سوات میں دینی مدرسے کا 12 سالہ طالبعلم اساتذہ کے مبینہ تشدد سے ہلاک: ’چہرے کے علاوہ پورے جسم پر تشدد کے نشانات تھے‘

بی بی سی اردو  |  Jul 24, 2025

Getty Imagesمبینہ تشدد سے ہلاک ہونے والے 12 سالہ فرحان کے والد روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہیں (فائل فوٹو)

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر سوات میں واقع ایک دینی مدرسے کے اساتذہ کی جانب سے کیے گئے مبینہ تشدد سے 12 سالہ بچے کی ہلاکت کے بعد مقامی انتظامیہ نے مدرسہ سیل کر کے وہاں زیر تعلیم 160 طلبا کو اُن کے والدین کے حوالے کر دیا ہے۔

اس واقعے کی ایف آئی آر مقتول 12 سالہ فرحان کے چچا کی مدعیت میں خوازہ خیلہ پولیس نے درج کی ہے۔

سوات پولیس کا کہنا ہے کہ بچے کے قتل اور دیگر طالبعلموں پر تشدد کے دو الگ الگ مقدمات درج کر کے مجموعی طور پر 11 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے تاہم دو ملزمان اب بھی مفرور ہیں۔

ایک مقدمہ مبینہ تشدد سے ہلاک ہونے والے طالبعلم فرحان کے چچا کی درخواست پر درج کیا گیا ہے جبکہ دوسرا مقدمہ پولیس نے اپنی مدعیت میں درج کیا ہے۔

کیا واقعہ پیش آیا؟

مبینہ تشدد سے ہلاک ہونے والے 12 سالہ طالبعلم فرحان کے چچا نے مقامی پولیس کو بتایا کہ اُن کا بھتیجا گذشتہ تین سال سے مدرسہ محزن العلوم (چالیار) میں زیر تعلیم تھا۔ انھوں نے پولیس کو بتایا کہ بچے کے والد ملازمت کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہیں۔

ایف آئی آر کے مطابق بچے اپنی موت سے چار روز قبل بچہ چھٹیوں پر گھر آیا تھا، تاہم اُس کا إصرار تھا کہ وہ واپس مدرسے نہیں جائے گا۔ لواحقین کے مطابق وجہ پوچھنے پر بچے نے بتایا کہ مدرسے کے مہتمم کا بیٹا مبینہ طور پر اُس سے ’ناجائز مطالبات‘ کرتا تھا۔

مدعی مقدمہ یعنی بچے کے چچا کے مطابق اِس پر وہ خود بچے کو اپنے ساتھ مدرسے لے کر گئے جہاں اُنھوں نے مدرسے کے مہتمم محمد عمر، اُن کے بیٹے احسان اللہ اور مدرسے کے ناظم عبداللہ سے ملاقات کی۔

بچے کے چچا نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ اپنے بھتیجے کے ہمراہ مدرسے گئے تو ان تمام ملزمان نے قران پر ہاتھ رکھ کر اور قسمیں کھا کر یقین دلایا کہ ایسا کچھ نہیں ہے اور بچہ پڑھائی سے بھاگنے کے بہانے بنا رہا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ مدرسے کے عہدیداروں کے اس بیان پر وہ اور ویڈیو کال پر موجود بچے کے والد مطمئن ہو گئے اور بچے کو مدرسے چھوڑ دیا گیا۔

ایف آئی آر کے مطابق اُسی روز شام کے اوقات میں بچے کے چچا کو مدرسے کے ناظم کا فون آیا جنھوں نے بتایا کہ فرحان غسلخانے میں گِر کر ہلاک ہو گیا ہے۔

بچے کے چچا کے مطابق جب وہ یہ اطلاع ملنے کے بعد خوازہ خیلہ ہسپتال پہنچے تو وہاں ان کے بھتیجے کی ’تشدد زدہ لاش پڑی ہوئی تھی۔‘

Getty Imagesمدرسہ سیل کر کے اب تک 11 ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے’صرف چہرہ تشدد کے نشانات سے خالی تھا‘

فرحان کے چچا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے تو اُسے اچھا انسان بنانے کے لیے مدرسے میں داخل کروایا تھا، ہمیں نہیں معلوم تھا کہ یہ مدرسہ نہیں مذبح خانہ ہے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ جب بچے کی میت کو غسل دیا گیا تو اس کے چہرے کے علاوہ پورے جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔

بچے کے چچا کے مطابق انھیں مدرسے کے دیگر طالبعلموں نے بتایا کہ ’جب میں (چچا) عصر کے بعد فرحان کو مدرسے چھوڑ کر گیا تو اس کے بعد مدرسے کے تین، چار لوگ جن میں مدرسے کا مہتمم، اس کا بیٹا اور مدرسے کا ناظم شامل ہیں، نے لاٹھیوں اور زنجیروں سے اس پر تشدد شروع کر دیا۔‘

’مجھے کئی طالب علموں نے بتایا کہ ایک شخص اس پر تشدد کرتا اور جب وہ تھک جاتا تو دوسرا شروع ہو جاتا۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’اس دوران جب بچہ پانی مانگتا تو تشدد کرنے والے دوسرے بچوں سے کہتے کہ اگر اسے پانی لا کر دیا تو تمہارا بھی یہی حشر ہو گا۔‘

خوازہ خیلہ پولیس کے مطابق قتل کے مقدمے میں نامزد مہتم اور اُن کے بیٹے کو گرفتار کر لیا گیا ہے جب دو ملزمان تاحال مفرور ہیں۔ پولیس کے مطابق مدرسے سے زنجیریں اور لاٹھیاں بھی برآمد ہوئی ہیں۔

سوات کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) محمد عمر خان نے میڈیا کو بتایا کہ چالیار میں قائم اس غیر رجسٹرڈ مدرسہ میں کمسن طالبعلم کے قتل اور دیگر زیر تعلیم بچوں پر تشدد کے الزام میں مدرسہ ناظم سمیت 11 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ دو مرکزی ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

محمد عمر خان کا کہنا تھا کہ 21 جولائی کو پیش آنے والے اس واقعے کا مقدمہ بچے کے چچا کی مدعیت میں قتل، تشدد اور چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کی دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔

ڈی پی او سوات نے کہا کہ مدرسہ میں دیگر بچوں پر بھی جسمانی تشدد کے شواہد ملنے پر دیگر اساتذہ کے خلاف پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے انھیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے مدرسہ سے لاٹھیاں اور زنجیریں بھی برآمد کی ہیں جبکہ اسسٹنٹ کمشنر خوازہ خیلہ نے مدرسہ کو سرکاری طور پر سیل کر دیا ہے۔

محمد عمر خان کے مطابق مدرسے میں زیرِ تعلیم 160 کے قریب بچوں کو ان کے والدین کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ضلع بھر میں واقع غیر رجسٹرڈ مدارس کی فہرست مرتب کی جا رہی ہے اور ان کے خلاف بھی سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

’مدرسوں میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم کیا جائے‘

سوات میں انسانی حقوق کے کارکن افتخار افضل خان کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد وہ مدرسے کے مختلف طالب علموں سے ملے جنھوں نے بتایا کہ فرحان کے قتل کے مقدمے میں نامزد ملزمان دیگر بچوں سے بھی اس طرح کے مطالبات کرتے آئے تھے۔

’ایک بچے نے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ اپنی ضرورت سے اٹھا تو اس نے دیکھا کہ ایک نامزد ملزم نامناسب حالات میں ہے۔ میرے دیکھنے پر اس نے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر میں نے یہ بات کسی سے کی تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا۔‘

افتخار افضل خان کا کہنا تھا کہ اس واقعے پتا چلتا ہے کہ مدرسوں پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم کرنا کتنا ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس حوالے سے ایک بہتر پالیسی بنانا ہو گی اور حکام کو مدرارس کے باقاعدگی سے دورے بھی کرنے چاہییں۔

دینی مدارس کی رجسٹریشن کا تنازع کیا ہے جس پر مولانا فضل الرحمان اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے ’ناراض‘ ہیںشامی افواج پر علوی برادری کے افراد کے قتل کا الزام: شام پر 50 برس تک حکمرانی کرنے والا یہ اقلیتی فرقہ کیا ہے؟کراچی میں شوہر کے ہاتھوں مبینہ غیرفطری سیکس اور جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی 19 سالہ لڑکی ہلاکاستاد کو نابالغ طالبہ کے ریپ کے جرم میں 187 برس قید کی سزا: ’وہ پڑھائی میں پیچھے رہ گئی تھی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More