وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ نےکہا ہے کہ جب تک کرپٹو کرنسی کے حوالے سے قوانین و ضوابط متعارف نہیں ہوتے، اس وقت تک اس کے لین دین کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم، منافع و اثاثے غیر دستاویزی اور غیر ٹیکس شدہ رہیں گے۔
اسلام آباد میں بزنس کمیونٹی کے ساتھ ایک آگاہی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ایف ٹی او کوآرڈینیٹر سیف الرحمان نے کہا کہ اسلام آباد سے ایک شکایت کنندہ حافظ محمد اصغر نے اپنی درخواست میں کہا کہ دنیا بھر میں کرپٹو کرنسی کے 560 ملین صارفین ہیں جن میں سے 9 ملین کا تعلق پاکستان سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے جو کرپٹو کرنسی کو اپنا رہا ہے۔ شکایت میں کہا گیا ہے کہ وہ کرپٹو کرنسی پر ٹیکس ادا کرنا چاہتا ہے لیکن ایف بی آر میں اس حوالے سے قواعد و ضوابط موجود نہیں ہے۔
ایف بی آر پالیسی ونگ نے اپنے جواب میں اعتراف کیا ہے کہ کرپٹو کرنسی کا تصور نیا اور اس کے لیے ماہرین کی رائے درکار ہے شکایت کے مندرجات زیر غور ہیں متعلقہ ایجنسی سے مشاورت کے بعد مناسب وقت پر جواب دیا جائے گا جبکہ ایف ٹی او نے تفصیلی سماعت کے بعد قرار دیا کہ شکایت ایک اہم شعبے سے متعلق ہے جہاں بڑے پیمانے پر تجارتی لین دین ہو رہا ہے لیکن یہ تمام لین دین ٹیکس کی حدود سے باہر ہو رہا ہے۔
ایف ٹی او نے اپنے آرڈر میں مزید کہا کہ ایف بی آر کی جانب سے اس کو نظر انداز کرنا، اس کی طرف عدم توجہی اور نااہلی کی انتہا ہے کہ اس نظر انداز شدہ شعبے کے حوالے سے ایف ٹی او سیکرٹریٹ کے فوری اقدام کو سراہنے کے بجائے ٹیکس حکام کی طرف سے ایف ٹی او کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے کہا کہ کرپٹو کرنسی اب پاکستان میں کافی حد تک قدم جما چکی ہےہماری کرپٹو مارکیٹ 1.6 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان اور رواں سال اس کے صارفین کی تعداد بڑھ کر دو کروڑ71 لاکھ ہو جائے گی۔
ایف ٹی او نے اپنے حکم میں ایف بی آر سے کہا ہے کہ شکایت کنندہ اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرتے ہوئے ان کو ( آن بورڈ) اعتماد میں لیا جائے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ بنیادی اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے اس معاملے پر قوائد ضوابط کی آئندہ مالیاتی بل کے ذریعے منظوری لی جائے۔۔۔۔