برطانیہ کی نئی ویزا پالیسی کا ممکنہ ہدف پاکستان اور نائیجریا جیسے ممالک کیوں ہیں؟

بی بی سی اردو  |  May 06, 2025

Getty Imagesجب کوئی سٹوڈنٹ ویزا پر برطانیہ آتا ہے اور فوراً ہی اپنا سٹیٹس پناہ گزین میں تبدیل کر لیتا ہے تو یہ سسٹم کا استحصال ہے اور حکومت یہی چیز روکنے کی کوشش کر رہی ہے‘

برطانوی حکومت کی نئی ویزا پالیسی کے تحت برطانیہ میں پناہ لینے اور ویزے کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی قیام کرنے والی قومیتوں کے لیے ویزا درخواستوں پر پابندی عائدکی جا سکتی ہے۔

برطانوی اخبار دی ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی وزاتِ دفاع جس نئی منصوبہ بندی پر غور کر رہی ہے اس کے تحت پاکستان، نائجیریا اور سری لنکا جیسے ممالک کے شہریوں کے لیے برطانیہ سٹڈی یا ورک ویزا لے کر آنا مزید مشکل ہو سکتا ہے۔

حکام کا ماننا ہے کہ زیادہ مسئلہ ان افراد کا ہے جو قانونی طور پر ورک یا سٹڈی ویزا پر آ کر بعد میں پناہ کی درخواست دے دیتے ہیں۔ اگر ان کی پناہ کی درخواست منظور ہو جائے تو وہ مستقل طور پر برطانیہ میں قیام کر سکتے ہیں۔

وزارت داخلہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہماری آنے والے امیگریشن وائٹ پیپر میں امیگریشن کے بگڑے ہوئے نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے مکمل منصوبہ پیش کیا جائے گا۔

فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ کون سی قومیتوں کے افراد اپنے ویزے کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی برطانیہ میں قیام کرتے ہیں کیونکہ برطانوی وزارت داخلہ نے 2020 کے بعد سے ویزا ہولڈرز کے ملک سے نکلنے کے اعداد و شمار شائع نہیں کیے۔

اس کی وجہ ان اعداد و شمار کی درستگی کے جائزے کے لیے جاری ایک نظرثانی ہے۔

برطانیہ چھوڑنے والے زیادہ تر افراد کا ریکارڈ نہیں رکھا جاتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ تر ایسے افراد جن کا برطانیہ چھوڑنے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے شاید وہ ابھی تک ملک میں ہی رہ رہے ہوں۔

یونیورسٹی آف لندن سے وابستہ تحقیقی ادارے ’یو کے اِن اے چینجنگ یورپ‘ کے سینیئر محقق پروفیسر جوناتھن پورٹس کا کہنا ہے کہ ان ویزا پابندیوں کے ذریعے پناہ کی درخواستوں کی تعداد میں کمی کا اثر ’ممکنہ طور پر بہت معمولی‘ ہوگا۔

انھوں نے بی بی سی ریڈیو فور کے پروگرام میں بتایا: ’میرے خیال میں یہ اقدام مجموعی تعداد کم کرنے کے لیے نہیں بلکہ ان پناہ کی درخواستوں کو روکنے کے لیے ہے جنھیں نظام کے استحصال طور پر دیکھا جا رہا ہے۔‘

’جب کوئی سٹوڈنٹ ویزا پر برطانیہ آتا ہے اور فوراً ہی اپنا سٹیٹس پناہ گزین میں تبدیل کر لیتا ہے تو یہ سسٹم کا استحصال ہے اور حکومت یہی چیز روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

Getty Imagesحکام کا ماننا ہے کہ زیادہ مسئلہ ان افراد کا ہے جو قانونی طور پر ورک یا سٹڈی ویزا پر آ کر بعد میں پناہ کی درخواست دے دیتے ہیں۔ اگر ان کی پناہ کی درخواست منظور ہو جائے تو وہ مستقل طور پر برطانیہ میں قیام کر سکتے ہیں۔ ’

گذشتہ سال وزیرِاعظم بننے کے بعد سر کیئر سٹارمر نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ وہ قانونی اور غیر قانونی دونوں اقسام کی امیگریشن میں کمی لائیں گے۔ تاہم انھوں نے ابھی تک نیٹ امیگریشنکا کوئی ہدف مقرر کرنے سے گریز کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں کسی قسم کی حد مقرر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

لیبر پارٹی کی پالیسی میں امیگریشن کم کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات شامل ہیں: سمندر کے راستے غیرقانونی سفر کے دوران دوسروں کی زندگی خطرے میں ڈالنا قابلِ سزا جرم ہوگا، چھوٹی کشتیوں کے ذریعے داخلے کو روکنے کے لیے کارروائیاں کی جائیں گی اور ان شعبوں کے لیے مقامی افراد کی تربیت کا انتظام کیا جائے گا جو بیرونِ ملک سے ملازمین پر انحصار کر رہے ہیں۔

سر کیئر نے سابق کنزرویٹو حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انھوں نے نیٹ امیگریشن کی شرح کم کرنے میں غلطی سے نہیں بلکہ دانستہ طور پر ناکامی دکھائی۔

ایک خانہ بدوش سمگلر جس نے پاکستان میں یورپ جانے کے خواب کو گھناؤنے کاروبار میں بدل دیا’شینگن ویزا‘ کا حصول کس طرح ’بلیک مارکیٹ‘ میں پیسہ کمانے کا ذریعہ بن رہا ہےامریکی ویزا پابندیاں: پاکستانیوں کا 'امریکی ڈریم' خطرے میںپاکستانی پاسپورٹ بدستور نچلے درجے پر مگر وہ 33 ممالک جہاں پاکستانی پہنچ کر ویزہ لے سکتے ہیں

نیٹ امیگریشن یعنی برطانیہ آنے والوں میں سے ملک چھوڑنے والوں کی تعداد نکالنے کے بعد باقی رہنے والے افراد کی تعداد جون 2023 تک کے ایک سال میں نو لاکھ چھ ہزار کی ریکارڈ سطح پر تھی، جو جون 2024 تک کم ہو کر سات لاکھ 28 ہزار ہو گئی۔

سابق وزیرِاعظم رِشی سونک کی جانب سے متعارف کرائی گئی سخت امیگریشن پالیسیوں کو اس کمی کا سبب سمجھا جا رہا ہے۔

ان پالیسیوں میں ہنر مند غیر ملکی ملازمین کے لیے کم از کم تنخواہ کی حد کو پاؤنڈ 26,200 سے بڑھا کر پاؤنڈ 38,700 کرنا اور کیئر ورک کرنے والے ملازمین کے لیے یہ پابندی عائد کرنا شامل تھا کہ وہ اپنے اہلخانہ کو برطانیہ نہ لا سکیں۔

کونسے ملک سے زیادہ افراد سٹوڈنٹ ویزا پر برطانیہ آ رہے ہیں؟

برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی طلبا کے داخلے کے اعداد و شمار رکھنے والی حکومتی ویب سائٹ ’یونیورسٹیز یوکے‘ کے اعدادو شمار کے مطابق مارچ 2024 تک مختلف قومیتوں سے سٹوڈنٹ ویزا پر برطانیہ آنے والے افراد کی تعداد درج ذیل ہے۔

انڈیا (116,455)چین (108,582)نائجیریا (35,331)پاکستان (33,941)امریکہ (14,472)نیپال (9,003)بنگلہ دیش (7,963)ہانگ کانک (6,181)ملائیشیا (6,111)سعودی عرب (5,594)

جیسا کہ اوپر دی گئے چارٹمیں دیکھا جا سکتا ہے کہ سنہ 2019 سے 2023 کے درمیانسٹوڈنس ویزا پر برطانیہ آنے والے سب سے زیادہ افراد کا تعلق انڈیا اور نائجیریا سے تھا۔ تاہم حالیہ دو سالوں کے دوران ان دونوں ملکوں سے آنے والے افراد کی تعداد میں کمی آئی ہے۔

لیبر پارٹی پہلے ہی امیگریشن کے نظام میں تبدیلی کے دباؤ میں تھی لیکن گذشتہ ہفتے ہونے والے مقامی انتخابات میں ریفارم یو کے کی کامیابی کے بعد یہ دباؤ مزید بڑھ گیا ہے۔

ریفارم پارٹی نے جمعرات کو ہونے والے انتخابات میں تقریباً 1600 میں سے 677 نشستیں جیت لیں۔ یہ انتخابات زیادہ تر ان حلقوں میں ہوئے جہاں پہلے کنزرویٹو پارٹی کا غلبہ تھا اور جن میں آخری بار 2021 میں ووٹنگ ہوئی تھی۔

ریفارم پارٹی نے اپنے عام انتخابات کے منشور میں اعلان کیا ہے کہ وہ ’غیر ضروری امیگریشن‘ پر مکمل پابندی عائد کرے گی۔ صرف وہی افراد جن کے پاس مخصوص ہنر ہوں گے مثلاً صحت کے شعبے میں، انھیں برطانیہ آنے کی اجازت دی جائے گی۔

ان نتائج پر ردِعمل دیتے ہوئے وزیرِاعظم سر کیئر سٹارمر نے کہا کہ وہ ووٹرز کے غصے اور مایوسی کو سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہی جذبات انھیں امیگریشن اور عوامی خدمات سے متعلق ان اصلاحات کو تیزی سے اور مؤثر انداز میں نافذ کرنے پر آمادہ کریں گے جن کا انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا۔

مقامی انتخابات سے پہلے ہی ایسے منصوبوں پر کام جاری تھا جن کا مقصد ویزے کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی برطانیہ میں رہنے والے افراد کے مسئلے سے نمٹنا ہے۔

حکومت کی مکمل منصوبہ بندی رواں ماہ کے آخر میں شائع ہونے والی نئے ’امیگریشن وائٹ پیپر‘ میں سامنے آئے گی۔

وزارتِ داخلہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم ان غیر ملکیوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کر رہے ہیں جو ورک یا سٹڈی ویزا پر آتے ہیں اور بعد میں پناہ کی درخواست دیتے ہیں۔ ہمارا مقصد ہے کہ ان کی شناخت جلد اور مؤثر انداز میں کی جائے تاکہ نظام کے استحصال کو روکا جا سکے۔‘

’ہم ویزا سسٹم کا مسلسل جائزہ لیتے رہتے ہیں اور جب بھی ایسا کوئی رجحان سامنے آتا ہے جو امیگریشن قوانین کو نقصان پہنچا سکتا ہو ہم اس پر فوری اقدامات لیتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے آئندہ وائٹ پیپر میں ایک جامع منصوبہ پیش کیا جائے گا جس کا مقصد امیگریشن کے بگڑے ہوئے نظام میں بہتری لانا ہے۔

’19 لاکھ روپے خرچ کر کے آیا لیکن کالج میں کلاس روم ہے نہ عملہ‘ کینیڈا کے سٹوڈنٹ ویزا پر ایجنٹ کیسے فراڈ کرتے ہیں؟ایچ ون بی: امریکہ کا وہ ویزا پروگرام جس پر ٹرمپ کے حامی آپس میں الجھ رہے ہیںپاکستانی پاسپورٹ بدستور نچلے درجے پر مگر وہ 33 ممالک جہاں پاکستانی پہنچ کر ویزہ لے سکتے ہیںآسٹریلیا کی سٹوڈنٹ ویزا پالیسی میں وہ تبدیلیاں جن سے پاکستانی طلبہ متاثر ہو رہے ہیںامریکی ویزا پابندیاں: پاکستانیوں کا 'امریکی ڈریم' خطرے میں’شینگن ویزا‘ کا حصول کس طرح ’بلیک مارکیٹ‘ میں پیسہ کمانے کا ذریعہ بن رہا ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More