حکومت کی عدم توجہی ، آئی ٹی انڈسٹری بحرانوں کا شکار

ہم نیوز  |  Mar 21, 2025

اسلام آباد ( زاہد گشکوری، مجاہدحسین اور ابوبکرخان )  پاکستان آئی ٹی انڈسٹری عین مسائل کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے ،دوسری جانب  حکومت بہتری کے دعوے کر رہی ہے۔

حکومتی دعوے کے مطابق اس وقت تقریباً ساڑھے تین ہزار سے زائد آئی ٹی کمپنیاں بڑے، درمیانے اور چھوٹے سکیل کے بزنس ماڈیولز کے تحت پاکستان میں آئی ٹی سروسز کی فراہمی ، سوفٹ وئیرز کی تیاری، فروخت اور اپ گریڈنگ کا کام کر رہی ہیں۔

بظاہر یہ  اعداد و شمار پاکستانی آئی ٹی انڈسٹری کی قابل اعتماد ترقی کا اشارہ دیتے ہیں ، وہ انڈسٹری جس کے بارے میں حکمران یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ پاکستانی آئی ٹی انڈسٹری پچیس ارب ڈالر کمانے کی اہلیت رکھتی ہے لیکن آئی ٹی انڈسٹری کولاحق بحران پر نظر ڈالی جائے تو اس شعبے کا نمایاں ترین مسئلہ سپلائی سائیڈ کا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ٹی کی خدمات کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ بڑھی ہوئی ہے کہ ہم اسے پورا ہی نہیں کر پا رہے، پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ آئی ٹی گریجویٹس کی ضرورت ہے لیکن تعلیمی اداروں سے صرف 25 ہزار لوگ ہی نکل رہے ہیں۔

سست انٹر نیٹ ، پشاور ہائیکورٹ نے وزارت داخلہ اور وزارت آئی ٹی سے جواب طلب کر لیا

انسانی حقوق، جمہوریت اور دنیا بھر میں سیاسی آزادی جیسے موضوعات پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فریڈم ہاؤس کی 2023 کی انٹرنیٹ کی آزادی پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ آزاد نہیں۔

فریڈم ہاؤس نے اپنی سالانہ رپورٹ کے ذریعے دنیا کے 70 ممالک میں انٹرنیٹ کی آزادی کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ انٹرنیٹ تک رسائی میں مشکلات، سینسرشپ اور صارفین کے حقوق کے استحصال کی بنیاد پر ممالک کو 100 میں سے سکور دیا جاتا ہے۔

2023 کی فریڈم ہاؤس کی رپورٹ کے تحت پاکستان کو 100 میں سے 26 نمبر دیے گئے ہیں۔ بھارت میں انٹرنیٹ جُزوی طور پر آزاد ہے جبکہ کینیڈا جیسے ملک کو 100 میں سے 88 نمبر دیے گئے ہیں اور اُس کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں انٹرنیٹ آزاد ہے۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی آئی ٹی انڈسٹری کا پرائیویٹ سیکٹر اپنے طور پر بہتر نتائج لانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن سرکاری شعبہ عدم توجہ اور کسی حد تک عدم تحفظ کا شکار ہے۔جس کی سب سے بڑی مثال سی ای او نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کا اپنا بیان ہے۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق آئی ٹی کی برآمدات مالی سال 24-2023 ءمیں 24 فیصد اضافے کے ساتھ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 2.59 ارب ڈالر سے بڑھ کر 3.2 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق آئی ٹی سیکٹرنے گزشتہ سال جون کے مہینے میں ریکارڈ 30 کروڑ ڈالر کی برآمدات کی تھیں جو 2024 کی اسی مدت کے مقابلے میں 33 فیصد زیادہ تھیں۔ آئی ٹی برآمدات میں اضافے کی بنیادی وجہ خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے ممالک بالخصوص سعودی عرب میں پاکستانی آئی ٹی کمپنیوں کی خدمات کے حصول میں اضافہ ہے۔

اس کی بڑی وجہ عالمی سیاسی و معاشی حالات اور پاکستانی حکومتوں کی پالیسیاں ہیں جو آئی ٹی کمپنیوں اور فری لانسرز کے کام کرنے کے ماحول اور مالیاتی معاملات کو براہ راست متاثر کرتی ہیں۔

انٹرنیٹ بند کیا نہ سلو، دباؤ وی پی این کی وجہ سے آیا، وزیر مملکت آئی ٹی

دوسری طرف وزیراعظم کے پروگرام اُڑان پاکستان کا آغاز ہو چکا ہے جس میں پاکستان کی آئی ٹی برآمدات کو 2047 تک 60 ارب ڈالر تک لے جانے کا پلان شامل ہے۔ لیکن جب موجودہ حکومت کے تحت آئی ٹی کے شعبے کے ذمہ داران کی طرف دیکھا جائے تو شاید ابھی وہاں پر وہ سنجیدگی نہیں دکھائی جا رہی جس کی ضرورت ہے۔

ہم انویسٹی گیٹس کی ٹیم نے موجودہ وفاقی وزیر برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ اور آئی ٹی کی وزارت کے دیگر اعلیٰ عہدیداروں سے آئی ٹی انڈسٹری کی ترقی کے حوالے سے اپنا موقف دینے کی درخواست کی تو حیران کُن طور پر کسی بھی حکومتی عہدیدار نے جواب نہیں دیا۔

حکومت کے رجحان سے محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی اداروں میں بیٹھے ہوئے ذمہ داران اس بات پر زیادہ زور دیتے ہیں کہ آئی ٹی پروڈکٹس کو بڑھاوا دینے کی بجائے آئی ٹی ماہرین تیار کیے جائیں۔صرف ماہرین تیار کرنے سے بڑے پیمانے پر وہ فاہدہ حاصل نہیں کیا جا سکتا جو مقامی آئی ٹی انڈسٹری کی بین الاقوامی معیار کی پراڈکٹس تیار کرکے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ہم انویسٹی گیٹس کی تحقیقات کے مطابق وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تحت کُل سات ادارے ہیں جن میں  شامل تین اداروں کے ابھی تک بورڈز بھی مکمل نہیں۔ان اداروں میں سب سے اہم ادارہ پاکستان سافٹ وئیر ایکسپورٹ بورڈ کو بورڈ مکمل نہیں۔ اسی طرح یونیورسل سروس فنڈز اور نیشنل ٹیکنالوجی فنڈز یا اگنائیٹ کا بھی ابھی تک بورڈ نامکمل ہے۔ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے تمام گیارہ ذیلی اداروں کے بھی بورڈز ابھی تک نامکمل ہیں۔

مقامی سطح پر آئی ٹی ٹیکنالوجی کے استعمال اور حکومتی اداروں میں ڈیجیٹلائزیشن کی طرف مکمل توجہ نہیں دی جا سکی۔ وفاقی حکومت نے سرکاری دفاتر میں پیپر لیس ماحول کے فروغ کے لیے ای آفس سسٹم متعارف کرایا ہے تاہم تازہ ترین حقائق کے مطابق 40 وفاقی اداروں میں سے صرف 3 اداروں نے اس نظام کو مکمل طور پر اپنایا ہے جبکہ پانچ وزارتوں میں اس پراجیکٹ پر ابھی کام نہیں شروع ہو سکا۔اسی طرح فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ٹیکس وصولی کے عمل کو موثر بنانے کے لیے ڈیجیٹلائزیشن کی کوششیں کی ہیں۔ اس مقصد کے لیے پاکستان ریونیو آٹو میشن پرائیویٹ لمیٹڈ ( پرال) کے تعاون سے سافٹ وئیر حل فراہم کیے جا رہے ہیں۔

ترقی پذیر ممالک سے ہٹ کر ہمارے ہاں آئی ٹی کے شعبے میں حکومتی مدد ویسی نہیں جیسی ہونی چاہیے کیونکہ ہمارے ہاں آر اینڈ ڈی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے حوالے سے آئی ٹی کی وزارت بالکل خاموش ہے۔

معاہدوں سے نہ صرف پاکستان کی آئی ٹی کمپنیوں اورا سٹارٹ ایپس میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوئی ہے بلکہ اس سے مشترکہ منصوبوں، تربیتی پروگراموں اور جدید ٹیکنالوجیز کے لیے انوویشن سینٹرز، سینٹرز آف ایکسی لینس اور یونیورسٹی برانچوں کے ذریعے تحقیق اور جدت کو بڑھانے کے علاوہ فائبر آپٹک نیٹ ورکس، ڈیٹا سینٹرز اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔

اس حوالے سے مستقبل میں دونوں ممالک کے مابین ای گورننس، اسمارٹ انفراسٹرکچر، ای ہیلتھ، ای ایجوکیشن اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز جیسا کہ آرٹیفشل انٹیلی جنس، روبوٹکس، کلاؤڈ کمپیوٹنگ، ای گیمنگ اور بلاک چین میں بھی تعاون کو فروغ ملے گا۔ آئی ٹی برآمدات میں اضافے کے حوالے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اقدامات نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سلسلے میں ایکسپورٹرز کو خصوصی فارن کرنسی اکاؤنٹس میں موجود سرمایہ رکھنے کی حد 35 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کرنے کے فیصلے اور روپے کی قدر میں استحکام نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

گزشتہ پانچ سال کے دوران پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر کی برآمدات تقریبا دوگنا ہو چکی ہیں۔ تاہم گزشتہ چند سال کےاعدادو شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس شعبے کی ترقی کی شرح میں تسلسل نہیں۔ اس کی بڑی وجہ عالمی سیاسی و معاشی حالات اور پاکستانی حکومتوں کی پالیسیاں ہیں جو آئی ٹی کمپنیوں اور فری لانسرز کے کام کرنے کے ماحول اور مالیاتی معاملات کو براہ راست متاثر کرتی ہیں۔

اگر پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کو درپیش بنیادی مسائل حل ہو جائیں تو مختصر عرصے میں آئی ٹی ایکسپورٹس کو سالانہ 15 سے 20 ارب ڈالر سالانہ تک بڑھانے کے مواقع موجود ہیں۔اس حوالے سے حکومت کو تیز رفتار انٹرنیٹ کی بلاتعطل فراہمی اور مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی میں رکاوٹیں ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں آئی ٹی کمپنیوں اور فری لانسرز کو گزشتہ چند ہفتوں کے دوران انٹرنیٹ کی فراہمی میں جس تعطل اور سست روی کا سامنا کرنا پڑا وہ مایوس کن ہے۔

آئی ٹی بندش :پاکستان میں بھی مائیکرو سافٹ کے صارفین متاثر ہوئے، پی ٹی اے

آڈیٹر جنرل نے وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے حسابات میں جعل سازی، دھوکہ دہی، خورد برد، بدعنوانی، بے ضابطگیوں اور ریکارڈ کی عدم پیشگی سے متعلق سنگین آڈٹ مشاہدات اٹھائے ہیں، جو 8.27 ارب روپے کی رقم تک پہنچتے ہیں۔ آڈیٹر جنرل نے یہ مشاہدات اپنے سالانہ رپورٹ میں 2023-2024 کے آڈٹ سال کے لیے پیش کیے ہیں، جو مالی سال 2022-23 کا احاطہ کرتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، دھوکہ دہی، خورد برد اور بدعنوانی کے واقعات کی مجموعی رقم 11.85 ارب روپے ہے۔ 42.42 ارب روپے کی بے ضابطگیاں تجارتی بینکوں میں اکاؤنٹ انتظامی امور سے متعلق، 837.73 ملین روپے کی وصولیوں ، 748.37 ملین روپے کی ریکارڈ کی عدم پیشگی، 245.57 ملین روپے کی وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے ملازمین سے متعلق بے ضابطگیاں، 11.79 ملین روپے کی خریداری سے متعلق بے ضابطگیاں اور ایک ارب روپے کی بے ضابطگیاں “دیگر” کے تحت شامل ہیں۔

آڈیٹر جنرل نے نوٹ کیا کہ وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی نے محتاط کیش پیشنگوئی کے بغیر اضافی گرانٹس حاصل کیں۔ آڈٹ نے نشاندہی کی کہ وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی نے اپنی عمارت، وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کمپلیکس کا کرایہ وزارتِ منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات کو ماہانہ 768,490 روپے کی شرح پر مختص کیا تھا جس میں سالانہ 10 فیصد اضافہ ہوتا تھا۔ تاہم، وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی نے یہ کرایہ 6 مسلسل سالوں تک یکم اگست 2016 سے لے کر 31 جولائی 2022 تک وصول نہیں کیا، جس کی رقم 71.15 ملین روپے بنتی ہے۔

لیز معاہدہ 31 جولائی 2019 کو ختم ہو گیا تھا اور وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی نے نیا لیز معاہدہ نہیں کیا، آڈٹ رپورٹ کے مطابق کرایہ کی عدم وصولی وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی انتظامیہ کی غفلت ہے اور وزارتِ منصوبہ بندی نے عمارت کو غیر قانونی طور پر بغیر کسی لیز معاہدے کے قابض کیا ہے۔ آڈیٹر جنرل نے بقایا کرایہ کی وصولی کی سفارش کی ہے۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں یہ بھی سامنے آیا کہ وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی نے پانچ تنظیموں سے 20.89 ملین روپے وصول نہیں کیے جو وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کمپلیکس میں واقع ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More