افغانستان میں طالبان حکومت نے امریکی شہری جارج گلیزمین کو دو سال سے زیادہ عرصے قید میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا ہے۔
جارج گلیزمن امریکہ کی ڈیلٹا ایئرلائن میںبطور مکینک کام کرتے تھے۔ دسمبر 2022 میں وہ سیاحت کی غرض سے افغانستان گئے تھے تاہم انھیں وہاں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ قیدیوں کے معاملات پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی مشیر ایڈم بوہلر سمیت دیگر امریکی حکام پر مشتمل اعلی سطحی وفد نے افغانستان کا دورہ کیا جہاں طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ان کی ملاقات ہوئی۔
جارج گلیزمین کی رہائی کی تصدیق کرتے ہوئے طالبان کی وزارت خارجہ نے بیان میں کہا کہ جارج گلیزمن کی رہائی ’انسانی بنیادوں پر‘ اور ’نیک نیتی کے اظہار‘ کے طور پر کی گئی۔
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اس پیش رفت کو ’مثبت اور تعمیری قدم‘ قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی وفد اور طالبان کے درمیان یہ ملاقات فریقین کے درمیان سب سے اعلیٰ سطح کے براہ راست مذاکرات سمجھے جا رہے ہیں جن کا انعقاد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنوری میں حلف برداری کے بعد ہوا ہے۔
بی بی سی پشتو نے طالبان کی وزارت خارجہ کاحوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہامیر خان متقی نے امریکی وفد کے ساتھ بات چیت میں کہا ہے کہ ’دونوں ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ 20سالہ جنگ کے اثرات سے نکلیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مثبت سیاسی اور اقتصادی تعلقات رکھیں۔‘
طالبان حکومت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ایڈم باؤلر نے قیدیوں کے حوالے سے افغانستان اور امریکہ کے درمیان اعتماد سازی میں پیش رفت کو ایک اچھا قدم قرار دیا۔‘
تاہم بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ دورے کے دوران کن قیدیوں کے تبادلے سے متعلق بات چیت کی گئی۔
بی بی سی پشتو کی رپورٹ کے مطابق طالبان حکومت کے ایک سیکیورٹی اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے تصدیق کی ہے کہ طالبان حکومت قیدیوں کے حوالے سے امریکی نمائندوں سے مسلسل رابطے میں ہے اور اس میںپیش رفت بھی ہوئی ہے۔
تاہم طالبان نے بی بی سی کو یہ نہیں بتایا کہ افغانستان میں کتنے امریکی قیدی ہیں۔
جارج گلیزمین رہائی پانے کے بعد جمعرات کی شام قطر پہنچے اور وہاں سے امریکہ روانہ ہو گئے۔
افغان وزارت خارجہ کے مطابق ایڈم بوہلر کے ہمراہ کابل میں ہونے والی اس ملاقات میں امریکہ کے سابق ایلچی زلمے خلیل زاد بھی شامل تھے۔
طالبان کی جانب سے 2021 میں افغانستان میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد دونوں حکومتوں کے درمیان اس سے قبل زیادہ تر رابطے دیگر ممالک میں ہوتے رہے ہیں۔
قطر نے امریکہ افغانستان معاہدے میں ثالثی کا کردار ادا کیا ہے اور اسی کے تحت جارج گلیزمن کو رہا کیا گیا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر افغانستان کی وزارت خارجہ نے کہا کہباہمی احترام اور مفادات کی بنیاد پر مبنی یہ معاہدہ ’امریکہ سمیت تمام فریقوں کے ساتھ افغانستان کی سنجیدہ شمولیت کے لیے آمادگی‘ کو ظاہر کرتا ہے۔
کابل ایئرپورٹ حملے کے ’ماسٹر مائنڈ‘ کی گرفتاری: آئی ایس آئی سے کہا ٹرمپ سے اچھے تعلقات کے لیے اس معاملے کو ترجیح دیں، سی آئی اے چیفٹرمپ کا ’شاندار معاہدہ‘ جس نے افغانستان کی قسمت کا فیصلہ کر دیادولت اسلامیہ، طالبان اور امریکی ہتھیار: کیا افغانستان پاکستان اور امریکہ کو دوبارہ قریب لا سکتا ہے؟ٹرمپ پر حملہ: مشتبہ شخص ’افغان جنگجوؤں کو پاکستان کے راستے یوکرین بھیجنا چاہتا تھا‘’امریکی شہری اب بھی افغانستان میں قید ہیں‘
ادھر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ 65 سالہ جارج گلیزمن ڈیلٹا ایئر لائنز کے مکینک ہیں اور اب وہ جلد اپنی اہلیہ الیگزانڈرا سے مل سکیں گے۔ انھوں نے قطر کا اس معاہدے میں اہم کردار ادا کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
جارج گلیز مین کی کابل ایئرپورٹ قطر روانگی کے لیے پرواز میں داخل ہونے کی تصویر بھی جاری کی گئی ہے۔ اس میں ان کے ہمراہ ایڈم بوہیلر، زلمے خلیل زاد اور قطری حکام بھی تھے۔
بیرون ملک قید امریکی شہریوں کے معاملات کی نگرانی کرنے والے ادارے جیمز فولی فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ جارج گلیزمن کا دوران حراست اپنی اہلیہ سے کبھی کبھار اور محدود ٹیلیفونک رابطہ تھا۔
یہ بھی بتایا گیا دوران حراست ان کی صحت کافی حد تک بگڑ چکی تھی اور انھیں فوری طبی امداد کی ضرورت ہے۔
مارکو روبیو نے مزید کہا کہ گلیزمن کی رہائی ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ دیگر امریکی شہری اب بھی افغانستان میں قید ہیں۔‘
انہی میں سے ایک امریکی شہری محمود حبیبی بتائے جا رہے ہیں جو اگست 2022 میں گرفتار ہوئے تھے۔
ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے سے پہلےدو امریکی شہری، ریان کوربیٹ اور ولیم والیس میکینٹی افغانستان سے رہا کیے گئے تھے جن کے بدلے میں امریکہ میں قید ایک افغان شہری خان محمد کو چھوڑا گیا تھا۔
خان محمد کو منشیات کی سمگلنگ اور دہشت گردی کے الزامات میں سزا سنائی گئی تھی اور وہ کیلیفورنیا کی جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔
قیدیوں کے علاوہ دیگر مسائل پر بات چیت کا عندیہ
بی بی سی پشتو کےمطابق طالبان حکومت کی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکی حکومت طالبان کے ساتھ قیدیوں کے علاوہ دیگر مسائل پر بات چیت کرنا چاہتی ہے جس میں دو طرفہ تعاون اور امریکہ کی طرف سے اس بات کی یقین دہانی بھی شامل ہے کہ افغانستان کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں امریکی انتخابات میں کامیابی کے بعد سے صدر ٹرمپ اپنے حریف سابق صدر جو بائیڈن پر افغانستان سے انخلا میں ناکامی کا الزام لگا رہے ہیں۔
ٹرمپ بارہا اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ وہ بگرام فوجی اڈہ کھونا نہیں چاہتے۔ انھوں نے دعویٰ کیاہے کہ بگرام اب چین کے زیر اثر ہے۔
واصح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں واپسی اور عہدہ سنبھالنے کے بعد سے بارہا اس بات پر بھیزور دیا ہے کہ وہ طالبان سے باقی ماندہ ہتھیار واپس لے لیں گے۔
انھوں نے کابینہ کے پہلے اجلاس میں ان میں سے کچھ ہتھیاروں کے اعدادوشمار بھی پیش کیے تھے۔
کابل ایئرپورٹ حملے کے ’ماسٹر مائنڈ‘ کی گرفتاری: آئی ایس آئی سے کہا ٹرمپ سے اچھے تعلقات کے لیے اس معاملے کو ترجیح دیں، سی آئی اے چیفٹرمپ کا ’شاندار معاہدہ‘ جس نے افغانستان کی قسمت کا فیصلہ کر دیادولت اسلامیہ، طالبان اور امریکی ہتھیار: کیا افغانستان پاکستان اور امریکہ کو دوبارہ قریب لا سکتا ہے؟ٹرمپ پر حملہ: مشتبہ شخص ’افغان جنگجوؤں کو پاکستان کے راستے یوکرین بھیجنا چاہتا تھا‘افغانستان کی جنگ امریکہ کو کتنی مہنگی پڑی ہے؟آپریشن سائیکلون: جب امریکہ نے افغانستان میں ’طالبان‘ کو تیار کیا