Reutersحتیم شریف کے مطابق جس دریا میں بہاو تیز ہونے کے سبب سیلاب آیا، اس جگہ کو فلیش فلڈ وادی کہا جاتا ہے۔
امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں سیلابی ریلے سے تباہی ٹھیک اس دن شروع ہوئی جب ملک میں یوم آزادی منایا جا رہا تھا اور اس قدرتی آفت کے نتیجے میں اب تک سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 30 بچیاں بھی شامل ہیں۔
جمعے کی صبح جب ’مسٹک کرسچن کیمپ‘ میں لڑکیاں اور عملہ گہری نیند سو رہے تھے، پانی خاموشی سے آیا اور سب کچھ اجاڑ گیا۔
ایسے میں گواڈالوپے دریا توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جو اس سانحے کی مرکزی وجہ ہے اور جہاں اب تک درجنوں افراد لاپتہ ہیں۔صرف چند گھنٹوں میں کئی مہینوں کی بارش برسنے کے بعد حکام نے اس غیر معمولی موسمی واقعے کو ’قیامت خیز طوفان‘ قرار دیا ہے۔
اس تباہی کی شدت کو ایک ویڈیو سے سمجھا جا سکتا ہے جو صرف 27 منٹ کے دوران بنائی گئی اور دکھاتی ہے کہ کس تیزی سے پانی کی سطح ایک علاقے میں بلند ہوئی۔
ایک جانب جہاں درجنوں خاندان اپنے پیاروں کو دفنانے کی تیاری کر رہے ہیں جبکہ دوسرے لاپتہ افراد کی خبر کے انتظارمیں ہیں، امریکہ میں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ یہ سانحہ اتنی تیزی سے کیسے پیش آیا اور امریکہ جیسے ملک میں اتنی زیادہ ہلاکتوں کی وجہ کیا ہے؟
بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔
اس بحث میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کیوں کہ ان کے ناقدین اور سیاسی مخالفین چند ایسے فیصلوں کی نشان دہی کرتے دکھائی دے رہے ہیں جو ان کے خیال میں اس سانحے سے ہونے والی تباہی کی وجہ بنے۔
یہ فیصلے کیا تھے؟ اس سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ یہ سیلاب کہاں آیا۔
Reuters1. سیلاب کہاں آیا؟
حتیم شریف ٹیکساس یونیورسٹی میں سول انجینیئرنگ کے پروفیسر ہیں جن کے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں سیلاب سے سب سے زیادہ اموات ٹیکساس ریاست میں ہی ہوتی ہیں۔
1959 سے 2019 تک کے اعداد و شمار کا جائزہ لینے کے بعد انھوں نے جانا کہ اس عرصہ میں 1069 افراد ایسے ہی واقعات میں ہلاک ہو چکے ہیں اور ان میں سے بیشتر اموات اسی مقام پر پیش آئی ہیں۔
حتیم شریف کے مطابق جس دریا میں بہاؤ تیز ہونے کے سبب سیلاب آیا، اس جگہ کو ’فلیش فلڈ وادی‘ کہا جاتا ہے۔
یہ ہلال کی شکل کا زمین کا ٹکڑا ہے جو ڈیلاس سے ہوتا ہوا آسٹن اور سان انتونیو سے گزارتا ہوا میکسیکو کی سرحد کی جانب نکلتا ہے۔
دریائے سوات کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے والا خاندان: ’میں پاگلوں کی طرح فون ملاتا رہا لیکن بیوی بچوں سے رابطہ نہ ہوسکا‘پاکستان اور انڈیا سمیت دنیا بھر میں ’فضا میں اڑتے دریا‘ جو تباہیوں کا باعث بن رہے ہیںجاپان میں دو ہفتوں میں 900 زلزلے اور ’سمندر سے آنے والی عجیب آواز‘ نے لوگوں کی نیندیں اُڑا دیںہماچل پردیش میں سیلاب کے بعد بی جے پی رہنما کی کنگنا رناوت پر تنقید: ’کیا انھیں اپنے ووٹروں کی فکر نہیں؟‘
اس وادی کی چند خصوصیات ایسی ہیں کہ یہاں سیلابی ریلے کثرت سے آتے ہیں۔ یہاں کی چٹانوں کی وجہ سے بارش کے بعد پانی بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور یہاں کی زمین بھی ایسی ہے کہ پانی زیادہ جذب نہیں کرتی اسی لیے چھوٹی ندیوں میں بھی طغیانی آ جاتی ہے۔
اور جب یہ چھوٹی چھوٹی ندیاں دریا میں ملتی ہیں تو پانی کا ایسا سیلاب آتا ہے جو راستے میں مکان، گاڑیوں اور انسانوں تک کو اپنے ساتھ بہا کر لے جا سکتا ہے۔
Getty Imagesدرجہ حرارت بڑھنے سے ہوا میں نمی بڑھتی ہے اور بارشوں اور سیلاب کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے موسم گرما میں ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔
اس خطے کا جغرافیہ یہاں زیادہ بارش کی وجہ بنتا ہے۔ ٹیکساس کے اس علاوے میں جیولوجیکل فالٹ کی وجہ سے پہاڑی چوٹیاں موجود ہیں اور جب خلیج میکسیکو سے گرم ہوا یہاں سے گزرتی ہے تو مقامی لیکن شدید بارش ہوتی ہے جس سے ندیاں اور دریا بھر آتے ہیں۔
درجہ حرارت بڑھنے سے ہوا میں نمی بڑھتی ہے اور بارشوں اور سیلاب کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے موسم گرما میں ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔
جمعرات اور جمعے کے بیچ ماہرین کے مطابق یہاں ہونے والی بارش کئی ماہ کے برابر تھی۔ صرف 45 منٹ میں دریا میں پانی کے بہاؤ میں آٹھ میٹر تک کا اضافہ ہوا۔ لیکن یہاں سیلاب کا آنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ بیسویں صدی میں تقریبا ہر دہائی میں یہاں کم از کم ایک بار سیلاب ضرور آیا ہے۔
Getty Imagesجمعرات کو ملک کی قومی موسمیاتی سروس نے بھی سیلاب کے بارے میں تنبیہ جاری کر دی تھی جبکہ جمعے کے دن کیئر کاوئنٹی میں سیلاب کا الرٹ جاری ہوا2. کیا سیلاب کی اطلاع دیر سے دی گئی؟
ایک اور سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ پیشگی اطلاع دینے والا نظام کیوں ناکام ہوا اور کیا مقامی لوگوں کو وقت سے پہلے نقل مکانی کی تنبیہ کی گئی تھی یا نہیں؟
بدھ کے دن ٹیکساس ڈویژن برائے ہنگامی انتظامات نے مغربی اور وسطی ریاست میں سیلاب کے خطرے کے پیش نظر ہنگامی صورت حال کا اعلان کر دیا تھا۔
جمعرات کو ملک کی قومی موسمیاتی سروس نے بھی سیلاب کے بارے میں تنبیہ جاری کر دی تھی جبکہ جمعے کے دب کیئر کاوئنٹی میں سیلاب کا الرٹ جاری ہوا۔
Getty Imagesایک اور سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ پیشگی اطلاع دینے والا نظام کیوں ناکام ہوا اور کیا مقامی لوگوں کو وقت سے پہلے نقل مکانی کی تنبیہ کی گئی تھی یا نہیں؟
اس کے باوجود کیا غلط ہوا؟ ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ نے اس سانحے کا ذمہ دار قدرتی آفت کو قرار دیا کہ ’کسی کو بھی یہ توقع نہیں تھی کو پانی کی نو میٹر بلند دیوار سامنے آ جائے گی۔‘
دوسری جانب ڈائریکٹر نم کڈ نے اعتراف کیا کہ تمام مکینوں کو شاید وہ پیغامات نہیں مل پائے جن میں خبردار کیا گیا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’ایسے علاقے بھی ہیں جہاں سگنل نہیں آتے، اور کسی کو ایک پیغام بھی نہیں مل سکا ہو گا۔‘
کیئر کاوئنٹی، جہاں سب سے زیادہ تباہی ہوئی، کے جج روب کیلی نے کہا کہ ان کے علاقے میں سیلابی انتباہی نظام موجود نہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ نظام مہنگا ہونے کی وجہ سے لگایا ہی نہیں گیا تھا۔‘
3. کیا ٹرمپ حکومت کی کٹوتیاں قیمتی جانوں کے ضیاع کی وجہ بنیں؟Getty Imagesنیویارک ٹائمز کے مطابق گذشتہ بہار تک محکمہ موسمیات اپنے 4000 میں سے تقریباً 600 ملازمین سے محروم ہو چکا تھا، جنھیں یا تو ریٹائر کر دیا گیا یا پھر ایلون مسک کی زیرِ قیادت 'ڈیپارٹمنٹ آف ایفیشنسی' کے تحت چھانٹیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
گوڈالوپے دریا میں طغیانی کے بعد لاپتہ ہونے والے 40 افراد کی تلاش جاری ہے لیکن اسی دوران امریکی میڈیا نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے دوران کیے گئے بجٹ اور عملے میں کٹوتیوں کے اس سانحے پر ممکنہ اثرات پر سوال اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔
نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ ٹیکساس میں نیشنل ویدر سروس (این ڈبلیو ایس) کے کئی دفاتر میں ماہرِ موسمیات اور آبی ماہرین ( ہائیڈرولوجسٹس) کی کمی تھی، جو شدید موسم کی نگرانی اور بروقت وارننگ جاری کرنے کے لیے ناگزیر سمجھے جاتے ہیں۔
این ڈبلیو ایس ملازمین کی تنظیم کے ڈائریکٹر ٹام فیہی کے مطابق ٹرمپ کے دوبارہ وائٹ ہاؤس آنے کے بعد جنوری سے اب تک ٹیکساس کے کم از کم دو دفاتر میں خالی آسامیوں کی تعداد دوگنی ہو چکی ہے۔
ین ڈبلیو ایس کے سابق ڈائریکٹر برائے قانون سازی جان سوکچ نے نیویارک ٹائمز کو بتایا ’عملے میں کمی انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالتی ہے۔‘
انھوں نے وضاحت کی کہ عملے کی کمی کی وجہ سے کسی ہنگامی صورت حال میں مقامی حکام کے ساتھ مؤثر رابطہ ممکن نہیں رہتا۔ حکومت نے البتہ ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔
محکمہ تجارت، جو موسم سے متعلق ایجنسی کی نگرانی کرتا ہے، کا کہنا ہے: ’ٹیکساس کے لیے ہفتے کے آخر میں جاری کی گئی بروقت اور درست پیشگوئیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ این ڈبلیو ایس اب بھی اپنی اہم ذمہ داریاں بخوبی انجام دے رہی ہے۔‘
تاہم حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ حکومت کے تحت این ڈبلیو ایس سمیت کئی وفاقی اداروں کو عملے میں کمی کرنا پڑی۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق گذشتہ بہار تک محکمہ موسمیات اپنے 4000 میں سے تقریباً 600 ملازمین سے محروم ہو چکا تھا، جنھیں یا تو ریٹائر کر دیا گیا یا پھر ایلون مسک کی زیرِ قیادت ’ڈیپارٹمنٹ آف ایفیشنسی‘ کے تحت چھانٹیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
4. ہم اب تک متاثرین کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟Campamento Mysticآٹھ سالہ رینی جس کی لاش بعد میں ملی
گذشتہ ہفتے کے اختتام سے جاری طوفانی بارشوں نے وسطی ٹیکساس کو بُری طرح متاثر کیا ہے اور اب تک کم از کم 81 افراد کی جانیں جا چکی ہیں۔ میڈیا کی توجہ خاص طور پر کیر کاؤنٹی پر مرکوز ہے جہاں واقع ’مسٹک کرسچن کیمپ‘ سیلابی ریلے کی زد میں آ کر تباہ ہو گیا۔
یہ کیمپ 1930 کی دہائی سے ایک ہی خاندان چلا رہا تھا جو اسے ایک ایسا پرسکون مقام قرار دیتا تھا جہاں کم عمر لڑکیاں ’روحانی، ذہنی اور اخلاقی نشوونما‘ کر سکیں۔ لیکن یہ جگہ چند لمحوں میں قیامت کا منظر بن گئی۔ اسی مرکز میں کم از کم 27 لڑکیاں اور نوعمر طالبات ہلاک ہو چکی ہیں، جبکہ 10 مزید لاپتہ ہیں۔
ابتدائی تحقیقات اور عینی شاہدین کے مطابق سیلاب نے جب کیمپ کو اپنی لپیٹ میں لیا تو لڑکیاں اور ان کی کونسلرگہری نیند میں تھیں۔
13 سالہ سٹیلا تھامسن نے این بی سی کو بتایا ’ہم سب گھبرا گئے تھے اور مسلسل دعائیں کر رہے تھے۔‘
سٹیلا کی جان بچ گئی کیونکہ ان کا کیبن بلند جگہ پر واقع تھا لیکن ان کی ساتھی اتنی خوش نصیب نہ تھیں۔ ان میں آٹھ سالہ رینی اسماجسٹرلا بھی شامل تھی جس کی لاش بعد میں ملی۔
اس کے چچا شون سالٹا نے فیس بک پر لکھا: ’اگرچہ نتیجہ وہ نہیں نکلا جس کی ہم امید کر رہے تھے، مگر سوشل میڈیا پر تصاویر اور معلومات نے ریسکیو ٹیم کو جلد اس کی شناخت میں مدد دی۔‘
انھوں نے مزید لکھا ’ہم شکر گزار ہیں کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ تھی اور خوشگوار لمحے گزار رہی تھی، جیسا کہ اس تصویر سے ظاہر ہے جو گذشتہ روز لی گئی تھی۔‘
Getty Imagesابھی بھی کئی افراد لاپتہ ہیں اور مسلسل بارشوں کی وجہ سے اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
دیگر متاثرین میں 13 سالہ بلیئر ہاربر اور 11 سالہ بروک ہاربر شامل تھیں، جو آپس میں بہنیں تھیں۔
ان کے والد آر جے ہاربر نے سی این این سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’بلیئر ایک غیر معمولی طالبہ تھی جس کا دل بہت بڑا تھا، جبکہ بروک ہر جگہ روشنی کی مانند تھی۔ لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آتے تھے، وہ سب کو ہنسا دیتی اور پلوں کو خوشگوار بنا دیتی۔‘
کیمپ کے ڈائریکٹر رچرڈ ’ڈک‘ ایسٹ لینڈ بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں جبکہ ایک کونسلر تاحال لاپتہ ہیں۔
کیمپ سے باہر بھی المناک کہانیاں سامنے آئی ہیں۔
27 سالہ جولیان رائن اپنی ماں، گرل فرینڈ اور بچوں کو بچاتے ہوئے جان کی بازی ہارگئے۔
رپورٹس کے مطابق انھوں نے ٹریلر کا شیشہ توڑ کر اہل خانہ کو باہر نکالا تاکہ وہ سیلاب سے بچ سکیں، لیکن اسی دوران وہ خود زخمی ہو گئے اور امداد پہنچنے سے قبل ہی خون بہہ جانے سے چل بسے۔
ان کی بہن کونی سالاس نے مقامی ٹی وی چینل کو بتایا ’وہ ایک ہیرو کے طور پر مرے اور یہ قربانی کبھی فراموش نہیں کی جائے گی۔‘
ابھی بھی کئی افراد لاپتہ ہیں اور مسلسل بارشوں کی وجہ سے اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان اور انڈیا سمیت دنیا بھر میں ’فضا میں اڑتے دریا‘ جو تباہیوں کا باعث بن رہے ہیںدریائے سوات کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے والا خاندان: ’میں پاگلوں کی طرح فون ملاتا رہا لیکن بیوی بچوں سے رابطہ نہ ہوسکا‘ہماچل پردیش میں سیلاب کے بعد بی جے پی رہنما کی کنگنا رناوت پر تنقید: ’کیا انھیں اپنے ووٹروں کی فکر نہیں؟‘’سی پیک کا دل‘ گوادر حالیہ بارشوں میں کیوں ڈوب گیا اور یہ سمندر میں کیسے دھنس رہا ہے؟ال نینو اور لا نینا کیا ہیں اور یہ دنیا کے موسموں کو کیسے تبدیل کر رہے ہیں؟