برطانیہ میں سال 2025 کی پہلی شدید گرمی کی لہر کے دوران درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا ہے اور سرکاری طور پر یارکشائر کو شمال مغربی علاقے کے ساتھ خشک سالی والا علاقہ قرار دے دیا گیا ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق رواں برس موسم بہار 1893 کے بعد انگلینڈ کا سب سے خشک موسم رہا ہے جبکہ مئی میں بارش معمول سے 43 فیصد کم ہوئی۔
انگلینڈ کے مغربی علاقے شروپ شائر میں دریا خشک ہونے کے باعث مچھلیوں کو بچانے کے لیے بھی اقدامات کیے جا چکے ہیں جبکہ پانی کی سطح کم ہونے کی وجہ سے بعض نہری راستے کشتیوں کے لیے ناقابلِ استعمال قرار دیے گئے ہیں۔
ہیمپشائر، یارکشائر اور کُمبریا جیسے علاقوں میں پانی کی کمپنیوں نے عوام سے پانی کی بچت کی اپیل کی ہے۔
برسوں کی نکاسی، حد سے زیادہ چراگاہوں اور پیٹ لینڈ (پانی والی زمین) کی تباہی نے برطانیہ کے بالائی علاقوں کو تیزی سے پانی بہانے والے خطوں میں بدل دیا ہے۔ جہاں کبھی بارش کا پانی زمین میں جذب ہوتا تھا اب وہ پہاڑیوں سے بہہ کر دریاؤں میں جا گرتا ہے اور چند لمحوں بعد ہی غائب ہو جاتا ہے۔
یہ حالیہ خشک موسم اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ زمین اور قدرتی نظام کس حد تک کمزور ہو چکے ہیں حالانکہ ان علاقوں نے صرف ایک برس پہلے غیر معمولی بارش اور سیلاب کا سامنا کیا تھا۔
پانچ جون کو برطانوی حکومت نے دوبارہ نیشنل ڈراؤٹ گروپ کا اجلاس طلب کیا جس میں ماحولیاتی ادارے، پانی کی کمپنیاں، کسانوں اور ماحولیاتی ماہرین نے شرکت کی جہاں پانی کی سطح کم ہونے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا گیا۔
شمال مغربی علاقوں میں پانی کے ذخائر، جیسے کہ پینائنز، ہاؤس واٹر اور تھرل میر، جو بیشتر شمال مغرب کو پانی فراہم کرتے ہیں، اپنی گنجائش کے تقریباً 50 فیصد پر ہیں حالانکہ عام طور پر یہ 75 فیصد بھرے ہوتے ہیں۔
انگلینڈ میں دریاؤں کے پانی میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے (فائل فوٹو: کریٹیو کامن)
یارکشائر میں یہ سطح 60 فیصد کے قریب ہے مگر زمین کو اس انداز میں بحال کیا جا سکتا ہے کہ وہ سیلاب اور خشک سالی دونوں کے اثرات کو کم کرے۔
بولٹن کے قریب سمتھلز سٹیٹ میں مرسی فاریسٹ، ووڈ لینڈ ٹرسٹ اور ماحولیاتی ادارے نے گزشتہ دہائی میں 1700 ہیکٹر رقبہ بحال کیا ہے۔
انہوں نے پرانے نکاسی کے راستے بند کیے، دلدلی زمین کو دوبارہ نم کیا، درخت لگائے، زمین کی ساخت کو بہتر بنایا اور زرعی نظام میں تبدیلی کی۔ یہ سب اقدامات قدرتی سیلابی نظم و نسق کا حصہ ہیں جو زمین کو پانی روکنے اور آہستہ آہستہ چھوڑنے میں مدد فراہم کرتے ہیں جس سے خشک موسم میں دریاؤں کی روانی قائم رہتی ہے اور سیلاب کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔
سمتھلز میں بحال کی گئی دلدل بارش کو جذب کر کے پانی دھیرے دھیرے چھوڑتی ہے اور نئے لگائے گئے درخت نہ صرف حیاتیاتی تنوع کو فروغ دیتے ہیں بلکہ زمین میں پانی کے جذب کو بھی بہتر بناتے ہیں۔
اس عمل سے طوفانی بارشوں کے دوران پانی کے بہاؤ میں 27.3 فیصد کمی اور خشک موسم میں دریاؤں کے بہاؤ میں 27.1 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
کھائیوں میں رکھے گئے درختوں کے تنے بہار کے دوران زمین کو نم رکھتے ہیں جس سے قیمتی حیاتیاتی نظام محفوظ ہوتا ہے اور پانی کے تحفظ میں مدد ملتی ہے۔
ماہرین ان منصوبوں کی مسلسل نگرانی کر رہے ہیں (فائل فوٹو: کریٹیو کامن)
ماہرین ان منصوبوں کی مسلسل نگرانی کر رہے ہیں اور بحالی کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
تحقیقات میں شامل نئے سوالات یہ بھی ہیں کہ یہ ڈھانچے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج، تلچھٹ کے ذخیرے اور وقت کے ساتھ ان کے کام کرنے کے طریقۂ کار کو کیسے متاثر کرتے ہیں۔
یہ تحقیق قدرتی حل کو بہتر سمجھنے اور وسیع پیمانے پر اپنانے میں مدد دے رہی ہے۔
پانی کی قلت سے نمٹنے کے لیے زمین داروں، پانی کی کمپنیوں، مقامی اداروں، ضابطہ کاروں، ماحولیاتی تنظیموں اور عوام کو مل کر مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی لیکن اس کے لیے زمین کے استعمال کے طریقے بھی بدلنے ہوں گے۔
اگر زمین پانی کو تیزی سے بہاتی رہی، تو بارش کے بعد بھی ذخائر بھرنے میں دشواری ہوگی۔
رپورٹ کے مطابق اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو برطانیہ کو اگلے چند برسوں میں شدید پانی کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
انگلینڈ کو پانی کی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے (فائل فوٹو: کریٹیو کامن)
ایک کمیشن نے حالیہ دنوں میں حکومت کو تجویز دی ہے کہ پانی کے شعبے کی منصوبہ بندی، ضوابط اور بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات کی جائیں اور قدرتی عمل جیسے دریا کے بہاؤ اور دلدلی زمینوں کی بحالی پر سرمایہ کاری کی جائے۔
قدرتی حل نہ صرف تیزی سے نافذ کیے جا سکتے ہیں بلکہ یہ ماحول اور انسان دونوں کے لیے فائدہ مند بھی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مقامی افراد بھی ان کوششوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ سمتھلز میں رضاکار درخت لگاتے ہیں اور پانی کی سطح، معیار اور حیاتیاتی تنوع میں ہونے والی تبدیلیوں کی نگرانی کرتے ہیں جبکہ کسان نئے طرزِ چراگاہی کو آزما رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر انگلینڈ پانی کی کمی، حیاتیاتی تنوع کے نقصانات اور خوراک و پانی کی فراہمی کے بحران سے بچنا چاہتا ہے تو زمین کی بحالی کو برطانیہ کی خشک سالی سے نمٹنے کی حکمت عملی کا مرکز بنانا ہوگا۔