’کہاں جائیں‘، لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کشمیری جنگ کے خطرے کے سائے میں

اردو نیوز  |  May 03, 2025

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں پہاڑوں سے گھرے چورانڈا گاؤں میں اساتذہ اور بچے دعاگو ہیں کہ وہ اپنی وادی میں پرندوں کی آوازیں ہی سنیں توپوں کی گھن گرج نہیں۔

برطانوی خبر رساں ایجسنی روئٹرز کے مطابق سکول کے استاد فاروق احمد نے بتایا کہ ’اگرچہ بچے معمول کے مطابق اپنی کلاسیں لے رہے ہیں لیکن والدین میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔‘

چورنڈا سے پاکستانی اور انڈین فوجیوں کو اپنی چوکیوں پر تعینات دیکھا جا سکتا ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ گاؤں میں گزشتہ چند دہائیوں کے دوران دونوں فریقین کے درمیان فائرنگ میں کم از کم 18 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

25 سالہ رہائشی عبدالعزیز نے کہا کہ گاؤں میں 1500 کی آبادی کے لیے چھ بنکر (تہہ خانے) ہیں۔

’دونوں فریق ایک دوسرے کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اگر سرحدی کشیدگی ہوئی تو ہم کہاں جائیں گے؟ یہاں خوف ہے کیونکہ یہ گاؤں سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔‘

22 سالہ فیضان عنایت جو راولپنڈی سے کشمیر اپنی فیملی سے ملنے آئے تھے، نے بتایا کہ ’لوگوں نے اپنے گھروں میں بنکر بنا رکھے ہیں۔ جب بھی فائرنگ ہوتی ہے وہ ان تہہ خانوں میں چلے جاتے ہیں۔‘

ان کے ایک پڑوسی 73 سالہ محمد نذیر نے کہا کہ ’ہم کسی چیز سے نہیں ڈرتے۔ ہمارا ہر بچہ تیار ہے۔‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک ارب روپے کا ہنگامی فنڈ تیار کیا ہے اور لائن آف کنٹرول کے ساتھ واقع دیہاتوں میں دو ماہ تک خوراک، پانی اور صحت کا سامان بھیج دیا ہے۔

حکام نے علاقے کے تمام دینی مدارس کو 10 دن کے لیے بند کر دیا ہے، انہوں نے جمعرات کو خدشہ ظاہر کیا تھا کہ انہیں انڈیا کی جانب سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

25 سالہ رہائشی عبدالعزیز نے کہا کہ گاؤں میں 1500 کی آبادی کے لیے چھ بنکر ہیں (فوٹو: روئٹرز)پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم آفس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے سڑکوں کو پہنچنے والے کسی بھی نقصان کی مرمت کے لیے لائن آف کنٹرول کے قریب علاقوں میں سامان بھی منتقل کر دیا ہے اور ریسکیو اور سول ڈیفنس حکام کو ہائی الرٹ رہنے کی ہدایت کی ہے۔

پاکستان ہلال احمر کی کشمیر برانچ کے سربراہ گلزار فاطمہ نے بتایا کہ جیسے ہی امدادی گروپ نے کشیدگی بڑھتی دیکھی تو انہوں نے امدادی سامان اور عملے کو متحرک کرنا شروع کر دیا جس میں ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے والے بھی شامل ہیں۔

لائن آف کنٹرول کے قریب تقریباً 15 لاکھ افراد بستے ہیں جو پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کی وجہ سے پریشان ہیں۔

ماضی میں حکومت پاکستان سرحدی علاقوں کے رہائشیوں کو بنکرز کی تعمیر میں مدد فراہم کرتی تھی تاکہ شدید فائرنگ کے تبادلے کے دوران خود کو محفوظ کیا جا سکے۔ تاہم ان علاقوں کی آبادی میں کافی اضافہ ہو چکا ہے اور کچھ گھروں میں خود کو محفوظ کرنے کی سہولت موجود نہیں ہے۔

خیال رہے کہ 22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے ہیں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More