سوموار کی شام کو بابو سر ٹاپ کے قریب گھومنے والے سیاح اس بات سے بلکل بے خبر تھے کہ اگلے چند لمحوں میں کیا ہونے والا ہے۔ یہ مقام عام طور پر اس موسم میں سیاحوں سے بھرا ہوتا ہے لیکن موسم کے تیور بدل رہے تھے۔
ریسیکو 1122 ضلع چالاس کے ترجمان پختون ولی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سوموار کی شام ’تقریبا چار بجے کا وقت تھا جب بابو سر ٹاپ کے مقام پر جہاں پر سیاح تفریح کر رہے تھے اور گاڑیاں پارک تھیں، اچانک دونوں اطراف سے دائیں اور بائیں سے سیلابی ریلہ آیا۔‘
’اس سیلابی ریلی کی وجہ قریب ہی واقع نالے اور اس کے اطراف میں تیز بارش تھی۔‘ پختون ولی کے مطابق ’بارش کے بعد اچانک بہت تیزی سے سیلابی ریلا نکلا اور اطراف میں پھیل گیا۔ یہ اپنے ساتھ گاڑیوں اور مقامی لوگوں کو ساتھ بہا کر لے گیا تھا۔‘
بابو سر ٹاپ پر سیلابی ریلے کی زد میں آنے والے سیاحوں میں ایک ہی خاندان کے متعدد افراد بھی شامل ہیں جن کا تعلق حکام کے مطابق صوبہ پنجاب میں لودھراں سے ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس خاندان کے متعدد افراد سمیت کم از کم 20 کے قریب سیاح اب تک لاپتہ ہیں جبکہ اسی خاندان کے تین افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب بارش کے بعد ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ کے باعث ایک بھاری تودہ سیاحوں کی گاڑی پر آ گرا تھا۔
گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیص اللہ فراق نے بھی 3 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ لاپتہ سیاحوں کی زندہ بازیابی کے لیے وہ پرامید ہیں۔گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق کے مطابق مقامی آبادی کے 50 مکانات اور دو مساجد کو بھی نقصان پہنچا اور چند پل بھی تباہ ہوئے ہیں۔
انتظامیہ کے مطابق جب پیر کی شام سیلابی ریلے نے بابو سر ٹاپ اور اس سے ملحقہ دیہات میں تباہی مچائی تو آٹھ کلومیٹر کے علاقے میں تباہی ہوئی جبکہ زیرو پوائنٹ یعنی چلاس شہر سے بابوسر ٹاپ تک کے 40 سے 45 کلومیٹر کے علاقے میں کل چھ مقامات متاثر ہوئے ہیں۔
ایسے میں گلگت بلتستان حکومت نے انتباہ جاری کیا ہے کہ شاہراہ قراقرم اور شاہراہ ناران بابوسر ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند ہیں اور مسافر اور سیاح اس وقت علاقے میں سفر سے گریز کریں۔
واضح رہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں بھی پی ڈی ایم اے کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ہونے والی تیز بارشوں اور فلیش فلڈ کے باعث مختلف حادثات کے نتیجے میں مجموعی طور پر 10 افراد ہلاک جبکہ 2 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ حادثات سوات، باجوڑ، بونیر، کوہستان اپر، اپر چترال اور شانگلہ میں پیش آئے ہیں۔
تباہی کی ویڈیوز
ایک مقامی صحافی فخر عالم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سیلابی ریلہ اتنی شدت سے آیا کہ لوگوں کو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں مل سکا اور جو گاڑیاں سیلابی ریلے کی زد میں آئیں وہ پانی میں بہہ گئیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ جب وہاں متاثرہ مقام پر پہنچے تو ’ہر طرف چیخ و پکار تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سیاح پریشانی کے عالم میں پکار رہے تھے۔ کوئی اپنے خاندان کو ڈھونڈ رہا تھا تو کوئی اپنے عزیز و اقارب کی تلاش میں تھے۔‘
یہ سیلابی ریلا سیاحوں کے ساتھ ساتھ مقامی افراد کے لیے بھی اتنا ہی تباہ کن تھا۔
پنجاب میں شدید بارشوں کے باعث کم از کم 63 افراد ہلاک: کیا چکوال میں ’ریکارڈ‘ بارشوں کی وجہ واقعی ’کلاؤڈ برسٹ‘ تھا؟سوات میں سیاحوں کے ڈوبنے کا واقعہ: ریسکیو اہلکار کتنی دیر میں پہنچے اور اب سوات میں کیا ہو رہا ہے؟پانی خاموشی سے آیا اور سب کچھ اجاڑ گیا: ’قیامت خیز طوفان‘ جس نے امریکی ریاست ٹیکساس کو ہلا کر رکھ دیادریائے سوات کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے والا خاندان: ’میں پاگلوں کی طرح فون ملاتا رہا لیکن بیوی بچوں سے رابطہ نہ ہوسکا‘
صحافی فخر عالم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مقامی افراد جن کے گھر سیلاب کے زد میں آچکے تھے وہ کھلے آسمان تلے مدد کے منتظر تھے۔ مقامی لوگوں سے پوچھا تو بتایا گیا کہ لمحوں میں یہ سب کچھ ہوا ہے کئی مقامی افراد نے بھاگ کر جان بچائی ہے۔‘
ان کے بقول انھیں لوگوں نے بتایا کہ ’اچانک آنے والے سیلابی ریلوں نے جگہ جگہ سیاحوں کو اپنے حصار میں لیا جس باعث جو بغیر فیملی کے تھے وہ بھاگ گئے جو سیاح فیملی کے ساتھ تھے وہ بچوں کی وجہ سے بھاگ نہ سکے۔‘
زخمی مسافروں کو سیاحتی مقام بابوسر ٹاپ سے چلاس ہسپتال منتقل کر دیا گیا، لیکن سیلابی ریلے کی زد میں آنے والے مسافروں میں سے 20 کے قریب کئی گھنٹوں بعد اب بھی لاپتہ ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔
علاقے میں بارش کے تھم جانے کی اطلاعات ہیں لیکن سیلابی ریلے کے نتیجے میں ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ اور پہاڑوں سے سرکنے والے بڑے بڑے پتھروں نے جو تباہی مچائی ہے اس میں لاپتہ افراد کی تلاش ایک کٹھن کام دکھائی دے رہا ہے۔
اس واقعے میں 15 سے 20 گاڑیاں متاثر ہوئیں جن میں کوسٹرز سمیت چھوٹی بڑی گاڑیاں شامل ہیں۔
مقامی صحافی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سیلابی ریلے کی آمد کے وقت 300 کے قریب سیاح موجود تھے جنھیں پہلے تو مقامی آبادی نے اپنے ہاں پناہ دی اور پھر انتظامیہ نے انھیں شہر کے ہوٹلوں میں منتقل کیا۔‘
اس وقت بھی 50 کے قریب سیاح بابو سرٹاپ سے محلقہ دیہات میں لوگوں کے گھروں میں موجود ہیں۔ پولیس، سکاؤٹس اور ریسیکو اہلکار متاثرہ علاقے میں موجود ہیں۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ فوج کے ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی لی جا رہی ہے جبکہ چند متاثرہ مقامات کے لیے ریسکیو ایکسلیریٹرز کا انتظام کیا گیا ہے۔
ڈی سی چلاس نے ہسپتال میں دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ چودہ سے پندرہ مقامات بابو سر پر بند ہوچکے ہیں۔ مقامی عینی شاہد ابوبکر کے بقول شاہراہ بابوسر تقریباً دس سے پندرہ کلو میٹر مکمل بلاک ہے۔
پنجاب میں شدید بارشوں کے باعث کم از کم 63 افراد ہلاک: کیا چکوال میں ’ریکارڈ‘ بارشوں کی وجہ واقعی ’کلاؤڈ برسٹ‘ تھا؟سوات میں سیاحوں کے ڈوبنے کا واقعہ: ریسکیو اہلکار کتنی دیر میں پہنچے اور اب سوات میں کیا ہو رہا ہے؟پانی خاموشی سے آیا اور سب کچھ اجاڑ گیا: ’قیامت خیز طوفان‘ جس نے امریکی ریاست ٹیکساس کو ہلا کر رکھ دیاجب سیلابی ریلے نے عطا آباد جھیل کنارے ہوٹل کا رُخ کیا: ’راستے میں موجود گاڑیاں پھنس گئیں، لوگ اندر محصور ہو گئے تھے‘دریائے سوات کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے والا خاندان: ’میں پاگلوں کی طرح فون ملاتا رہا لیکن بیوی بچوں سے رابطہ نہ ہوسکا‘