تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان جاری لڑائی سے ہلاکتوں میں اضافہ، جنگ بندی پر زور

اردو نیوز  |  Jul 26, 2025

تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان تین روز سے جاری لڑائی کے نتیجے میں 33 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ دوسری جانب ’فوری جنگ بندی‘ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کمبوڈیا کی وزارت دفاع نے 13 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے جس میں 8 شہری اور پانچ فوجی شامل ہیں، جبکہ 71 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

تھائی لینڈ کا کہنا ہے کہ جمعے کو اس کے پانچ فوجی ہلاک ہوئے ہیں جس کے بعد اموات کی کُل تعداد 20 ہو گئی ہے۔ ہلاک ہونے والوں مہں 14 شہری اور چھ فوجی شامل ہیں۔

حالیہ لڑائی میں اموات کی کُل تعداد 2008 اور 2011 میں ہونے والی جھڑپوں سے تجاوز کر گئی ہے جب 28 افراد مارے گئے تھے۔

تین دنوں سے جاری لڑائی کے باعث ایک لاکھ 38 ہزار شہری تھائی لینڈ کے سرحدی علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہی جبکہ کمبوڈیا میں 35 ہزار افراد کو اپنے گھر چھوڑنے پڑے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد کمبوڈیا کے سفیر نے ’غیرمشروط فوری جنگ بندی‘ کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ ’ہم تنازع کا پرامن حل‘ چاہتے ہیں۔

جمعے کو سلامتی کونسل کے اجلاس سے قبل تھائی لینڈ کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ بینکاک بات چیت کے لیے تیار ہے، ’اگر کمبوڈیا یہ معاملہ دوطرفہ طور پر سفارتی ذرائع یا اگر ملائیشیا کے ذریعے بھی حل کروانا چاہتا ہے تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔‘

دونوں ممالک نے لڑائی پہلے شروع کرنے کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا ہے جبکہ تھائی لینڈ کا کہنا ہے کہ کمبوڈیا نے ہسپتال اور پیٹرول سٹیشن سمیت شہری انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا ہے۔

سرحدی علاقوں سے ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پیدوسری جانب کمبوڈیا نے تھائی لینڈ کی افواج پر کلسٹر بم استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان 800 کلومیٹر طویل سرحد ہے جبکہ کئی مقامات متنازع ہیں جن پر دہائیوں سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔

اس سے قبل سال 2008 اور 2011 میں دونوں ممالک میں سرحدی تنازع پر لڑائی ہوئی تھی جس میں کم از کم 28 افراد ہلاک جبکہ ہزاروں بےگھر ہوئے تھے۔

2013 میں اقوام متحدہ کی عدالت کے فیصلے میں دہائیوں پرانا یہ تنازع طے پا گیا تھا تاہم مئی میں جھڑپوں کے دوران کمبوڈیا کے ایک فوجی کی ہلاکت کے بعد دوبارہ کشیدگی پیدا ہو گئی۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More