انڈوں میں پائی جانے والی ’دماغ کی غذا‘ جس کے بارے میں آپ بہت کم جانتے ہیں

بی بی سی اردو  |  Apr 15, 2025

Getty Images/ Serenity Strull/ BBCماہرین کولین کو دماغ کی اہم غذا قرار دیتے ہیں

کولین ایسا مرکب ہے جس کا تعلق ذہنی صلاحیت کو بہتر کرنے اور ہمارے اندر بے چینی کم کرنے سے ہوتا ہے۔ لیکن کیا آپ اس کی مناسب مقدار حاصل کر رہے ہیں؟

شاید اس پہلے آپ نے کولین کے بارے میں نہ سنا ہو۔ لیکن مطالعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہماری زندگی کے مختلف مراحل میں یہ ہماری صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔

کولین نہ تو وٹامن ہے اور نہ ہی منرل ہے۔ بلکہ یہ نامیاتی مرکب ہے جو کہ انسان کے صحت مند اعصابی نظام کے لیے ضروری ہے۔

اب بہت سے حقائق سامنے آ رہے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ زیادہ کولین لینے کے بہت طاقتور اثرات مرتب ہوتے ہیں جو کہ ہماری ذہنی صلاحیتوں کو بہتر کرنے سے لے کر اعصابی نشوونما میں خلل سے بچاتا ہے۔

یہ ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر، اے ڈی ایچ ڈی اور ڈیسلیکسیا (پڑھنے لکھنے میں مشکلات) جیسے امراض روکنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

یہ ایسی غذا ہے جو کہ انسان کی اعصابی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

ایک تحقیق میں یہ سامنے آیا ہے کہ ایسے بچے جن کی مائیں ان کی پیدائش سے پہلے حمل کے دوران کولین سپلیمنٹس لے رہی تھیں ان میں پیدائش کے بعد باتوں کو سمجھنے میں تیزی دیکھی گئی جو کہ صحت مند علمی کارکردگی کا پیمانہ ہے۔

اہم غذا

زین ین جیناگ، امریکہ میں نیویارک کے بروکلین کالج میں ہیلتھ اور نیوٹریشن سائنسز میں پروفیسر ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کولین ایک انتہائی اہم غذا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’ہمیں اپنی صحت کے لیے اس کی ضرورت ہے لیکن ہمارے جسم اس کی مناسب مقدار نہیں بنا پاتے، اس لیے ہمیں اپنی خوراک سے اسے حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

ایما ڈربی شائر سائنس کے موضوع پر لکھتی ہیں اور نیوٹریشنل انسٹائٹ نامی کنسلٹنسی کی بانی اور سی ای او ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کولین اومیگا تھری فیٹی ایسیڈ سے ملتا جلتا ہے اور دراصل یہ وٹامن بی سے قریب ترین ہے۔

کولین پودوں کی نسبت جانوروں سے حاصل ہونے والی خوراک میں زیادہ پایا جاتا ہے جس میں بیف/گوشت، انڈے، مچھلی، مرغی اور دہی شامل ہے۔ مگر مونگ پھلی، لوبیہ، مشرومز اور سبزیبں جیسا کہ بروکلی وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔

ہمارے جسم میں مختلف افعال کے لیے کولین کی ضرورت ہوتی ہے بشمول ہمارے جگر کے نظام کے لیے۔ اس کی مناسب مقدار نہ ہونے کی وجہ سے مختلف مسائل ہو سکتے ہیں۔

جیانگ کا کہنا ہے کہ کولین کی مدد سے جگر کی چربی کم ہوتی ہے اور جس انسان میں کولین کی کمی ہوتی ہے ان کا ’فیٹی لیور‘ یعنی چربی سے متاثرہ جگر ہوتا ہے۔

Getty Images سویابین میں بھی کولین سے بھرپور غذا ہے، 100 گرام میں 120 ملی گرام کولین پائی جاتی ہے

کولین جسم کو فاسفو لپڈ بنانے میں بھی مدد فراہم کریا ہے جو کہ ہمارے خلیوں کی جھلی بنانے میں ایک اہم جزو ہے۔

اس غذا کی کمی ہمارے خلیوں کی تعداد میں اضافے کے عمل میں شامل جینز کو متاثر کرسکتی ہے۔

جنین کی نشوونما کے دوران کولین کی کمی خاص طور پر خطرناک ہوتی ہے کیونکہ یہ دماغ کے خلیوں کے پھیلاؤ کو متاثر کرتی ہے۔

ڈربی شائر کا کہنا ہے کہ کولین کا کردار ہمارے دماغ کے لیے بہت ضروری ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ ہمارے دماغ کی بنیادی غذا ہے۔یہ ہمارے جسم کو نیورو ٹرانسمیٹر ایسٹیلکولین پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے،جو ایک کیمیکل ہے جو آپ کے دماغ سے آپ کے جسم تک پیغامات پہنچاتا ہے۔

ایسٹیلکولین ہم دماغ کے اعصابی خلیوں کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی یاداشت، سوچنے سمجھنے اور سیکھنے کے لیے ان کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایک تحقیق میں تقریباً 1400 افراد کو شامل کیا گیا جس میں 36 سے 83 برس کے لوگ شامل تھے۔

محققین نے یہ دیکھا کہ جو لوگ زیادہ کولین لیتے تھے ان کی یاداشت بہتر تھی اور درمیانی زندگی کے دوران کولین کا استعمال ہمارے دماغ کی حفاظت میں مدد کرسکتا ہے۔

کولین کو عام طور پر ’نوٹرپکس‘ کے طور پر لیے جانے والے سپلیمنٹس میں ایک جزو کے طور پر شامل کیا جاتا ہے یہ مادوں کا ایک متنوع گروپ جس کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سیکھنے کی صلاحیت اور یادداشت کو بڑھا سکتا ہے۔

دوسری جانب کولین کی کمی کو الزائمر اور پارکنسن کی بیماری جیسے نیوروڈیجینریٹو خرابیوں سے بھی منسلک کیا گیا ہے۔

ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ کولین کا زیادہ استعمال اضطراب کی کم سطح سے وابستہ تھا۔ ایک اور مطالعہ میں، کولین کی زیادہ غذا کا استعمال ڈپریشن کے کم خطرے سے منسلک تھا۔

مناسب مقدار میں کولین لینے سے بہت سے دیگر فوائد بھی ہوتے ہیں۔

چوہوں پر کی جانے والی ایک تحقیق میں یہ معلوم ہوا کہ یہ ہوموسسٹین کے لیول کو کم کرتا ہے، یہ ایک امائنو ایسڈ ہے جو ہارٹ اٹیک کے خطرے کو بڑھا دیتا ہے۔

ہوموسسٹین کی زیادتی اوسٹو پیروسس (کمزور اور بھربھری ہڈیوں کی بیماری) سے بھی تعلق رکھتی ہے۔

تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ جو لوگ کولین زیادہ کھاتے ہیں ان کی ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں اور ان میں فریکچر کا خدشہ کم ہوتا ہے۔

اوئن جانک جو کہ ناروے میں میرین ریسرچ سے وابستہ محقق ہیں کا کہنا ہے کہ کولین ممکنہ طور پر ہڈیوں و پہنچنے والے نقصان کے خلاف کام کرتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ جزوی طور پر ہوموسسٹین کی وجہ سے ہوسکتا ہے لیکن اس وجہ سے بھی کہ کولین ہمارے خلیوں کی جھلی میں ایک لازمی ڈھانچہ ہے۔

ذہنی صحت اور یاداشت کو بہتر رکھنے کے لیے دہی اور ہلدی سمیت چھ بہترین غذائیں کون سی ہیں؟آپ کے دماغ کی صحت کے لیے کون سا وٹامن بہترین ہےایسا دفتر جہاں تمام افراد آٹسٹک ہیںخواتین میں آٹزم کی تشخیص مشکل کیوںپہلے 1000 دن

یہ ثابت شدہ بات ہے کہ بچے کی زندگی میں پہلے دو سال اس کی نشوونما کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں اور ماں کی حملاور دودھ پلانے کے دوران خوراک کا اس پر لازمی طور پر اثر ہوتا ہے۔

تحقیق کے مطابق رحمِ مادر میں کولین بچے کی نشوونما کے لیے بہت اہم ہے۔ درحقیقت بچے پیدائش کے وقت اپنی ماں سے تین گنا زیادہ کولین کے حامل ہوتے ہیں، ڈربی شائر کا کہنا ہے کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عمر کے اس مرحلے میں کولین کتنی اہم ہوتی ہے۔

بہت سی تحقیقات میں یہ سامنے آیا ہے کہ کولین کی رحمِ مادر میں فراہمی اور بعد میں پیدا ہونے والے بچے کی ذہنی صلاحیت میں تعلق پایا جاتا ہے، اور اس کے فوائد بچے کی نشوونما کے ساتھ سالوں تک جاری رہ سکتے ہیں۔

ایک تحقیق میں سامنے آیا کہ ایک حاملہ خاتون جو کہ حمل کے 13 سے 28 ویں ہفتے یعنی سیکنڈ ٹرائمسٹر کے دوران اپنی خوراک میں کولین کی بہت زیادہ مقدار لیتی تھیں۔ ان کے بچوں کے جب سات سال کی عمر میں شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم میموری ٹیسٹ لیتے گئے تو ان کا سکور بہت زیادہ تھا۔

کچھ تحقیقات میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ اگر حاملہ خواتین کولین کی کم مقدار کھاتی ہیں تو بچوں کے اندر اے ڈی ایچ ڈی یعنی ان کے ندع اضطراب، توجہ میں ارتکاز، بہت زیادہ متحرک جیسی کیفیات کے خطرات ہوتے ہیں۔

Getty Imagesایک تحقیق کے مطابق جو لوگ انڈے کھاتے ہیں ان میں دیگر افراد کے مقابلے میں دوگنی کولین موجود ہوتی ہے۔

ڈربی شائر کہتی ہیں کہ ’ہم سکولوں میں بہت سے ایسے بچے دیکھتے ہیں جن میں توجہ میں ارتکاز اور اضطراب دکھائی دیتا ہے یا جو پڑھنے لکھنے میں سیکھنے کی اہلیت عام بچوں جیسی نہیں رکھتے۔ ایسے بچوں میں کچھ میں تو یہ علامات جینیاتی ہوتی ہیں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ بچہ دانی میں انھیں اہم غذائیت نہیں مل پا رہی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ انتہائی اہم اعصابی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوتی ہیں اور ان پر بعد میں اثر انداز ہوتی ہیں۔ ہم اب ان کے تنائج کا علاج کر رہے ہیں۔

ماہرین نے حمل اور بچے کو پیدائش کے بعد ماں کے دودھ کے ذریعے کولین کی سپلائی اور دماغ کی نشوونما پر اس کے اثرات کے بارے میں تحقیق کی۔

ان کا کہنا ہے کہ جانوروں می تحقیق میں یہ سامنے آیا کہ جب ماں میں کولین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے تو ان کے بچے کی ذہنی نشوونما اور صلاحیت زیادہ بہتر ہوتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ہم نے اگرچہ بالکل ایسے ہی نہیں لیکن اس جیسے نتائج کے لیے انسانوں پر تحقیقات کا آغاز کیا ہے۔

کیا ہم مناسب مقدار میں کولین لے رہے ہیں؟

یورپ میں یورپی سیفٹی اتھارٹی ای ایف ایس اے نے اپنی تجاویز میں کولین کی مقدار کے بارے میں بتایا ہے کہ:

بالغ افراد: 400 ملی گرامحاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین: 480 سے 520 ملی گرام لیں۔امریکہ میں انسٹی ٹیوٹ آف میڈیسن ( آئی او ایم) نے 1998 میں پہلی بار کولین کے بارے میں بتایا کہ مردوں کے لیے : 550 ملی گرامعورتوں کے لیے: 425 ملی گرامحاملہ خواتین: 450 ملی گرامدودھ پلانے والی مائیں: 550 ملی گرام

ایک انڈے میں اوسطً 150 ملی گرام کولین ہوتی ہے جبکہ چکن بریسٹ میں 72 ملی گرام اور ایک مٹھی مونگ پھلی میں 24 ملی گرام کولین ہوتی ہے۔

سنہ2017 میں امریکی میڈیا ایسوسیایشن نے تجویز کیا تھا کہ حاملہ خواتین کو کولین کی مقدار لیں تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس سپلیمنٹ میں کولین کے شواہد ہیں۔

Getty Imagesمونگ پھلی میں کولین کی بڑی مقدار ہوتی ہےدماغ کی خوراک

سنہ 2020 میں جانوروں پر 38 اور انسانی پر کی جانے والی 16 تحقیقات میں یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ کولین کے سپلیمنٹ دماغ کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

بہرحال فقط جانوروں پر کی جانے والی حالیہ تحقیقات کولین اور استدلالی اہلیت میں بہتری کے مضبوط تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔

اس تحقیق میں سپلیمنٹ کی کسی مخصوص مقدار کو واضح نہیں کیا گیا تاہم کہا گیا ہے کہ انسانوں پر کی جانے والی تحقیقات میں کولین کی روزانہ کی بنیاد پر 930 ملی گرام کولین استعمال کی گئی تھی۔ یہ وہ مقدار ہے جو تقریباً چھ انڈوں میں موجود ہوتی ہے اور اس کے استعمال سے کوئی منفی اثرات نہیں دیکھے گئے۔

ماہرین کے مطابق کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنھیں تجویز کردہ کولین کے مقابلے میں زیادہ کولین کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں ایسی خواتین بھی شامل ہیں جن کی ماہواری کا عمل رُک چکا ہے۔ مثلاً وہ خواتین جن میں ایسٹروجین ہارمون کم ہو گیا ہے اور ایسے لوگ جو جگر میں زیادہ چربی کی بیماری میں مبتلا ہیں۔

ڈربی شائر کا کہنا ہے کہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ انسانوں میں مختلف جینیاتی خصوصیات ہوتی ہیں۔ اس لیے کچھ لوگوں کو دوسروں کے مقابلے کولین کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

ڈربی شائر نے اس سے پہلے مارلو فوڈز، دی میٹ ایڈوائزری پینل، دی ہیلتھ سپلمنٹ انفارمیشن سروس اور برٹش ایگ انفارمیشن سروس اور دیگر ادارو کے لیے کنسلٹنٹ کے طور پر کام کیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ہم وہ خوراک کھاتے ہیں جس میں کولین موجود ہو تو وہ باآسانی ہمارے خون میں شامل ہو جاتی ہے۔

تاہم بہت سی تحقیقات میں یہ سامنے آیا ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ کولین کی ضروری مقدار نہیں لے رہے۔

ایک مطالعے میں یہ سامنے آیا ہے کہ امریکہ میں فقط 11 فیصد بالغ افراد کولین کو اتنی مقدار میں لے رہے ہیں جتنی کی تجویز کی گئی ہے۔

کولین کا ایک اور طاقتور ذریعہ انڈے بھی ہیں۔ یہاں ایک تشویش یہ بھی ہے کہ وہ لوگ جو فقط سبزی کھاتے ہیں وہ شاید اس غذا کو مناسب مقدار میں نہیں لے رہے۔

اگرچہ بہت ترقی یافتہ ممالک میں بہت سے ایسے پودے ہیں جو کہ کولین سپلیمنٹ کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔

ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ وہ لوگ جو لوگ انڈے کھاتے ہیں ان میں انڈے نہ کھانے والوں کے مقابلے کولین کی مقدار دگنی ہوتی ہے۔

ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر مناسب مقدار میں کولین لینا انڈے کھائے بغیر یا پھر سپلیمنٹ لیے بغیر ’انتہائی مشکل‘ ہے۔

ماہرین کے مطابق جو لوگ اپنی ڈائٹ پلان کر رہے ہیں انھیں ای ایف ایس اے نے روزانہ 400 گرام کولین کی تجویز کی ہے۔

اسی طرح جو لوگ گوشت خور نہیں یعنی صرف سبزیاں کھاتے ہیں ان کے لیے ٹوفو میں (ہر 100 گرام میں 28 ملی گرام)، پینٹ بٹر (ہر 100 گرام میں 61 سے 55 ملی گرام ) اور سوئے بین (ہر سو گرام میں 120 ملی گرام) کولین شامل ہے۔

ماہرین کے مطابق ہر وہ شخص جسے لگے کہ وہ مناسب مقدار میں کولین نہیں لے رہا اسے چاہیے کہ وہ روزانہ سپلیمنٹ لے۔

ان کا کہنا ہے کہ ابھی انسانوں اور جانوروں پر کولین کے میکنزم کو صحت کے حوالے سے سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

ڈربی شائر کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرز کولین کے بارے میں زیادہ آگاہ ہیں۔

اگرچہ اسے اکثر تھوڑا سا نظر انداز کیا جاتا ہے تاہم وہ پرامید ہیں کہ جلد ہی یہ غذا عوامی توجہ حاصل کرے گی۔

سوئی کی نوک سے بھیچھوٹا مکھی کا دماغ جہاں سے ملنے والے رازوں نے سائنسدانوں کو حیرت میں مبتلا کیامرنے سے قبل چند افراد کو اپنے وہ پیارے کیوں دکھائی دیتے ہیں جو پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں؟ قریب المرگ افراد کے تجربات’انسانی دماغ میں خلیوں کی تعداد کہکشاں کے تاروں سے بھی زیادہ‘ہم اپنے دماغ کو صحت مند اور تیز کیسے بنا سکتے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More