Getty Images
سنیچر (12 اپریل) کی علی الصبح امریکہ کے محکمہ کسٹمز کی جانب سے انتہائی خاموشی سے ایک نوٹ (اعلامیہ) جاری کیا گیا جس میں اُن تمام مصنوعات کے کوڈز یا نمبرز موجود تھے جنھیں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے حال ہی میں چین سے امریکہ درآمد کی جانے والی اشیا پر عائد کردہ 125 فیصد ٹیرف یا اضافی ٹیکس سے استثنیٰ دیا گیا تھا۔
کسٹمز کی جانب سے جاری کردہ نوٹ میں درج کوڈ ’8517.13.00.00‘ کا مطلب شاید دنیا کے بیشتر ممالک کے لیے کوئی اہمیت نہ رکھتا ہو لیکن امریکہ کے محکمہ کسٹمز کی فہرست میں یہ کوڈ سمارٹ فونز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اور اس کوڈ کو اس فہرست میں شامل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ نے اُس چیز کو 125 فیصد درآمدی ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے جو گذشتہ سال، مالیت کے لحاظ سے، سب سے زیادہ چین سے امریکہ برآمد کی گئی ہے یعنی سمارٹ فونز۔
سمارٹ فونز کے علاوہ دیگر الیکٹرانک آلات اور مصنوعات جیسا کہ سیمی کنڈکٹرز، سولر سیلز اور میموری کارڈ کو بھی 125 فیصد اضافی ٹیرف سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔
چند روز قبل ہی امریکہ کے سیکریٹری تجارت ہاورڈ لٹنک نے سمارٹ فونز کے معاملے پر بات کرتے ہوئے اور اس ضمن میں چین پر اضافی ٹیرف عائد کرنے کے فیصلے کا پس منظر بتاتے ہوئے کہا تھا کہ اِس کا مقصد آئی فون کی پروڈکشن یا پیداوار کو بتدریج چین سے امریکہ منتقل کرنا ہے۔ اُن کے اِس بیان کے فوراً بعد سمارٹ فونز کو ٹیرف سے مستثنیٰ کرنے کا اعلان ایک حیران کُن ’یو ٹرن‘ تھا۔
اور حیران کُن یہ بھی ہے کہ اس اقدام سے قبل اس کا اعلان عوامی سطح پر نہیں کیا گیا۔
یہ بات قابل غور ہو گی کہ اگر اس انتہائی اہم برآمد پر استثنیٰ کا اعلان نہ کیا جاتا تو امریکہ کے لیے اس کے کیا نتائج ہوتے۔
زیادہ تر آئی فون اور اس سے متعلقہ مصنوعات مشرقی چین میں موجود ایپل کی فیکٹری میں تیار کیے جاتے ہیں۔ اور اُن پر 125 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے اعلان کا اثر امریکہ میں موجود ایپل سٹورز پر گذشتہ کئی ہفتوں سے ظاہر ہونا شروع ہو گیا تھا۔
عالمی ٹیکنالوجی مارکیٹ ریسرچ فرم، کاؤنٹر پوائنٹ، کے مطابق امریکہ میں فروخت ہونے والے ایپل کے 80 فیصد آئی فونز چین میں تیار ہوتے ہیں۔
ایپل کی مصنوعات پر اس کمپنی (ایپل) کو ہونے والے منافع کا تخمینہ 40 سے 60 فیصد کے درمیان لگایا جاتا ہے۔ یعنی اگر ایپل کی کوئی ایک پراڈکٹ مارکیٹ میں 100 روپے میں فروخت ہو رہی ہے تو اس پر ایپل کمپنی کو 40 سے 60 روپے کے درمیان منافع حاصل ہوتا ہے۔
اگر سمارٹ فونز کو 125 فیصد ٹیرف سے استثنیٰ نہ دیا جاتا تو ممکن ہے کہ عام آئی فون کے ماڈل کی قیمت ایک ہزار امریکی ڈالرز سے بڑھ کر دو ہزار امریکی ڈالرز تک پہنچ جاتی۔ ایپل کے پاس یہ آپشن بھی تھا کہ وہ ٹیرف کے نتیجے میں بڑھنے والے اخراجات کو صارفین کو منتقل کر دیتے مگر ایسی صورت میں سوال یہ ہے کہ کیا باقی دنیا ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ اضافی ٹیکس کو اپنی جیب سے ادا کرنے کے فیصلے کو قبول کر لیتی؟
اگرچہ فی الوقت آئی فونز کی عوامی سطح پر قیمت میں ردوبدل یا اس میں بڑے اضافے کو روکا جا چکا ہے مگر قیمت میں ردوبدل ابھی بھی ممکن ہے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے چین پر پہلے سے عائد کردہ 20 فیصد محصولات کا فیصلہ برقرار ہے اور اس سے سمارٹ فونز کو استثنیٰ نہیں دیا گیا ہے۔
اس پورے معاملے میں ایپل کے چیف ایگزیکٹیو ٹم کک ایک اہم شخصیت ہیں۔ اور وہ اس ضمن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ دونوں کے ساتھ ہی بات اور ملاقات کر سکتے ہیں۔ یہ کچھ عجب نہ ہو گا مستقبل میں امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ میں امن قائم کرنے کے لیے ٹم کک کی طرف سے ثالثی کی جائے۔
اور تجارتی جنگ میں امن کی یہ کوشش امریکہ اور چین کی معیشتوں کو جوڑے رکھنے میں ٹم کک کے بڑے اور بنیادی کردار پر مبنی ہو گی۔ ٹم کک کا بطور ایپل کے چیف ایگزیکیٹیو انتخاب ایپل کے شریک بانی سٹیو جابزنے سپلائی لاجسٹکس میں اُن کی بے مثال مہارت کی بنیاد پر ہی کیا تھا۔
اپنے فیصلوں کو واپس لینے کی کہانی
تجارتی جنگ سے متعلق معاملات اب تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ امریکی پریس میں گذشتہ دو روز کے دوران شائع ہونے والی رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کے تجارت سے متعلق معاملات پر نظر رکھنے والے مشیر پیٹ ناوارو کو بھی سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے۔
پیٹ ناوارو ہی درحقیقت دنیا کے متعدد ممالک پر تمام تر ٹیرف عائد کرنے کے معاملے کے مرکزی کردار ہیں۔
اور ان کی جگہ لینے والے امریکہ محکمہ خارجہ کے سیکریٹری سکاٹ بیسنٹ اب امریکہ کے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ اس ضمن میں ہونے والے مذاکرات کی قیادت کر رہے ہیں۔ وہ اُن شراکت داروں کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں جو ٹیرف کے اطلاق پر عائد 90 روزہ عارضی معطلی کو اس ٹائم فریم کے بعد بھی جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
مگر گذشتہ دس روز تک جاری رہنے والے افراتفری کے بعد ایک بڑا سوال پیدا ہوتا ہے۔ امریکہ کے پاس دوسرے ممالک کے سامنے پیش کرنے کے لیے کیا کچھ ہے؟ ٹرمپ انتظامیہ واضح طور پر صدر کے تجارتی منصوبوں پر عالمی سٹاک مارکیٹس کے ردعمل اور سرمایہ کاروں کے لیے امریکی قرض کے محفوظ ہونے کی حیثیت سے متعلق سوالات سے خوفزدہ ہے۔
بانڈز پر شرح سود کو پانچ فیصد تک بڑھنے سے روکنے کی کوشش میں، امریکہ کو مزید نئے ممالک کے ساتھ ڈیلز یا سودے کرنے کی ضرورت ہے۔
درحقیقت گذشتہ ہفتے کے آخر میں سمارٹ فونز اور دیگر مصنوعات پر ٹیرف سے استثنیٰ کا اعلان ٹرمپ کی جانب سے لیا گیا ایک حیران کُن یو ٹرن ہے۔
’کیپٹل اکنامکس‘ کے مطابق چین سے امریکہ ہونے والی کُل برآمدات کا ایک چوتھائی حصہ اب 125 فیصد ٹیرف سے مستثنیٰ ہے۔
’کیپٹل اکنامکس‘ کا کہنا ہے کہ ٹیرف سے استثنی کے دیگر بڑے فاتحین بھی ہیں، جن میں تائیوان، ملائیشیا، ویتنام اور تھائی لینڈ بھی شامل ہیں۔ تائیوان سے امریکہ کو برآمد ہونے والی 64 فیصد، ملائیشیا سے 44 فیصد، اور ویتنام اور تھائی لینڈ دونوں سے 30 فیصد برآمدات بھی مستثنیٰ ہو گئی ہیں۔
امریکہ کی جانب سے عائد کردہ 10 فیصد یونیورسل ٹیرف پر بھی متعدد استثنیٰ دیے جا چکے ہیں۔ یہ ان ممالک سے متعلق ہیں جو الیکٹرانکس مینوفیکچرنگ کرتے ہیں۔
نیا ٹیرف اُن ممالک کو یونیورسل 10 فیصد ٹیرف (استثنی کے ذریعے) سے ایک مؤثر رعایت دینا ہے جو امریکہ کو زیادہ مالیت کی اشیا برآمد کرتے ہیں مگر امریکہ سے کم اشیا درآمد کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر تائیوان کی امریکہ کے ساتھ تجارت 74 ارب ڈالر سرپلس ہے، اور ویتنام کے ساتھ 124 ارب ڈالر سرپلس۔
یہ پچھلے ہفتے کے پیٹ ناوارو کی جانب سے لگائے گئے حساب کے بالکل برعکس ہے۔
دریں اثنا امریکہ کا ایک تجارتی اتحادی برطانیہ ہے اور امریکی اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ کے امریکہ کے ساتھ 12 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہے، یعنی برطانیہ امریکہ سے زیادہ اشیا درآمد کرتا ہے جب کے اس کے مقابلے اس کی امریکہ کو برآمد کم ہے۔
برطانیہ سے امریکہ کاروں کی برآمد پر اب بھی 25 فیصد ٹیرف ہے۔ برطانیہ سے امریکہ سب سے زیادہ کاریں ہی برآمد کی جاتی ہیں۔ اور یہی صورتحال برطانیہ سے امریکہ برآمد کی جانے والی ادویات کا بھی ہے۔
اور اب امریکہ بانڈ مارکیٹوں کے ساتھ اور اپنے آپ کے ساتھ بھی بات چیت کر رہا ہے۔ باقی دنیا اب یہ دیکھنے کی منتظر ہے کہ آگے چل کر کیا ہوتا ہے۔