کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں گذشتہ روز فلیٹ سے ملنے والی ماضی کی معروف اداکارہ عائشہ خان کی کئی روز پرانی لاش نے معاشرے کی بے حسی کو آشکار کردیا۔
ماضی میں ٹی وی اسکرین پر ہزاروں دلوں کی دھڑکن رہنے والی اداکارہ عائشہ خان کو ہفتہ کے روز سخی حسن قبرستان میں مرحوم والد کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا۔
عائشہ خان کی نماز جنازہ اہل خانہ نے قبرستان میں ہی ادا کی، افسوسناک پہلو یہ تھا کہ ان کی نماز جنازہ میںکوئی شخصیت شریک تھی نہ ہی کوئی پرستار موجود تھا۔
یاد رہے کہ اہل خانہ کی جانب سے پوسٹمارٹم نہ کرائے جانے اور موت کو طبعی قرار دینے کے بعد اداکارہ کی لاش جناح اسپتال سے سہراب گوٹھ ایدھی سرد خانے منتقل کردی گئی تھی۔
عائشہ خان نے انارکلی، زرد موسم اور دھوپ کنارے جیسے یادگار ڈراموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے، تاہم زندگی کے آخری ایام میں وہ سماجی تنہائی کا شکار ہوگئی تھیں۔
ایک فنکارہ کی موت نے ہمیں کیا سبق دیا؟
عائشہ خان کی افسوسناک موت نے معاشرے کی بے حسی کو بے نقاب کردیا ہے جہاں فنکار اپنے عروج میں تو سب کی نظروں کے تاج ہوتے ہیں، مگر زوال پذیر ہو کر تنہائی کے اندھیرے میں کھو جاتے ہیں۔
کیا ہم اس معاشرے کا حصہ بننے کے قابل ہیں جہاں انسانیت اپنے ہی گھر میں مر جائے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو؟
عائشہ خان کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی مگر ان کی زندگی اور موت کا درد ہمارے لیے ایک سوال چھوڑ گیا ہے کہ ’’کیا ہم واقعی اتنے بے حس ہو چکے ہیں؟