بگرام ایئر بیس کی سیٹلائٹ تصاویر کا موازنہ: افغانستان میں دو سپر پاورز کا فوجی اڈہ جس پر ٹرمپ کے مطابق اب ’چین قابض ہے‘

بی بی سی اردو  |  Jul 17, 2025

Getty Images

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے اپنے ملک کی افواج کے انخلا کے بعد سے متعدد مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کو افغانستان میں بگرام فوجی اڈہ نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔

تقریباً ہر بار جب انھوں نے کابل کے شمال میں واقع صوبہ پروان میں بگرام کے فوجی اڈے کا ذکر کیا تو اس کے فوراً بعد ہی چین کا ذکر بھی کیا اور دعویٰ کیا کہ ’چین نے بگرام پر قبضہ کر لیا ہے۔‘

ڈونلڈ ٹرمپ نے آخری بار رواں ماہ (سات جولائی) کابینہ کے اجلاس میں کہا تھا کہ ’اگر میں ہوتا تو بگرام کا بڑا فوجی اڈہ اپنے پاس ہی رکھتا، جو کہ اب چین کے کنٹرول میں ہے۔ (بگرام) دنیا کے سب سے طاقتور رن ویز میں سے ایک ہے، جو کہ کنکریٹ اور سٹیل سے بنا ہوا ہے۔ بگرام ایک بہت بڑا بیس تھا۔ یہ سینکڑوں کلومیٹر طویل مضبوط دیواروں سے گھرا ہوا تھا، اس کے ارد گرد کا علاقہ محفوظ تھا، اور کوئی بھی اس میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔‘

بی بی سی نے سٹیلائٹ کی تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے بگرام اڈے کا تفصیلی جائزہ لیا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا اس بڑے فوجی اڈے میں ماضی قریب میں ہونے والی تبدیلیاں یہاں چین کی موجودگی کا ثبوت ہیں۔

ہم نے افغانستان میں بگرام ایئر بیس اور چین کے اُس علاقے کے درمیان فاصلہ بھی ناپا ہے جہاں چین مبینہ طور پر عسکری و جوہری سرگرمیاں کرنے میں مصروف ہے ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ آیا ان دونوں علاقوں کے درمیان مسافت واقعی ایک گھنٹے کی ہے، کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ بارہا یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ بگرام افغانستان میں اُس مقام سے محض ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے جہاں چین جوہری ہتھیار بنا رہا ہے۔

بگرام: دو سپر پاورز کا فوجی اڈہGetty Imagesگذشتہ دو دہائیوں میں تین امریکی صدور بگرام اڈے کا دورہ کر چکے ہیں جن میں جارج ڈبلیو بش، براک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ شامل ہیں۔ جو بائیڈن نے سنہ 2011 میں بگرام ایئربیس کا دورہ کیا تھا تاہم اس وقت وہ امریکہ کے نائب صدر تھے

بگرام اڈے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں میں تین امریکی صدور اس اڈے کا دورہ کر چکے ہیں جن میں جارج ڈبلیو بش، براک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ شامل ہیں۔ جو بائیڈن نے سنہ 2011 میں بگرام ایئربیس کا دورہ کیا تھا تاہم اُس وقت وہ امریکہ کے نائب صدر تھے۔

سوویت یونین نے یہ فوجی اڈہ 1950 کی دہائی میں صوبہ پروان میں قائم کیا تھا۔ بگرام 1980 کی دہائی میں افغانستان پر قبضے کے دوران سوویت افواج کا انتہائی اہم اڈہ سمجھا جاتا تھا۔

11 ستمبر کے حملوں اور امریکہ کی طرف سے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا اعلان کرنے کے بعد، امریکی افواج دسمبر 2001 میں اس اڈے میں داخل ہوئیں اور یہاں قابض ہو گئیں۔

جب امریکی فوجی رات کی تاریکی میں افغان حکومت کو بتائے بغیر بگرام فضائی اڈہ چھوڑ گئی’سٹریٹجک ریزرو‘ یا مستقبل کی منصوبہ بندی: چین معاہدے کے باوجود افغانستان سے ’50 ارب ڈالر‘ کا تانبہ کیوں نہیں نکال رہا؟روس کا افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ پاکستان سمیت خطے کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟افغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے ’سلطنتوں کا قبرستان‘ بناتا ہے

تقریباً دو دہائیوں تک یہ اڈہ القاعدہ اور طالبان کے خلاف لڑائی کا مرکز رہا۔ یہ 77 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جبکہ اس میں موجود بیرکس اور رہائش گاہیں ایک وقت میں 10 ہزار سے زیادہ فوجیوں کو پناہ دے سکتی ہیں۔

بگرام کے دو رن ویز میں سے ایک ڈھائی کلومیٹر سے زیادہ طویل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ’اس اڈے میں سب سے مضبوط اور سب سے بڑا کنکریٹ رن وے ہے۔‘ ٹرمپ کے مطابق اس رن وے کی موٹائی تقریباً دو میٹر ہے۔

سیٹلائٹ تصاویر کیا ظاہر کرتی ہیں؟

امریکی انخلا سے پہلے اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کی سیٹلائٹ تصاویر میں واضح فرق دکھائی دیتا ہے۔ ہم نے مختلف اوقات میں لی گئی بہت سی سٹیلائٹ تصاویر کا جائزہ لیا ہے۔

مثال کے طور پر 24 ستمبر 2020 کو پلینٹ لیبز کمپنی کی طرف سے لی گئی ایک سیٹلائٹ تصویر میں اس اڈے پر کم از کم 35 مختلف طیارے دکھائی دیتے ہیں۔

تاہم طالبان کے اقتدار میں آنے کے تقریباً ایک سال بعد یعنی 15 جولائی 2022 کو لی گئی ایک تصویر میں، پورے بیس میں ایک بھی طیارہ نظر نہیں آتا۔

دو اکتوبر 2020 کو لی گئی ذیل کی دو تصاویر میں سے ایک میں ہم نے کچھ طیاروں کو نمایاں کرنے کے لیے سرخ رنگ پینٹ کیا ہے۔

سنہ 2011 میں لی گئی ایک اور سٹیلائٹ تصویر میں بگرام ایئر فیلڈ کے علاقے میں کم از کم 120 مختلف جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹروں کو دکھایا گیا ہے۔

BBCبگرام بیس پر طیاروں کی موجودگی

دیگر سیٹلائٹ تصاویر میں دو بڑی تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں۔

ایک تو یہ کہ بیس کے کئی مقامات سے سینکڑوں کنٹینرز کو کہیں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کنٹینرز لاجسٹک سٹوریج کے لیے استعمال کیے گئے ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ کنٹینرز کو بگرام ایئر بیس سے یا بیس کے اندر دیگر علاقوں میں منتقل کیا گیا تھا۔ بیس میں کم از کم دو مقامات پر موجود تقریباً 40 کنٹینرز کو وہاں سے منتقل کیا گیا ہے۔ نیچے دی گئی دو تصاویر، ایک 24 جولائی 2022 کو لی گئی اور دوسری 25 اپریل 2025 کو لی گئی، اس تبدیلی کو ظاہر کرتی ہیں۔BBCکنٹینرز کی منتقلیاڈے کے ایک اور مقام پر سو سے زیادہ مختلف گاڑیاں کھڑی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ گاڑیاں طالبان کے قبضے کے بعد اڈے کے مختلف حصوں سے اکٹھی کر کے ایک جگہ کھڑی کی گئی ہیں۔BBCبگرام پر موجود گاڑیاں

بگرام کے فوجی اڈے کے علاقے سے پچھلے تین سالوں میں مختلف اوقات میں لی گئی سیٹیلائٹ تصاویر میں بہت ہی کم مواقع پر کوئی گاڑی بیس کی اندرونی سڑکوں پر بظاہر حرکت میں نظر آتی ہے۔

ان تصاویر کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ بگرام فوجی اڈے میں کوئی بڑی سٹرکچرل تبدیلیاں نہیں ہوئی ہیں۔

ہم نے سیٹیلائٹ سے لی گئی کچھ تصاویر سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کی جینیفر جونز کو نظرثانی کے لیے پیش کیں۔

ان کے مطابق فروری 2025 کی ایک تصویر کے علاوہ، جس میں رن وے پر ایک ہیلی کاپٹر دکھایا گیا ہے، بقیہ تصاویر جو 2021 کے وسط سے اپریل 2025 کے درمیان لی گئی ہیں، ان سیٹلائٹ تصاویر میں واضح طور پر کوئی طیارہ نہیں دکھایا گیا ہے۔

جینیفر جون کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ گذشتہ چار سالوں میں اس بیس پر کوئی دوسرا طیارہ نہ آیا ہو۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ امکان بھی ہے کہ ہوائی جہاز کی نقل و حرکت اس وقت کے دوران نہ ہوئی ہو جب یہ سیٹیلائٹ کی تصاویر لی گئی تھیں (یعنی مقامی وقت کے مطابق صبح 11 بجے سے دوپہر 2 بجے کے درمیان) یا ہو سکتا ہے کہ ہوائی جہاز کو محفوظ علاقوں میں منتقل کر دیا گیا ہو۔‘

جون نے مزید کہا کہ 2025 کے اوائل میں لی گئی کچھ تصاویر میں ہوائی اڈے کے کچھ حصوں میں زمین پر کچھ سیاہ نشانات دکھائی دے رہے ہیں جو کہ تیل کے ذخائر ہو سکتے ہیں۔

جینیفر جون کے مطابق، ایئر بیس کی صورتحال کا سب سے اہم پہلو اس کے رن وے کی حالت ہے۔ حفاظتی وجوہات کی بنا پر ہر فعال رن وے کو ملبے سے پاک رکھا جاتا ہے۔

اپریل 2025 کی حالیہ تصاویر دونوں رن ویز کو اچھی حالت میں دکھاتی ہیں۔ تاہم سنہ 2025 میں سٹیلائٹ تصاویر میں کوئی طیارہ نہیں دیکھا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ بظاہر بگرام ایئر بیس بالکل اُسی حالت میں ہے جس طرح امریکی افواج وہاں سے نکلی تھیں۔

BBC

ڈونلڈ ٹرمپ درجنوں مرتبہ بگرام بیس کے بارے میں بات کر چکے ہیں۔

وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ بگرام کی اہمیت افغانستان کی وجہ سے نہیں بلکہ چین کے تناظر میں ہے۔ ’افغانستان کو بھول جاؤ۔ بگرام ایئر بیس اُس مقام سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے جہاں چین جوہری ہتھیار بنا رہا ہے۔‘

لیکن کیا ان دونوں مقامات میں واقعی ایک گھنٹے کی مسافت ہے جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بار بار دہرایا ہے؟

روس کے علاوہ اب تک کسی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ چین اور طالبان کے درمیان اچھے تعلقات ضرور ہیں۔

دونوں فریقوں نے افغانستان میں عینک تانبے کی کان کی ترقی کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جو دنیا کی سب سے بڑی تانبے کی کانوں میں سے ایک ہے۔

اگرچہ بیشتر ممالک کے افغانستان میں سفارتی مشن نہیں ہیں لیکن چین نے اپنا سفیر افغانستان بھیج رکھا ہے۔

چین کی بگرام فوجی اڈے سے قریب ترین مبینہ جوہری تجربہ گاہ اڈے سے تقریباً 2000 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مغربی چین میں ’لوپ نور‘ نامی علاقے میں ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ جب امریکی صدر ’ایک گھنٹے کی مسافت‘ کی بات کرتے ہیں تو وہ ان کا اس سے مطلب کیا ہوتا ہے۔

یہ راستہ کسی بھی طرح زمینی مسافت کے اعتبار سے ایک گھنٹے کا نہیں ہے۔

لیکن لاک ہیڈ SR-71 بلیک برڈ جیسے جدید فوجی جیٹ طیاروں کا استعمال کرتے ہوئے اس فاصلے کو فضا میں تقریباً ایک گھنٹہ میں مکمل کیا جا سکتا ہے۔

BBCیہ راستہ کسی بھی طرح زمینی مسافت کے اعتبار سے ایک گھنٹے کا نہیں ہے

بگرام فوجی اڈے اور چین کا بار بار ذکر کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس طالبان حکومت اور چین نے ہمیشہ ایسے دعوؤں کی تردید کی ہے۔

بی بی سی نے وائٹ ہاؤس سے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کی حمایت کرنے کے لیے شواہد مانگے کہ چین بگرام میں موجود ہے، لیکن کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

ہم نے طالبان حکومت سے اجازت طلب کی کہ ہم خود اس اڈے پر جائیں اور دیکھیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے لیکن ہمیں اجازت نہیں دی گئی۔

پچھلے تین سالوں سے بگرام ایئر بیس امریکی افواج کی جانب سے چھوڑے گئے فوجی سازوسامان کا استعمال کرتے ہوئے طالبان فورسز کی فوجی پریڈ اور تقریبات کا مقام رہا ہے۔

یہ فوجی اڈہ امریکہ نے 2021 میں رات کی تاریکی میں اس وقت کی افغان حکومت کو بتائے بغیر چھوڑ دیا تھا۔

’امریکی فوجی رات کی تاریکی میں بغیر بتائے بگرام فضائی اڈہ چھوڑ گئے‘’سٹریٹجک ریزرو‘ یا مستقبل کی منصوبہ بندی: چین معاہدے کے باوجود افغانستان سے ’50 ارب ڈالر‘ کا تانبہ کیوں نہیں نکال رہا؟بگرام اڈے پر امریکی فوج کی دو دہائیوں کی تصاویرافغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے ’سلطنتوں کا قبرستان‘ بناتا ہےافغانستان میں طالبان کی پابندی اور فتوے کے باوجود پوست کی خفیہ کاشت: ’میں مجبور ہوں میرے پاس اور کچھ بھی نہیں‘روس کا افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ پاکستان سمیت خطے کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More