روسی تیل کی خریداری، پاکستان سے جنگ بندی کا کریڈٹ نہ دینے کا غصہ یا تجارتی مطالبات ماننے سے انکار: ٹرمپ مودی سے کیا چاہتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Aug 06, 2025

اس منظر کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ہیوسٹن میں ایک ساتھ کھڑے ہو کر ’ہاؤڈی مودی‘ ریلی میں ہزاروں لوگوں سے خطاب کیا۔ اس دوران دونوں نے مصافحہ کیا، ایک دوسرے کو گلے لگایا اور مشترکہ اقدار اور عالمی قیادت پر زوردار تقاریر کیں۔

یہ وہ لمحہ تھا جسے انڈیا اور امریکہ کی شراکت داری کا عروج سمجھا گیا۔ لیکن اب یہ ایک بھولا ہوا باب لگتا ہے۔ ٹرمپ کی دوسری مدت کے سات ماہ بعد، یہ تعلق محاذ آرائی میں بدل چکا ہے۔

دونوں اتحادی ممالک اب تجارتی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ٹرمپ نے انڈیا سے درآمد کی جانے والی اشیا پر 25 فیصد ٹیرف عائد کیا تھا۔ اس اقدام کو کافی سخت تصور کیا گیا۔ لیکن 4 اگست کو ٹرمپ نے اور ’بہت زیادہ‘ ٹیرف لگانے کی دھمکی دے دی۔

ٹرمپ نے کہا کہ انڈیا روس سے بہت زیادہ تیل خریدتا ہے اور یوں یوکرین میں جاری جنگ کے لیے سرمایہ فراہم کر رہا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ انڈیا ایک اچھا تجارتی پارٹنر نہیں رہا ہے۔ ’وہ ہمارے ساتھ بہت تجارت کرتے ہیں، لیکن ہم ان کے ساتھ تجارت نہیں کرتے۔‘

بہت سے مبصرین کو اس بات پر حیرت ہوئی کہ انڈیا نے سخت الفاظ میں جواب دیا کیوں کہ مودی حکومت نے اسے ’مغرب کی منافقت‘ قرار دیا۔

انڈیا کی حکومت نے دلیل دی کہ مغربی ممالک جیسے کہ امریکہ اور یورپی یونین بھی روس کے ساتھ قدرتی گیس اور کھاد سے لے کر مشینری اور دھاتوں تک مختلف شعبوں میں تجارت کر رہے ہیں۔

ایک انڈین عہدیدار نے کہا کہ ’ملک اپنے قومی مفادات اور اقتصادی سلامتی کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔‘

معیشت کی ترقی اور محصولات کی ’بھتہ خوری‘

ٹرمپ کی جانب سے تجارت کے معاملے پر بڑھایا جانے والا دباؤ کافی سٹریٹجک ہے۔ انڈیا کی معیشت عالمی چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے اور مستحکم افراط زر کی شرح کو برقرار رکھتے ہوئے کافی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 645 بلین ڈالر سے زیادہ ہو گئے ہیں، روپیہ مستحکم ہے اور انڈیا اب چین کو پیچھے چھوڑ کر امریکہ کو سمارٹ فون برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ انڈیا کی یہی ترقی اسے ’محصولات کی بھتہ خوری‘ کا ہدف بناتی ہے۔

امریکہ میں مقیم جنوبی ایشیا کے امور کے تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے حملے کسی حد تک ذاتی نوعیت کے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ٹرمپ انڈین حکومت سے خوش نہیں ہیں… انڈین مذاکراتی ٹیم نے تجارتی مذاکرات میں امریکا کے تمام مطالبات ماننے سے انکار کر دیا۔‘

کوگل مین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کا غصہ مودی کی جانب سے حالیہ انڈیا اور پاکستان کے بیچ جنگ بندی کا کریڈٹ نہ دینے اور ایک کشیدہ فون کال کے دوران ان کے مضبوط موقف سے پیدا ہوا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’شاید یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ چین اور دوسرے بڑے روسی تیل خریداروں سے زیادہ انڈیا کو نشانہ بنا رہے ہیں۔‘

سچ یہ ہے کہ روس کے ساتھ انڈیا کی تیل کی تجارت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ یہ ایک کھلا راز ہے۔

انڈین وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ عالمی منڈی کے حالات کی وجہ سے درآمدات ایک ضرورت ہیں۔

انھوں نے نشاندہی کی کہ ’یورپی ممالک خود روسی تجارت میں گہری جڑیں رکھتے ہیں۔ یہ ممالک کھاد، سٹیل اور مشینری درآمد کرتے ہیں۔ انڈیا صرف وہی کر رہا ہے جو توانائی کی قیمتوں کو کم رکھنے اور افراط زر کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ضروری ہے۔‘

امریکی صدر کی دھمکی، انڈیا کا ’تلخ‘ جواب اور مودی کی مشکل: ’ٹرمپ مسلسل توہین کر رہے ہیں، وزیراعظم زیادہ دیر خاموش نہیں رہیں گے‘پاکستان اور ایران میں اربوں ڈالر کے معاہدے اور یادداشتیں: امریکی پابندیوں کی موجودگی میں یہ سرمایہ کاری کیسے ممکن بنائی جائے گی؟نریندر مودی کی 100 منٹ کی تقریر مگر نہ طیاروں پر بات اور نہ ٹرمپ کی ثالثی کی تردید: ’14 بار نہرو کا نام لیا مگر چین کا نام ایک بار بھی نہ لے سکے‘’مائی فرینڈ‘ سے ’ٹیرف کِنگ‘ تک: کیا ایف-35 کی پیشکش اور پاکستان کے ساتھ تنازع نے مودی اور ٹرمپ کے درمیان تعلقات میں دراڑ ڈال دی؟انڈیا کی مشکل

حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی انتہائی نپے تلے ہوئے لہجے میں بات کی۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ انڈیا ایک ’سٹریٹجک پارٹنر‘ ہے اور روسی تیل کی رعایتی نرخوں پر خریداری پر تنقید کرتے ہوئے انڈیا کی توانائی کی ضروریات کو بھی تسلیم کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہر ملک کی طرح، انھیں اپنی معیشت کو مضبوط کرنا ہے، روسی تیل پر پابندی ہے اور سستا ہے۔‘

اب اصل سوال یہ ہے کہ انڈیا اس دباؤ کو کب تک برداشت کر سکتا ہے؟

لندن کے چیٹھم ہاوس کے ڈاکٹر باجپائی کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکہ انڈیا کا بڑا تجارتی پارٹنر ہے لیکن انڈیا کی معیشت دوسری بڑی معیشتوں کی طرح صرف تجارت پر منحصر نہیں ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا کو نہ صرف اقتصادی لچک بلکہ سٹریٹجک وضاحت سے بھی فائدہ اٹھانا ہوگا۔

سٹیو ہینکے جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں اپلائیڈ اکنامکس کے پروفیسر ہیں جنھوں نے صدر رونالڈ ریگن کی کونسل آف اکنامک ایڈوائزرز میں بھی خدمات انجام دیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’صدر ٹرمپ صبح آپ سے ہاتھ ملا کر رات کو آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ سکتے ہیں۔‘

پروفیسر ہانکے کا خیال ہے کہ ’انڈیا کو جذباتی ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے نپولین کے اس پرانے مشورے پر عمل کرنا چاہیے کہ اگر کوئی دشمن خود کو تباہ کر رہا ہے تو مداخلت نہ کریں۔‘

انڈیا کن معاملات پر سودے بازی نہیں کرے گا؟

اس سب کے درمیان ایک اور جنگ جاری ہے۔ ایک ایسی جنگ جو انڈیا کی مقامی معیشت کی روح پر حملہ کر سکتی ہے۔

اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی ٹیم چاہتی ہے کہ انڈیا اپنے ڈیری اور زراعت کے شعبوں کو امریکی کاروبار کے لیے کھول دے۔ لیکن انڈیا کے لیے یہ صرف تجارتی مسئلہ نہیں ہے۔

Getty Imagesاندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی ٹیم چاہتی ہے کہ انڈیا اپنے ڈیری اور زراعت کے شعبوں کو امریکی کاروبار کے لیے کھول دے

انڈیا کا زرعی شعبہ سیاسی طور پر حساس، سماجی طور پر پیچیدہ اور اقتصادی طور پر اہم ہے۔ 40 فیصد سے زیادہ انڈین شہری زراعت پر انحصار کرتے ہیں۔

بھاری سبسڈی والے امریکی زرعی مصنوعات کے لیے راستہ کھولنا مارکیٹ میں مصنوعات کی بھرمار اور چھوٹے کسانوں کو برباد کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

2020-21 کی کسانوں کی تحریک کی یادیں مودی کے ذہن میں اب بھی تازہ ہوں گی۔ اس تحریک نے حکومت کو متنازعہ زرعی قوانین واپس لینے پر مجبور کر دیا تھا۔

یہاں شکست تسلیم کرنا نہ صرف مالی طور پر لاپرواہی ہوگی بلکہ سیاسی پریشانی بھی پیدا کر سکتی ہے۔

درمیانی راستے کی تلاش

فی الحال انڈیا کی حکمت عملی توازن قائم کرنے کی ہے۔ دہلی خاموشی سے امریکہ کو کوئی واضح رعایت دیے بغیر حل کے لیے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔

کوگل مین کا خیال ہے کہ انڈیا شدید دباؤ میں بھی ’اپنی پوزیشن پر قائم رہے گا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’انڈیا کو محتاط رہنا ہو گا کہ وہ اپنی مقامی سیاسی وجوہات کی بنا پر امریکہ کو بہت زیادہ رعایتیں نہ دے۔ یہ ایک آسان سمجھوتہ نہیں ہونے والا ہے۔‘

انڈیا نے امریکہ اور مشرق وسطیٰ سے تیل کی درآمدات میں اضافہ کیا ہے، ایران اور وینزویلا سے خود کو دور کیا ہے، اور توانائی کے متبادل ذرائع میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔

اصل المیہ صرف دو طرفہ تجارت نہیں ہے۔ ٹرمپ کے ٹیرف کے فیصلوں نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی اہمیت کو بھی کم کر دیا ہے۔ یہ ادارہ، جو پہلے ملکوں کے درمیان تجارتی مسائل حل کرتا تھا، اب تقریباً غیر فعال ہو چکا ہے۔

ایک انڈین اہلکار نے کہا کہ ’ایک وقت تھا جب تجارت مذاکرات کے ذریعے کی جاتی تھی، لیکن اب یہ ڈرانے کا وقت ہے۔‘

پروفیسر ہانکے کا خیال ہے کہ ’ٹرمپ کی پوری حکمت عملی ناقص ہے۔ وہ کہتے ہیں ٹرمپ کی تجارتی جنگ کے پیچھے معاشی سوچ تاش کے گھر کی طرح ہے۔ امریکی معیشت سست روی کا شکار ہے اور معاشی کساد بازاری کے دہانے پر ہے۔‘

ان کا خیال ہے کہ ’یہ خوف جلد ہی امریکی پالیسی پر اثر انداز ہونا شروع ہو سکتا ہے۔‘

انڈیا کی طاقت

واشنگٹن کی تمام تر دھمکیوں کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ انڈیا کسی بھی طرح کمزور ہے۔ مضبوط ڈیجیٹل معیشت اور صارفین کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے انڈیا کو ڈرانا آسان نہیں ہے۔

باجپائی کا کہنا ہے کہ سٹریٹجک خود مختاری کے لیے انڈیا دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ بات چیت جاری رکھے گا۔

ان طاقتوں میں مغرب بلکہ چین، روس اور گلوبل ساؤتھ بھی شامل ہیں۔

انڈیا کی اقتصادی ترقی امید کی کرن ہے۔ افراط زر کی شرح گزشتہ چھ سال میں اپنی کم ترین سطح پر ہے۔ روزگار کے مواقع بڑھ رہے ہیں اور برآمدات کی سطح برقرار ہونے کے باعث ملک کی معیشت دوبارہ پٹری پر آ رہی ہے۔

دوستی کا خاتمہ اور نئے دور کا آغاز؟

مودی سے گرمجوشی سے ہاتھ ملانے والے ٹرمپ اب ان کے خلاف کیوں ہو گئے؟

ماضی پر نظر ڈالی جائے تو اس کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو چکے تھے۔ سفارت کاری کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ ذاتی کیمسٹری کو باہمی تعلقات پر ترجیح نہ دی جائے۔

مودی اور ٹرمپ کی دوستی کی میڈیا کوریج بھلے ہی اچھی لگے لیکن اس میں دونوں ملکوں کے تعلقات کی پیچیدگیوں کو اجاگر نہیں کیا گیا۔ سیاست میں ذاتی تعلقات کام نہیں آئے۔

ٹرمپ کی سیاست میں جذبات کی کوئی اہمیت نہیں۔ جیسا کہ باجپائی کہتے ہیں کہ ’ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں دوست یا دشمن نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔‘

ان کا موقف ہے کہ ’یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ انڈیا تیل یا تجارت کے معاملے پر ٹرمپ سے متفق نہیں تھا۔‘

ان حالات میں انڈیا کو کیا کرنا چاہیے؟

پروفیسر ہانکے کہتے ہیں کہ انڈیا کو ان ممالک پر توجہ دینی چاہیے جو آزاد تجارتی معاہدوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

امریکی صدر کی دھمکی، انڈیا کا ’تلخ‘ جواب اور مودی کی مشکل: ’ٹرمپ مسلسل توہین کر رہے ہیں، وزیراعظم زیادہ دیر خاموش نہیں رہیں گے‘پاکستان اور ایران میں اربوں ڈالر کے معاہدے اور یادداشتیں: امریکی پابندیوں کی موجودگی میں یہ سرمایہ کاری کیسے ممکن بنائی جائے گی؟’مائی فرینڈ‘ سے ’ٹیرف کِنگ‘ تک: کیا ایف-35 کی پیشکش اور پاکستان کے ساتھ تنازع نے مودی اور ٹرمپ کے درمیان تعلقات میں دراڑ ڈال دی؟’ٹیرف کنگ‘ پر 25 فیصد محصول اور اضافی جرمانے: کیا امریکی صدر کا دباؤ انڈیا کو روس سے دور کر پائے گا؟نریندر مودی کی 100 منٹ کی تقریر مگر نہ طیاروں پر بات اور نہ ٹرمپ کی ثالثی کی تردید: ’14 بار نہرو کا نام لیا مگر چین کا نام ایک بار بھی نہ لے سکے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More