سفید لباس، ہٹلر کے قول اور پیچیدہ خودکشی کا نوٹ: 17 سالہ لڑکی کی موت کا معمہ جسے سلجھانے کے لیے پولیس کو ماہرین کی مدد لینا پڑی

بی بی سی اردو  |  Jul 02, 2025

Getty Images

انتباہ: اس رپورٹ کے کچھ حصے قارئین کے لیے پریشان کُن ہو سکتے ہیں۔

’میری جائیداد لوگوں کو عطیہ کر دینا۔ مجھے جنگل میں دفن کر دینا یا موت کے بعد سمندر میں پھینک دینا۔۔۔ میں یہاں نہیں رہنا چاہتی۔۔۔‘

یہ الفاظ اُس 17 سالہ لڑکی کے دو صفحات پر مشتمل خودکشی کے نوٹ میں درج ہیں جن کی موت سے قبل آخری تحریر کو سمجھنے کے لیے پولیس کو ناصرف ڈکشنری بلکہ ماہرین تک کی مدد لینا پڑی۔

بی بی سی اردو کے فیچرز اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں

اس نوجوان لڑکی نے سفید لباس پہن کر خودکشی کی تھی اور اپنی جان لینے کے لیے تیز دھار چھری اپنے گلے پر پھیر لی تھی۔ گردن پر چھری پھیرنے سے قبل اس سنے اپنی کلائی کو پانچ جگہ سے کاٹا تھا۔

اس واقعے کی اطلاع ملنے پر جب پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تو لڑکی کے بیڈروم میں ہر طرف خون ہی خون بکھرا ہوا تھا۔

یہ خودکشی کا ایک عام سا نہیں بلکہ انتہائی پیچیدہ کیس تھا جس میں خودکشی کرنے سے پہلے لڑکی خون میں لت پت ہاتھ لیے ناصرف گھر میں چلتی پھرتی رہی بلکہ اس دوران اُس نے منہ سے کوئی آواز تک نہ نکالی یہاں تک کے گھر کے اندر ہی دوسرے کمرے میں موجود اس لڑکی کے والدین بھی اس سے بے خبر رہے۔

27 جنوری 2025 کو انڈیا کے شہر ناگپور میں پیش آنے والے اس خودکشی کے کیس کا معمہ سلجھانے میں پولیس نے کئی ماہ تک سرتوڑ کوششیں کیں۔

دوران تفتیش پتا چلا کہ خودکشی کرنے سے پہلے اس لڑکی نے گوگل پر ’موت کے بعد کیا ہوتا ہے؟‘ جیسا مواد سرچ کیا تھا۔

اور اب پولیس کا دعویٰ ہے کہ لڑکی ہٹلر کے (نازی) نظریے سے متاثر دکھائی دیتی تھی۔

گھر کا منظر جس نے پولیس کو چونکا دیاGetty Images

مقامی پولیس سٹیشن کی سینئر پولیس انسپکٹر انامیکا مرزا نے اس واقعے سے متعلق بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس کو 27 جنوری کی صبح اطلاع ملی تھی کہ ایک 17 سالہ لڑکی نے خودکشی کر لی ہے۔

پولیس کے مطابق جب وہ تفتیش کے لیے لڑکی کے گھر پہنچے تو وہاں کا پورا منظر دیکھ کر وہ بھی چونک گئے۔

لڑکی نے جس دلفریب نظر آنے والی چھری سے اپنے گلے اور ہاتھ کو کاٹا تھا وہ چھری اُن کے والد کو کہیں سے تحفے میں ملی تھی۔

پولیس نے موقع پر پہنچ کر رپورٹ لکھی جبکہ تفتیش کے لیے وہاں موجود مواد ضبط کیا جس میں خودکشی کا نوٹ اور لڑکی کی دو ڈائریاں بھی شامل تھیں۔

خودکشی کے نوٹ ملنے کے باوجود پولیس کو اب بھی شک تھا کہ شاید یہ ممکنہ قتل کی واردات ہو سکتی ہے تاہم پھر تین مہینے کی تفتیش کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ لڑکی نے واقعی خودکشی کی تھی۔

خودکشی کے نوٹ کی مشکل تحریرGetty Images

پولیس کو تفتیش کے دوران لڑکی کے کمرے سے دو صفحات پر مشتمل ایک خودکشی کا نوٹ ملا جس پر لکھی تحریر میں اس قدر مشکل الفاظ شامل تھے کہ انھیں سمجھنے کے لیے پولیس کو لغت (ڈکشنری) کا استعمال کرنا پڑا۔

پولیس افسر نامیکا مرزا نے بتایا کہ اِس نوٹ میں نازی نظریے (نازی آئیڈیالوجی) کا بھی ذکر تھا۔

پولیس کے مطابق لڑکی اپنے موبائل اور لیپ ٹاپ پر خودکشی کرنے سے پہلے بار بار یہ سرچ کرتی رہی کہ موت کے بعد کیا ہوتا ہے؟

سرچ میں یہ بھی شامل تھا کہ جسم میں موجود کون کون سی رگ کاٹنے سے موت واقع ہو سکتی ہے اور خدا کا مخالف کیا ہوتا ہے؟

پولیس نے سرچ ہسٹری میں یہ سبھی باتیں تلاش کیں۔ پولیس کو لڑکی کے بیڈروم سے جرمن اور دیگر غیر ملکی زبانوں میں لکھی گیی تمام ڈائریاں اور اقتباسات بھی ملے اور پولیس کے مطابق تفتیش کے دوران کچھ نکات سمجھنے کے لیے انھیں لسانیات کے ماہر (لینگویج ایکسپرٹ) کی مدد لینا پڑی۔

’12 زبانیں جاننے والی اور نازی نظریے سے متاثر‘

اس کیس سے منسلک پولیس افسران کے مطابق تفتیش کے دوران علم ہوا کہ مرنے والی لڑکی بہت ذہین تھی۔ ’وہ 12 زبانیں جانتی تھی اور روزانہ اپنی ڈائری میں نوٹ لکھ کر ہر چیز کا ریکارڈ رکھتی تھی۔ یہاں تک کہ اس میں یہ تک لکھا ہوتا تھا کہ اسے کس وقت کون سا خاص کام کرنا ہے۔‘

پولیس کو ڈائری میں موجود معلومات سے پتہ چلا کہ وہ ممبئی سے ناگپور آنا نہیں چاہتی تھی۔ کیونکہ لڑکی کے خیالات کے مطابق ناگپور ایک نچلے طبقے کا شہر ہے اور یہ کہ وہ وہ جرمنی بھی جانا چاہتی تھیں۔ انھیں مطالعے (کتابیں پڑھنے) کا بہت شوق تھا اور اُن کے کمرے میں بہت سی کتابیں موجود تھیں۔ پولیس افسر کے مطابق ’وہ بہت خاموش طبیعت کی مالک تھیں اور کسی سے زیادہ بات نہیں کرتی تھیں۔‘

زندگی کے آخری دن ہٹلر نے شادی رچائی، جشن منایا اور پھر خود کو گولی مار لی۔۔۔خودکشی کا ڈرامہ، موبائل فون نوٹ: ماں باپ کو قتل کرنے والا انجینیئرنگ کا طالب علم کیسے پکڑا گیا؟شادی کی 26ویں سالگرہ پر میاں، بیوی کی ’خودکشی‘: پھولوں سے ڈھکی لاش اور واٹس ایپ سٹیٹس ’میرے جانے کے بعد کوئی نہ روئے‘

انھوں نے کہا کہ اس لڑکی کے بیڈروم میں مختلف زبانوں میں جملے بھی آویزاں تھے جن میں سے زیادہ تر نازی نظریے سے متعلق تھے۔ جبکہ بیڈروم میں ہٹلر کے اقوال کے پوسٹر بھی موجود تھے۔

پولیس کے مطابق اِن جملوں کا مطلب سمجھنے کے لیے جرمن زبان کے ماہر کی بھی مدد لی گئی۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ واقعی نازی نظریے کی پیروکار تھی۔

ایسے واقعات کیوں ہوتے ہیں؟

لیکن آخر کوئی شخص خودکشی کے بارے میں سوچنے کی حد تک کیسے پہنچ جاتا ہے؟ وہ خودکشی کیوں کرتا ہے؟ کیا اس کے پیچھے کوئی نفسیاتی وجہ ہوتی ہے؟ اس بارے میں بی بی سی نے ماہر نفسیات سے بھی جاننے کی کوشش کی ہے۔

پروفیسر اور ماہر نفسیات ڈاکٹر منیش ٹھاکرے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ کلٹ سائیکالوجی (Cult Psychology) کی ایک شکل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص کسی نظریے میں اس حد تک ڈوب جاتا ہے کہ وہ اپنی سوچنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے اور انتہائی اقدام تک اٹھا لیتا ہے۔‘

یاد رہے کہ کلٹ سائیکالوجی کی وجہ سے کئی ممالک میں پہلے بھی خودکشی کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں۔

ڈاکٹر منیش ٹھاکرے کہتے ہیں کہ ایسے لوگ یہ بھی نہیں سوچ پاتے کہ وہ اس طرح خود کو کتنا بڑا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کیونکہ مسلسل ایسے مواد کے مطالعے سے اُن کے ذہن میں بار بار ایسے ہی خیالات آتے رہتے ہیں کہ ہمیں بھی یہ تجربہ کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر منیش ٹھاکرے کے مطابق ایسا شخص اپنی آزادانہ سوچنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔

ڈاکٹر منیش ٹھاکرے یہ بھی بتاتے ہیں کہ ماضی میں بیرون ملک ایسے واقعات پیش آئے ہیں جہاں بہت سے لوگوں نے کسی مذہبی گرو کی سوچ میں آکر اجتماعی خودکشی کی ہے۔

والدین ایسی صورتحال میں کیا کریںGetty Images

تو اگر بچے عجیب برتاؤ کرنے لگیں، ان کے رویّے میں تبدیلی آ جائے، یا وہ کسی خطرناک نظریے کی پیروی کرنے لگیں، تو والدین کو کیا کرنا چاہیے؟

ڈاکٹر منیش ٹھاکرے اس بارے میں تجویز کرتے ہیں کہ

اگر آپ کے بچے ایسی باتیں پڑھ رہے ہوں، اگر وہ کسی گیم چیلنج میں شامل ہو رہے ہوں، تو انھیں بروقت اس سے دور کر دیں۔ بچوں پر نظر رکھیں۔اگر بچہ کوشش کے باوجود والدین کی بات نہ سنے، تو انھیں کسی ایسے شخص کے پاس لے جائیں جس کی بات وہ سنتے ہوں یا ماہر سے کاؤنسلنگ کروائیں۔اگر کوئی اور راستہ باقی نہ رہے تو انھیں ماہر نفسیات کے پاس ضرور لے جائیں۔ لیکن سب سے ضروری یہ ہے کہ بروقت اپنے بچوں پر دھیان دیا جائے

ڈاکٹر منیش ٹھاکرے کہتے ہیں کہ ذہنی مشکلات کا علاج دوا اور تھراپی سے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ماہر نفسیات کی مدد لینا ضروری ہے۔ اگر آپ یا آپ کے کسی جاننے والے کو ایسی ذہنی بیماری کی علامات محسوس ہو رہی ہوں تو مدد حاصل کرنے کی طرف جائیں۔

زندگی کے آخری دن ہٹلر نے شادی رچائی، جشن منایا اور پھر خود کو گولی مار لی۔۔۔شادی کی 26ویں سالگرہ پر میاں، بیوی کی ’خودکشی‘: پھولوں سے ڈھکی لاش اور واٹس ایپ سٹیٹس ’میرے جانے کے بعد کوئی نہ روئے‘انڈیا میں ایک شادی شدہ مرد کی خودکشی نے ملک میں جہیز کے قانون پر بحث کیوں چھیڑ دی؟جب ہٹلر نے فوجی جرنیلوں کی حمایت کی خاطر دیرینہ ساتھی سمیت سینکڑوں لوگوں کو مروا دیاساتھیوں کا دھوکہ، فرار سے انکار اور سرد بنکر: ہٹلر کے آخری لمحات اور سوویت یونین کی چالخودکشی کا ڈرامہ، موبائل فون نوٹ: ماں باپ کو قتل کرنے والا انجینیئرنگ کا طالب علم کیسے پکڑا گیا؟’وہ دو زندگیاں جی رہا تھا، خودکشی کی منصوبہ بندی کے ساتھ منگنی کی انگوٹھی بھی خرید رہا تھا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More