’اب اگر لاہور گیا، تو پھر وہیں رہ جاؤں گا‘، خشونت سنگھ جن پر پاکستانی ہونے کا الزام لگا

اردو نیوز  |  Mar 21, 2025

اُن کی مادری زبان پنجابی تھی اور ثقافتی زبان اردو جس سے وہ بے حد محبت کرتے تھے اور فارسی رسم الخط سے بھی واقف تھے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے لکھنے کے لیے انگریزی کا انتخاب کیا اور جب لکھنا شروع کیا تو ’انڈین سرزمین پر آخری زندہ پاکستانی‘ کا خطاب حاصل کیا۔یہ اُن پر کیا جانے والا واحد اعتراض نہیں ہے۔ اُن پر تو زندگی بھر طرح طرح کے اعتراضات کیے جاتے رہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اُن کو اپنی مراعات یافتہ حیثیت کی وجہ سے وہ تخلیقی آزادی حاصل تھی جو اُن کے ہم عصروں کو اس قدر آسانی سے دستیاب نہیں ہو سکتی تھی۔

اُن کی شخصیت کی رنگین مزاجی پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اسے جان بوجھ کر اپنی شناخت کا حصہ بنایا اور نمایاں کیا۔آپ یقیناً جان گئے ہوں گے کہ اِس وقت ذکر اُس شخصیت کا ہو رہا ہے جسے ایک ناول نگار، صحافی، سفارت کار اور ایک ایسے دانش ور کے طور پر جانا جاتا ہے جو بغیر لگی لپٹی اپنی فکر کا اظہار کر دیا کرتا تھا۔یہ خشونت سنگھ کی کہانی ہے جو 1915 میں ضلع خوشاب (پاکستانی پنجاب) کے ایک چھوٹے سے گاؤں ہڈالی میں پیدا ہوئے۔والد سر سوبھا سنگھ اُس عہد کے طاقت ور ترین افراد میں سے ایک تھے۔ وہ دہلی میونسپل کونسل کے اولین انڈین صدر رہے، انگریزوں سے سر کا خطاب حاصل کیا، اعزازی مجسٹریٹ بھی تھے مگر اُن کی ایک وجۂ شہرت بھگت سنگھ کے خلاف گواہی دینا بھی ہے۔اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ گواہی بھگت سنگھ کے قانون ساز اسمبلی میں بم پھینکنے کے معاملے پر دی تھی جس میں بھگت سنگھ کو سزا نہیں ہوئی تھی مگر اس کے باوجود وہ تاریخ کا ایک متنازع کردار بن چکے ہیں جنہیں اپنے عہد میں ’آدھے دہلی کا مالک‘ کہا جاتا تھا۔بھگت سنگھ کا ذکر نکلا ہے تو یہ بتاتے چلیں کہ بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کے خلاف جان سانڈرز کے قتل کا مقدمہ چلا تو تین رُکنی ٹریبیونل میں ایک ہی انڈین جج سید آغا حیدر تھے جن پر بھگت سنگھ کے حوالے سے جانب دار ہونے کا الزام لگا اور یوں برطانوی راج نے اُن کو ٹریبیونل سے الگ کر دیا۔اس کے بعد سر شیخ عبدالقادر کو اس بینچ میں شامل کیا گیا جو بھگت سنگھ اور اُن کے ساتھیوں کو پھانسی دینے والے ججوں میں سے ایک تھے۔یہ ذکر کرنا اس لیے ضروری تھا کہ خشونت سنگھ کی فیلڈ مارشل ایوب خان کے دورِ حکومت میں وزیر خارجہ رہنے والے منظور قادر سے گہری دوستی تھی جو انہی سر شیخ عبدالقادر کے فرزند تھے اور انہوں نے منظور قادر کے چیمبر سے ہی اپنی وکالت کا آغاز کیا تھا۔

خشونت سنگھ کی یادوں میں تقسیم کے بعد بھی زخم ہمیشہ تازہ رہے اور وہ اس کا اظہار بھی کرتے رہے (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

دلچسپ بات یہ ہے کہ اعجاز بٹالوی بھی اسی چیمبر سے منسلک تھے جو ضیاالحق کے دور میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمۂ قتل میں سرکاری وکیل تھے۔یہ تو یوں ہی بات سے بات نکل آئی ورنہ خشونت سنگھ کا ذکر ہو اور لاہور پر بات نہ ہو تو یہ ممکن ہی نہیں۔ انہوں نے شہرِ بے مثل کی تاریخی درس گاہ گورنمنٹ کالج (اب یونیورسٹی) سے بی اے کرنے کے بعد قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن کا رُخ کیا۔وہاں اُن کی ملاقات اپنے بچن کی دوست کنول ملک سے ہوگئی اور یوں یہ رشتہ شادی میں بدل گیا۔ شادی کی تقریب دہلی میں ہوئی جس میں چیتن آنند، اقبال سنگھ کے علاوہ محمد علی جناح نے بھی شرکت کی۔چیتن آنند اداکار دیو آنند کے بڑے بھائی اور لیجنڈ ہدایت کار تھے تو اقبال سنگھ اپنے عہد کے ایک معروف صحافی، لکھاری اور براڈکاسٹر تھے جنہوں نے مصورہ امرتا شیرگِل کی سوانح عمری بھی لکھی۔ امرتا شیرگِل کے ذکر پر یہ بتاتے چلیں کہ اُن کی خشونت سنگھ سے گہری دوستی تھی جو اپنی خودنوشت سوانح عمری ’سچ، محبت اور ذرا سا کینہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اُس کی شہرت ہمارے گھر (لاہور میں) سے کچھ دُور سڑک کے دوسری طرف فلیٹ لینے سے قبل ہی پہنچ چکی تھی۔‘وہ مزید لکھتے ہیں کہ ایک بار وہ اُن سے ملنے آئیں اور بتایا کہ انہوں نے سڑک کے دوسری طرف ایک فلیٹ کرائے پر لیا ہے۔ وہ بڑھئی، پلمبر، درزی اور دیگر ضروریات سے متعلق مشورہ لینا چاہتی تھیں۔

خشونت سنگھ نے فوجی آپریشن ’بلیو سٹار‘ کے خلاف احتجاجاً پدما بھوشن ایوارڈ حکومت کو واپس کر دیا (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

امرتا شیرگِل نے شِملہ میں اپنے قیام کے دوران شہر کی اشرافیہ کو اپنی بے باک شخصیت سے ہلا کر رکھ دیا تھا، اُن کے اُس دور کے بہت سے قصے مشہور ہیں۔ خشونت سنگھ نے اس حوالے سے اپنی کتاب ’مائی اَن فارگیٹ ایبل وومن‘ میں ایک ایسا ہی واقعہ یاد کرتے ہوئے لکھا۔’شملہ میں اپنے گھر پر ایک پارٹی کے دوران امرتا شیرگِل نے اُن کے بیٹے صحافی و مصنف راہُل سنگھ، جو اس وقت ایک کم سن بچے تھے، کو دیکھ کر بے ساختہ کہا کہ ’کتنا بدصورت بچہ ہے۔‘یہ سن کر خشونت سنگھ کی اہلیہ اس قدر برہم ہوئیں کہ انہوں نے امرتا شیرگِل کا نام مستقبل کی دعوتوں کی فہرست سے خارج کر دیا۔ یہ خبر جب امرتا شیرگِل تک پہنچی تو کہا جاتا ہے کہ انہوں نے تُرکی بہ تُرکی جواب دیا اور کہا کہ ’میں اُسے سبق سکھانے کے لیے اس کے شوہر کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا لوں گی۔‘خشونت سنگھ اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کرتے تھے کہ امرتا شیرگِل نے کبھی ایسا نہیں کیا۔لاہور میں خشونت سنگھ کی رہائش گاہ ای پلومر اینڈ کمپنی والی عمارت کے ایک فلیٹ میں تھی۔ اسی عمارت کے ایک فلیٹ میں بیرسٹر رابعہ قاری بھی رہائش پذیر رہیں جنہوں نے بوٹا سنگھ کی وکالت کی تھی اور اُن کی بیٹی کو گود لیا تھا۔خشونت سنگھ نے اپنی زندگی کے اہم ماہ و سال لاہور میں گزارے۔ انہوں نے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز بھی اسی شہر سے کیا۔ 

 ان کا آبائی گاؤں ہڈالی (خوشاب) پاکستان میں ہے جس سے اُن کی ہمیشہ جذباتی وابستگی رہی (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

وہ اپنی سوانح عمری میں اُس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’گورنمنٹ کالج میں بے فکری کے دو برس گزارنے کے بعد لاہور میرے لیے کوئی اجنبی شہر نہیں رہا تھا لیکن وہاں پیسہ کمانے کے لیے آنا دوسری بات تھی۔’میرے پاس سب کچھ تھا، ایک آراستہ پیراستہ فلیٹ اور دفتر، دو اعلٰی کلبوں کی رکنیت، ایک کاسموپولیٹن جو اونچے درجے کے ہندوستانیوں کے لیے تھا اور دوسرا جم خانہ، جو انگریزوں کی آماج گاہ تھا جس میں ’دیسی‘ ایک درجن سے زیادہ نہ تھے۔‘وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’میرے والد اور سُسر کی اونچی حیثیت نے ججوں اور وزیروں کے دروازے میرے لیے کھول دیے تھے۔ میری قبول صورت اور نوجوان اہلیہ کے ساتھ بہت جلد لاہور میں ہماری تصویریں کھینچی جانے لگیں اور ہم ہر جگہ بلائے جانے لگے۔‘دلچسپ بات یہ ہے کہ خشونت سنگھ پڑھائی میں اوسط درجے کے ہی تھے۔ برطانوی اخبار ‘گارڈین‘ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’وہ کبھی کتابی کیڑا نہیں رہے اور ہمیشہ کم سے کم محنت کر کے کسی نہ کسی طرح کامیاب ہو جاتے تھے۔‘’سینٹ سٹیفن کالج دہلی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج لاہور آگئے جہاں سے انہوں نے تھرڈ کلاس میں گریجویشن مکمل کی۔‘اسی مضمون کے مطابق ’بعدازاں خشونت سنگھ نے کنگز کالج لندن میں داخلہ لینے کی کوشش کی، محض اس وجہ سے کہ اس کا نام یونیورسٹی کالج یا لندن سکول آف اکنامکس سے زیادہ شاندار لگتا تھا۔ وہ سال 1934 میں بحری سفر کے ذریعے لندن پہنچے، جہاں انہوں نے ‘اِنر ٹیمپل‘ میں داخلہ لیا اور بار ایٹ لا کی سند حاصل کی۔‘

خشونت سنگھ نے تاریخی درس گاہ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کی ڈگری حاصل کی (فائل فوٹو: انڈیا ٹائمز)

’انڈین سول سروس میں شامل ہونے کی کوشش ناکام رہی، لہٰذا وہ لاہور واپس آگئے جہاں انہوں نے ہائی کورٹ میں ایک غیر نمایاں قانونی پیشہ اختیار کیا۔‘خشونت سنگھ نے لاہور سے اپنی وابستگی کا اظہار اپنی کئی تحریروں میں کیا ہے مگر تقسیم کے وقت اُن کو اپنے شہر سے دُور ہونا پڑا۔ انہوں نے لاہور میں اپنے آخری دنوں کا ذکر کچھ ان الفاظ میں کیا ہے۔’آزادی سے ایک ہفتہ قبل سی آئی ڈی پنجاب کے سربراہ کرس ایورٹ، جو لندن میں میرے ساتھ قانون کی تعلیم حاصل کر چکے تھے، نے مجھے مشورہ دیا کہ میں لاہور چھوڑ دوں۔‘خشونت سنگھ کے مطابق ’ہم نے جو کچھ ہاتھ میں آسکتا تھا، اُٹھایا، گھر کی چابیاں اپنے مسلمان دوست منظور قادر کے حوالے کیں، اور ان ہندو اور سکھ پناہ گزینوں کے قافلے میں شامل ہو گئے جو پاکستان سے ہندوستان جا رہے تھے۔‘’چھ بلوچ سپاہیوں کی حفاظت میں، میَں اور میری اہلیہ ایک ٹرین کے ذریعے کالکا پہنچے، جہاں ہمارے دو بچے پہلے سے ہی اپنے نانا نانی کے پاس کَسولی بھیجے جا چکے تھے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’راستے میں ہم نے ان مسلمان پناہ گزینوں کے قافلے دیکھے جو ہندوستان سے پاکستان جا رہے تھے۔ ہر طرف قتل و غارت، عصمت دری اور آتش زنی کی ہولناک داستانیں سننے کو ملیں۔‘’میں نے سنا کہ لاہور میں میرا گھر لُوٹنے کے لیے آنے والے فسادیوں کو میرے دوست نے بھگا دیا، مگر وہ میرے باغ میں موجود سفید مرغیاں لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ ہمیں ان کے انجام پر کوئی شبہ نہ تھا۔‘

مصنفہ عمارہ احمد لکھتی ہیں کہ ’مجھے حیرانی نہیں ہوئی جب خشونت سنگھ نے انٹرویو میں خود کو ’پاکستانی‘ کہا‘ (فائل فوٹو: انڈیا ٹائمز)

خشونت سنگھ کہتے ہیں کہ ’تب مجھے احساس ہوا کہ وہ دنیا جس میں میَں جیتا تھا اور جس کے قائم رہنے کو میں نے ہمیشہ یقینی سمجھا تھا، اب ختم ہو چکی تھی۔‘خشونت سنگھ کی یادوں میں تقسیم کے بعد بھی یہ زخم ہمیشہ تازہ رہے۔ تقسیم کی نصف صدی مکمل ہونے پر انہوں نے جریدے ’آؤٹ لُک‘ کے لیے مضمون ’لاہور میں آخری دن‘ لکھا جس میں انہوں نے اس عہد کا ذکر کیا جب پنجاب کے اس ثقافتی مرکز پر خوف اور دہشت کے سائے منڈلا رہے تھے۔وہ لکھتے ہیں کہ ’جون 1947 کی وہ دوپہر میرے ذہن میں نقش ہے۔ میں ہائی کورٹ سے واپس آیا جب اچانک شور سنائی دیا… مجھے اندازہ لگانے کی ضرورت نہیں تھی: ہندوؤں اور سکھوں کا محلہ شاہ عالمی شعلوں کی نذر ہو چکا تھا۔‘انہوں نے اپنے اس مضمون میں بادامی باغ، مزنگ اور ٹیکسلا سٹیشن پر سکھوں کے قتلِ عام اور نیشنل کالج میں ان کی گرفتاریوں کا ذکر بھی کیا۔ انہوں نے ان واقعات کا ذکر اپنے شہرۂ آفاق ناول ’ٹرین ٹو پاکستان‘ میں زیادہ تفصیل سے کیا ہے۔صحافی اور مصنفہ عمارہ احمد اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ ’مجھے ہرگز حیرانی نہیں ہوئی جب خشونت سنگھ نے اپنے ایک انٹرویو میں خود کو ’پاکستانی‘ کہا۔‘’پاکستان صرف سیاسی وابستگی تک محدود نہیں بلکہ پاکستانی ہونا ان تمام لوگوں کا پیدائشی حق بھی ہے جو 1947 سے پہلے یہاں پیدا ہوئے۔‘عمارہ احمد کے مطابق ’بھلا وہ شخص، جو یہاں پیدا ہوا، تعلیم حاصل کی، اور تین دہائیوں تک یہیں کام کرتا رہا، کیوں کر ایسا دعویٰ نہ کرے؟‘

’خشونت سنگھ کا کہنا تھا کہ وہ ہجرت نہیں کرنا چاہتے تھے، مگر فسادات نے انہیں مجبور کر دیا‘ (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

وہ مزید لکھتی ہیں کہ ’میرے دادا دادی کی طرح خشونت سنگھ نے بھی کہا کہ وہ ہجرت نہیں کرنا چاہتے تھے، مگر فسادات نے انہیں مجبور کر دیا۔‘’حالیہ برسوں میں جب ان سے دوبارہ لاہور آنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’اب اگر لاہور گیا، تو پھر وہیں رہ جاؤں گا۔‘معروف شاعر اور ادیب پروفیسر شیو کے کمار کو خشونت سنگھ سے بات چیت کرنے کا موقع ملا جسے جریدے ’پنچ‘ نے شائع کیا۔اس کا ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے جس سے خشونت سنگھ کی لاہور کے لیے وارفتگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔’تشریف رکھیے، ڈاکٹر کمار،‘ انہوں نے کہا کہ ان کی نظریں میرے چہرے پر ٹکی رہیں۔ ’کیا آپ کافی پسند کریں گے؟‘’شکریہ، سردار صاحب،‘ میں نے جواب دیا۔’بس مجھے خشونت کہو،‘ وہ مسکراتے ہوئے بولے۔ ’دو پنجابی، جب پردیس میں مل رہے ہوں تو ان کے درمیان کسی قسم کے رسمی القاب کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘ پھر انہوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا، ’پنجاب میں کہاں سے ہو؟‘’لاہور سے!‘ میں نے جواب دیا۔’آہ، وہ تو میرا آبائی شہر ہے! میں نے لندن بار ایٹ لا کرنے کے لیے جانے سے قبل وہیں سے سکول اور کالج کی تعلیم حاصل کی تھی۔‘ایک مصنف کے طور پر تو خشونت سنگھ منفرد پہچان رکھتے تھے ہی مگر وہ ایک کامیاب صحافی بھی تھے۔ اُن کے دورِ ادارت میں جریدے ’السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا‘ کی سرکولیشن میں غیرمعمولی اضافہ ہو گیا تھا۔ وہ اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔

 وہ اپنی کتابوں کے ذریعے آج بھی زندہ ہیں جس کی ایک مثال اُن کا شہرہ آفاق ناول ’اے ٹرین ٹو پاکستان‘ ہے (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

خشونت سنگھ نے کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ اگرچہ نہرو خاندان کے قریب رہے مگر سال 1984 میں جب گولڈن ٹیمپل میں فوجی آپریشن ’بلیو سٹار‘ کیا گیا تو انہوں نے احتجاجاً پدما بھوشن ایوارڈ حکومت کو واپس کر دیا۔وہ راجیہ سبھا کے رُکن بھی رہے۔ ان کا آبائی گاؤں ہڈالی (خوشاب) پاکستان میں ہے جس سے اُن کی جذباتی وابستگی کے کئی قصے مشہور ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ یہ قصبہ اُن کی جنم بُھومی تھا۔خشونت سنگھ نے 30 سے زیادہ ناولوں کے علاوہ درجنوں افسانے اور مضامین سمیت 80 سے زیادہ کتابیں تحریر کیں۔ سکھ تاریخ پر اُن کی کتابیں سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ عظیم مصنف اور صحافی آج ہی کے روز 20 مارچ 2014 میں 99 برس کی عمر میں چل بسے اور یوں اُن کی زندگی کی سینچری ادھوری رہ گئی۔معروف ادیب مستنصر حسین تارڑ نے اپنے ایک کالم میں یہ ذکر کیا تھا کہ ’پائلٹ نے مجھے بتایا تھا کہ ہمارے نیچے خوشاب کا جو قصبہ گزر رہا ہے اس کا نام ہڈالی ہے اور جب والٹن ایئرپورٹ پر اُتر کر اپنے گھر میں داخل ہوا تھا تو میری اہلیہ نے خبر دی تھی کہ وہ تمہارا بابا خشونت سنگھ نائنٹی نائن پر آؤٹ ہو گیا ہے۔’’کیا یہ عجب اتفاق نہیں کہ جس لمحے میں خشونت سنگھ کے آبائی قصبے ہڈالی کے اوپر سے گزر رہا تھا تو عین اس لمحے خشونت سنگھ مر گیا۔‘خشونت سنگھ کی وصیت کے مطابق ان کے مرنے کے بعد ان کی راکھ پاکستان میں اُن کی جنم بھومی ہڈالی لائی گئی۔

خشونت سنگھ 20 مارچ 2014 میں 99 برس کی عمر میں چل بسے اور یوں اُن کی زندگی کی سینچری ادھوری رہ گئی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

خشونت سنگھ ایک ایسے ادیب تھے جو سرحدوں سے ماورا تھے۔ وہ دمِ آخر تک لاہور اور اپنی جنم بُھومی کو یاد کرتے رہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنی کتابوں کے ذریعے آج بھی زندہ اور سانس لیتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں جس کی ایک مثال اُن کا شہرہ آفاق ناول ’اے ٹرین ٹو پاکستان‘ ہے جس سے یہ اقتباس پیشِ خدمت ہے:’تقسیمِ ہند کا اعلان ہوتے ہی وحشیانہ فسادات کی آگ نے پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ صدیوں کے رشتے ناتے، محبتیں چاہتیں جل کر خاک ہوگئیں۔‘وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’ہندو، مسلمان اور سکھوں نے مکمل آزادی سے ایک دوسرے کو کاٹا، مارا، ذبح کیا، ہر طرف افراتفری، لوٹ مار، قتل و غارت گری کا راج تھا۔ حکومتی محکمے مکمل طور پر مفلوج ہو چکے تھے۔‘’ایسے میں جیلوں کا نظام چلانے والی وزارت کے پاس وسائل نہیں تھے کہ جیلوں میں بند قیدیوں کے لیے خوراک، کھانے پینے کا بندوبست کر سکے لہٰذا آفت زدہ علاقوں میں جیلوں کے دروازے کھول دیے گئے۔‘اسی ناول میں انہوں نے لکھا کہ ’خطرناک قیدیوں کے ساتھ اقبال بھی جیل سے باہر نکل آیا۔ اقبال کمیونسٹ تھا اور انگریز سرکار نے اسے حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کے الزام میں پابند سلاسل کردیا تھا۔‘’وہ جیل سے باہر تو آیا لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ فسادات کی آگ میں جُھلستے ہوا امرتسر کا رُخ کرے یا لاہور جائے! چیخ پکار، واویلا، آہ و فغاں اور ہر طرف بکھری ہوئی لاشوں سے اقبال کانپ اٹھا۔‘خشونت سنگھ کے مطابق ’تلواروں، خنجروں، کرپانوں، کلہاڑیوں، بندوقوں اور پستولوں سے لیس قاتلوں کے جتھے نعرے بلند کر رہے تھے۔ اقبال نے چُھپتے چُھپاتے ایک گردوارے میں جا کر پناہ لی۔‘’گردوارے کے رکھوالے نے اسے دیکھ لیا اور پوچھا ’کون ہے تو۔ ہندو ہے، مسلمان ہے، سکھ ہے؟ کون ہے تو؟ اس پر اقبال نے کہا کہ ’میں اقبال ہوں۔‘’کون اقبال، کیسا اقبال!‘ گردوارے کے رکھوالے نے پوچھا ’تو محمد اقبال ہے؟ اقبال چند ہے؟ اقبال سنگھ ہے؟ کون سا اقبال ہے تو؟‘اقبال نے کہا کہ ’کیا یہ کافی نہیں ہے کہ میں صرف اقبال ہوں، انسان ہوں؟‘خشونت سنگھ کا اپنی زندگی میں تو پاکستان میں دوبارہ بسنے کا خواب پورا نہ ہو سکا مگر مرنے کے بعد اُن کی راکھ ہڈالی آگئی اور یوں وہ مر کر ضرور سرحد کے اِس پار آگئے اور یوں اُن کی یہ خواہش بالآخر پوری ہو گئی۔ 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More