"جنت میں میرے پسندیدہ پھل نہیں ہیں، کیلا جنت میں نہیں ملتا جو میرا پسندیدہ پھل ہے اور امرود بھی وہاں نہیں ملتے... جب میرے پسندیدہ پھل ہی جنت میں نہیں تو ہوسکتا ہے وہ پھل مجھے جہنم میں مل جائیں، اسی لیے میں جنت جانے کیلئے کوششیں نہیں کرتا۔"
یہ وہ جملے ہیں جنہوں نے ایک بار پھر جاوید اختر کو تنازعات کے گرداب میں دھکیل دیا ہے۔ بھارت کے معروف شاعر، اسکرپٹ رائٹر اور نغمہ نگار جاوید اختر نے حالیہ انٹرویو میں خدا، آخرت اور جنت و دوزخ کے متعلق جو خیالات ظاہر کیے، وہ نہ صرف سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو گئے بلکہ غصے اور دکھ کے شدید ردعمل کا باعث بھی بنے۔
انٹرویو کے دوران ایک صحافی کے سوال پر جاوید اختر نے چٹکلے کی صورت میں ایسا بیان دیا جس نے سنجیدہ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔ ان کا یہ کہنا کہ وہ جنت کی خواہش اس لیے نہیں رکھتے کیونکہ وہاں ان کے پسندیدہ پھل موجود نہیں، سننے والوں کے لیے محض ایک طنزیہ مزاحیہ جملہ نہیں تھا، بلکہ بہت سے صارفین کے نزدیک یہ ایمان و عقیدہ کے ساتھ کھلواڑ اور مذاق تھا۔
سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں لوگوں نے اس بیان پر برہمی کا اظہار کیا ہے، اور اسے مذہبِ اسلام کے مقدس تصورات کی توہین قرار دیا ہے۔ کمنٹس میں جاوید اختر کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جہاں کچھ صارفین نے انہیں "خود ساختہ روشن خیال" تو کسی نے "دینی امور پر جہالت کا نمونہ" قرار دیا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ جاوید اختر نے ایسی بات کی ہو جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہو۔ ماضی میں بھی وہ پاکستان، مسلمانوں، اور مذہبی معاملات پر متنازع بیانات دے کر خبروں کی زینت بنتے رہے ہیں۔ مگر اس بار معاملہ صرف سرحدی سیاست یا نظریاتی اختلاف تک محدود نہیں رہا، بلکہ ایک ایسی حد پار کی گئی جسے امت مسلمہ اپنے عقیدے پر حملہ تصور کر رہی ہے۔