دریائے سوات میں ایک خاندان کے 18 بہہ جانے کے بعد خیبر پختون خواہ حکومت کو فلڈ سیل قائم کرنے کا خیال آیا۔
وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے "فلڈ سیل" قائم کرنے کی ہدایت جاری کیں اور اس کی تشہیر سوشل میڈیا پر اپنی تصویر کے ساتھ کی۔ اس انسانی المیہ کو بھی خیبر پختون خواہ کے وزیراعلی علی امین گنڈاپور نے خود نمائی کے لیے استعمال کیا۔
سالانہ سانحات، مگر ریاستی تیاری صفر
سیاحتی مقام پر بے رحم لہروں کے درمیان موت سے لڑتے، اپنے پیاروں کو آنکھوں کے سامنے مرتا ہوا دیکھنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ ہر سال خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں سیلاب، بارشیں، برفانی تودے اور دیگر قدرتی آفات انسانی جانوں کا صفایا کرتے ہیں۔ مگر ہر سال وہی تماشہ دہرایا جاتا ہے. یعنی حادثہ، میڈیا میں شور، حکومت کی روایتی پریس ریلیز، اور پھر خاموشی۔ صوبے کی سیر و سیاحت کے مشہور علاقوں، سوات، کالام، مہوڈنڈ، کمراٹ میں لاکھوں سیاح ہر سال آتے ہیں، مگر یہاں نہ کوئی جدید انفراسٹرکچر موجود ہے، نہ وارننگ سسٹمز، نہ خطرے کے زونز کی نشاندہی، نہ تربیت یافتہ عملہ، اور نہ ہی ایمرجنسی پلان۔
سیاحت سے آمدنی، مگر تحفظ نہیں
سوات اور اس جیسے دیگر علاقوں سے حکومت کروڑوں روپے سیاحت کی مد میں کماتی ہے، لیکن ان علاقوں میں عوامی تحفظ کے لیے ایک مربوط نظام تک موجود نہیں۔ دریا کے کنارے نہ کوئی حفاظتی رکاوٹیں، نہ کوئی وارننگ سسٹم، نہ نشیبی علاقوں میں رہائش پذیر افراد کے لیے کوئی ایویکیوایشن پلان۔ جب حادثہ ہو جاتا ہے تو سارا بوجھ ریسکیو 1122 کے محدود وسائل اور عملے پر ڈال دیا جاتا ہے، جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لاشیں نکالنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کا کردار کہاں ہے؟
حیرت انگیز طور پر، اس واقعے سے ایک روز قبل محکمہ موسمیات نے ممکنہ بارشوں اور سیلابی خطرات کے پیشگی الرٹس جاری کیے تھے، مگر نہ ضلعی انتظامیہ نے سیاحوں کو خبردار کیا، نہ حفاظتی اقدامات کیے، نہ ہی کسی پل یا دریا کے کنارے سیر و تفریح پر کوئی پابندی لگائی گئی۔ کیا یہ انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت نہیں؟ اگر بروقت الرٹ جاری کیا جاتا، لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاتا، یا کم از کم سیاحوں کو متنبہ کیا جاتا تو شاید آج اتنے جنازے نہ اٹھتے۔
دکھاوا یا عملی اقدام؟
وزیر اعلیٰ کا ہنگامی فلڈ سیل کا اعلان، اور چند ہیلپ لائن نمبرز کا اجرا. یہ سب کاغذی کاروائیاں اس وقت بے معنی لگتی ہیں جب زمینی حقیقت یہ ہو کہ متاثرہ علاقے میں ابتدائی گھنٹوں میں ریسکیو ٹیمیں بھی موجود نہ تھیں۔ مقامی لوگوں اور رضاکاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت لاشیں نکالیں۔ حکومت کا اصل امتحان تب ہوتا ہے جب حادثہ رونما ہونے سے پہلے بچاؤ کی منصوبہ بندی کی جائے، نہ کہ بعد میں سیاسی بیانات کے ذریعے سستی شہرت حاصل کی جائے۔
کیا ایک اور سانحے کا انتظار؟
سوال یہ ہے کہ 12 برسوں سے خیبرپختونخواہ پر حکومت کرنے والوں نے ان حادثات سے کیا سیکھا؟ کالام میں ہوٹل کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے سے لے کر کر کمراٹ میں سیلابی تباہی تک، ہر واقعے میں حکومت صرف تعزیتی بیانات دیتی ہے، مگر عملی اقدامات صفر۔ اگر یہی روش برقرار رہی تو ہر بار لوگ مرتے رہیں گے، حکومت ہیلپ لائن نمبر دیتی رہے گی، اور دریا اپنے بے گناہ مسافروں کو نگلتا رہے گا۔
ہیلی کاپٹر تو دور، ڈرون تک نہ پہنچا
یہ 2025 ہے، کوئی صدی پرانا دور نہیں مگر خیبرپختونخوا حکومت کی نااہلی دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ابھی تک پتھر کے زمانے میں جی رہے ہوں۔ جب دنیا بھر میں ڈرونز نہ صرف جنگوں بلکہ قدرتی آفات میں زندگیاں بچانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، یہاں دریا میں ڈوبتے انسانوں کو نہ ہیلی کاپٹر تو دور ایک ڈرون تک نصیب نہ ہوا. کم از کم لائف جیکٹس یا رسیوں سے بندھی کوئی مدد تو ان تک پہنچائی جا سکتی تھی مگر حکومت یہاں بھی منہ موڑے کھڑی رہی. علی امین گنڈاپور کی انتظامیہ اتنی ناکارہ ثابت ہوئی کہ سیلاب میں پھنسی ہوئی زندگیاں تڑپتی رہیں، اور جدید ٹیکنالوجی صرف حکومت کی پریس ریلیز تک محدود رہی۔ یہ صرف غفلت نہیں، یہ مجرمانہ بے حسی ہے اور اس کی قیمت مرحومین نے اپنی جانوں سے چکائی ہے.
یہ وقت ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت صرف دکھاوے کے اقدامات کے بجائے حقیقی، زمینی اور سائنسی بنیادوں پر مبنی فلڈ مینجمنٹ سسٹم تشکیل دے۔ مقامی انتظامیہ، ریسکیو ادارے، موسمیاتی ماہرین، اور سیاحتی ڈپارٹمنٹس کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر ایسا لائحہ عمل بنایا جائے جو آنے والے سالوں میں انسانی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ بصورتِ دیگر، ہر نیا مون سون، نئی لاشیں، اور ایک نیا سیاسی بیان لے کر آئے گا اور ہم ایک بار پھر سوال کرتے رہ جائیں گے کہ حکومت کہاں ہے؟