مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال میں ایک بڑا موڑ اُس وقت آیا جب ایران نے اسرائیل کو نشانہ بناتے ہوئے درجنوں میزائل فائر کیے، جن میں بیلسٹک میزائل بھی شامل تھے۔ اسرائیلی میڈیا نے تصدیق کی ہے کہ حملے کے بعد تل ابیب میں زور دار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں اور کئی افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اب تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق کم از کم چالیس افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
اسرائیلی اخبار ہاریٹز نے دعوی کیا ہے کہ ایران نے 150 میزائل اسرائیل کی طرف داغے۔ ایرانی میزائل حملے میں 40 اسرائیلی باشندے زخمی ہو گئے ہیں جن میں دو کی حالت نازک ہے۔ ایرانی میزائلوں کے حملے کے نتیجے میں تل ابیب کے مضافات میں نو عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔
اس تازہ کشیدگی کی شروعات ایران کی جانب سے "جوابی کارروائی" کے اعلان سے ہوئی، جس میں تہران نے اسرائیلی حملوں کے ردِعمل میں میزائل داغے۔ رپورٹس کے مطابق دارالحکومت میں خطرے کے سائرن بجنا شروع ہوئے اور شہریوں کو فوری طور پر پناہ گاہوں کا رخ کرنا پڑا۔ صورتحال اتنی سنگین ہو گئی کہ شہر میں معمولاتِ زندگی رک گئے اور فضا خوف و بے چینی سے بھر گئی۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے ایک بڑا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ایران کے شہر اصفہان میں ایک حساس جوہری مقام کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ الزام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان شدید تناؤ جاری ہے اور مستقبل کی صورتحال غیر یقینی دکھائی دے رہی ہے۔
ایران کے اعلیٰ ترین رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے قوم سے خطاب میں واضح الفاظ میں کہا کہ ملک نے کسی بھی مرحلے پر نرمی نہیں برتی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران کی مسلح افواج دشمن کے جارحانہ اقدامات کو بے اثر بنانے کے لیے مکمل تیار ہیں اور کسی بھی حملے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
خامنہ ای نے اسرائیل پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی ریاست اپنے کیے کا خمیازہ ضرور بھگتے گی اور یہ وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے اقدامات کی قیمت ادا کرے۔ انہوں نے کہا کہ ایران، جارحیت کے خلاف خاموشی اختیار نہیں کرے گا اور دفاع کو اپنی پہلی ترجیح بنائے گا۔
دوسری جانب ایرانی نیوز ایجنسی ارنا کا کہنا ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے ٹیلیفونک رابطے کے دوران برطانوی حکام پر واضح کردیا ہے کہ ایران، اسرائیلی جارحیت کے خلاف تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیلوں کو منظور نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایران اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق فیصلہ کن جوابی کاروائی کرے گا۔
یہ صورت حال مشرقِ وسطیٰ میں پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید بڑھا سکتی ہے، اور عالمی برادری اس لمحے کو نہایت سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔