یقین ہی نہیں آیا کہ (ٹی وی نظر آنے والا شخص) میرا بھائی ہے۔ اُس پر تشدد کیا گیا تھا۔ میں ایک دن پہلے اُن کا انتظار کر رہی تھی کیونکہ میرا آٹھویں کلاس کا رزلٹ آیا تھا اور میں فرسٹ آئی تھی اور یہ بات میں اپنے بھائی کو بتانا چاہتی تھی۔ لیکن وہ نہیں آئے۔ اگلے دن ہمیں ٹی وی سے پتا چلا کہ انھیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ہم نے اگلے دو ماہ تک اپنی والدہ کو بھائی کی وہ تصویر نہیں دکھائی جو ٹی وی پر نشر ہوئی تھی۔‘
BBCسائرہ بلوچ کے بھائی محمد آصف محکمہ پولیس میں ملازم تھے
سائرہ کے والد کے مطابق بیٹے کے مبینہ طور پر لاپتہ ہونے کے بعد انھوں نے متعدد مرتبہ اُس کی گمشدگی کی رپورٹ پولیس میں درج کروانے کی کوشش کی تاہم انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
اور اس سب کے بیچ ہسپتالوں کے مردہ خانوں میں پہنچنے والی نامعلوم لاشوں میں اپنے بھائی کی تلاش کرتے کرتے سائرہ کو اب لگ بھگ سات برس ہو چکے ہیں اور آج بھی یہ تلاش نامکمل ہے۔
سائرہ کے مطابق اُن کے بھائی کے لاپتہ ہونے کے تقریباً تین سال بعد یعنی 22 اگست 2021 میں انتہائی تگ و دو کے بعد مقامی پولیس نے اُس کے ’اغوا‘ کا مقدمہ ’نامعلوم افراد‘ کے خلاف درج کر لیا۔
سائرہ بلوچ کے مطابق مسخ شدہ لاشوں کے بیچ اپنے بھائی کو ڈھونڈنا ایک خوفناک تجربہ تھا جسے بھلانا بہت مشکل تھا۔
’مردہ خانے میں پہلی بار لاشں دیکھنے کے بعد میں تین دن تک سو نہیں سکی تھی۔ جب بھی آنکھیں بند کرتی، وہ منظر میرے سامنے آ جاتا۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ایک مرتبہ انھوں نے مردہ خانے میں پڑی ایک لاش دیکھی ’جس کے چہرے پر تیزاب پھینکا گیا تھا اور وہ پہچانی نہیں جا رہی تھی۔ میں بار بار زوم کر کے اس لاش کو دیکھتی کہ کہیں یہ میرا بھائی تو نہیں ہے۔‘
’آج جب میں ڈاکٹرز کے پاس جاتی ہوں تو وہ مجھے ڈپریشن کی گولیاں دیتے ہیں۔ وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ تم اتنی کمرعمری میں اتنا کیوں سوچتی ہو؟ میں انھیں کیا بتاؤں؟‘
سائرہ بلوچ نامعلوم لاشوں میں اپنے گمشدہ پیاروں کی تلاش کرنے والی بلوچستان کی واحد خاتون نہیں ہیں۔ بی بی سی نے بہت سے دیگر ایسی خواتین سے بات کی ہے جنھیں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے ملک بھر کے مختلف مقامات پر احتجاج کرتے اور نامعلوم لاشوں میں انھیں تلاش کرتے ایک عمر بیت چکی ہے۔
BBC’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ کے مطابق 2000 کے اوائل سے اب تک مبینہ طور پر تقریباً سات ہزار جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے کیسز اُن کے پاس رجسٹرڈ ہوئے ہیں
بلوچستان میں شورش قیام پاکستان سے پہلے سے جاری ہے اور سنہ 1948 میں چند بلوچ سرداروں کی جانب سے پاکستان کے ساتھ الحاق کی مخالفت کے بعد یہ تنازع مزید شدت اختیار کر گیا۔
بلوچستان سے شہریوں کے مبینہ طور پر لاپتہ کیے جانے کا سلسلہ بھی کافی پرانا ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 1976 میں بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ سردار عطا اللہ مینگل کے بیٹے اسد مینگل وہ پہلے شخص تھے جنھیں سیاسی بنیادوں پر بلوچستان کا پہلا مبینہ جبری طور پر لاپتہ کیا گیا نوجوان قرار دیا جاتا ہے۔
تاہم بلوچستان کے حالات مزید کشیدہ اُس وقت ہوئے جب سنہ 2006 میں بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کی ایک فوجی آپریشن کے دوران ہلاکت ہوئی جس کے بعد شدت پسندوں کی سکیورٹی فورسز کے خلاف بڑھتی کارروائیوں کے بیچ شہریوں کو جبری طور پر گمشدہ کرنے کے الزامات کے سلسلے نے بھی طول پکڑا اور اسی دورانیے میں بہت سے لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا آغاز ہوا۔
بلوچ قوم پرست رہنما اور گروہ پاکستانی ریاست سے یہ شکایت کرتے آئے ہیں کہ بلوچ عوام کو اقتصادی طور پر پسماندہ رکھا گیا ہے اور انھیں سیاسی طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے اور یہ کہ بلوچستان کے قدرتی وسائل کا فائدہ مقامی آبادی کو نہیں ملتا۔
تاہم دوسری جانب حکام مبینہ جبری گمشدگیوں کے حوالے سے عائد ہونے والے الزامات کی ہمیشہ تردید کرتے آئے ہیں۔ حکومت اور سکیورٹی اداروں کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ مسنگ پرسنز میں شامل کئی افراد نے مسلح علیحدگی پسند گروہوں یا عسکریت پسند تنظیموں میں شمولیت اختیار کر لی یا وہ ملک چھوڑ کر جا چکے۔
بلوچستان میں مبینہ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ عالمی اداروں کی مذمت اور تحقیقاتی کمیشن بنائے جانے کے باوجود نہیں رُک سکا۔
غیر سرکاری تنظیم ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ کے مطابق اُن کے پاس سنہ 2000 کے اوائل سے اب تک مبینہ طور پر تقریباً سات ہزار جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے کیسز رجسٹرڈ ہیں۔
دوسری طرف حکومت کی جانب سے جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن کی سنہ 2025 کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2011 سے دسمبر 2025 تک بلوچستان میں 2800 سے زائد لاپتہ افراد کے مقدمات سامنے آئے جن میں سے بیشتر کیسز کو حل کر لیا گیا اور اب صرف 420 کیسز ایسے ہیں جو حل ہونا باقی ہیں۔
اُن کے مطابق سنہ 2011 سے اب تک ملک بھر سے دس ہزار سے زائد جبری گمشدگیوں کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔
کئی دہائیوں سے جاری مبینہ جبری گمشدگیوں کے اس مسئلے نے بلوچ عوام اور معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ صرف سائرہ بلوچ ہی نہیں، اُن سے پہلے بھی خواتین کی ایک نسل ہے جو انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے خلاف اور اپنے پیاروں کی واپسی کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرتی رہی ہے۔
انھی میں 70 سالہ جنت بی بی بھی ہیں جو سنہ 2012 سے اپنے لاپتہ بیٹے کی تلاش میں ہیں۔
BBCجنت بی بی: ’مجھے ہر جگہ سے دھکے ملے، ہر جگہ مار کھائی ہے۔ آج 12 سال ہو گئے اور میں اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہی ہوں‘
کوئٹہ کے مضافاتی علاقے میں لاپتہ افراد کی یاد میں بنائے گئے ایک علامتی قبرستان سے کچھ ہی فاصلے پر اُن کا کچا گھر واقع ہے۔ دو کمروں کے اس مکان میں انھوں نے ایک چھوٹی سی دکان کھول رکھی جہاں وہ بچوں کے بسکٹس، ٹافیاں، دودھ کے ڈبے اور چند دیگر اشیا فروخت کرتی ہیں۔
جنت بی بی بھی اپنے بیٹے کے لاپتہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ وہ الزام لگاتی ہیں کہ ’میرا بیٹا نذر محمد اپنے دوست کے ساتھ ہوٹل میں بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا جب اسے گرفتار کیا گیا۔ وہ اپنی بہنوں کو اُن کے سسرال چھوڑنے گیا تھا۔ محنت مزدوری کرتا تھا اور اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ میں (اپنے بیٹے کی تلاش میں) ہر جگہ گئی۔ اسلام آباد بھی گئی مگر مجھے ہر جگہ سے دھکے ملے۔ ہر جگہ مار کھائی ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ وہ کہاں ہے۔ 12 سال ہو گئے میں اسے ڈھونڈ رہی ہوں۔‘
جنت بی بی کے گھر کے بیچ لگے درخت پر درجنوں تعویز بندھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ یہ تعویز انھیں یہ امید دلاتے ہیں کہ اُن کا بیٹا ایک نا ایک روز واپس آ جائے گا۔
’ایک مولوی نے مجھے یہ تعویز دیے اور کہا کہ یہ تعویز گھر میں مرغے کی گردن کے ساتھ باندھ دینا۔ اور جس دن بیٹا واپس آ جائے اُسی دن اس مرغے کو ذبح کر دینا۔ میں نے یہ تعویز درخت کے ساتھ بھی باندھ دیے ہیں۔ اور میں کیا کر سکتی ہوں؟‘
BBC
بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں کی سیاسی جدوجہد اور بلوچ عوام کی پاکستانی حکومت سے ناراضی کے اس پس منظر میں کئی مسلح علیحدگی پسند تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں۔ ان کالعدم تنظیموں پر الزام ہے کہ انھوں نے بلوچ قوم پرست گروہوں اور حکومت کے درمیان اس شورش اور محرومی کے احساس کو استعمال کیا اور وقت کے ساتھ صوبے میں اپنا اثرورسوخ بڑھایا۔
پاکستان کی ریاست یہ الزام بھی لگاتی ہے کہ ان مسلح علیحدگی پسند تنظیموں کو بیرون ملک سے مدد بھی حاصل ہے اور اس میں حالیہ تاریخ کے بڑے حملے کرنے والی بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ جیسے کالعدم شدت پسند گروہ بھی شامل ہیں۔
خیال رہے کہ بلوچ لبریشن آرمی جیسی مسلح شدت پسند تنظیموں کو پاکستان، امریکہ اور دیگر کئی ممالک نے دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں ڈالا ہے اور یہ گروہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز، فوجی تنصیبات اور عام شہریوں پر متعدد حملوں میں ملوث رہی ہیں۔
Getty Imagesحکومت پاکستان کا دعویٰ ہے کہ بلوچ شدت پسند تنظیموں کو بیرون ممالک سے امداد حاصل ہے
لیکن ریاست اور اِن مسلح علیحدگی پسند تنظیموں کے درمیان جاری اس لڑائی کی ایک بڑی قیمت اُن خواتین کو دینی پڑی ہے جنھیں اب اپنے پیاروں کی تلاش میں گھروں سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔
ان خواتین کی زندگی ان واقعات نے بدل کر رکھ دی ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ایسے خاندانوں کی نمائندہ ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے پیاروں کو مبینہ طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔
گذشتہ دہائی کے اوائل میں جن مبینہ طور پر لاپتہ افراد کی لاشیں مل رہی تھیں ان میں ماہ رنگ کے والد عبدالغفار لانگو کی لاش بھی تھی۔ عبدالغفار لانگو سنہ 2009 میں لاپتہ ہوئے تھے اور سنہ 2011 میں اُن کی تشدد زدہ لاش بلوچستان میں لسبیلہ کے علاقے اوتھل میں ایک ہوٹل کے باہر سے ملی تھی۔
ماہ رنگ بلوچ کے والد اپنی زندگی میں دو بار لاپتہ ہوئے چنانچہ ماہ رنگ کا بچپن اپنے والد کی بازیابی کے مطالبے کے ساتھ سڑکوں پر احتجاج کرتے گزرا۔ لیکن اُن کے مطابق والد کی لاش ملنے کے بعد اگلے پانچ سال کے لیے انھوں نے خود کو اپنے گھر تک محدود کر لیا۔
BBCماہ رنگ کے والد میر غفار لانگو کی تشدد زدہ لاش اُن کے لاپتہ ہونے کے دو سال بعد لسبیلہ سے ملی تھی
وہ بتاتی ہیں کہ ’2011 سے 2017تک میری زندگی کی سب سے بڑی اذیت تشدد سے بھرے ڈراونے خواب ہوتے تھے جو میں اکثر رات کو دیکھتی تھی۔‘
انھوں نے بی بی سی کو اُس دن کے بارے میں بتایا جب اُن کے لاپتہ والد کی لاش ملی۔ ان کے مطابق ’اُن کے جسم پر بدترین تشدد کے نشان تھے۔‘
’جب میرے والد کی لاش آئی تو اس پر موجود سفید لباس پھٹا ہوا تھا،آدھی قمیص پھٹی ہوئی تھی۔ ان کی لاش اسی حالت میں پھینکی گئی تھی۔ وہ ناقابلِ برداشت تھا۔ بہت تکلیف دہ رات تھی۔ جس کے بارے میں شاید میں نے سوچا تھا کہ اس کی صبح کبھی نہیں آئے گی۔ اُس وقت میں نے سوچا کہ اگر میں بھی اپنے والد کے ساتھ مر جاتی تو بہتر ہوتا۔ کیونکہ اس حقیقت کو قبول کرنا ناقابلِ برداشت تھا۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا دنیا کا سب سے مشکل کام تھا۔ سب سے مشکل یہ تھا کہ وہ اب دنیا میں نہیں رہے۔ اور دوسرا یہ کہ انھیں بے رحمی سے قتل کیا گیا۔‘
ماہ رنگ کے مطابق سنہ 2009 سے سنہ 2011 کے دوران وہ اور اُن کے خاندان کے افراد ہسپتالوں اور مردہ خانوں کے چکر لگاتے رہے۔ ’ہم ہر نئی لاش کی شناخت کے لیے جاتے تھے، مگر اسی امید کے ساتھ کہ مرنے والا ہمارا پیارا نہ ہو۔‘
وہ یاد کرتی ہیں کہ اس صورتحال نے انھیں بُری طرح متاثر کیا اور وہ ایسی عجیب رسومات پر بھی یقین کرنے لگی تھیں، جو چند افراد کے مطابق، اُن کے لاپتہ والد کی واپسی کا وسیلہ بن سکتی ہیں۔
BBCماہ رنگ: ’میں نے اپنی والدہ کو بہت تکلیف دہ زندگی گزارتے ہوئے دیکھا ہے، انھیں دُکھ کو سہتے اور اس سے نمٹتے دیکھا ہے‘
ماہ رنگ بلوچ ہوں یا سائرہ بلوچ یا ان جیسی درجنوں دیگر خواتین اُن کے ساتھ یہ واقعات اس وقت میں پیش آ رہے تھے جب ان کی عمریں کم تھیں اور وہ سکولوں میں اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے تھیں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ کے مطابق والد کی مبینہ جبری گمشدگی اور ہلاکت کے بعد انھوں نے زندگی کا ایک انتہائی مشکل دور دیکھا، یہاں تک کہ انھیں پرائیوٹ سکول سے سرکاری سکول میں شفٹ ہونا پڑا اور اگلے مرحلے میں اعلیٰ تعلیم کے لیے گھر کا سامان فروخت کرنا پڑا۔
’وہ ایک تکلیف دہ زندگی تھی۔ میری کاپیاں دو، دو کےحساب سے میری والدہ خریدتی تھیں۔ پہلے دو کاپیاں، پھر ایک مہینے بعد دوبارہ دو کاپیاں لیتے۔ پھر دو مہینے بعد اگلی دو کاپیاں۔ تو میرا ہوم ورک مجھ پر بوجھ ہو جاتا تھا۔ ایسا بہت مرتبہ ہوا کہ شاید ہمارے گھر میں کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں تھا مگر پھر بھی ہم نے جیسے تیسے گزارا کیا۔‘
ڈاکٹر ماہ رنگ اس تنازع میں اپنی والدہ کی مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنی والدہ کو بہت تکلیف دہ زندگی گزارتے ہوئے دیکھا ہے۔ انھیں اس دکھ کو سہتے اور اس سے نمٹتے ہوئے دیکھا ہے۔ مجھے یاد ہے میری میڈیکل کی تعلیم کے دوران میری والدہ نے فیس دینے کے لیے اپنے کپڑے تک بیچ دیے۔ میڈیکل کے دوسرے سال کی فیس دینے کے لیے جیولری بیچنا پڑی تھی۔ میں آج بھی اپنے سکول جاتی ہوں، اپنے کالج کی کینٹین میں جاتی ہوں اور اُن چیزوں کو آرڈر کرتی ہوں جو میں اس دور میں خریدنا افورڈ نہیں کر سکتی تھی۔ ایسا تھا ٹراما۔‘
BBCپاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق لاپتہ افراد کے کمیشن میں بلوچستان سے 2911 کیسز رپورٹ کیے گئے جن میں سے صرف 452 حل طلب ہیں
سائرہ بلوچ کہتی ہیں کہ اُن کے بھائی کے لاپتہ ہونے کے اس واقعے کے اُن کی زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔
’میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی۔ میرا بھائی کہتا تھا کہ تم سکول میں اچھے نمبر لو، میں تمہیں تعلیم کے لیے کوئٹہ بھیجوں گا۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ جب میں پہلی بار کوئٹہ جاؤں گی تو میرے ہاتھ میں اُسی بھائی کی تصویر ہو گی جسے اب میں ڈھونڈتی پھرتی ہوں۔ اب میں کالج یا یونیورسٹی میں تو نہیں جاتی مگر پریس کلب کے باہر اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے احتجاج کرنے جاؤں گی۔‘
جعفر ایکسپریس پر حملہ کیسے ہوا؟ شدت پسندوں سے لڑنے والے پولیس اہلکار کے مغوی بننے سے فرار تک کی کہانیبلوچستان میں شدت پسندوں کا ٹرین پر حملہ: بی ایل اے کیا ہے اور اس کی قیادت سرداروں سے متوسط طبقے تک کیسے پہنچی؟کیا خان آف قلات بلوچستان کو انڈیا کا حصہ بنانا چاہتے تھے؟پہاڑی چوٹیوں، دروں اور برساتی نالوں کی سرزمین: کالعدم بی ایل اے کا گڑھ سمجھی جانے والی ’وادی بولان‘ اتنی دشوار گزار کیوں ہے؟
بی بی سی نے اِسی بارے میں بلوچستان کے وزیر اعلی سرفراز بگٹی سے بات کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ اس بات سے اختلاف نہیں کر رہے کہ لاپتہ افراد کا معاملہ ایک مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی ایک بھی فرد کے لاپتہ ہونے کی کوئی بھی توجیح پیش کی جا سکتی ہے، تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ معاملہ ایک ’منظم پراپیگنڈہ‘ ہے۔
’بلوچستان کے بچے بچے کے کان میں ’مسنگ پرسنز، مسنگ پرسنز، مسنگ پرسنز‘ ڈالا گیا ہے۔ یہاں خودساختہ گمشدگیاں ہیں، پھر یہ کون تعین کرے گا کس نے کس کو لاپتہ کیا ہے۔ یہ تو بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ میں کیسے اس کو ثابت کروں گا کہ فلاں شخص لاپتہ ہوا اور اس کو لاپتہ انٹیلیجنس ایجنسی نے کیا ہے؟ یا ہماری پولیس نے کیا ہے، یا ہماری ایف سی نے کیا ہے، یا میں نے کیا ہے یا آپ نے کیا ہے؟‘
BBCسرفراز بگٹی: ’لاپتہ افراد کے معاملے کو پراپیگنڈا ٹول بنا کر ریاست کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہیے‘
اس سوال پر کہ اُن کی حکومت جن لاپتہ افراد کے کیسز کے بارے میں یہ سمجھتی ہے کہ وہ حقیقی ہیں، تو انھیں حل کیوں نہیں کیا گیا؟ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ ’جبری گمشدگیوں کے لیے ایک کمیشن بنایا گیا ہے جو پچھلے 15 برسوں سے کام کر رہا ہے۔ میں نے آپ کو کہا کہ اس کمیشن نے 80 فیصد کیسز حل کر لیے ہیں، جو کہ ایک اچھا رزلٹ ہے۔ دوسرا میں آپ سے یہ درخواست کروں گا کہ پلیز، پلیز آپ جائیں اور اُن ماؤں سے ملیں جن کے بیٹوں کو اِن فراری تنظیموں نے اغوا کیا ہوا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس (لاپتہ افراد کے معاملے) کو پراپیگنڈا ٹول بنا کر ریاست کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ یہ جینوئین ایشو ہے، اس کو حل کرنا چاہیے اور ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کریں گے کہ اس کو اسی کمیشن کے ذریعے حل کریں جو پہلے ہی ریاست پاکستان اور حکومت نے قائم کیا ہوا ہے۔‘
بی بی سی نے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے اُن کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا۔ جس کے جواب میں انھوں نے13 مارچ 2025 کو ڈی جی آئی ایس پی آر اور وزیراعلیٰ بلوچستان کی مشترکہ پریس کانفرنس کا حوالہ دیا۔
اس پریس کانفرنس میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال اور لاپتہ افراد سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے پر ایک کمیشن بنا ہوا ہے جو کہ 2011 سے کام کر رہا ہے۔ اس کمیشن کے پاس مجموعی طور پر 10405 کیسز لائے گئے جس میں سے 8144 کیسز حل ہو چکے ہیں جبکہ 2261 کیسز پر تفتیش جاری ہے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’بلوچستان سے اس کمیشن میں مجموعی طور پر 2911 کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں جن میں سے صرف 452 حل طلب ہیں۔ ریاست ایک منظم طریقے سے مسنگ پرسنز کے مسئلے کو حل کر رہی ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا ’تاہم ریاست کی طرف سے بھی کچھ سوالات بنتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ جو بی ایل اے ہے، جو دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہے، اس کے ارکان کی لسٹ کہاں ہے؟ وہ کون لوگ ہیں؟ کیا وہ مسنگ پرسنز نہیں ہیں؟ لانچز میں مرنے والے کیا مسنگ پرسنز نہیں ہے، کراچی میں فٹ پاتھوں سے ملنے والی سینکڑوں نہیں ہزاروں لاشوں کو دفن کیا جاتاہے، کیا وہ مسنگ پرسنز نہیں ہیں؟ امریکہ میں، برطانیہ میں، انڈیا میں، کہاں نہیں ہیں مسنگ پرسنز؟ مگر دنیا کے کس ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ مسنگ پرسنز کے معاملے کو لے کر اپنے ملک کے اداروں اور افواج پر چڑھ دوڑا جائے؟ اس طرح ایک بیانیہ بنایا جاتا ہے۔ آپ لوگ اس بیانیے کو سمجھیں کہ یہ کہاں سے آتا ہے اور کس کے لیے بنایا جاتا ہے۔‘
مگر اعداد و شماراور حکومتی دعوؤں کے اس کھیل کے بیچ وہ خواتین ہیں جو اپنے پیاروں کی واپسی کی جنگ لڑتی ہی چلی آ رہی ہیں اور اُن کی قیادت اب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے ہاتھ میں ہے۔ انھوں نے مبینہ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف ’بلوچ یکجہتی کمیٹی‘ کی بنیاد رکھی اور اس کے بعد سنہ 2023 میں تربت سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا۔
اس مارچ میں خواتین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی تھی۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بتاتی ہیں کہ انھوں نے باقاعدہ طور پر اُس وقت باہر نکلنے کا فیصلہ کیا تھا جب اُن کے بھائی کو سنہ 2017 میں تین ماہ کے لیے جبری طور پر گمشدہ کیا گیا۔
وہ کہتی ہیں کہ اُن کی تحریک کا مقصد بلوچستان سے مبینہ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کا مکمل خاتمہ ہے۔
’ہمارے لوگ سب سے پہلے یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں جینے دیا جائے۔ ہماری سرزمین پر ہمیں جینے دیا جائے۔ ہمیں اپنے جینے کا حق کے لیے دربدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔ ہمارے وسائل کا حق ہمیں دیا جائے۔ جبری گمشدگیوں کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ تشدد کے ذریعے جو اس صوبے پر حکومت کی جا رہی ہے، اس کو ختم کیا جائے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ان کی تحریک کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں اداروں کو خودمختار بنایا جائے۔
’ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں کوئی بھی ماں مجبوراً اپنے بچے کو اپنے زمین سے الگ نہ کرے، خود سے الگ نہ کرے۔ وہ زندگی جی سکیں۔ ان کی زندگی دوسرے ملکوں میں نہ گزرے، ان کی زندگی ان کے خاندان والوں کے ساتھ گزرے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کی زندگی کیمپوں میں نہ گزرے، کیا یہ ایک بہت بڑی چیز ہے، جو ہم مانگ رہے ہیں؟‘
ڈاکٹر ماہ رنگ کے مطابق لاپتہ افراد اور مبینہ ماورائے عدالت قتل کے واقعات بلوچستان میں حالات کو بدتر بنا رہے ہیں۔
’اس کا کوئی اختتام نہیں۔ یہ جو درندگی پھیلائی ہوئی ہے لاشیں پھینکنے کی۔۔۔ انھیں لگتا ہے کہ یہ سب ختم کر دے گا۔ انھیں یہ نہیں پتا کہ یہ اس کو کتنے بڑے پیمانے پر ہوا دے رہا ہے، آپ سوچ نہیں سکتے۔ کوئی اس کو کیسے بھلائے گا؟ یہ ممکن نہیں ہے۔ ایک بلوچ کیا، کوئی بھی انسان یہ برداشت نہیں کر سکتا۔‘
آئے روز احتجاج میں شرکت اور مقدمات کا سامنا کرنے والی سائرہ بلوچ کہتی ہیں کہ ’اب ہمارے دل سے ڈر اور خوف ختم ہو چکا ہے۔ ہماری زندگی کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہمیں اپنے بھائیوں کو واپس لانا ہے۔ کسی بھی طرح انھیں واپس لانا ہے۔ تو وہ ڈر، وہ لڑکی ہونے کا احساس ہونا، وہ سب اب ختم ہو چکا ہے۔‘
بلوچستان میں آج ایک نئی نسل کی زندگی انھی احتجاجی کیمپوں کی نذر ہو رہی ہے جہاں اُن سے پہلے اُن کی ماؤں، ناننیوں اور دادیوں نے اپنی زندگیاں گزاری ہیں۔ لاپتہ افراد کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والی یہ نئی نسل بھی اسی بحران کی زد میں ہیں جن کا سامنا ان سے پہلے کی نسل کو رہا ہے۔
کوئٹہ میں پریس کلب کے باہر مسنگ پرسنز کا کیمپ گذشتہ کئی برسوں سے قائم ہے۔
BBCبلوچستان میں آج ایک نئی نسل کی زندگی انھی احتجاجی کیمپوں کی نذر ہو رہی ہے جہاں اُن سے پہلے اُن کی ماؤں، ناننیوں اور دادیوں نے اپنی زندگیاں گزاری ہیں
گذشتہ برس نومبر میں جب بی بی سی کی ٹیم یہاں پہنچی تو دو روز قبل ہی اس کیمپ کو اس سال میں دوسری مرتبہ جلایا گیا تھا۔ یہاں موجود چند خواتین راکھ صاف کر رہی تھیں جبکہ دیگر افراد ایک بار پھر زمین پر قالین بچھا رہے تھے اور لاپتہ افراد کی تصویریں لگا رہے تھے۔
انھی افراد میں ایک دس سالہ بچی بھی اپنے ہاتھوں میں اپنا سکول بیگ لیے بیٹھی تھی۔
معصومہ کوئٹہ کے مضافاتی علاقے میں اپنی والدہ کے ہمراہ رہتی ہیں۔ اُن کی والدہ کا الزام ہے کہ ان کے شوہر کو سکیورٹی فورسز نے اُس وقت حراست میں لیا تھا جب معصومہ صرف تین ماہ کی تھی۔
والدہ کے مطابق معصومہ کے والد درزی کا کام کرتے تھے اور انھیں رات گئے پڑنے والے ایک چھاپے میں مبینہ طور پر گرفتار کیا گیا تھا اور ابتدا میں بتایا گیا تھا کہ انھیں ’کچھ دیر میں واپس بھیج دیا جائے گا۔‘
BBCمعصومہ تین ماہ کی تھیں جب اُن کے والد لاپتہ ہوئے
معصومہ آج تیسری جماعت میں پڑھتی ہیں مگر اب اُن کا زیادہ وقت لاپتہ افراد کے اہلخانہ کے احتجاج اور مظاہروں میں گزرتا ہے۔ ’میں سات سال کی تھی جب مجھے پتا چلا کہ میرے ابو کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ اس سے پہلے تو سب یہی کہتے تھے کہ وہ اسلام آباد میں نوکری کرتے ہیں اور میں سوچتی تھی سب کے ابو واپس آتے ہیں، تو میرے ابو کیوں نہیں آتے؟‘
معصومہ کے سکول بیگ میں ان کے والد کی تصویر ہر وقت موجود رہتی ہے اور اُن کے مطابق وہ کلاس میں ہر پیریڈ شروع ہونے سے پہلے اسے دیکھتی ہیں۔ ’میں جب رش میں جاتی ہوں تو ہر کسی میں اپنے ابو کا چہرہ ڈھونڈتی ہوں۔ ہر کسی کو دیکھتی ہوں کہ شاید یہ میرے ابو ہوں۔ مگر مجھے آج تک میرے ابو نہیں ملے۔‘
یہیں کیمپ میں بیٹھے بیٹھے جب انھیں وقت ملتا ہے تو وہ اپنے والد کو خط بھی لکھتی ہیں۔ وہ خط جنھیں وہ لکھتی ضرور ہیں مگر آج تک پوسٹ نہیں کر سکیں۔
BBCمعصومہ آج بھی اپنے والد کو خط لکھتی ہیں
’میں سوچتی ہوں کہ اگر آج میرے ابو یہاں ہوتے تو میری زندگی کتنی مختلف ہوتی۔ نہ میں یوں سڑکوں پر ہوتی، نہ میں یوں احتجاج کر رہی ہوتی۔‘
اسد اللہ مینگل: بلوچستان کا ’پہلا جبری لاپتہ‘ نوجوان جس کی موت تاحال ایک معمہ ہے’میری امی آدھی بیوہ کی طرح زندگی گزار رہی ہیں‘ماہ رنگ کے سر پر ’بلوچی پاگ‘: کیا بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں صوبے میں اپنی ساکھ کھو رہی ہیں؟بلوچستان کے لاپتہ افراد: ’بھائی اور بھتیجے کی گمشدگی کا غم اتنا ہے کہ اب ہمیں خوشی یاد نہیں‘لاپتہ افراد کے اہلخانہ: ’میرے شوہر کو مار دیا گیا یا وہ زندہ ہیں۔۔۔ میں انتظار کرتی رہوں گی‘رحیم زہری کی مبینہ جبری گمشدگی: ’ان کے سامنے قرآن رکھا لیکن انھوں نے مار مار کر بے ہوش کر دیا‘