Getty Images(فائل فوٹو)
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر اور دوسرے کئی انڈین شہروں میں بدھ کی صبح سرکاری طور پر ’آپریشن شیلڈ‘ کے نام سے حفاظتی مشقوں کا اعلان کیا گیا لیکن اسی روز رات کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والی یہ مشقیں ملتوی کر دی گئیں۔
سٹیٹ ڈِیزاسٹر رسپانس فورس (ایس ڈی آر ایف) نے ایک بیان جاری کیا کہ ’ان مشقوں کو مخصوص حالات کے پیش نظر ملکی سطح پر پلان کیا گیا۔ اس کا مقصد ہنگامی صورتحال میں مختلف محکموں کی تیاری کا جائزہ لینا ہے۔ اس میں لوگوں کو بھی شامل کیا جائے گا تاکہ وہ بحران کے وقت مناسب حفاظتی انتظام کرسکیں۔‘
بیان کے مطابق جمعرات کو ہونے والی ان مشقوں کو ’انتظامی وجوہات‘ کے باعث ملتوی کیا گیا اور اگلی تاریخ کا اعلان جلد ہی کیا جائے گا تاہم پولیس ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ بڑے پیمانے پر ہونے والی ان مشقوں کو انڈین وزیر داخلہ امیت شاہ کے دورے کی وجہ سے ملتوی کیا گیا۔
واضح رہے امیت شاہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی اور پھر دونوں ملکوں میں سیز فائر کے 19 روز بعد جمعرات سے جموں اور پونچھ کا دو روزہ دورہ کررہے ہیں۔
اس دورے کے دوران وہ سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لینے کے علاوہ پونچھ میں کراس بارڈر شیلنگ سے متاثرہ خاندانوں سے بھی ملیں گے۔
’رات کو جنگی طیارے اُڑنے لگے تو لگا پھر جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں‘
قابل ذکر بات یہ ہے کہ چھ مئی کو انڈین حکام نے اعلان کیا تھا کہ اگلے روز یعنی سات مئی کو جموں کشمیر سمیت ملک کی بیشتر ریاستوں میں حفاظتی مشقیں ہوں گی لیکن چھ اور سات مئی کی رات ہی انڈیا نے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کر دیا جسے سرکاری طور پر ’آپریشن سندور‘ کا نام دیا گیا۔
حالیہ کشیدگی میں انڈین اور پاکستانی فوج کے درمیان شیلنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے پونچھ سیکٹر میں اکثر لوگوں نے اس وقت مشقوں کا اعلان سن کر نقل مکانی کو ملتوی کر دیا تھا لیکن پھر دونوں ممالک کے درمیان اس جھڑپ سے یہاں کے رہنے والے شدید متاثر ہوئے۔
یہی وجہ ہے کہ بدھ کو بھی جب ’آپریشن شیلڈ‘ کا اعلان ہوا تو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
Getty Imagesپہلگام میں ہلاک ہونے والے ایک سیاح کے اہلخانہ
سرینگر ائیرپورٹ کے قریب رہنے والے جاوید احمد نے بتایا کہ ’پہلے مشقوں کا اعلان ہوا، پھر سوشل میڈیا پر کئی انڈین صارفین نے کہا کہ پاکستان کے خلاف آپریشن شروع ہو گا۔ پھر جب رات کو طیارے اُڑے تو مجھے لگا پھر سے جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں۔‘
یاد رہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں 22 اپریل کو 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد انڈیا نے رواں ماہ چھ اور سات تاریخ کی درمیانی شب پاکستان کے خلاف عسکری کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان میں متعدد مقامات کو نشانہ بنایا تھا۔
پاکستان نے بھی جوابی کارروائی کی اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر اگلے چار روز تک حملے کرتے رہے تاہم امریکہ کی ثالثی میں پھر دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر ہوا۔
انڈیا کا ’سٹیلتھ‘ جنگی طیارے بنانے کا منصوبہ کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟’ورنہ میری گولی تو ہے ہی‘: پاکستان، انڈیا کشیدگی کے بیچ وزیراعظم مودی کے سخت بیانات کیا ظاہر کرتے ہیں؟مریدکے سے مظفرآباد تک: انڈیا نے چھ مئی کی شب پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں کن مقامات کو نشانہ بنایا اور کیوں؟پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے جدید طیاروں، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تک’یہ مشقیں سیاسی مجبوری ہیں، نہیں لگتا جنگ ہو گی‘
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سینئیر صحافی اور تجزیہ نگار ہارون ریشی کے مطابق ماک ڈرلز (مشقوں) کا براہ راست مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک حالت جنگ میں ہے ’لیکن اس کا مطلب نہیں کہ جنگ ہو گی۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سے انڈیا کی خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی میں تال میل کی کمی ہے۔ اُدھر ہم دنیا میں کہہ رہے ہیں کہ ہم جنگ نہیں بلکہ دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں، اِدھر ملک میں ٹی وی اور سوشل میڈیا پر ہم جنگ چھیڑے ہوئے ہیں۔ ماک ڈرلز کے اعلان اور بار بار جیٹ پروازوں سے اُن بے بنیاد باتوں کو تقویت ملتی ہے جو سوشل میڈیا پر پھیلائی جا رہی ہیں۔‘
موٴرخ اور تجزیہ نگار پیر غلام رسول اس بارے میں کہتے ہیں کہ سیز فائر تو قائم ہے لیکن اگر حالات مکمل طور پر ٹھیک ہو گئے تو پھر کئی سوالات اُٹھتے ہیں۔
’پھر جواب دینا پڑے گا کہ جنگ میں ہوا کیا تھا، یا یہ کہ ہم نے جنگ کا مقصد حاصل کیا یا نہیں۔ اپوزیشن کا مطالبہ ہے آپریشن سندور سے متعلق خصوصی پارلیمانی اجلاس طلب کیا جائے۔ یہ سب (مشقیں) سیاسی مجبوری ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ کوئی جنگ ہو گی۔‘
دوسری جانب صحافی اور تجزیہ نگار شبیر ابن یوسف کہتے ہیں کہ زمین پر جو کچھ نظر آ رہا ہے اس سے نہیں لگتا کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’فوج کو مسلسل موبلائز کیا جا رہا ہے اور پھر انڈیا نے سرکاری طور پر بھی اعلان کیا کہ آپریشن سندور معطل ہے لیکن ختم نہیں ہوا۔‘
Getty Imagesتجزیہ نگار پیر غلام رسول کہتے ہیں کہ یہ مشقیں سیاسی مجبوری ہیں (فائل فوٹو)تو کیا دنیا میں سفارتی وفود بھیجنا بھی جنگ کی تیاری ہے؟
پاکستان اور انڈیا کے درمیان چار روزہ تنازع اور ایک دوسرے کے خلاف عسکری کارروائیوں کے بعد دونوں ممالک کی حکومتوں نے اعلیٰ سطح کے وفود کو عالمی سفارتی مہم پر روانہ کرنے کا اعلان کیا اور دونوں ہی ملکوں کی جانب سے تشکیل دیے گئے اِن وفود میں اہم سیاسی رہنماؤں کو شامل کیا گیا۔
یاد رہے کہ اس نوعیت کی سفارتی مہم کا اعلان پہلے انڈیا کی جانب سے ہوا جس کے بعد پاکستان کی حکومت نے بھی اسی طرح کی سفارتی مہم کا اعلان کیا۔
ایک ایسے وقت میں جب دونوں ممالک میں اگرچہ سیز فائر تو ہو چکا لیکن سرحد کے دونوں جانب لگ بھگ 88 گھنٹوں میں پیش آئے واقعات پر متضاد دعوؤں کے بیچ یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ اِن سفارتی مہمات کا مقصد کیا ہے اور دونوں ممالک ان کے ذریعے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
اس سوال پر مبصرین کے درمیان اختلاف نظر آتا ہے۔ بعض مبصرین کا یہاں تک کہنا ہے کہ بیرون ملک سیاسی وفود بھیجنے کے پیچھے ’یہ مقصد بھی ہو سکتا ہے کہ کسی جنگ کی صورت میں ملک کو عالمی سطح پر سفارتی حمایت حاصل ہو۔‘
موٴرخ اور تجزیہ نگار پیر غلام رسول بیرون ملک وفود بھیجنے کو جنگ کی تیاری سے تعبیر کرنے کو ’تجزیاتی حماقت‘ کہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’بیرون ممالک سفارتی وفود اس لیے بھیجے جاتے ہیں تاکہ وہ ملک کو متاثرہ پارٹی کے طور پر پیش کریں نہ کہ ایک جارح قوت کے طور پر۔ ششی تھرور اور جے شنکر کے بیانات سے بھی واضح ہوا کہ انڈیا دنیا کو یہ بتا رہا ہے کہ اُس نے صرف دہشت گردی کے ردعمل میں پاکستان میں دہشت گردوں کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور کوئی حملہ نہیں کیا۔‘
دوسری جانب تجزیہ نگار ہارون ریشی بھی کہتے ہیں کہ آج تک کسی بھی ملک نے سفارتی وفود کو دنیا بھر میں یہ کہنے کے لیے نہیں بھیجا کہ وہ فلاں ملک پر چڑھائی کریں گے۔
’وہ ایک دوسری صورتحال ہوتی ہے۔ اُس میں فوجی اتحادیوں سے حکومتی سطح پر بات ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر 1971 کی جنگ سے پہلے سرکاری طور پر سویت یونین سے بات چیت ہوئی تھی اور یہ بات جنگ کی صورت میں ہتھیاروں اور دوسری سپلائز سے متعلق تھی لیکن سفارتی وفود کا ایجنڈا امن سے متعلق ہوتا ہے۔ وہ دنیا کو یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے صرف دہشت گردی کے ردعمل میں کوئی کام کیا، کوئی جارحیت نہیں کی۔‘
مریدکے سے مظفرآباد تک: انڈیا نے چھ مئی کی شب پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں کن مقامات کو نشانہ بنایا اور کیوں؟انڈیا کا ’سٹیلتھ‘ جنگی طیارے بنانے کا منصوبہ کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟رفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںپاکستانی فوج کا ’رفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے‘ گرانے کا دعویٰ: بی بی سی ویریفائی کا تجزیہ اور بھٹنڈہ کے یوٹیوبر کی کہانیپاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے جدید طیاروں، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تکانڈیا پاکستان کشیدگی کے دوران ’انفارمیشن وار‘ اور وہ فوجی اہلکار جو اس ’جنگ‘ کا چہرہ بن گئے