صوبہ خیبر پختونخوا میں گیس لوڈشیڈنگ کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک سستا طریقہ اپنایا جا رہا ہے۔ کچھ اضلاع کے شہری گیس کو سیلنڈر کے بجائے پلاسٹک کے تھیلوں میں بھر کر استعمال کرتے ہیں جسے مقامی بولی میں ’پلاسٹکی سیلنڈر‘ کہا جاتا ہے۔ماہرین کے مطابق ان پلاسٹک تھیلوں میں گیس بھرنا انتہائی خطرناک عمل ہے، جو کسی بھی وقت کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔یہ پلاسٹک کے غبارہ نما تھیلے دو سے چار فٹ کے سائز میں تیار کیے جاتے ہیں جس کے چاروں کونوں کو مضبوطی کے ساتھ ٹیپ کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، اور پلاسٹک بیگ کے آگے والے حصے پر نوزل نصب کی جاتی ہے تاکہ گیس بھرنے میں آسانی ہو۔
گیس کے ان تھیلوں میں 20 سے زائد کلو گیس بھرنے کی گنجائش ہوتی ہے اور یہ لوہے کے سیلنڈر کے مقابلے میں وزن میں نہایت ہلکے ہوتے ہیں۔
گیس کے ان غباروں کو گھر کی کھڑکی یا کھلی جگہ پر دیوار کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے، اور پھر پائپ کو پلاسٹک بیگ سے جوڑ کر گیس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ان ’پلاسٹکی سیلنڈروں‘ کا استعمال عام طور پر خیبر پختونخوا کے علاقوں کوہاٹ، لکی مروت، کرک، مردان، صوابی اور پشاور کے بعض علاقوں میں کیا جاتا ہے۔ بالخصوص ایسے علاقے جہاں قدرتی گیس کی لوڈشیڈنگ زیادہ ہوتی ہے اور ایندھن کے لیے لکڑی یا دیگر ذرائع آسانی سے دستیاب نہیں۔ضلع کرک کے مقام تخت نصرت کے رہائشی اعجاز شاہ کے مطابق اس خطرناک رحجان کی بنیادی وجہ ایل پی جی کا مہنگا ہونا اور حکومت کی طرف سے لوگوں کو گھروں پر قدرتی گیس کی سہولت فراہم نہ کرنا ہے۔انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کرک سے گیس نکلتی ہے لیکن یہاں کے مقامی لوگوں کو یہ فراہم نہیں کی جاتی۔ پھر لوگ مرکزی پائپ لائن کے لیک ہونے والے مقامات سے پلاسٹک کے تھیلوں میں مفت میں گیس بھر لیتے ہیں۔‘اعجاز شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس خطرناک کام کو روکنے کے لیے گیس سے محروم علاقوں کو گیس کے کنکشن فراہم کرنے چاہییں۔دوسری طرف حکومت نے صوبے کے صدر مقام پشاور میں پلاسٹک کے تھیلوں میں گیس بھرنے والی دکانوں کے خلاف کارروائی کی ہے، لیکن اس کے باوجود خفیہ طور پر یہ کام اب بھی جاری ہے۔پشاور میں گیس بھرنے کے لیے استعمال ہونے والے تھیلے 300 سے 500 روپے میں دستیاب ہیں جبکہ ضلع کرک میں یہ گھروں میں بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔اعجاز شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس خطرناک کام کو روکنے کے لیے گیس سے محروم علاقوں کو گیس کے کنکشن فراہم کرنے چاہییں۔ (فائل فوٹو: زمین ڈاٹ کوم)قدرتی گیس کی فراہمی کے ذمہ دار سرکاری ادارے سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کے ترجمان یاور عباس کے مطابق حکومت ’پلاسٹکی سیلنڈروں‘ کی روک تھام کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ پلاسٹک سیلنڈر کے خلاف وقتاً فوقتاً آگاہی پھیلا کر صارفین کو خبردار کیا جاتا ہے۔’پلاسٹک سیلنڈر کا استعمال موت کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے، ایسے سیلنڈر کے حادثوں میں انسانی جانوں کا ضیاع ہو سکتا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کو ایسی مارکیٹوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں پر یہ کام ہوتا ہے۔ انتظامیہ نے کارروائی کرکے متعدد دکانداروں کو گرفتار بھی کیا ہے۔‘’بچے قطاروں میں لگ کر پلاسٹک تھیلوں میں گیس بھرتے ہیں‘کرک کے مقامی صحافی اقبال خٹک کا کہنا ہے کہ تحصیل تخت نصرت، گرگرے اور بانڈہ داؤد شاہ کے علاقوں میں ’پلاسٹکی سیلنڈروں‘ کو معمول کے استعمال کے علاوہ گیس ذخیرہ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جو کہیں زیادہ خطرناک ہے۔’مقامی لوگ گیس سے بھرے پلاسٹک بیگ کمروں میں سٹاک کر کے رکھتے ہیں اور گھریلو استعمال میں لاتے ہیں۔‘’پلاسٹکی سیلنڈروں‘ کا استعمال کوہاٹ، لکی مروت، کرک، مردان، صوابی اور پشاور میں کیا جاتا ہے۔ (فوٹو: نوید خٹک)اقبال خٹک کے مطابق پلاسٹک کے تھیلوں کے استعمال کرنے کی وجہ مفت یعنی چوری کی گیس کی فراہمی ہے۔’لوگ گیس کی مین لائن سے بڑے بڑے تھیلے بھر کر گھر لے جاتے ہیں یہ وہ لائن ہے جس سے پورے علاقے کو گیس کی سپلائی ہوتی ہے۔ اس پائپ لائن پر بچے طویل قطاروں میں لگ کر گیس بھرنے کا انتظار کرتے ہیں۔‘