Getty Imagesحالیہ واقعات میں تھائی لینڈ نے کمبوڈیا پر راکٹ فائر کرنے کا الزام لگایا ہے، جبکہ تھائی لینڈ کا کہنا ہے کہ اس نے کمبوڈیا میں فوجی اہداف پر فضائی حملے کیے ہیں
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان کئی روز پر محیط کشیدگی جمعرات کے روز ایک مہلک جنگ میں تبدیل ہو گئی۔
دونوں ممالک کی سرحد پر ہونے والے جھڑپوں کے نتیجے میں اب تک کم از کم 12 افراد، جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں، ہلاک ہو چکے ہیں۔
ان تمام افراد کی ہلاکت کی تصدیق تھائی لینڈ کے حکام نے کی ہے۔ جبکہ کمبوڈیا میں کتنے افراد مارے گئے ہیں اس حوالے سے تاحال کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں کیونکہ کمبوڈیا کی حکومت نے فی الحال اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
دونوں فریق ایک دوسرے پر کشیدگی میں اضافے کا الزام لگا رہے ہیں۔ اس حالیہ کشیدگی کا آغاز کچھ روز قبل مبینہ طور پر سرحد پر فائرنگ کے ایک واقعے سے ہوا تھا۔
حالیہ واقعات میں تھائی لینڈ نے کمبوڈیا پر راکٹ فائر کرنے کا الزام لگایا ہے، جبکہ تھائی لینڈ کا کہنا ہے کہ اس نے کمبوڈیا میں فوجی اہداف پر فضائی حملے کیے ہیں۔
تو اس معاملے کی ابتدا کیسے ہوئی اور یہ دونوں ایک باقاعدہ جنگ کے دہانے پر کیسے پہنچے؟
کشیدگی کی وجوہات کیا ہیں؟Getty Imagesقدیم مندر جس نے حالیہ تنازعے کو جنم دیا
ان دونوں ممالک میں تنازع کی تاریخ کافی پرانی ہیں۔ درحقیقت تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان تنازع ایک صدی سے بھی زیادہ پرانا ہے اور اس کی ابتدا اُس وقت ہوئی جب کمبوڈیا پر فرانسیسی قبضے کے بعد ان دونوں ممالک کی سرحدوں کا تعین کیا گیا۔
تاہم یہ تنازع شدت اس وقت اختیار کر گیا جب سنہ 2008 میں کمبوڈیا نے سرحد پر واقع ایک متنازع علاقے میں قائم 11ویں صدی کے ایک مندر پر اپنے حق کا دعویٰ کیا۔ 11ویں صدی کا یہ مندر یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔ یہ ایک ایسا اقدام تھا جس پر تھائی لینڈ کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا۔
اس کے بعد آنے والے برسوں کے دوران اسی مندر کے معاملے پر دونوں ممالک میں جھڑپیں ہوتی رہی ہیں جن میں دونوں اطراف کے فوجی اور عام شہری مارے گئے ہیں۔
تازہ ترین کشیدگی کی ابتدا مئی 2025 میں اُس جھڑپ کے نتیجے میں ہوئی جس میں کمبوڈیا کا ایک فوجی مارا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ان دونوں ممالک کے دو طرفہ تعلقات اپنی کم ترین سطح پر پہنچ گئے تھے۔
مئی 2025 کے بعد سے اِن دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر سرحدی پابندیاں عائد کی ہیں۔ کمبوڈیا نے تھائی لینڈ سے پھلوں اور سبزیوں کی درآمدات پر پابندی لگا دی اور بجلی اور انٹرنیٹ جیسی خدمات کی درآمد بند کر دی۔
اسی کشیدگی کے پیش نظر دونوں ممالک نے اپنی اپنی سرحدوں پر فوجی موجودگی میں بھی اضافہ کیا ہے۔
جمعرات کے روز کیا ہوا؟Getty Imagesکمبوڈیا کا الزام ہے کہ ’تھائی لینڈ نے ضرورت سے زیادہ فوجیوں کی تعیناتی، بھاری ہتھیاروں کا استعمال اور کمبوڈیا کی سرزمین پر فضائی حملے کیے ہیں۔‘
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں جمعرات کو جو کچھ ہوا اس کے مختلف ورژن پیش کیے گئے ہیں۔
تھائی لینڈ کی نیشنل سکیورٹی کونسل کا دعویٰ ہے کہ جمعرات کو مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے سات بجے کمبوڈیا نے تھائی فوجی اہلکاروں کی سرحد پر نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے ڈرونزز روانہ کیے۔
تھوڑی دیر بعد ہی کمبوڈیا کے فوجی اہلکار راکٹ لانچرز کے ہمراہ سرحد کے قریب جمع ہوئے۔ تھائی حکام کے مطابق اس موقع پر انھوں نے مذاکرات کی کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔
تھائی لینڈ کی نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان کا دعویٰ ہے کہ کمبوڈیا کے فوجیوں نے آٹھ بج کر 20 منٹ پر فائرنگ کر دی، جس پر تھائی فوجی اہلکاروں کو جوابی کارروائی کرنا پڑی۔
دوسری جانب کمبوڈیا کا دعویٰ ہے کہ تھائی فوجیوں نے صبح ساڑھے چھ بجے تنازعے کی ابتدا کی، جب انھوں نے سرحد کے قریب واقع ایک متنازع مندر پر جمع پر کر وہاں خاردار تاریں لگائیں اور اس طرحسے اس ضمن میں پہلے سے موجود معاہدے کی خلاف ورزی کی۔
کمبوڈیا کی وزارت قومی دفاع کے ترجمان مالی سوچیتا کے مطابق تھائی فوجیوں نے اس کے بعد سات بجے سرحد پر ڈرونز تعینات کیے، اور فضا سے گولیاں داغی گئیں۔
’نوم پینہ پوسٹ‘ اخبار نے مالی سوچیتا کے حوالے سے بتایا کہ لگ بھگ آٹھ بج کر 46 منٹ پر تھائی فوجیوں نے کمبوڈیا کے فوجیوں پر گولیاں چلائیں، جس پر ان کے پاس اپنے دفاع کا حق استعمال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔
سوچیتا نے مزید الزام لگایا کہ تھائی لینڈ نے ضرورت سے زیادہ فوجیوں کی تعیناتی، بھاری ہتھیاروں کا استعمال اور کمبوڈیا کی سرزمین پر فضائی حملے کیے ہیں۔
کیا دونوں ممالک میں مکمل جنگ ہو سکتی ہے؟
تھائی لینڈ کے قائمقام وزیر اعظم نے کمبوڈیا کے ساتھ اپنے ملک کے تنازع کو بین الاقوامی قوانین اور احتیاط کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
دوسری جانب کمبوڈیا کے وزیر اعظم ہن مانیٹ نے کہا کہ ان کا ملک اس تنازعے کو پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتا ہے اور اس کے پاس 'مسلح جارحیت کے خلاف مسلح قوت سے جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔'
اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان ماضی میں فائرنگ کے شدید تبادلے ہوتے رہے ہیں لیکن یہ معاملات نسبتاً تیزی سے حل بھی ہوتے رہے ہیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار جوناتھن ہیڈ کے مطابق وہی راستہ اس مرتبہ دوبارہ اختیار کیا جائے تو پہلے اس نوعیت کے تنازعات کو حل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
تاہم انھوں نے خبردار کیا کہ اِس وقت دونوں ممالک میں اس تصادم سے پیچھے ہٹنے کی طاقت اور اعتماد کے ساتھ ساتھ قیادت کی کمی بھی ہے۔
آپ کے موبائل فون میں موجود وہ قیمتی دھات جو ایک ملک میں جنگ کا باعث بنی ہوئی ہےبینکاک میں مشہور سیاستدان کا قتل جس میں ایک ہمسایہ ملک بھی ملوث ہو سکتا ہےبلند و بالا چمکتی عمارتیں اور فراڈ کی داستانیں: فریب کی بنیاد پر تعمیر کیے گئے شہر میں بی بی سی نے کیا دیکھا؟80 ہزار تصاویر، ویڈیوز اور ایک کروڑ ڈالر کی وصولی: بدھ مذہبی رہنماؤں سے سیکس کر کے پیسے بٹورنے والی خاتون گرفتار