بلاک بسٹر، سٹار، مسالہ فلم۔۔۔ ایسے الفاظ جو آج کل عام طور پر فلموں سے متعلق کسی بھی بات چیت کا حصہ ہوتے ہیں وہ کہاں سے آئے؟ یہ کہانی اس فلم سٹوڈیو کی ہے جہاں سے ان الفاظ نے ہماری زندگیوں میں قدم رکھے۔ جہاں حقیقی معنوں میں پہلی مسالہ بلاک بسٹر ہندی فلم اور پہلا بڑا سٹار سامنے آیا۔
اس سٹوڈیو کا نام بامبے ٹاکیز تھا۔ بامبے ٹاکیز نے نہ صرف 1930 اور 1940 کی دہائیوں کی سب سے بڑی ہندی فلمیں بنائیں بلکہ اشوک کمار، دلیپ کمار اور مدھوبالا جیسے سٹارز کو بھی پیدا کیا۔
آنے والے سالوں میں جس طرح سے کمرشل فلموں سے ہندی سنیما کی شناخت بنی ان فلموں کے فارمیٹ، نغمے، ڈرامہ، رومانس، اور بڑی کشمکش، یعنی وہ فارمولے جو آج بھی بالی وڈ کی بلاک بسٹر فلموں کا حصہ ہیں ان سب کی بنیاد بھی بامبے ٹاکیز میں رکھی گئی تھی۔
اس کا ایک اور خاص پہلو ہے جس کے بارے میں کم بات کی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ 1934 میں شروع ہونے والا بامبے ٹاکیز ملک کا پہلا کارپوریٹ فلم سٹوڈیو تھا۔ یہ ایک انتہائی منظم اور خود کفیل سٹوڈیو تھا جس میں بورڈ آف ڈائریکٹرز تھے۔ اس سٹوڈیو کے باقاعدہ شیئرز جاری کیے گئے تھے۔ منافع ہوا تو ڈیویڈنڈ اور بونس بھی دیے گئے۔ یہ سٹوڈیو سٹاک ایکسچینج میں بھی درج تھا۔
بامبے ٹاکیز کی کہانی
بامبے ٹاکیز ہمانشو رائے کے خوابوں کی تعبیر تھا۔ رائے ایک امیر بنگالی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ایک ایسے خاندان میں جو اس وقت ایک نجی تھیٹر کا مالک تھا۔ لیکن ان کی کہانی لندن سے شروع ہوتی ہے۔
کلکتہ (اب کولکتہ) سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ہمانشو رائے بیرسٹر بننے کے لیے لندن پہنچے لیکن انھیں وہاں تھیٹر کا شوق پیدا ہو گيا۔ انھوں نے ڈراموں میں اداکاری شروع کی اور لندن کے مشہور ویسٹ اینڈ میں بھی کام کیا۔ یہاں ان کی ملاقات انڈین ڈرامہ نگار نرنجن پال سے ہوئی۔
نرنجن مشہور آزادی پسند جنگجو بپن چندر پال کے بیٹے تھے اور لندن میں تھیٹر کی دنیا میں اچھی شہرت حاصل کر رہے تھے۔ لیکن نرنجن پال نے ہمانشو رائے کو اپنے ڈرامے 'دی گاڈس' کا ہیرو بنایا۔
اس کے بعد سنہ 1922 میں ہمانشو نے اپنی پڑھائی چھوڑ دی اور بیرسٹر بننے کے بجائے ایک تھیٹر گروپ بنا لیا جسے 'دی انڈین پلیئرز' کا نام دیا گیا اور اس کے تحت برطانیہ میں مختلف مقامات پر شوز کیے گئے۔
ہمانشو رائے کا پردے پر آنا
ہمانشو رائے فلمیں بنانا چاہتے تھے۔ اس وقت کی یورپی فلموں میں ہندوستانیوں کو نوآبادیاتی ذہنیت کے تحت ایک عجیب دقیانوسی تصور کے طور پر دکھایا جاتا تھا۔
ہمانشو رائے سینیما کی ایک نئی زبان تیار کرنا چاہتے تھے جو ہندوستانی معاشرے کی حقیقت کی عکاسی کرے، جو مکمل طور پر ہندوستانی ہو لیکن اس میں جدیدیت کا عنصر بھی ہو اور تکنیکی طور پر یورپی فلموں کے ساتھ کھڑا ہو سکے۔
اس ارادے کے ساتھ انھوں نے خاموش فلم 'دی لائٹ آف ایشیا' (ہندی نام 'پریم سنیاس') بنانے کا فیصلہ کیا جو گوتم بدھ کی کہانی پر مبنی تھی۔
اس کا سکرپٹ نرنجن پال نے لکھا تھا۔ 1924 میں وہ پال کے ساتھ جرمنی کے شہر میونخ گئے، جہاں انھوں نے ایملکا سٹوڈیوز کو ساتھ مل کر فلم بنانے کے لیے راضی کیا۔
فیصلہ کیا گیا کہ تکنیکی عملہ اور آلات ایملکا سے ہوں گے جبکہ بجٹ، اداکاروں اور مقامات کا انتظام ہمانشو رائے کو کرنا ہوگا۔
ہمانشو اور نرنجن نے چند مہینوں میں بمبئی سے رقم اکٹھی کی۔ ہمانشو رائے نے خود گوتم بدھ کا کردار ادا کیا اور جرمن فلمساز فرانز آسٹن کے ساتھ اس فلم کی مشترکہ ہدایت کاری بھی کی۔
جب راجاؤں نے اپنے ہاتھی، گھوڑے اور قلعے دیے
1925 میں ریلیز ہونے والی 'دی لائٹ آف ایشیا' بین الاقوامی سطح پر ریلیز ہونے والی پہلی ہندوستانی فلم تھی۔ اس نے گوتم بدھ کی کہانی کو پہلی بار مغربی سامعین تک پہنچایا۔
اس کے بعد رائے نے جرمنی کے مشہور یو ایف اے سٹوڈیوز کے ساتھ مل کر فلم 'شیراز' (1928) بنائی جو کہ تاج محل پر مبنی ایک محبت کی کہانی تھی اس کے ساتھ انھوں نے 'اے تھرو آف ڈائس' (1929) معروف رزمیہ مہابھارت کے ایک واقعہ پر مبنی فلم بنائی۔
تینوں فلموں کی ہدایت جرمن ڈائریکٹر فرانز آسٹن نے کی تھی اور ہیرو ہمانشو رائے تھے۔ ان فلموں کی زیادہ تر آؤٹ ڈور شوٹنگ انڈیا میں ہوئی۔ رائے کی درخواست پر، بہت سے بادشاہوں نے اپنے محلات، قلعے، ہاتھی، گھوڑے اور یہاں شوٹنگ کے لیے عوام کو دستیاب کرایا۔
اس انوکھی شوٹنگ کو یاد کرتے ہوئے ڈائریکٹر فرانز آسٹن نے اپنی ڈائری میں لکھا: 'پادریوں اور بھکاریوں کے کردار ایسے لوگوں نے ادا کیے جنھوں نے حقیقی زندگی میں بھی یہی کام کیا، اگلے دن مجھے فلم میں ایک ایسے آدمی کی ضرورت تھی جو مر جائے، میرے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایک ایسے آدمی کو لے کر آئے جو بہ مشکل سے سانس لے رہا تھا۔ میں گھبرا گیا لیکن اس شخص نے خود کہا کہ وہ ہر حال میں کل تک مر جائے گا اور پھر شوٹنگ بالکل اصل لگے گی۔ اور وہ شخص اس سین کی شوٹنگ کے دو دن بعد مر گيا۔'
شوٹنگ کے بعد فلموں کے نیگیٹو کو پراسیسنگ اور ایڈیٹنگ کے لیے جرمنی لے جایا گیا۔ غیر ملکی نقطہ نظر سے ہندوستانی ثقافت کو دکھانے والی یہ فلمیں برطانیہ اور جرمنی میں مقبول ہوئیں لیکن ہندوستان میں وہ نہ چلی جس سے رائے کو مایوسی ہوئی۔
تاہم تیسری فلم 'اے تھرو آف ڈائس' (ہندی نام 'پرپنچ پاش') کی تیاری کے دوران اہم واقعات رونما ہوئے جنہوں نے رائے کی زندگی اور کریئر کا رخ بدل دیا۔
دیویکا رانی سے ملاقات
اسی دوران ہمانشو رائے کی ملاقات فیبرک ڈیزائنر دیویکا رانی سے ہوئی جو لندن کے ایک آرٹ سٹوڈیو میں کام کر رہی تھیں۔ مغربی طرز میں پلی بڑھی دیویکا رانی معروف ادیب رابندر ناتھ ٹیگور کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔
وہ نو سال کی عمر سے ہی انگلینڈ میں مقیم تھیں اس لیے وہ اس سے پوری طرح واقف تھیں۔
ہمانشو کو بولڈ، بے باک اور گلیمرس دیویکا پہلی نظر میں ہی پسند آ گئیں اور انھوں نے دیویکا کو 'اے تھرو آف ڈائس' کے سیٹ پر کام کرنے کے لیے بلایا۔
ہمانشو شادی شدہ تھے۔ انھوں نے جرمن خاتون میری ہینلین سے شادی کی تھی جو ایک اداکارہ اور ڈانسر تھیں لیکن اس فلم میں کام کرتے ہوئے ہیمانشو اور دیویکا میں محبت ہو گئی اور 1929 میں انھوں نے شادی کر لی۔
دیویکا ہمانشو سے تقریباً 15 سال چھوٹی تھیں۔ اس فلم کی تیاری کے دوران ہیمانشو کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ فلم کی دنیا میں بھی ایک بڑا واقعہ پیش آیا۔ دنیا کی پہلی گویا یعنی بولتی فلم 'دی جاز سنگر' ہالی وڈ میں ریلیز کر دی گئی۔
'کرما' اور کسنگ سین
اس کے ساتھ ہی گویا فلموں کا دور شروع ہو چکا تھا۔ ہمانشو رائے نے اپنی اگلی فلم 'کرما' کو دو زبانوں (ہندی اور انگریزی) میں بنانے کا فیصلہ کیا۔ رائے کی فلموں نے یورپ میں نام تو شہرت حاصل کی تھی لیکن ہندوستان میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔
'کرما' کے ذریعے وہ بمبئی فلم انڈسٹری کو دکھانا چاہتے تھے کہ ہندوستانی کہانی پر مبنی فلم ہالی وڈ کے معیار کی بھی ہو سکتی ہے۔
گلیمرس دیویکا رانی کو 'کرما' میں ہیروئن کے طور پر کاسٹ کیا گیا، حالانکہ دیویکا کی پہلی فلم ہمانشو رائے کی بطور ہیرو آخری فلم ثابت ہوئی۔
اس فلم میں دونوں نے پڑوسی ریاستوں کے حکمرانوں کا کردار ادا کیا جو ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ فلم میں دونوں کے درمیان بوسہ لینے کا ایک انتہائی مقبول سین بھی تھا جو سنیما کی تاریخ میں یادگار مانا جاتا ہے۔
اس 'کِس' سین کو اکثر ہندی فلموں کا پہلا 'لِپ لاک' اور ہندی فلموں کا 'سب سے طویل کسنگ سین' کہا جاتا ہے، لیکن یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ اس وقت ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی اور اس دور کی کچھ اور فلموں میں بھی بوسے کے مناظر تھے۔
دیویکا رانی: بالی وڈ کے ’طویل ترین فلمی بوسے‘ سے جڑے افسانے مدھو بالا جن کے حُسن کا شہرہ اُن کی اداکاری پر بھاری رہا: دلیپ کمار سے محبت مگر کشور کمار سے ’بےجوڑ‘ شادی کی کہانیبالی وڈ میں ذات پات: ہندی فلموں میں دلت ہیرو کیوں نہیں ہوتے؟انتظار حسین جو ہندوستانی سینما کی ’رینوکا دیوی‘ پر مر مٹے
کرما کی زیادہ تر شوٹنگ ہندوستان میں ہوئی لیکن اسے مکمل ہونے میں دو سال سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔ اس کی وجہ اس کی فلم بندی کے دوران پیدا ہونے والا گریٹ ڈپریشن تھا جس کی وجہ سے پوری دنیا میں معاشی بحراندر آیا تھا۔
آخر کار مئی 1933 میں انگریزی فلم کرما کا لندن میں پریمیئر ہوا۔ فلم نے اچھا بزنس نہیں کیا لیکن دیویکا رانی کی خوبصورتی اور ان کے انگریزی تلفظ کو بہت سراہا گیا۔
پھر اس سال نازی پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہمانشو رائے کا جرمنی میں بنایا گیا فلمی نیٹ ورک متاثر ہوا۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ بین الاقوامی فلم پروڈکشن کے بجائے اب وہ ہندوستان کی گھریلو فلم مارکیٹ پر توجہ مرکوز کریں گے۔
1933 کے آخر میں ہمانشو رائے اور دیویکا رانی ہندوستان واپس آگئے۔ وہ اپنے ساتھ فلم 'کرما' کا ہندی ورژن بھی لے کر آئے تھے۔ 'کرما' 27 جنوری 1934 کو بمبئی میں ریلیز ہوئی اور فلاپ ہوگئی۔
ہالی وڈ کی طرز پر 'بامبے ٹاکیز' کی بنیاد
اب تک پونے میں پربھات فلم کمپنی اور کولکتہ میں نیو تھیٹر جیسے سٹوڈیوز شروع ہو چکے تھے۔ رائے کا خواب تھا کہ بمبئی میں ہالی وڈ جیسا بڑا سٹوڈیو بنایا جائے جو فلم انڈسٹری کا حقیقی مرکز بن سکے۔
فلموں کے لیے فنڈنگ کا مسئلہ ہمیشہ سے تھا۔ زیادہ تر پیسہ روایتی ساہوکاروں سے لیا گیا، جن کی سخت شرائط تھیں اور وہ فلم کے کاروبار کو بھی نہیں سمجھتے تھے۔
رائے کا خیال تھا کہ فلم پروڈکشن کو ایک منظم اور پیشہ ورانہ شکل دی جانی چاہیے، پیسہ اکٹھا کرنے کے لیے زیادہ قابل اعتماد اور رسمی طریقے استعمال کیے جائیں۔
بات صرف پیسے کی نہیں تھی بلکہ وہ فلم انڈسٹری کو ایک تخلیقی کاروبار کے طور پر معاشرے میں ایک باعزت مقام دینا چاہتے تھے۔
اسی جذبے سے سٹوڈیو کے لیے زمین کی تلاش کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان کی تلاش بمبئی کے نواح ملاڈ میں ختم ہوئی۔ بمبئی کے بڑے تاجر راج نارائن دوبے نے اس پر اپنا سرمایہ لگایا۔
اسی جگہ ساؤنڈ پروف شوٹنگ فلور، ایڈیٹنگ رومز اور پریویو تھیٹر والا ایک جدید سٹوڈیو بن کر تیار ہوا جس کا نام بامبے ٹاکیز لمیٹڈ رکھا گیا۔
نرنجن پال بھی بانی ٹیم کا ایک اہم حصہ تھے۔
ملک کے جدید ترین فلمی سٹوڈیو کی تعمیر کے خواب کو آگے بڑھاتے ہوئے بامبے ٹاکیز نے جرمنی سے جدید آلات خریدے اور جرمن اور برطانوی پیشہ ور افراد کو بھرتی کیا، جن میں سینماٹوگرافر جوزف ورشنگ، آرٹ ڈائریکٹر کارل وون سپریٹی اور ڈائریکٹر فرانز آسٹن شامل تھے۔
ہالی وڈ کی طرز پر ہمانشو اور دیویکا تخلیقی کاموں پر توجہ دیتے تھے جبکہ فنانس اور بزنس کی دیکھ بھال کے لیے ایک الگ ٹیم تھی جس کی ذمہ داری راج نارائن دوبے پر تھی۔
یہ طے تھا کہ دیویکا رانی بامبے ٹاکیز کی فلموں میں ہیروئن ہوں گی۔ لیکن پہلی ہی فلم میں ایک سکینڈل سامنے آگیا۔
'جوانی کی ہوا'
بامبے ٹاکیز کی پہلی فلم 'جوانی کی ہوا' ایک مرڈر مسٹری تھی۔ فلم کے ہیرو کو ہمانشو رائے نے خود منتخب کیا تھا۔ وہ انتہائی خوبصورت نجم الحسن تھے۔
مصنف بھائی چند پٹیل اپنی کتاب 'ٹاپ 20: سپر سٹارز آف انڈین سنیما' میں لکھتے ہیں کہ 'حسن ایک لمبا اور پرکشش نوجوان تھا اور اس کا تعلق لکھنؤ کے نواب خاندان سے تھا۔ بامبے ٹاکیز نے ان سے کئی فلموں کے لیے معاہدہ کیا تھا۔'
ہمانشو رائے سٹوڈیو قائم کرنے کے شوق کی وجہ سے ہر وقت کام میں مصروف رہنے لگے۔ اس دوران سٹوڈیو میں افواہ پھیل گئی کہ نجم الحسن کا ان کی نوجوان بیوی دیویکا کے ساتھ افیئر چل رہا ہے۔
بھائی چند پٹیل لکھتے ہیں: 'نرنجن پال نے الزام لگایا کہ دیویکا فلم جوانی کی ہوا کی شوٹنگ کے دوران اپنے ساتھی اداکار کے قریب آگئی تھیں۔'
ممبئی سے لاپتہ ہونے والا دیویکا اور نجم کا جوڑا کلکتہ میں ملا
'جوانی کی ہوا' 1935 میں ریلیز ہوئی اور دیویکا-نجمل کی جوڑی ہٹ رہی۔ اس جوڑی کے ساتھ اگلی فلم 'جیون نیا' کی شوٹنگ بھی شروع کی گئی تھی۔
لیکن شوٹنگ کے دوران اچانک دیویکا اور نجم غائب ہو گئے۔ سکینڈل اس وقت پھوٹ پڑا جب یہ انکشاف ہوا کہ دیویکا نجم الحسن کے ساتھ کلکتہ میں تھیں۔
بالآخر دونوں کلکتہ کے گرینڈ ہوٹل میں ملے۔ دیویکا سٹوڈیو کی بڑی ہیروئن تھیں۔ رائے کے قریبی ساتھی ششدھر مکھرجی نے کسی طرح دیویکا کو راضی کیا اور اسے واپس لے آئے۔
لیکن رائے اور دیویکا کا رشتہ اس کے بعد پہلے جیسا نہیں رہا۔ نجم الحسن کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا اور ان کے ساتھ بنی ریلیں تباہ کر دی گئیں۔ 'جیون نیا' کے لیے نئے ہیرو کی تلاش شروع ہو گئی ہے۔
'قسمت' سے ہندی سنیما کا پہلا 'سٹار' ملا
بامبے ٹاکیز کے لیب ٹیکنیشن کمدلال کنجی لال گنگولی کی قسمت نے اچانک کروٹ لی جب ہمانشو رائے نے انھیں ہیرو بنانے کا فیصلہ کیا۔
کمدلال کنجی لال گنگولی کا فلمی نام اشوک کمار رکھا گیا اور وہ اسی نام سے مشہور ہوئے۔ یہ فیصلہ کتنا تاریخی تھا اس کا اندازہ آنے والے برسوں میں ہوا جب اشوک کمار ہندی سنیما کے پہلے 'سٹار' بن گئے۔
1936 میں آئی 'جیون نیا' تو نہیں چل پائی لیکن اگلی فلم 'اچھوت کنیا' نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ ایک دلت لڑکی اور ایک برہمن لڑکے کی المناک محبت کی کہانی نے اشوک کمار کو ہیرو کے طور پر قائم کر دیا۔
دیویکا-اشوک کی جوڑی نے ایک ساتھ کئی فلمیں کیں لیکن 'اچھوت کنیا' ان کی سب سے یادگار فلم مانی جاتی ہے۔
بامبے ٹاکیز نے ہر سال تقریباً تین فلمیں بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ تقریباً 400 افراد کے عملے اور بہترین تکنیکی آلات کے ساتھ وہ سال بہ سال ہٹ فلمیں بناتے رہے۔
دیگر ہندوستانی سٹوڈیوز کے مقابلے ان کی فلمیں تکنیکی اعتبار سے بہتر تھیں۔ ان میں ایک خاص چمک تھی، جو ہالی وڈ کے ایم جی ایم سٹوڈیوز کی فلموں کی یاد تازہ کرتی تھی۔
دیویکا رانی کو ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ گریٹا گاربو کی طرح سکرین پر پیش کیا گیا۔
بامبے ٹاکیز کو بڑا دھچکا
1939 میں بامبے ٹاکیز کو اچانک ایک جھٹکا لگا کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے آغاز کے بعد برطانوی حکومت نے جرمن تکنیکی ماہرین کے ساتھ ساتھ جوزف ویرشنگ اور فریڈ آسٹن کو بھی طلب کر لیا جنھوں نے سٹوڈیو کے لیے 16 فلموں کی ہدایت کاری کی۔
انگریزوں نے بہت سے جرمن عملے کو گرفتار کر کے کیمپ میں قید کر دیا جن کی کمی کی وجہ سے سٹوڈیو کا تکنیکی معیار بری طرح متاثر ہوا۔
نئی ٹیم بنانے اور مسلسل فلمیں بنانے کے دباؤ کی وجہ سے ہمانشو رائے کا نروس بریکڈاؤن ہو گیا۔ ہمانشو رائے 16 مئی 1940 کو صرف 48 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔
ہمانشو کی موت نے دیویکا رانی کو ہلا کر رکھ دیا لیکن انھیں سٹوڈیو کو سنبھالنا پڑا۔ بامبے ٹاکیز کی کمان اب 'انڈین سنیما کی پہلی خاتون' دیویکا رانی کو دی گئی تھی۔
ہندی سنیما کا رجحان ساز قدم
اس دور کے ہندوستان میں، ایک عورت کے لیے فلم سٹوڈیو چلانا ایک جرات مندانہ آغاز تھا۔ لیکن ہمانشو رائے کے بعد سٹوڈیو میں دو دھڑے بن گئے اور اقتدار کی کشمکش شروع ہوگئی۔ دیویکا نے اپنی پوری قوت سے اس کا مقابلہ کیا اور 'بسنت' اور 'قسمت' جیسی بڑی ہٹ فلمیں دیں۔
دیویکا کے دور میں ہی بامبے ٹاکیز کی سب سے بڑی ہٹ اور ہندوستان کی پہلی 'بلاک بسٹر' فلم 'قسمت' (1943) بنی تھی۔ گیان مکھرجی کی ہدایت میں بننے والی یہ فلم کولکتہ کے راکسی سنیما میں تین سال سے زیادہ چلی۔ اس فلم نے بالی وڈ میں کئی نئے رجحانات قائم کئے۔
پہلی بار کسی ہندی فلم میں مرکزی کردار (اشوک کمار) کو چور اور اینٹی ہیرو کے طور پر دکھایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ قسمت ان پہلی فلموں میں سے ایک تھی جس میں 'بچھڑنے اور ملنے' کی کہانی تھی۔
اس میں ہیرو بچپن میں اپنے والدین سے بچھڑ جاتا ہے اور آخر کار ان سے مل جاتا ہے۔ اس کے بعد کئی دہائیوں تک ہندی فلموں میں اس فارمولے کو اپنایا گیا۔
فلم کا گیت 'دور ہٹو اے دنیا والو، ہندوستان ہمارا ہے' آج تک یاد ہے۔
Getty Imagesکمدلال کنجی لال گنگولی کا سکرین نام اشوک کمار پڑااشوک کمار کی دیویکا رانی سے بغاوت
اسی سال دیویکا رانی نے اپنی آخری فلم ہماری بات (1943) میں کام کیا۔ نئے اداکار راج کپور نے بھی اس میں ایک چھوٹا سا کردار ادا کیا۔
بامبے ٹاکیز نے نہ صرف اشوک کمار دیا بلکہ سٹوڈیو کی سربراہ کے طور پر دیویکا رانی نے ہندی سنیما کو دلیپ کمار اور مدھوبالا جیسے بے مثال سٹارز بھی دیے۔ لیکن مسائل بڑھتے رہے۔
اشوک کمار نے گیان مکھرجی اور ششدھر مکھرجی کے ساتھ مل کر کئی معاملات پر دیویکا رانی کے خلاف بغاوت کی۔ پھر انھوں نے بامبے ٹاکیز چھوڑ کر فلمستان کے نام سے ایک نیا سٹوڈیو شروع کیا۔
دیویکا ان پر قابو نہیں پا سکی۔ 1945 میں دیویکا رانی نے بامبے ٹاکیز میں اپنے حصص فروخت کر دیے اور روسی پینٹر سویتوسلاو روریچ سے شادی کر لی۔ فلم انڈسٹری کو الوداع کہہ کر وہ بنگلور چلی گئیں۔
دیویکا رانی کو ہندوستان کے سب سے بڑے سینیما اعزاز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انھوں نے 9 مارچ 1994 کو بنگلور میں آخری سانس لی۔
بامبے ٹاکیز کا اختتام
دیویکا کے سٹوڈیو چھوڑنے کے بعد اشوک کمار اور کچھ معمر لوگ بامبے ٹاکیز میں واپس آگئے، جس کے بعد مجبور (1948)، ضدی (1948) اور محل (1949) جیسی کامیاب فلمیں بھی بنیں، لیکن سٹوڈیو اپنی پرانی شہرت اور شان کو دوبارہ حاصل نہ کرسکا۔
1954 کی فلم 'بادبان' بامبے ٹاکیز کی آخری فلم ثابت ہوئی۔ 2023 میں تیار ہونے والی پرائم ویڈیو کی کامیاب سیریز 'جوبلی' کی کہانی کے بہت سے حصے بامبے ٹاکیز کی تاریخ سے متاثر تھے۔
اپنے 20 سال کے سفر میں بامبے ٹاکیز نے 40 فلمیں بنائیں اور کئی بڑے سٹارز دیے۔
سب سے بڑھ کر، تکنیکی مہارت اور کہانی سنانے کا فلمی انداز جو اس سٹوڈیو نے ترتیب دیا ہے وہ آج بھی ہماری فلموں کی روح کا ایک اہم حصہ ہے۔
دیویکا رانی: بالی وڈ کے ’طویل ترین فلمی بوسے‘ سے جڑے افسانے انتظار حسین جو ہندوستانی سینما کی ’رینوکا دیوی‘ پر مر مٹےمدھو بالا جن کے حُسن کا شہرہ اُن کی اداکاری پر بھاری رہا: دلیپ کمار سے محبت مگر کشور کمار سے ’بےجوڑ‘ شادی کی کہانیادت نارائن پر فینز کو بوسہ دینے پر تنقید: ’جب میں گا رہا ہوتا ہوں تو لوگوں پر جنون سوار ہو جاتا ہے‘جب دلیپ کمار پر ’پاکستان کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام‘ لگا اور نشانِ امتیاز ملنے پر ہنگامہ برپا ہواطلعت حسین: پاکستانی ٹیلی ویژن کے ’دلیپ کمار‘ جن کی ڈائیلاگ کے بعد خاموشی بہت کچھ کہہ جاتی