اکبر کی ’مریم الزمانی‘: ہندوستان کی سب سے بڑی تاجر خاتون جنھیں نقصان پہنچانا پرتگالیوں اور انگریزوں کو مہنگا پڑا

بی بی سی اردو  |  Aug 20, 2025

Getty Imagesہرکھا بائی مغل بادشاہ جہانگیر کی والدہ تھیں

سنہ 1613 کا موسمِ برسات ابھی ختم ہی ہوا تھا کہ پرتگالی تاجروں نے ’رحیمی‘ نامی بحری جہاز کو روک کر اپنے قبضے میں لے لیا اور اسے ’گوا‘ لے گئے۔ بحیرۂ احمر میں تجارت کرنے والے ہندوستانی جہازوں میں سب سے بڑا یہ جہاز ’مریم الزمانی‘ نامی خاتون کی ملکیت تھا۔

’مریم الزمانی‘ اُن کا لقب تھا جبکہ اصل نام ’ہرکھا بائی‘ تھا۔ راجپوت شہزادی ہرکھا بائی کی کہانی کافی دلچسپ ہے۔

سنہ 1562 میں ہرکھا بائی کی شادی تیسرے مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر سے ہوئی تھی۔ کچھ عرصے کے بعد اس جوڑے کے ہاں نورالدین محمد کی پیدائش ہوئی اور اس موقع پر اکبر نے ہرکھا بائی کو ’مریم الزمانی‘ کا لقب دیا۔ اُن کے بیٹے نورالدین محمد بعد ازاں ’جہانگیر‘ کے لقب کے ساتھ تخت پر بیٹھے۔

تاریخ دانوں روبی لال اور ایرا مکھوٹی کے مطابق اکبر کی پسندیدہ اور اثر و رسوخ رکھنے والی یہ شریک حیات، اپنے دور کی امیر ترین خواتین میں شمار ہوتی تھیں۔

ایلیسن بینکس فنڈلی نے امیریکن اور یئنٹل سوسائٹی کے جرنل کے لیے اپنے تحقیقی مضمون ’دی کیپچر آف مریم الزمانیز شپ: مغل ویمن اینڈ یورپین ٹریڈرز‘ میں لکھا ہے کہ مریم الزمانی کو مغل سلطنت کی سب سے بڑی خاتون تاجر مانا جاتا ہے۔ وہ 40 برس سے زائد عرصے تک اور سنہ 1623 میں اپنی وفات کے وقت تک مادر ملکہ کے منصب پر فائز رہیں۔

جہانگیر (مریم الزمانی کے بیٹے اور مغل بادشاہ) ہی کی حکومت تھی جب پرتگالی اجازت نامہ ہونے کے باوجود بھی مریم الزمانی کے ملکیتی ’رحیمی‘ نامی بحری جہاز کو اس پر لدے تمام تر تجارتی سامان اور لگ بھگ 700 مسافروں سمیت پرتگالیوں نے قبضے میں لے لیا۔

ایرا مکھوٹی ’ڈاٹرز آف دی سن: ایمپریسز، کوئینز اینڈ بیگمز آف دی مغل ایمپائر‘ میں لکھتی ہیں کہ ’رحیمی‘ محض ایک تجارتی جہاز نہیں تھا بلکہ حج کے سفر کے لیے استعمال ہونے والا جہاز بھی تھا، جو سورت (ہندوستان) کی بندرگاہ سے حاجیوں کو موچا (مکہ کے جنوب میں بحیرۂ احمر کے دہانے پر واقع ایک عرب بندرگاہ) لے جاتا، اور یورپی دنیا میں ’دی گریٹ پلگریمیج شپ‘ کے نام سے مشہور تھا۔

’رحیمی کے ذریعے ہندوستان سے نیل، کپاس، ریشم، چمڑا، دھاتیں، قالین، مسالے، افیون اور جواہرات برآمد کیے جاتے۔ جبکہ یہ ایسا سامان ہندوستان لاتا جو خاص طور پر شاہی خواتین کی دلچسپی کا باعث ہوتا، جیسے سونا، چاندی، ہاتھی دانت، موتی، عنبر، عطر، شراب، کمخواب، برتن سازی کے اوزار اور شیشے۔‘

’مریم الزمانی کی ملکیت میں کئی اور جہاز بھی تھے، مگر رحیمی سمندری سفر کے لیے سب سے پسندیدہ تھا۔‘ مکھوٹی کے مطابق 17ویں صدی میں رحیمی ہندوستانی سمندروں میں چلنے والے سب سے بڑے جہازوں میں شمار ہوتا تھا۔

’اس میں ڈیڑھ ہزار مسافروں کی گنجائش تھی اور یہ ایک لاکھ پاؤنڈ مالیت کا سامان لاتا، لے جاتا تھا، جو آج کے حساب سے تقریباً آدھ ارب ہندوستانی (یا لگ بھگ پونے دو ارب پاکستانی) روپے کے برابر ہے۔ مادر ملکہ (مریم الزمانی) نے تجارت کے لیے متعدد ایجنٹس، دلال اور مالی مشیر مقرر کر رکھے تھے۔‘

Getty Imagesمریم الزمانی مغل بادشاہ اکبر کی اہلیہ تھیں

ولیم فاسٹر کی کتاب ’ارلی ٹریولز‘ کے مطابق مریم الزمانی، بادشاہ سمیت دربار کی ان چار شخصیات میں شامل اور واحد خاتون تھیں جنھیں 12 ہزار سوار کا منصب حاصل تھا۔ ہر سال نوروز کے موقع پر انھیں ہر امیر اپنے مرتبے کے مطابق قیمتی جواہر پیش کرتا۔

مریم الزمانی کو سرکاری فرمان جاری کرنے کا حق بھی حاصل تھا، جو عموماً صرف بادشاہ کا خصوصی اختیار ہوتا تھا۔

مکھوٹی کے مطابق انھوں نے اپنی دولت اور اثر و رسوخ سے باغات، کنویں اور مساجد تعمیر کرائیں۔

سید محمد لطیف کی کتاب ’تاریخِ لاہور‘ سے پتا چلتا ہے کہ انھوں نے ہی سنہ 1614 میں لاہور کے شاہی قلعے کے اکبری دروازے کے ساتھ اندرون لاہور کے 12 تاریخی دروازوں میں سے ایک مستی دروازے میں واقع مریم زمانی یا بیگم شاہی مسجد بنوائی تھی۔

تاریخ دان مانتے ہیں کہ کوئی اور شاہی خاتون ایسی نظر نہیں آتیں جو مریم الزمانی کی طرح جری اور مہم جو تاجر رہی ہوں اور نہ ہی کسی تاجر کا جہاز اس قدر مسائل کا شکار ہوا ہو جتنا ان کا۔

فوسٹر کے مطابق فروری 1609 میں مریم الزمانی کا جہاز موچا جانے کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ پرتگالیوں نے دھمکی دی کہ اگر انھوں نے اجازت نامے کے لیے بھاری رقم ادا نہ کی تو وہ جہاز کو (گجرات کی بندرگاہ) دیو لے جائیں گے۔ بالآخر لڑائی سے بچنے کے لیے دونوں فریق ایک نسبتاً کم رقم پر متفق ہو گئے۔

’پھر سنہ 1610 کے آخر یا سنہ 1611 کے آغاز میں جب جہاز میں موچا کے ایک اور سفر کے لیے سامان رکھا جا رہا تھا، مریم الزمانی نے اپنے ایک ایجنٹ کو آگرہ کے جنوب مغرب میں 50 میل کے فاصلے پر نیل پیدا کرنے کے ایک اہم مرکز بھیجا تاکہ نیل خرید کر جہاز میں لادا جا سکے۔‘

’لیکن جیسے ہی سودا مکمل ہونے والا تھا، انگریز تاجر ولیم فنچ پہنچے اور کچھ زیادہ قیمت کی پیشکش کی، نیل خریدا اور لے اڑے۔ جب مریم الزمانی کو پتا چلا کہ ایک انگریز نے ان سے زیادہ قیمت دے کر مال خرید لیا ہے تو وہ سخت برہم ہوئیں اور اپنے بیٹے بادشاہ جہانگیر سے شکایت کی، جس کے نتیجے میں دربار میں انگریز نمائندے ولیم ہاکنز کو کافی عرصے تک مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔‘

ولیم فنچ کے اس عجلت پسند عمل نے جہانگیر کے دربار میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے فوری مستقبل کے لیے تباہ کن نتائج پیدا کیے۔ اس کے اثرات اتنے شدید تھے کہ سنہ 1612 میں انگریز کپتان جارڈین نے لکھا ’ملکہ کا جہاز، رحیمی، موچا جانے والا تھا اور مقامی تاجر اس وقت تک اپنا مال جہاز میں لادنے پر راضی نہ تھے جب تک ہم (یورپی) وہاں سے نکل نہ جائیں۔‘

گویا مریم الزمانی ایک خوشحال تاجر ہونے اور مغل شاہی خاندان سے تعلق کے باوجود کاروبار کے خطرات سے محفوظ نہیں تھیں۔

اکبر کی وہ پالیسیاں جن کے جاری رہنے سے ہندوستان کی تقدیر مختلف ہو سکتی تھیمغل بادشاہ اکبر جن کا انجام اُن کے ’دین الٰہی‘ کی طرح کچھ اچھا نہ ہوانادر شاہ: فارس کا بادشاہ جس نے مغلیہ سلطنت کے اختتام اور انگریز راج کی بنیاد رکھیہندوستانی خواتین کے حُسن کے معترف امیر خسرو جنھوں نے ’مسلمانوں میں بسنت کے تہوار کی بنیاد‘ ڈالی

فنڈلی کے مطابق پرتگالیوں نے اکبر کے دورِ حکومت میں نسبتاً خوشگوار تعلقات قائم رکھے اور یہ تعلقات جہانگیر کے عہد تک جاری رہے۔

مگر مکھوٹی لکھتی ہیں کہ جہانگیر کے دور میں پرتگالیوں کو مغل دربار میں دیگر یورپی تاجروں خصوصاً انگریزوں کی موجودگی سے خطرہ لاحق ہوا۔

برطانوی کولونیئل ریکارڈ کے مطابق یورپی حریفوں کو مغل دربار سے نکالنے کے لیے بادشاہ پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے پرتگالیوں نے جہانگیر کی والدہ مادر ملکہ مریم الزمانی کے زیرِ ملکیت ایک جہاز کو نشانہ بنا کر شہنشاہ کی ساکھ اور وقار کو چیلنج کیا۔

پرتگالیوں نے جہاز جلا دیا تھا

فنڈلی لکھتے ہیں کہ جب یہ واضح ہو گیا کہ جہاز واپس نہیں ملے گا، تو جہانگیر نے سمندری تجارت کی سب سے بڑی ہندوستانی بندرگاہ سُورت سے ہر قسم کی آمد و رفت بند کرنے، پرتگالی قصبے دمن پر قبضہ کرنے اور اسے بند کرنے کا حکم جاری کیا۔

رابرٹ اورمے نے اپنی کتاب ’ہسٹاریکل فریگمینٹس آف دی مغل ایمپائر‘ میں لکھا ہے کہ پرتگالیوں نے صلح کی کوشش کی اور بعد میں مغل حکومت کو جہاز کا نقصان بھرنے اور ’بحیرۂ احمر جانے والے مقامی جہازوں کو کچھ اضافی اجازت نامے دینے‘ پر آمادگی ظاہر کی۔

لیکن چونکہ یہ معاہدہ انگریزوں کی بے دخلی سے مشروط تھا اس لیے جہانگیر نے مزاحمت کی۔

بالآخر، ولیم فوسٹر کے مجموعے ’لیٹرز ریسیوڈ بائی دی ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کے مطابق شہنشاہ نے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت پرتگالیوں کو ’قبضے میں لیے گئے جہاز کے بدلے تین لاکھ روپے ادا کرنا‘ پڑے لیکن انگریزوں کی بے دخلی کا معاملہ مؤخر کر دیا گیا کیونکہ جہانگیر سمندر میں انگریزوں کی طاقت سے بتدریج واقف ہو رہے تھے۔

’اس طرح مریم الزمانی کے جہاز پر پرتگالی قبضے نے دونوں حکومتوں کے تعلقات میں ایک بڑی تبدیلی پیدا کر دی اور یہ واقعہ انگریزوں کے لیے ایک بڑا فائدہ ثابت ہوا۔‘

’شاہِ معظم کی والدہ ایک بڑی مہم جو خاتون تھیں اور اسی وجہ سے شاہِ معظم نے پرتگالیوں کو اس جگہ سے نکال باہر کیا۔‘

مریم الزمانی نے اپنے سب سے بڑے حج جہاز ’رحیمی‘ کے ضائع ہونے کے باوجود اپنے تجارتی اور حج کے جہاز چلانا جاری رکھے۔

پرسون چیٹر جی نے اپنی کتاب ’جینڈر انڈ ٹریول رائٹنگ ان انڈیا‘ میں لکھا ہے کہ وہ جہازوں کے ایک بیڑے کی کمان سنبھالے ہوئی تھیں۔

فوسٹر سمیت کئی مؤرخین کے مطابق سنہ 1617 میں دو انگریز قزاقوں نے بحیرۂ احمر سے بے شمار حاجیوں اور قیمتی سامان کے ساتھ واپس آتے، مریم الزمانی کے ایک جہاز پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن عین وقت پر یہ جہاز بچا لیا گیا۔

Getty Images

’اگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے بیڑے کی بروقت مداخلت نہ ہوتی تو اس کارروائی کا نتیجہ یہ نکلتا کہ ہندوستان کی سب سے مصروف منڈیاں انگریزی تجارت کے لیے بند ہو جاتیں۔‘

عائشہ صفدر اور محمد اعظم خان کی جرنل آف انڈین سٹڈیز کے لیے تحقیق ہے کہ رحیمی کے نقصان کے بعد مادر ملکہ نے ایک اور بڑا جہاز تیار کرنے کا حکم دیا۔

’اس پر 62 توپیں نصب تھیں اور 400 سے زائد بندوقچی متعین تھے۔ اس کا نام ’گنج سَوائی‘ رکھا گیا جو اپنے وقت میں سمندر کا سب سے خوفناک جہاز سمجھا جاتا تھا۔ اس کا مقصد تجارت اور حاجیوں کو مکہ لے جانا تھا اور واپسی پر تمام سامان کو سونے اور چاندی میں تبدیل کر کے حاجیوں کو واپس لانا تھا۔‘ (بعد میں اورنگزیب عالمگیر کے دورِ حکومت میں 7 ستمبر 1695 کو موچا سے سورت جاتے ہوئے انگریز قزاق ہنری ایوری نے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔)

’رائل مغل لیڈیز اینڈ دیئر کنٹریبیوشنز‘ کی مصنفہ سوما مکھرجی کے مطابق مریم الزمانی برصغیر کی سب سے پہلی ایسی خاتون سمجھی جاتی ہیں جن کا اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک تجارت میں باقاعدہ اور مسلسل عمل دخل رہا۔

فنڈلی نے لکھا ہے کہ ’ایک کامیاب تاجر اور کاروباری خاتون کی حیثیت سے انھوں نے وسیع تر میدان میں بیرونی تجارت کے نئے پھیلتے کاروبار میں مغل خواتین کے لیے کردار متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مغل سلطنت کی تمام معروف خواتین تاجروں میں جن میں نورجہاں اور جہان آرا بیگم شامل ہیں، انھیں سب سے زیادہ بااثر اور نمایاں سمجھا جاتا ہے۔‘

ڈرک کولیئر کی کتاب ’ایمپررز رائٹنگز: میمریز آف اکبر دی گریٹ‘ میں لکھا ہے کہ انھوں نے ریشم اور کئی قسم کے مسالوں کی وسیع تجارت بین الاقوامی سرحدوں تک پھیلائی اور خلیجی ممالک اور دیگر ملکوں کے ساتھ تجارت کی نگرانی کی۔

’اکبر کو مریم الزمانی کے کاروبار میں خاص دلچسپی تھی اور وہ ان کے تجارتی منصوبوں میں وقت اور سرمایہ لگاتے تھے۔ وہ اکثر ان کے ساتھ ان کے کاروبار پر طویل بات چیت کیا کرتے تھے۔‘

بیمبر اور کرسٹینا گیسکوئن نے اپنی کتاب ’دی گریٹ مغلز‘ میں لکھا ہے کہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں اور مغل بادشاہ شاہ جہاں اور ممتاز محل کی بیٹی اور اورنگزیب کی بڑی بہن جہاں آرا بیگم نے مریم الزمانی کی اس میراث کو آگے بڑھایا اور بیرونی تجارت اور کاروبار میں حصہ لیا۔

سقوط غرناطہ: جب مسلمان حکمران نے ’جنت کی کنجیاں‘ مسیحی بادشاہوں کے حوالے کیںحضرت داؤد: چرواہے سے بادشاہ اور نبی بننے کا سفر، اسلام اور دیگر مذاہب میںزمزمہ توپ کا آخری معرکہ: کئی ماہ محاصرے کے بعد رنجیت سنگھ کا ملتان پر وہ قبضہ جس سے پنجاب پر افغان حکمرانی ختم ہوئیاکبر کی وہ پالیسیاں جن کے جاری رہنے سے ہندوستان کی تقدیر مختلف ہو سکتی تھینادر شاہ: فارس کا بادشاہ جس نے مغلیہ سلطنت کے اختتام اور انگریز راج کی بنیاد رکھیوہ مغل شہنشاہ جس کی حکومت ایک خواجہ سرا نے چلائی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More