لوگ اکثر پوچھتے تھے کہ سندر جی، مکھرجی، بنرجی یا چیٹرجی کی طرح بنگالی تھے یا فرانجی یا جمشید جی کی طرح پارسی تھے۔ کچھ لوگ انھیں سندھی بھی سمجھتے تھے۔
جنرل سندر جی کی اہلیہ وانی سندر جی اپنے مضمون ’اے مین کالڈ سندرجی‘ میں لکھتی ہیں کہ ’ہماری شادی کے ابتدائی دنوں میں، میں نے ان سے پوچھا کہ جب آپ کے والدین دونوں تامل برہمن تھے تو آپ کا نام سندر جی کیسے پڑا؟‘
ان کا جواب تھا کہ ’جب میں تین سال کا تھا تو میں نے اکثر اپنے والدین کو گاندھی جی کے بارے میں بات کرتے سنا۔ ایک دن میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ آپ کس گاندھی جی کی بات کر رہے ہیں؟ میرے والد نے جواب دیا کہ مہاتما گاندھی بہت عظیم انسان ہیں، ہم ان کے نام کے ساتھ ’جی‘ کا اضافہ کرتے ہیں۔ اس دن سے میں نے اصرار کیا کہ مجھے بھی سندر جی پکارا جائے، میرے والد نے یہ بات مان لی۔‘
یہاں تک کہ مدراس کے ہولی اینجلس کانونٹ میں بھی ان کا نام کرشنسوامی سندر جی لکھا گیا۔ ان کے نوکروں اور بھائیوں نے بھی ان کے نام کے ساتھ ’جی‘ جوڑنا شروع کر دیا اور عمر بھر انھیں اسی نام سے پکارتے رہے۔
Getty Imagesسندر جی میدان جنگ میں تھکے ہارے سو گئے
نام کے علاوہ سندر جی دیگر معاملات میں بھی دوسروں سے مختلف تھے۔ ایک بار دہرادون میں افسران کے لیے مختص میس میں، ایک فوجی کپتان دوڑتے ہوئے ان کے پاس آئے اور کہا کہ ’سر، ہم نے آپ کے لیے مکمل سبزی والا کھانا تیار کیا ہے۔‘
سندر جی نے جواب دیا کہ ’میرے نوجوان دوست، میں ایک گوشت خور برہمن ہوں۔ میں ہر وہ چیز کھاتا ہوں جو چلتی، تیرتی اور رینگتی ہے بشرطیکہ مجھے اس کا ذائقہ پسند ہو۔‘
اپنے والد کے اصرار پر انھوں نے ڈاکٹر بننے کے ارادے سے بائیولوجی کا انتخاب کیا مگر پڑھائی کے دوران انھوں نے فوج میں بھرتی ہونے کا ذہن بنا لیا۔ اس وقت ان کی عمر صرف 17 برس تھی۔
انھوں نے اپنی زندگی میں پانچ جنگیں لڑیں۔ جب وہ ایک میجر تھے تو انھیں اقوام متحدہ کی افواج کے لیے لڑنے کے لیے کانگو بھیجا گیا تھا۔ وہاں کئی شدید لڑائیاں ہوئیں۔
ایک دفعہ تو 72 گھنٹے کی مسلسل گولہ باری کے بعد بغیر کھائے یا سوئے سندر جی اس قدر تھک ہار گئے کہ گولہ باری کے بیچ میں وہیں سو گئے۔
وانی سندر جی لکھتے ہیں کہ ’ان کے بہاری ساتھی لکشمن نے انھیں بنکر میں گھسیٹنے کی کوشش کی لیکن وہ زور سے چیخے اور ان کے منھ سے انگریزی میں گالی نکلی۔ تاہم اس کے بعد انھیں نہیں چھیڑا گیا اور پھر جب وہ 24 گھنٹے بعد بیدار ہوئے تو وہ میدان جنگ میں تھے۔ ان کے ارد گرد 36 مارٹر گولے فائر ہوئے۔ لیکن اتنی فائرنگ کے باوجود انھیں ایک بھی زخم نہیں آیا۔‘
کئی سال بعد جب وہ آرمی چیف بنے تو وہی لکشمن ان کے لیے گھر کا بنا ہوا دیسی گھی لے آئے۔ کانگو کے اپنے دنوں کو یاد کرتے ہوئے سندر جی نے مذاق میں اپنے سابق ساتھی سے پوچھا ’اس دن تم نے مجھے میدان جنگ میں سوتا کیسے چھوڑ دیا؟‘
لکشمن کا جواب تھا ’آپ نے مجھے گالی دی تھی، مجھے بُرا لگا اور میں چلا گیا۔‘
Getty Imagesآپریشن بلیو سٹار ’یہ میرا سب سے بڑا امتحان ہے‘
سنہ 1928 میں تمل ناڈو کے شہر چنگال پیٹ میں پیدا ہونے والے سندر جی نے 1945 میں ہندوستانی فوج میں اپنے کریئر کا آغاز کیا۔ انھوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران شمال مغربی سرحدی علاقے میں فوجی کارروائیوں میں حصہ لیا۔
وہ 1971 کی جنگ میں بنگلہ دیش کے محاذ پر تھے۔ سنہ 1984 میں سندر جی نے اندرا گاندھی کے حکم پر دربار صاحب سے انتہا پسندوں کو نکالنے کے لیے سیاسی طور پر حساس آپریشن بلیو سٹار کی قیادت کی۔
جنرل سندر جی آپریشن بلیو سٹار کے دوران ویسٹرن کمانڈ کے سربراہ تھے۔ 3 جون 1984 کو اندرا گاندھی نے انھیں دلی بلایا۔ اسی رات انھوں نے اندرا گاندھی سے ایک گھنٹے تک نجی ملاقات کی۔ جب وہ دو بجے گھر واپس آئے تو انھوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ ’یہ ان کا سب سے بڑا امتحان ہے۔‘
وہ آپریشن بلیو سٹار کے بعد مکمل طور پر تبدیل ہو گئے تھے۔ ان کی ہنسی غائب ہو گئی تھی۔ جب ان کی اہلیہ نے اس بارے میں تشویش کا اظہار کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ میں جلد ہی اس کیفیت سے باہر آ جاؤں گا۔ لیکن وہ اس سے کبھی باہر نہ نکل سکے۔
انھیں کئی بار یہ کہتے سنا گیا کہ ’مجھے اپنے لوگوں سے نہیں بلکہ دشمن سے لڑنے کی تربیت دی گئی تھی۔‘
خشونت سنگھ نے ان سے درخواست کی کہ وہ آپریشن بلیو سٹار کے اپنے تجربات کے بارے میں لکھیں تاکہ لوگوں کو حقیقت کا پتہ چل سکے۔ انھوں نے کہا کہ وہ اپنے فارغ وقت میں اس موضوع پر لکھیں گے لیکن وہ وقت کبھی نہیں آیا۔
لیفٹیننٹ جنرل کے ایس برار نے اپنی کتاب ’آپریشن بلیو سٹار: دی ٹرو سٹوری‘ میں جنرل سندر جی کا بیان نقل کیا ہے کہ ’ہم گولڈن ٹیمپل میں غصے میں نہیں بلکہ غم کی کیفیت لیے داخل ہوئے، داخل ہوتے وقت ہمارے ہونٹوں پر التجا تھی اور دل میں عاجزی تھی، اس وقت ہمارے ذہن میں نہ ہار کا خیال تھا، نہ جیت کی کوئی خواہش تھی، ہمارے لیے بس یہ ایک ایسا فریضہ تھا جو ہر صورت پورا کرنا تھا۔‘
’پاکستان کو غلط فہمی ہوئی انڈیا اس پر حملہ کرنا چاہتا ہے‘
ایک اور آپریشن جس کے ساتھ جنرل سندر جی کا نام جڑا ہوا ہے وہ ہے ’آپریشن براس ٹیک‘۔ یہ آپریشن فروری-مارچ 1986 میں راجستھان کے ریگستانوں میں شروع کیا گیا تھا تاکہ انڈیا کی جنگی تیاریوں کو جانچا جا سکے۔
یہ 1947 کے بعد انڈین فوج کی سب سے بڑی فوجی مشق تھی۔ اس پیمانے کی فوجی مشقیں ایشیا میں پہلے کبھی نہیں کی گئیں۔ سندر جی چاہتے تھے کہ جنگ کی صورت میں تمام فوجی ساز و سامان، گاڑیوں اور ٹینکوں کا معائنہ کیا جائے۔
اس مشق میں فوج کا بڑا حصہ شامل تھا۔ یہ مشق اتنی شدید تھی کہ پاکستان کو غلط فہمی ہوئی کہ انڈیا اس پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔
جواب میں پاکستان نے اپنے فوجیوں کی چھٹیاں منسوخ کرکے انھیں ڈیوٹی پر واپس بلا لیا۔ ان فوجی مشقوں کی وجہ سے انڈین حکومت نے وزیر مملکت برائے دفاع ارون سنگھ کا محکمہ تبدیل کر دیا تھا۔
نٹور سنگھ اپنی سوانح عمری ’ون لائف از ناٹ اینف‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ایک بار جب ہم افغان صدر نجیب اللہ کو لینے ایئرپورٹ جا رہے تھے تو راجیو گاندھی نے مجھ سے پوچھا نٹور، کیا ہم پاکستان کے ساتھ جنگ شروع کرنے جا رہے ہیں؟‘
اس مشق کی اجازت وزیر مملکت برائے دفاع ارون سنگھ نے اپنے طور پر دی تھی، جس کے بارے میں راجیو گاندھی کو بھی کوئی علم نہیں تھا۔
ایک بار راجیو گاندھی نے نٹور سنگھ اور نارائن دت تیواری سے پوچھا کہ میں وزیر مملکت برائے دفاع کے ساتھ کیا کروں؟
نٹور سنگھ لکھتے ہیں کہ ’میں نے ان سے صاف کہہ دیا کہ وہ وزیر کو برخاست کر دیں۔ اس پر راجیو نے کہا کہ ارون سنگھ ان کے دوست ہیں۔ اس پر میں نے کہا ’سر، آپ سکول کی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے صدر نہیں ہیں۔ آپ انڈیا کے وزیر اعظم ہیں، وزیر اعظم کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔‘
کچھ دنوں بعد ارون سنگھ کو وزارت دفاع سے ہٹا کر وزارت خزانہ بھیج دیا گیا۔
Getty Imagesجنرل ضیا نے جنرل سندر جی کو کینو اور آموں کی ٹوکریاں بھیجیں
اس آپریشن کے دوران ایک چیز کبھی نہیں رکی۔ وہ کینو اور آموں کی بڑی ٹوکریاں تھیں جو جنرل ضیا نے جنرل سندر جی کو بھیجی تھیں۔
وانی سندر جی لکھتی ہیں کہ ان پھلوں کی ٹوکریوں پر جنرل ضیا کی ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر تھی، ’جنرل سندر جی کے لیے، نیک تمناؤں کے ساتھ۔ امید ہے آپ ان سے لطف اندوز ہوں گے۔ ضیا۔‘
یہ پھلوں کی ٹوکریاں سندر جی تک پہنچتی رہیں یہاں تک کہ جنرل ضیا کی طیارے کے حادثے میں موت ہو گئی۔
جنرل سندر جی کو انڈین فوج کے لیے بوفورس توپوں کی خریداری کی سفارش کے لیے بھی یاد رکھا جائے گا۔ لوگ جنرل سندر جی کو ’سکالر جنرل‘ بھی کہتے تھے۔ انھوں نے اپنے ملک کو ’نیوکلیئر ڈاکٹرائن‘ بھی دیا جس کے تحت انڈیا جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہیں کرے گا۔
جنرل ایچ ایس پناگ نے ’دی پرنٹ‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’ان کے بدترین ناقدین بھی اس بات پر متفق تھے کہ انڈین فوج میں کسی اور جنرل کے پاس اتنی فکری گہرائی، سٹریٹجک نقطہ نظر اور نظام کو بدلنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ انھوں نے اپنے دو سال اور چار ماہ میں انڈین فوج کو 21ویں صدی کی جدید فوج میں بدلا۔‘
Getty Images’وژن 2100‘ کا مسودہ تیار کر لیا گیا
جنرل سندر جی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بڑے بناؤ سنگھار کرنے والے فوجی تھے۔ لیکن ان کی بیوی کا ماننا ہے کہ ان کے بارے میں یہ خیال درست نہیں ہے۔ ان کی نظروں میں بچوں جیسی سادگی اور دیانت تھی۔
وانی سندر جی کا کہنا ہے کہ ’انھیں بننا سنورنا پسند ضرور تھا مگر وہ اکثر غیر رسمی کپڑوں میں نظر آتے تھے۔ وہ تمباکو نوشی کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو دیوار پر نقشے سمجھاتے تھے۔ پف لیتے ہوئے ان کے ذہن میں ہمیشہ نئے خیالات جنم لیتے تھے۔‘
اس دوران وہ ذہنی طور پر 21ویں صدی میں پہنچ چکے تھے۔ انھوں نے ’وژن 2000‘ کا مسودہ تیار کیا تھا، جس میں 21ویں صدی میں انڈین فوج کی حکمت عملی کی بڑی تفصیل سے وضاحت کی گئی تھی۔
ایٹمی مسائل پر ان کے خیالات سے ہر کوئی واقف تھا۔ انھوں نے اس کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا تھا۔ ان کی ذاتی لائبریری میں ہزاروں کتابیں تھیں۔
وانی سندر جی لکھتی ہیں کہ ’سندر جی لیونارڈو ڈاونچی اور چنگیز خان سے بہت متاثر تھے۔ انھیں موسیقی کا بھی جنون تھا۔ انھیں ہر طرح کی موسیقی، انڈین، مغربی، کلاسیکی، ہلکی پھلکی اور فوک میوزک پسند تھا۔ ہم شام سے طلوع آفتاب تک روی شنکر کے کنسرٹس میں بیٹھے رہتے تھے۔ ان سے ہماری دوستی چار دہائیوں پر محیط تھی۔‘
سندر جی کے کہنے پر روی شنکر نے میکانائزڈ انفنٹری رجمنٹ کے لیے دھن تیار کی۔ وہ اکثر مشہور سائنسدان راجہ رمنا کے گھر جایا کرتے تھے اور انھیں پیانو بجاتے سنتے تھے۔
کام کے دوران سندر جی اکثر بسم اللہ خان، یہودی مینوہین یا ایم ایس سبلکشمی کی موسیقی سنتے تھے۔
Getty Imagesفلکیات اور پرندوں میں دلچسپی
سندر جی کو ہمیشہ نئی چیزیں سیکھنے کا شوق تھا۔ ہر موضوع پر ان کا علم بہت گہرا تھا۔
ایک بار جب وہ ریٹائرمنٹ کے بعد چین جا رہے تھے تو چینی زبان سیکھنے کے لیے دو کتابیں خریدیں۔ وہاں جانے سے پہلے انھوں نے چینی زبان ’مینڈارن‘ اچھی طرح بولنا شروع کر دی تھی۔ تب تک ان کی عمر 60 سال سے زیادہ تھی۔
وہ ’چھکا‘ جس نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک ممکنہ جنگ ٹال دیآپریشن بلیو سٹار: وہ فوجی کارروائی جس کی قیمت اندرا گاندھی نے اپنی جان دے کر چکائیجب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیا1965 کی جنگ: جب پاکستانی فضائیہ نے انڈیا کے دس جنگی طیارے تباہ کیے
وانی سندر جی لکھتی ہیں کہ ’دو چیزیں انھوں نے مجھ سے سیکھیں۔ ان میں سے ایک فلکیات میں دلچسپی تھی۔ میرے والد مجھے چھ سال کی عمر سے سیاروں اور ستاروں کو دکھانے کے لیے رصد گاہ لے جاتے تھے۔ سندر جی میرے لیے فلکیات پر کچھ کتابیں لائے اور کچھ عرصے بعد انھیں بھی اس شعبے میں دلچسپی ہو گئی۔‘
وہ مزید لکھتی ہیں کہ ’دوسری چیز پرندوں میں میری دلچسپی تھی۔ مجھ سے متاثر ہو کر انھوں نے سلیم علی اور ڈیلن رپلے کی اس موضوع پر کئی کتابیں خریدیں۔ انھوں نے پرندوں پر نظر رکھنے کے لیے دو طاقتور دوربینیں بھی خریدیں۔ انھیں مچھلی پکڑنے اور شکار کرنے کا بھی شوق تھا۔ میرے پاس وہ فشنگ راڈ اور 12 بور بندوق اب بھی موجود ہے۔‘
سندر جی اپنے ہر کام میں عجلت کا احساس رکھتے تھے۔ وہ اتنی تیزی سے چلتے تھے کہ لوگ ان کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتے ہوئے تھک جاتے تھے۔ بیمار پڑنے سے قبل وہ 18 سے 20 گھنٹے تک کام میں مگن رہتے تھے۔
Getty Imagesموٹرسائیکل اور ٹینک ڈرائیونگ
سندر جی کو گاڑی چلانے کا بھی بہت شوق تھا۔ وہ ٹینک سے لے کر اے پی سی اور یہاں تک کہ موٹرسائیکل تک ہر چیز کو چلا سکتے تھے۔
جب وہ ویسٹرن کمانڈ کے سربراہ تھے تو ایک اتوار والے روز ان کے سابق اے ڈی سی موٹر سائیکل پر ان سے ملنے آئے۔
وانی سندر جی یاد کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’اس وقت ہم دلی کے معائنہ بنگلے کے برآمدے میں چائے پی رہے تھے۔ سندر جی نے جیسے ہی موٹرسائیکل کو دیکھا، کہا کہ میرے ساتھ چلو۔ ہم دونوں موٹرسائیکل پر بیٹھ گئے۔ اس وقت سندر جی نے کرتا پاجامہ پہنا ہوا تھا اور میں نائٹی یعنی سونے والے لباس میں ملبوس تھی، اگلے آدھے گھنٹے تک وہ موٹرسائیکل پر مجھے فوجی چھاؤنی میں گھماتے رہے۔‘
ایک بار انھوں نے صحرا کی 44 ڈگری کی شدید گرمی میں اے پی سی (آرمرڈ پرسنل کیریئر) چلائی۔ تھوڑی ہی دیر میں ان کے ساتھ چلنے والے لوگ گرمی سے بے چین ہو گئے لیکن 51 سالہ لیفٹیننٹ جنرل نے اگلے تین گھنٹے تک گاڑی چلائی۔
وانی یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’کچھ سال بعد جب وہ آرمی چیف بنے تو ہم ایک ساتھ ’بابینا‘ گئے، وہاں انھوں نے کئی ٹینکوں کو قطار میں کھڑا دیکھا۔ وہ فوراً قریبی ٹینک کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئے اور مجھے اپنے پاس بلایا۔ اس کے بعد انھوں نے اس بے ہنگم رستے پر پوری رفتار سے ٹینک چلایا۔‘
Getty Images’موٹر نیورون بیماری‘ میں مبتلا
جب وہ پاکستان گئے تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کے مہمان تھے۔ انھوں نے اسلام آباد، پشاور اور خیبر کا بھی دورہ کیا۔ پاکستانی آرمی چیف کے کہنے پر وہ افغان سرحد کے 50 میٹر کے اندر چلے گئے تھے۔
اس کے بعد انھوں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ٹیکسلا، موہنجوداڑو اور لاہور کا دورہ بھی کیا۔
10 جنوری 1998 کو ڈاکٹروں نے تشخیص کی کہ جنرل سندر جی ’موٹر نیوران‘ بیماری میں مبتلا ہیں۔
یہ ایک اعصابی بیماری ہے جو دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں موجود موٹر نیوران کو متاثر کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں اور بالآخر یہ کمزوری فالج کا باعث بن جاتی ہے۔
ڈاکٹر جنرل سندر جی کو اس بیماری کے بارے میں بتانے میں قدرے ہچکچاہٹ کا شکار تھے لیکن انھیں جلد ہی انٹرنیٹ کے ذریعے اس کے بارے میں سب کچھ معلوم ہو گیا۔
وہ لائف سپورٹ سسٹم پر زندہ نہیں رہنا چاہتے تھے۔ انھوں نے اپنے ڈاکٹروں سے اپنی رضاکارانہ موت کے بارے میں سوالات پوچھے تھے۔
28 مارچ تک وہ مکمل طور پر لائف سپورٹ پر تھے۔
اس حالت میں بھی، انھوں نے اپنی بیوی کو چار لفظوں کا نوٹ لکھا ’براہ کرم مجھے جانے دو‘ یعنی مجھے اب مرنے دو۔
وانی سندر جی لکھتی ہیں کہ ’وہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک مکمل طور پر ہوش میں تھے اور اپنی آنکھوں کے ذریعے اپنے ڈاکٹروں اور مجھ سے بات کر رہے تھے۔ میں نے انھیں پوکھران نیوکلیئر ٹیسٹ کے بارے میں بتایا۔ اس حالت میں بھی وہ روزانہ تین اخبارات پڑھتے تھے اور بڑی ٹی وی سکرین پر کرکٹ دیکھتے تھے۔‘
اس مرض میں مبتلا ہونے کے بعد وہ ایک سال ایک ہفتہ زندہ رہے اور 8 فروری 1999 کو وفات پا گئے۔
وہ ’چھکا‘ جس نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک ممکنہ جنگ ٹال دیآپریشن بلیو سٹار: وہ فوجی کارروائی جس کی قیمت اندرا گاندھی نے اپنی جان دے کر چکائیجب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیاکارگل جنگ: انڈین فوج کا وہ سپاہی جو 15 گولیاں لگنے کے بعد بھی پاکستانی فوجیوں سے لڑتا رہا آپریشن جبرالٹر جس کے ایک ماہ بعد انڈیا نے پاکستان پر حملہ کر دیاجب انڈین انٹیلیجنس نے جنرل مشرف کا فون ٹیپ کیا: ’یہ پاکستان ہے، کمرہ نمبر 83315 سے ہمارا رابطہ کروائیں‘