سلطنتِ فارس یعنی دنیا کی پہلی سُپر پاور: ایک پہاڑی قبیلے کا گمنامی سے نکل کر دنیا کی تقریباً آدھی آبادی پر حکومت کرنے کا سفر

بی بی سی اردو  |  Jul 04, 2025

Getty Imagesسلطنت فارس دنیا کی تقریباً آدھی آبادی (44 فیصد) پر حکومت کرتی تھی اور اِس کی حدود مصر اور بلقان سے لے کر وادیٔ سندھ (آج کا پاکستان) تک پھیلی ہوئی تھیں

چھٹی صدی قبل مسیح کے وسط میں فارس ایک گمنام پہاڑی قبیلہ تھا جو ایران کے جنوب مغربی علاقے ’پرسِس‘ میں رہتا تھا۔

لیکن پھر اس قبیلے سے ایک ایسا رہنما (سائرس) اُبھرا جس نے صرف کچھ ہی عرصے میں پورے مشرقِ وسطیٰ پر قبضہ کر لیا بلکہ اس علاقے میں طویل عرصے سے قائم بادشاہتیں ختم کیں، مشہور شہر فتح کیے اور ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جو اپنے وقت کی سب سے بڑی سلطنت بن گئی۔

یہ سلطنت فارس دنیا کی تقریباً آدھی آبادی (44 فیصد) پر حکومت کرتی تھی۔ اِس کی حدود مغرب میں مصر اور بلقان سے لے کر شمال مشرق میں وسطیٰ ایشیا اور جنوب مشرق میں وادیٔ سندھ (آج کا پاکستان) تک پھیلی ہوئی تھیں۔

دنیا بھر سے تازہ ترین خبریں اب آپ کے واٹس ایپ پر! بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں

جلد ہی اِس خاندان کے حکمران دنیا کے سب سے طاقتور لوگ بن گئے۔ اُن کے پاس اتنے وسائل تھے کہ ایسا لگتا تھا کہ اُن کی حکومت کو کبھی زوال نہیں آئے گا۔

اُن کی فتوحات کی رفتار اور وسعت اتنی غیر معمولی تھی کہ دنیا کو وہ ناقابلِ شکست دکھائی دینے لگے۔

لیکن اس کے بعد اُن ہی میں سے ایک اور رہنما ابھرا جس نے اِن فاتحین کو ہی فتح کر لیا اور اُن کی تمام فتوحات اپنے نام کر لیں۔

یہ کہانی 559 قبل مسیح میں شروع ہوتی ہے جب سائرسِ اعظم منظرِ عام پر آئے، وہ قدیم دنیا کی سب سے نمایاں شخصیات میں سے ایک تھے اور یہ کہانی 230 سال بعد اُس وقت ختم ہوئی جب مقدونیہ کے سکندرِ اعظم آئے اور فارسی سلطنت کو ختم کر دیا۔

جیسا کہ اکثر تاریخ میں ہوتا ہے، اس کہانی میں سچ اور کہانیوں کا امتزاج ہے۔ لیکن جو شخص فارسی سلطنت کا بانی بننے والا تھا اس کی پہلی بڑی کامیابی اُس وقت سامنے آئی جب اس نے اپنے پڑوسی ’میڈیس‘ بادشاہ کو شکست دی۔

اس کے بعد سائرس نے ایران کے وسطیٰ علاقوں اور زیادہ تر میسوپوٹیمیا (آج کا عراق) پر قبضہ کر لیا۔ پھر وہ ایشیائے کوچک (آج کا ترکی) میں ’لِڈیا‘ نامی طاقتور بادشاہت سے ٹکرائے اور اس کے امیر دارالحکومت ’ساردِس‘ پر قبضہ کر لیا جس سے سمندر کنارے واقع کئی اہم یونانی شہر بھی اُن کی پہنچ میں آ گئے۔

لیکن ان کی سب سے بڑی کامیابی وہ تھی جب انھوں نے میسوپوٹیمیا کے مرکز میں واقع بابلِ نو کی سلطنت پر حملہ کیا اور انتہائی ترقی یافتہ، امیر اور تہذیب یافتہ شہر ’بابل‘ میں داخل ہو گئے۔

انھوں نے 539 قبل مسیح میں بابل کو فتح کیا۔ ہمیں اس کا علم اس لیے ہے کیونکہ ماہرین آثارِ قدیمہ نے تاریخ کی سب سے پرانی سیاسی پراپیگنڈہ کی تحریروں میں سے ایک کی دریافت کی ہے۔ یہ تحریر ’سائرس سلنڈر‘ کہلاتی ہے، جس پر لکھا ہے کہ ’دنیا کے بادشاہ‘ نے یہ جنگ طاقت سے نہیں بلکہ برداشت، رواداری اور انصاف سے جیتی۔

Getty Imagesیہ تحریر ’سائرس سلنڈر‘ کہلاتی ہے، جس پر تحریر ہے کہ ’دنیا کے بادشاہ‘ نے یہ جنگ طاقت سے نہیں بلکہ برداشت، رواداری اور انصاف سے جیتیدیوتا مردوک نے ایک اچھا بادشاہ تلاش کرنا شروع کیا جو انصاف کر سکے

یہ سلنڈر سائرس کے حکم پر لکھوایا گیا تھا تاکہ بابل کی فصیل (دیوار) کی بنیادوں میں دفن کیا جائے۔ اُس زمانے کی یہ روایت تھی کہ بادشاہ اپنی کامیابیاں اس طرح لکھوا کر دفن کرتے تاکہ دیوتاؤں کی خوشنودی حاصل ہو اور لوگ بھی آنے والے وقتوں میں انھیں یاد رکھیں۔

اس تحریر میں بتایا گیا ہے کہ بابل کے پچھلے بادشاہ نَبونَیدُس نے بابل کے دیوتا ’مردوک‘ کے مذہبی طریقوں کو خراب کر دیا تھا۔ اس نے لوگوں سے جبری مشقت کروائی جس پر عوام نے دیوتاؤں سے فریاد کی۔

لندن کے برٹش میوزیم کے مطابق عوام کی فریاد پر دیوتا مردوک نے ایک اچھا بادشاہ تلاش کرنا شروع کیا جو انصاف کرے اور پرانی روایات واپس لائے۔ اُس نے سائرس کو چُنا اور اسے ’دنیا کا بادشاہ‘ کہا اور بابل پر چڑھائی کا حکم دیا۔ جب سائرس بابل پہنچا تو وہاں کے لوگوں نے بخوشی اُسے اپنا حکمران مان لیا۔

اس کے بعد تحریر کا انداز بدل جاتا ہے اور سائرس خود بولنے لگتے ہیں۔ ’میں سائرس ہوں، دنیا کا بادشاہ، عظیم بادشاہ، طاقتور بادشاہ، بابل کا بادشاہ، شُومر اور اکد کا بادشاہ، زمین کے چاروں کونوں کا بادشاہ۔‘

’میری فوج امن کے ساتھ بابل میں داخل ہوئی۔ میں نے کسی کو عوام کو نقصان نہیں پہنچانے دیا۔ میں نے بابل اور اس کے مقدس مقامات کی حفاظت کی۔‘

سائرس کو مردوک دیوتا کا پیروکار دکھایا گیا ہے جو بابل میں امن کے لیے لڑا۔ اُس نے نہ صرف مذہبی روایات کو بحال کیا بلکہ جن لوگوں کو جلاوطن کیا گیا تھا، اُنھیں واپس اپنے گھروں میں بسنے کی اجازت بھی دی۔

’بابل کے تمام لوگوں نے میری حکومت کو خوشی سے قبول کیا اور میں نے ہر جگہ امن قائم کیا۔‘

یہ تحریر صرف سلنڈر پر ہی نہیں بلکہ مٹی کی تختیوں پر بھی لکھی گئی جنھیں ماہرین کے مطابق عوام کے سامنے پڑھ کر سُنایا جاتا تھا۔

یوں ایک جنگی فتح کو ’لوگوں کی آزادی‘ اور انصاف کے طور پر پیش کیا گیا۔

Getty Imagesیونانی مؤرخ ہیروڈوٹس کے مطابق سائرس ایک خانہ بدوش قبیلے کو فتح کرنے کی کوشش میں مارے گئے۔ اس قبیلے کی ملکہ نے، جن کے بیٹے کو سائرس نے قتل کیا تھا، بدلے میں سائرس کا سر قلم کرنے کا حکم دیا

ایسا تاثر ملتا ہے کہ یہ تشہیری مہم کامیاب رہی۔

قدیم زمانوں سے سائرس کو ایک مہربان اور عظیم حکمران سمجھا جاتا ہے یہاں تک کہ اُن کے دشمن بھی اُن کی تعریف کرتے تھے۔

ممکن ہے کہ یہ سب سچ ہو، مگر جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ صرف اچھا ہونا کافی نہیں، اچھا نظر بھی آنا چاہیے۔

سائرس سلنڈر کا مقصد یہی تھا۔ سائرس کی نیک نامی کو پھیلانا تاکہ آنے والی نسلوں تک فارسی سلطنت کے بانی کی شبیہ ایک عظیم حکمران کے طور پر قائم رہے۔

یونانی مورخ زینوفون (430–354 قبل مسیح) نے اپنی کتاب ’سائروپیڈی‘ میں سائرس کو ایک مثالی لیڈر کے طور پر پیش کیا جبکہ بائبل کے پرانے عہد نامے میں سائرس کو اس لیے سراہا گیا کہ انھوں نے یہودیوں کو بابل کی جلاوطنی ختم کر کے واپس اپنے وطن یروشلم جانے کی اجازت دی تاکہ وہ اپنا عبادت خانہ دوبارہ تعمیر کر سکیں۔

یوں صدیوں سے انھیں قدیم دور کے ایک مثالی حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ایسا حکمران جس میں بہادری کے ساتھ ساتھ برداشت، رحم دلی اور فراخ دلی بھی شامل ہے۔

7000 برس قدیم یزیدی مذہب کے مقدس ترین مقام کا سفر’بکتاشی‘ صوفی سلسلہ جو البانیہ میں ’ویٹیکن کی طرز پر نئی اسلامی ریاست‘ قائم کرنا چاہتا ہے

جدید دور میں تو بعض اوقات اُن کے سلنڈر کو انسانی حقوق کا پہلا منشور بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں مذہبی آزادی اور رواداری کا ذکر موجود ہے۔

تاہم ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ چھٹی صدی قبل مسیح کے دور میں یہ تصورات ویسے نہیں تھے جیسے آج سمجھے جاتے ہیں۔ اس وقت کا ماحول ایک سے زائد خداؤں پر یقین رکھنے والا تھا اور فاتحین چاہے وہ سائرس سے پہلے والے ہوں یا بعد والے، مقامی دیوی دیوتاؤں کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرتے تھے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے ’انویزیبل ایسٹ‘ منصوبے سے وابستہ محقق متین ارغندہ پور نے بی بی سی کو بتایا ’جب ہم قدیم زمانے کی بات کرتے ہیں تو مذہب اتنا منظم نہیں تھا جیسا آج ہم جانتے ہیں۔‘

’بابل میں اگر کوئی دیوتا مردوک کی عبادت کرتا تھا تو وہ دیگر دیوی دیوتاؤں کی پوجا بھی کر سکتا تھا۔ تو کیا اس وقت مذہبی آزادی تھی؟ ہاں، سائرس نے کسی پر زور زبردستی نہیں کی کہ وہ اپنا مذہب چھوڑے لیکن اس وقت لوگ خود بھی ایسا نہیں کرتے تھے۔‘

Getty Imagesسائرس کی قبر پاسارگاد میں ہے، وہی جگہ جسے انھوں نے اپنی سلطنت کا دارالحکومت بنایا تھا’میں، بادشاہ سائرس، ایک ہخامنشی ہوں‘

سائرس کی زندگی کے آخری برسوں کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں اور اُن کی موت کے بارے میں مختلف اور متضاد کہانیاں ملتی ہیں۔

یہ طے ہے کہ وہ اپنی سلطنت کی مشرقی سرحد پر ایک مہم کے دوران مارے گئے۔

یونانی مؤرخ ہیروڈوٹس کے مطابق سائرس ایک خانہ بدوش قبیلے کو فتح کرنے کی کوشش میں مارے گئے۔ اس قبیلے کی ملکہ نے، جس کے بیٹے کو سائرس نے قتل کیا تھا، بدلے میں سائرس کا سر قلم کرنے کا حکم دیا۔

مگر خود ہیروڈوٹس یہ وضاحت کرتے ہیں کہ یہ صرف ایک روایت ہے اور انھوں نے کئی مختلف کہانیاں سُنی تھیں۔

سائرس کی قبر پاسارگاد میں ہے، وہی جگہ جسے انھوں نے اپنی سلطنت کا دارالحکومت بنایا تھا۔

یہ قبر ایک وسیع دیواروں والے باغ کے وسط میں ہے جس کے اردگرد ہریالی اور بہتا پانی موجود تھا۔ یہ سب کچھ اس بات کی علامت تھا کہ سائرس نے جنگلی علاقوں میں تہذیب اور نظم و نسق لانے کا کام کیا۔

آج ان سب نشانیوں میں صرف ان کی قبر باقی رہ گئی ہے۔ یہ بظاہر ایک سادہ سی قبر ہے مگر اُس شخص کی ہے جو نہ صرف فارسی سلطنت کا بانی تھا بلکہ اپنی قوم کے قومی تشخص کا علمبردار بھی رہا۔۔

قبر پر قدیم فارسی، ایلامی اور اکادی زبانوں میں ایک سادہ سا جملہ کندہ ہے: ’میں، بادشاہ سائرس، ایک ہخامنشی ہوں‘

یہ اس بات کا اعلان تھا کہ سائرسِ اعظم کی وسیع نئی سلطنت ہخامنشی خاندان کے تحت ہے جو فارس کی عظیم شاہی نسل تھی۔

ایک اور عظیم حکمران

سائرسِ اعظم نے اگرچہ پہلی فارسی سلطنت کی بنیاد رکھی، جسے ان کے بعد آنے والے دو حکمرانوں نے مزید وسعت دی لیکن اسے مستحکم کرنے والے بادشاہ داریوش اول تھے۔

داریوش، جو سائرس کے ہم پلہ حکمران مانے جاتے ہیں، سلطنت کے عروج کے دور میں سامنے آئے اور ان کا اقتدار طاقت کے بل پر قائم ہوا۔

انھوں نے سائرس کے بیٹے بردیہ سے خونریز بغاوت کے ذریعے اقتدار چھینا اور جب سلطنت میں بغاوتوں کی لہر اٹھی تو انھوں نے سختی سے اُن کا خاتمہ کیا۔

صرف ایک سال میں انھوں نے باغیوں کو شکست دی، اُن کے رہنماؤں کو پکڑا اور انھیں سزائیں دیں۔ اس کے بعد اپنی 36 سالہ حکومت میں انھیں دوبارہ کسی بغاوت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

لیکن ان کی طاقت کا راز صرف جنگی صلاحیتوں میں نہیں تھا۔

داریوش نے سلطنت کو منظم کیا۔ انھوں نے ڈاک کا نظام قائم کیا، وزن اور پیمائش کو معیاری بنایا اور سکے رائج کیے۔

اتنی بڑی سلطنت کو سنبھالنے کے لیے انھوں نے اسے صوبوں یا ستراپیوں میں تقسیم کیا اور ٹیکس کا نظام نافذ کیا۔

درّہ خیبر: جہاں سکندرِ اعظم سے لے کر انگریزوں تک، سب کے غرور خاک میں مل گئےجہلم کا وہ ٹیلا جہاں صدیوں سے کوئی اقتدار مانگنے تو کوئی محبوب مانگنے آتا ہے

انھوں نے اعلیٰ عہدوں پر صرف فارسی اشرافیہ کے معتمد افراد کو تعینات کیا۔ انھوں نے پوری سلطنت میں انجینیئرنگ اور تعمیراتی منصوبے شروع کروائے، جن میں ایک نہر بھی شامل تھی جو مصر میں دریائے نیل کو بحیرۂ احمر سے جوڑتی تھی۔

اتنی وسیع سلطنت کو آپس میں جوڑنے کے لیے سڑکیں درکار تھیں اور ایسی سڑکیں بنائی گئیں جو بہترین تھیں، جن پر لمبے سفر کے لیے آرام گاہیں بھی قائم تھیں۔

ماہرین کے مطابق فارسی سلطنت کا مضبوط انفراسٹرکچر ہی وہ خوبی تھی جس نے اسے دوسروں پر برتری دلائی۔

یہی انتظامی ذہانت تھی جس کی وجہ سے انھیں ’داریوشِ اعظم‘ کہا گیا۔

اور اُن کی ایک اور بڑی کامیابی تھی شہرِ پرسیپولس کا قیام، جو بعد میں فارسی سلطنت کی علامت بن گیا۔

Getty Imagesپرسیپولیس

آج بھی یادگاری کمپلیکس کے کھنڈرات اس مقام کے شان کی گواہی دیتے ہیں جو کہ اس سلطنت کی شان و شوکت کا منھ بولتا ثبوت ہے۔

شاندار چھتیں اور 20 میٹر لمبے ستونوں پر موجود پرندوں، شیروں اور بیلوں کی مورتیوں کو اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

تخت کی طرف جانے والی سیڑھیوں پر 23 قوموں کے وفود کو امر کر دیا گیا ہے اور یہ بادشاہ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا ایک طریقہ تھا۔

ان کے چہروں اور قومی ملبوسات میں ہر تفصیل کا خیال رکھا گیا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان وفود میں شامل افراد کا تعلق جنوب مشرقی یورپ سے لے کر انڈیا تک سے تھا اور وہ اپنے ہمراہ سونا، مصالحے، کپڑے، زیورات، کلہاڑیاں اور مختلف جانور لائے تھے۔

یہ لوگ گیٹ آف آل نیشنز کا استعمال کرتے ہوئے یہاں داخل ہوئے تھے جس کی حفاظت جادوئی مخلوق لیمیسس کر رہا تھا۔ یہ دراصل آدھا بیل اور آدھا انسان تھا جس کا تعلق بابل اور اشوریہ سے تھا اور فارسیوں نے بُرائی کو بھگانے کے لیے اس کی مورتی گیٹ آف آل نیشنز پر نصب کی تھی۔

فارسی سلطنت کی وسعت کا اندازہ آپ ان کے فنِ تعمیر اور آرٹ کو دیکھ کر بھی لگا سکتے ہیں۔

یہ فنِ تعمیر اور آرٹ دنیا میں پائے جانے والے مختلف سٹائلز کا مجموعہ تھا اور اس میں انتہائی مہارت کے ساتھ فارس کی جھلک شامل کی گئی تھی۔

پرسیپولیس شاہانہ فنِ تعمیر کا ایک ماسٹر پیس تھا۔ اسے دیکھ کر انسان یہی سوچتا ہے کہ شاید اس کی تعمیر کے دوران غلاموں کی ایک فوج کا استحصال کیا گیا ہو گا۔

لیکن یہاں ماہرینِ آثار قدیمہ نے انتہائی حیران کُن دریافت بھی کی ہے۔ انھیں یہاں پرسیپولیس قلعہ ملا اور خزانے سے متعلق معلومات اینٹوں سے بنی تختیوں پر لکھی ہوئی نظر آئی، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فارسی سلطنت میں ریکارڈ کو محفوظ کیا جاتا تھا۔

ان تختیوں پر رقم کے لین دین، کھانے کی تقسیم اور ملازمین اور مسافروں کے حوالے سے بھی معلومات درج تھیں۔

ان تختیوں پر متعدد اشیا کی ترسیل اور اقتصادی ضروریات کے حوالے سے معلومات بھی لکھی تھی اور ملازمین کو دیے جانے والے کھانے اور چاندی کی تفصیلات بھی وہیں سے ملی ہیں۔

صرف 32 سال کی عمر میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت قائم کرنے والا نوجوانتاتاریوں سے امریکی فوج تک: ماضی میں دنیا کے سب سے امیر شہر ’بغداد‘ کے عروج و زوال کی کہانی

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر کے باسی کون تھے، کہاں رہتے تھے، کیا کرتے تھے اور کیا کھاتے تھے۔

وہ لوگ فارسی سلطنت کے متعدد علاقوں سے ہجرت کر کے اُجرت کمانے اس شہر میں آئے تھے۔

یہ لوگ یہاں کیسے پہنچے؟ اس سوال کا جواب قدیم شہر سوسن سے ملنے والے خطوط ملتا ہے جہاں دارا اول نے اپنا تخت بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

دارا اول نے اپنے سلطنت کے لوگوں کو ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ اس کام کے لیے ضروری سامان اکٹھا کریں۔

مثال کے طور پر اشوریہ کے لوگوں کو کیکر کی لکڑی، افغانوں کو فیروزہ اور لاجورد لانے کا کہا گیا تھا اور بابل کے لوگوں اینٹوں کی تیاری کرنے کا کہا گیا تھا۔ مصر سے سناروں اور لوہاروں کو بُلایا گیا تھا۔

Getty Images

پرسیپولیس تقریباً دو صدیوں تک قائم رہا اور اس کا شماد دنیا کے امیر ترین شہروں میں ہوتا تھا۔

یہاں صرف فنِ تعمیر ہی فارسی سلطنت کی شان و شوکت کو ظاہر نہیں کرتا تھا بلکہ اس شہر سے ملنے والے چاندی اور سونے کے زیورات اور انتہائی قیمتی پتھر بھی اس شہر کے پرتعیش ہونے کی گواہی دیتے تھے۔

پرسیپولیس کو اپنی خواہشات کا مرکز بنانے والے فارسیوں نے بعد میں یونان کو بھی اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔

وہ بادشاہ جس کی نگاہ مزید سلطنتوں پر تھی

490 قبل مسیح میں دارا اول کی یونان کو اپنے تحت کرنے کی کوشش کا اختتام میراتھن کی خونریز جنگ کی صورت میں نکلا۔

دارا اول اس جنگ کے چار سال بعد وفات پا گئے اور سلطنت کو وسعت دینے کی ذمہ داری ان کے بیٹے خشایارشا پر آ گئی۔

انھوں نے 480 قبل مسیح میں ایتھنز کو قبضہ تو کرلیا لکین انھیں سمندر اور زمین دونوں پر یونانیوں کے خلاف شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔

خشایارشا نے بالآخر اس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ وہ یونان کو کبھی اپنی سلطنت کا حصہ نہیں بنا سکتے۔

اگلی ڈیڑھ صدی تک فارسی سلطنت کو اندرونی بغاوت کا سامنا رہا، مصر ان کے ہاتھ سے نکل گیا لیکن اس پر دوبارہ قبضہ کیا اور اسی دوران لبنان میں بغاوت ہوئی جس کو دبا دیا گیا تھا۔

ان تمام بحرانوں کے باوجود بھی فارس کی شان و شوکت برقرار رہی، لیکن صرف تب تک جب تک مقدونیہ سے ایک بادشاہ بھی منظرِ عام پر نہیں آیا جس نے اپنی نگاہیں فارسی سلطنت پر لگا دیں۔

وہ بادشاہ بچپن سے ہی اس خیال کے ساتھ بڑا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ انھیں یونان کے دشمن کی دولت بھی چاہیے تھی تاکہ یونان کی فوج کے آخراجات برداشت کیے جا سکیں۔

انھیں تاریخ سکندرِ اعظم کے نام سے یاد رکھے کی اور انھوں نے صرف چند ہی برسوں میں سلطنت فارس کو اپنا بنا لیا۔ 330 قبلِ مسیح میں انھوں نے فارس پر حملہ کر دیا۔

انھوں نے پرسیپولیس پر بھی حملہ کیا اور کہا جاتا ہے کہ انھوں نے 200 گاڑیوں پر لدے سونے اور چاندی کو نذرِ آتش کر دیا تھا۔

لیکن انھوں نے ایسا کیوں کیا اس بارے میں کوئی معلومات موجود نہیں۔

Getty Imagesتباہی کی وجوہات

ایرانی دانشور البیرونی اپنی کتاب ’کرونولوجی آف اینشینٹ نیشنز‘ میں فارس کی تباہی کی وجوہات لکھ چکے ہیں اور متعدد دیگر ذرائع بھی ان کی تحریر سے اتفاق رکھتے ہیں کہ ’سکندر نے پرسیپولیس کو انتقاماً اس لیے آگ لگائی تھی کیونکہ خشایارشا نے 150 برس قبل ایتھنز کو آگ لگائی تھی۔‘

دیگر لوگ کہتے ہیں کہ سکندر نے پرسیپولیس کو آگ لگا کر مشرق کو فارسی سلطنت کے ختم ہونے کا پیغام دیا تھا۔

یا پھر شاید وہ فارسی کلچر اور شناخت کو ختم کرنا چاہتے تھے تاکہ فارسی بادشاہوں کا نام تاریخ سے غائب ہو جائے۔

اگر یہ بات درست تھی تو شاید وہ کامیاب ہی رہے کیونکہ ان بادشاہوں کی تاریخ جزوی طور پر اُڑ ہی چکی ہے۔

صدیوں بعد جب سیاح پرسیپولیس کے کھنڈرات میں جاتے ہیں تو انھیں عجیب و غریب جانوروں کی مورتیاں نظر آتی ہیں نہ کہ وہ فارسی بادشاہ جو کبھی یہاں حکمرانی کیا کرتے تھے۔

10ویں صدی میں فارسی شاعر ابو قاسم فردوسی نے اپنی کتاب شاہنامہ لکھی تھی۔ اس کتاب میں سائرسِ اعظم، دارا اول اور خشایارشا کو فارس کی شناخت کا مرکزی حصہ نہیں بیان کیا گیا ہے۔

مغرب میں اُن کی کہانیاں قدیم یونانی اور رومن قوم کے نقطہ نظر سے بیان کی جاتی ہیں۔

سنہ 1620 تک پرسیپولیس کے کھنڈرات کی شناخت بھی نہیں ہو سکی تھی۔

یورپ سے 18ویں اور 19ویں صدی میں جانے والا سکالرز اور مسافروں نے اِس مقام کو دریافت کیا تھا۔

پھر سنہ 1924 میں ایرانی حکومت نے جرمن سکالر ارنسٹ ہرزفلیڈ کو پرسیپولیس کو دریافت کرنے کی ذمہ سونپی جو کہ ایرانی تاریخ کے ایک ماہر سمجھے جاتے تھے۔

اس کے بعد سے سلطنت فارس کی کہانیاں قدیم فارسی آواز میں ہی سنائی جانے لگیں۔

یعنی کہ یہ کہانی دو عظیم فاتحین سے شروع ہوئی تھی، ان ہی پر ختم ہوئی اور آج بھی وہ دونوں اس کہانی کے مرکزی کردار ہیں۔

7000 برس قدیم یزیدی مذہب کے مقدس ترین مقام کا سفرصرف 32 سال کی عمر میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت قائم کرنے والا نوجوان’بکتاشی‘ صوفی سلسلہ جو البانیہ میں ’ویٹیکن کی طرز پر نئی اسلامی ریاست‘ قائم کرنا چاہتا ہےجہلم کا وہ ٹیلا جہاں صدیوں سے کوئی اقتدار مانگنے تو کوئی محبوب مانگنے آتا ہےدرّہ خیبر: جہاں سکندرِ اعظم سے لے کر انگریزوں تک، سب کے غرور خاک میں مل گئےتاتاریوں سے امریکی فوج تک: ماضی میں دنیا کے سب سے امیر شہر ’بغداد‘ کے عروج و زوال کی کہانی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More