پاکستان اور انڈیا کی ڈیجیٹل وار، ’پاکستانی مواد سوشل میڈیا سے ہٹایا جا رہا ہے‘

اردو نیوز  |  May 16, 2025

پاکستان اور انڈیا کے درمیان تاریخی کشیدگی اب ڈیجیٹل میدان میں بھی شدت اختیار کر گئی ہے، جہاں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دونوں ممالک کے درمیان ایک نئی جنگ چھڑ گئی ہے۔

یہ تنازع اُس وقت عروج پر پہنچا جب پاکستانی صارفین نے الزام لگایا کہ انڈیا میں موجود بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے دفاتر، بشمول گوگل اور ایکس، پاکستان سے متعلق مواد کو فوری طور پر سوشل میڈیا سے ہٹوا رہے ہیں، جبکہ پاکستان میں اس طرح کے مواد کو ہٹانے کا عمل سست اور پیچیدہ ہے۔ اس صورت حال نے دونوں ممالک کے درمیان ڈیجیٹل جنگ کو مزید ہوا دی ہے۔

سوشل میڈیا پر حالیہ تنازعات اس وقت شروع ہوئے جب پاکستانی صارفین نے دیکھا کہ ان کے پوسٹ کردہ مواد، خاص طور پر کشمیر اور دیگر حساس سیاسی موضوعات سے متعلق پوسٹس، ایکس اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز سے تیزی سے ہٹائی جا رہی ہیں۔

پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ انڈیا میں ان بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مرکزی دفاتر کا موجود ہونا ہے۔ انڈیا میں گوگل، ایکس اور دیگر بڑی کمپنیوں کے دفاتر ہونے کی وجہ سے ان کے پاس مواد ہٹانے کے عمل کو تیز کرنے کی صلاحیت ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں ان کمپنیوں کے مستقل دفاتر نہ ہونے کی وجہ سے مواد ہٹانے کا عمل قانونی اور تکنیکی پیچیدگیوں سے دوچار ہے۔

ایک پاکستانی سوشل میڈیا ایکٹیوٹ علی رضا، نے کہا کہ ہمارے اکاؤنٹس اور پوسٹس کو انڈیا سے رپورٹ ہونے پر فوری طور پر ہٹا دیا جاتا ہے، لیکن جب ہم انڈیا سے متعلق قابل اعتراض مواد کی شکایت کرتے ہیں تو ہفتوں تک کوئی عمل نہیں ہوتا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ صورتحال پاکستانی صارفین کے لیے ایک غیر منصفانہ ماحول پیدا کر رہی ہے۔

دوسری جانب پاکستان میں انڈین ہائی کمیشن کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس فعال ہیں اور وہ باقاعدگی سے اپنی سرگرمیوں کی تشہیر کرتے ہیں۔ حتی کہ آپریشن سندرور سے متعلق بھی پوسٹس کی جا رہی ہیں۔

تاہم پاکستانی حکام کے مطابق انڈیا میں پاکستانی صارفین کے سینکڑوں اکاؤنٹس کو بلاک کر دیا گیا ہے، جن سے پاکستانی شہریوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک ترجمان نے کہا کہ ’ہمارے اکاؤنٹس کو محدود کرنے کی کوششیں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کو مزید خراب کر رہی ہیں۔‘

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ پاکستان میں سوشل میڈیا مواد کو ہٹانے کے لیے ایک طویل قانونی عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس عمل میں کمپنیوں کو نوٹس جاری کرنا، ان سے جواب طلب کرنا، اور پھر مواد ہٹانے کا فیصلہ کرنا شامل ہے۔

پاکستانی صارفین کے مطابق انڈیا سے متعلق مواد لگانے پر ان کے فیس بک پیجز ڈی مونیٹائز ہو رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)’ہمارے پاس ان کمپنیوں کے مقامی دفاتر نہیں ہیں، اس لیے ہمیں ان کے عالمی ہیڈکوارٹرز سے رابطہ کرنا پڑتا ہے، جو وقت طلب ہے۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ڈیجیٹل جنگ دونوں ممالک کے درمیان معلومات کے کنٹرول اور پروپیگنڈے کی جنگ کا نیا روپ ہے۔ ڈیجیٹل حقوق کی ایک کارکن صبا خان کا کہنا ہے کہ ’سوشل میڈیا اب صرف ایک پلیٹ فارم نہیں، بلکہ ایک ہتھیار بن چکا ہے۔ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی پالیسیوں میں شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ تنازع مزید گہرا ہو رہا ہے۔‘

پاکستانی مواد بنانے والے یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ انڈیا سے متعلق مواد لگانے پر ان کے فیس بک پیجز ڈی مونیٹائز ہو رہے ہیں۔

پاکستان میں بڑی ٹیک کمپنیوں کے دفاتر نہ ہونا

اس نئی ڈیجیٹل جنگ میں خطے میں پاکستانی انٹرنیٹ صارفین کی آواز انڈیا میں دبائی جا رہی ہے، تاہم جس رفتار سے انڈیا میں مواد روکا جا رہا ہے اس کے مقابلے میں پاکستانی شہریوں کی ٹائم لائنز پر انڈین مواد کی بھرمار ہے۔ تو ایسے میں سوال ہے کہ پاکستان میں بڑی ٹیک کمپنیوں کے دفاتر کیوں نہیں ہیں؟

ماہرین کے مطابق اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن ایک بڑی وجہ پاکستان کے انٹرنیٹ سے متعلق سخت قوانین ہیں۔

پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے چئیرمین سجاد مصطفیٰ سید کا کہنا ہے کہ ’ملک میں انٹرنیٹ کے مسائل اور سخت ریگولیٹری ماحول کی وجہ سے بڑی آئی ٹی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری سے گریز کر رہی ہیں۔ اگر ہمیں سوشل میڈیا جنگ میں برابر کا مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں اپنے آئی ٹی انفراسٹرکچر کو مضبوط کرنے اور کمپنیوں کو یہاں دفاتر کھولنے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔‘

پاکستان میں بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مستقل دفاتر کی عدم موجودگی کی کئی وجوہات ہیں (فوٹوؒ ٹیک جوس)ماہرین کے مطابق پاکستان میں بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں جیسے گوگل، فیس بک، ایکس، اور ٹک ٹاک کے مستقل دفاتر کی عدم موجودگی کی کئی وجوہات ہیں۔ پاکستان کے سوشل میڈیا اور ڈیٹا سے متعلق قوانین، جیسا کہ پروینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016، سخت ہیں اور اکثر غیر شفاف سمجھے جاتے ہیں۔

ان قوانین میں مواد ہٹانے، صارفین کے ڈیٹا کے مقامی سٹوریج، اور دیگر پابندیوں کے تقاضے شامل ہیں، جو بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ مثال کے طور پر ایشیا انٹرنیٹ کولیشن (اے آئی سی)، جس میں گوگل اور میٹا جیسی کمپنیاں شامل ہیں، نے پاکستانی قوانین کو عالمی ڈیٹا تحفظ کے معیارات سے متصادم قرار دے رکھا ہے۔

پاکستان کے قوانین کے مطابق ان بڑی کمپنیوں کو اپنے ڈیٹا سنٹر پاکستان میں رکھنے ہیں اور ڈیٹا ملک سے باہر نہیں لے جایا جا سکتا۔

یاد رہے کہ 2020 میں متعارف کرائے گئے سوشل میڈیا رولز کے تحت کمپنیوں پر 24 گھنٹوں میں قابل اعتراض مواد ہٹانے اور پاکستان میں دفاتر کھولنے کی پابندی عائد کی گئی تھی۔ تاہم صحافتی تنظیموں اور ڈیجیٹل رائٹس گروپس، جیسے کہ بائٹس فار آل، نے ان قوانین کو آزادی رائے کے خلاف قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی تھی۔ اس کے نتیجے میں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2021 میں پیکا ایکٹ کی بعض ترامیم کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔

انڈیا کے سخت قوانین اور بڑا کاروباری حجم

ایسا نہیں ہے کہ قوانین پاکستان میں سخت ہیں انڈیا میں بھی انٹرنیٹ سنسرشپ بڑی حد تک سخت ہے اور حکومت اس کا اطلاق اپنی مرضی کے مطابق اپوزیشن اور صحافیوں پر کرتی رہتی ہے۔

انڈیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) ایکٹ 2000 اور اس کی 2021 کی ترامیم، خاص طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی (انٹرمیڈیری گائیڈلائنز اینڈ ڈیجیٹل میڈیا ایتھکس کوڈ) رولز، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سخت کنٹرول رکھتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے سنسرشپ کے باوجود انڈیا دنیا کی سب سے بڑی ڈیجیٹل مارکیٹس میں سے ایک ہے (فوٹو: اے ایف پی) ان قوانین کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں کو انڈیا میں ایک مقامی دفتر اور ایک شکایتی آفیسر مقرر کرنا ضروری ہے۔ قابل اعتراض مواد (جسے حکومتی یا عدالتی احکامات کے تحت ہٹانے کا کہا جائے) 36 گھنٹوں کے اندر ہٹانا لازمی ہے۔ کمپنیوں کو صارفین کے ڈیٹا کی نگرانی اور حکومتی اداروں کے ساتھ تعاون کرنا ہوتا ہے، جو رازداری کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

حالیہ برسوں میں، انڈیا نے ’غلط معلومات‘ اور ’ملکی سلامتی‘ کے نام پر مواد ہٹانے کے احکامات جاری کیے ہیں، جن پر انسانی حقوق کی تنظیمیں تنقید کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان قوانین کو ’سنسرشپ کو قانونی جواز‘ دینے والا قرار دیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے سنسرشپ کے باوجود انڈیا دنیا کی سب سے بڑی ڈیجیٹل مارکیٹس میں سے ایک ہے، جہاں 80 کروڑ سے زائد انٹرنیٹ صارفین ہیں۔ یہ بڑی کمپنیوں کے لیے ایک منافع بخش مارکیٹ ہے، جہاں وہ اشتہارات، کلاؤڈ سروسز، اور دیگر ڈیجیٹل خدمات سے اربوں ڈالر کماتی ہیں۔ جبکہ پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد تقریبا 10 کروڑ ہے، جو انڈیا کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس لیے پاکستان کی مارکیٹ کمپنیوں کے لیے اتنی پرکشش نہیں ہے۔

یہ سب سے بڑی وجہ ہے جو اب ڈیجیٹل تنازعات میں بھی انڈیا کو مدد کر رہی ہے۔ انڈیا میں بڑی مارکیٹ، بہتر کاروباری ماحول اور حکومتی مراعات ہیں۔

اگرچہ انڈیا کے سنسرشپ قوانین پاکستان کی طرح سخت ہیں، لیکن انڈیا کی معاشی اور عالمی اہمیت کمپنیوں کو وہاں کام کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ  پاکستان کو اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے اپنے آئی ٹی سیکٹر کو مضبوط کرنے، شفاف قوانین بنانے، اور کمپنیوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے دفاتر قائم کرنے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More