Getty Images
’ہم ائیرپورٹ پر نو گھنٹے سے زیادہ پھنسے رہے۔ ایک بار نکلنے کی کوشش کی تو ایئرپورٹ کے اطراف پر سیلاب کا منظر تھا۔ اچانک پھر بارش شروع ہو گئی تو پانی گاڑی کے اندر تک آ گیا۔‘
’بڑی مشکل سے واپس ائیرپورٹ پر لوٹ آئے۔ اتنے لوگ پھنس چکے تھے کہ کھانے کو کچھ نہ ملا۔ فجر کے وقت گھر پہنچے تو معلوم ہوا بجلی کل سے اب تک نہ آئی۔‘
زوبیا حسن بھی ان افراد میں شامل ہیں جو کراچی میں منگل کی شب ہونے والی بارش سے متاثر ہوئے۔ عام دنوں میں آدھے سے پونے گھنٹے میں طے ہونے والا راستہ انھوں نے کئی گھنٹوں میں طے کیا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق منگل کے روز کراچی میں ہونے والی بارش ’غیر معمولی‘ تھی۔ محکمہ کے مطابق بدھ کو بھی موسم کی صورت حال کم و بیش گزشتہ روز جیسی ہی رہنے کا امکان ہے جس دوران کئی علاقوں میں معمول سے زیادہ مقدار میں بارش برس سکتی ہے۔
ادارے کے مطابق سب سے زیادہ بارش گلشن حدید میں 170 ملی میٹر جبکہ ایئرپورٹ پر 158 ملی میٹر بارش ہوئی۔
دوسری جانب کراچی کے میئر مرتضی وہاب نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’کراچی میں لگ بھگ 235 ملی میٹر بارش ہوئی ہے جبکہ ہمارے پاس 40 ملی میٹر بارش کی گنجائش موجود ہے۔‘
یاد رہے کہ پاکستان میں رواں سال مون سون کا موسم ملک کے اکثر علاقوں میں ہی غیر معمولی رہا ہے۔
جہاں ایک جانب خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اربن فلڈنگ، لینڈ سلائیڈنگ اور بادل پھٹنے سے مختلف واقعات میں 300 سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں وہیں منگل کے روز کراچی میں ہونے والی بارش سے مختلف حادثات میں نو کے قریب ہلاکتیں سامنے آ گئی ہیں۔
یہی نہیں بلکہ اس ایک روز کی بارش سے کراچی کی سڑکوں پر شہری کئی گھنٹے پانی کی نکاسی نہ ہونے کے باعث پھنسے رہے اور انٹرنیٹ اور بجلی کی عدم فراہمی نے بھی لوگوں کو کوفت میں مبتلا کیے رکھا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نکاسی آب کی صورتحال میں بہتری کیوں نہیں آ سکی؟ اس پر بات آگے چل کر لیکن پہلے شامل کرتے ہیں بارش سے متاثرہ بعض افراد کی مشکلات جس کا ذکر انھوں نے بی بی سی سے گفتگو میں کیا۔
’پانی گاڑی کے اندر بھر گیا‘Getty Images
زوبیہ حسن جو سعودی عرب سے عمرے کی ادائیگی کے بعد کراچی آ رہی تھیں وہ بھی بارش کے باعث سڑکوں پر کھڑے پانی اور بدنظمی کا شکار ہوئیں۔ ایئرپورٹ سے نکل کر ڈیڑھ کلومیٹر کے دائرے میں گھومتے ہوئے انھوں نے ڈیڑھ گھنٹہ گزارا اور واپس ایرپورٹ کی عمارت میں آ کر پناہ لی۔
’تقریبا سوا پانچ بجے شام کو جہاز نے کراچی ایئرپورٹ پر لینڈ کیا۔ جہاز سے نکل کر گھر والوں سے رابطہ ہوا تو انھوں نے کہا کہ بارش بہت شدید ہوئی ہے اور ہم ایئرپورٹ لینے کے لیے پہنچ ہی نہیں پا رہے۔ میں نے گھر والوں سے کہا کہ آپ جہاں ہیں وہیں سے واپس گھر جائیں، ہم کیب سے آ جائیں گے۔‘
’سامان لے کر جب ہم باہر آئے تو پتا چلا کہ ایئرپورٹ کی کیب سروسز بند ہیں۔ سوا چھ بجے ایک کیب بک ہوئی۔ وہ ہمیں لے کر نکلا مگرایئرپورٹ کے اطراف ہر جگہ اتنا پانی تھا اور اتنا ٹریفک تھا کہ کچھ سمجھ نہیں ا رہا تھا‘
’پہلے ہم نے حبیب یونیورسٹی کے راستے ٹرائی کیا وہ نہیں ہو سکا پھر چیک پوسٹ فائئو سے ٹرائی کیا وہ نہیں ہو سکا اور پھرساتھ ہی تیز بارش شروع ہوئی اور پانی گاڑی کے اندر تک آ گیا۔‘
ان کے مطابق ’ہر جگہ گھٹنوں گھٹنوں پانی تھا۔ ٹریفک جام تھا، ون وے روٹ تھا اور کچھ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ٹریفک رواں رکھنےکی کوشش کر رہے تھے۔ میرے ساتھ میرا چند ماہ کا بچہ تھا، مجھے گھبراہٹ شروع ہو گئی اور رونا آ گیا۔‘
’ٹیکسی والے نے کہا کہ بہتر ہے کہ آپ ایئرپورٹ واپس جائیں کیونکہ وہ محفوظ جگہ ہے، جب تک پانی نہیں اتر جاتا۔ پانچ منٹ کے راستے کو ہم نے ڈیڑھ گھنٹے میں طے کیا۔ ایئرپورٹ پر لوگوں کا ہجوم تھا۔ لوگ پھنسے ہوئے تھے اور کھانا پینا ریفریشمنٹ سب ختم ہو چکا تھا۔‘
’انٹرنیٹ کی صورتحال خراب تھی، موبائل نہیں چل رہا تھا۔ صبح کے تین بجے پتا چلا کہ آرمی نے ایئرپورٹ کے اطراف علاقہ کلیئر کروا لیا ہے۔ پھر ہم نے کیب بک کی۔ اس وقت بھی جگہ جگہ پانی کھڑا ہوا تھا۔ میں فجر کے قریب اپنی والدہ کے ہاں گلشن معمار پہنچی کیونکہ میرے اپنے گھر میں کل صبح سے اب تک لائٹ نہیں ہے۔‘
انھیں شکوہ ہے کہ ’ہم اتنی لمبی فلائیٹ لے کر آئے تھے مگر ہماری مدد کو اور گائیڈ کرنے کو کوئی حکومتی نمائندہ موجود نہیں تھا، نہ ایئرپورٹ پر نہ باہر۔‘
’بارش میں رکشہ الٹتے الٹتے بچا‘Getty Images
خوشی خان کراچی کے ایک سکول میں ٹیچر ہیں اور آنے جانے کےلیے وہ بائیک کا استعمال کرتی ہیں۔
بی بی سے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ منگل کی دوپہر دو بجے کے قریب بارش کے بعد وہ دوستوں کے دفتر چلی گئیں اور بارش تھمنے کے بعد چار بجے یہ سوچ کر بائیک پر نکلیں کہ صورتحال بہتر ہوگئی ہوگی۔
تاہم جیسے ہی وہ شاہراہ فیصل پر بلوچ پل کے قریب پہنچیں تو بائیک بند ہوگئی اور پانی کی سطح ان کی کمر تک تھی جس کے بعد وہ بائیک کو دھکیلتی ہوئی دوبارہ دوست کے دفتر پہنچیں۔ اسی دوران دوبارہ بارش شروع ہوگئی۔
خوشی کے مطابق ساڑھے گیارہ بجے کے قریب انھیں ایک آٹو رکشہ مل گیا جس پر سوار ہوکر وہ اپنے گھر کے لیے روانہ ہوئیں۔
’ شاہراہ فیصل پر پانی موجود تھا اور ڈرگ روڈ انڈر پاس بند تھا اس وجہ سے بھی ٹریفک سڑک کی دونوں اطراف ون وے بنا ہوا تھا آہستہ آہستہ ماتھا خان پل پہنچے جو بارش سے پہلے سے زیر تعمیر تھا وہاں اور رش لگ گیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’شاہ فیصل ٹاؤن پہنچے تو وہاں کافی پانی موجود تھا ایک جگہ گڑھا تھا جو رکشہ والے کو نظر نہیں آیا اور رکشہ الٹتے الٹتے بچا۔ آس پاس کے لوگوں نے سہارا دیا اس طرح جو راستہ آدھے گھنٹے کا ہے، تین گھنٹوں میں طے کیا۔‘
بس خراب، پیدل راستہ اور گٹروں کا ڈرGetty Images
کراچی کی رہائشی عائشہ کلفٹن میں واقع ایک نجی ادارے میں کام کرتی ہیں۔ وہ ایک بجے ملیر میں واقع گھر کے لیے روانی ہوئیں تھیں۔
وہ عموما ریڈ بس میں سفر کرتی ہیں۔ ان کے مطابق موسم جیسے بارش کا ہوا وہ احتیاطً دفتر سے جلدی نکل آئیں تاکہ گھر جلدی پہنچیں۔ جب وہ بس میں سوار ہوئیں تو بارش شروع ہو گئی لیکن بس چلتی رہی۔
ان کے مطابق جب وہ کالا بورڈ پر پہنچیں تو ’بس خراب ہو گئی اور لوگوں کو نکلنا پڑا۔‘ اس کے بعد کچھ دیگر خواتین کے ساتھ وہ پیدل روانہ ہوئیں لیکن ’پانی کی سطح کمر تک تھی اور بہاؤ اتنا تیز تھا کہ پاؤں جم نہیں رہے تھے۔‘
ان کے مطابق ’ ڈر تھا کہ پانی بہا نہ لے جائے۔ اس کے علاوہ بجلی کے کھمبوں اور گٹروں کا ڈر الگ تھا۔‘
کافی دیر چلنے کے بعد ایک پرائیوٹ بس ملی اور وہ اس میں سوار ہو کر آخرکار ملیر پہنچ گئیں۔ جو سفر ایک بجے شروع ہوا تھا وہ ساڑھے پانچ بجے ختم ہوا۔
کراچی میں مزید بارشوں کی پیش گوئی
تو آخر کراچی میں ہونے والی یہ بارش کتنی غیر معمولی تھی؟
اس سوال کے جواب میں محکمہ موسمیات کراچی کے چیف میٹرولوجسٹ امیر لغاری نے بی بی سی کو بتایا کہ منگل کے روز کراچی میں ہونے والی بارش انتہائی غیر معمولی تھی۔ اس دوران لگ بھگ پورے شہر میں شدید بارش ہوئی اور کوئی علاقہ ایسا نہ تھا جہاں 70 ملی میٹر سے کم بارش ہوئی۔
محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی میں آج بھی بارش برسانے والا سسٹم موجود ہے اور اس کے تحت آج بھی شدید بارش کی توقع ہے۔
’کراچی میں محکمہ موسمیات کے 10 رین گیج لگے ہوئے ہیں اور بدھ کے ڈیٹا میں ہر جگہ ہمیں 70 ملی میٹر سے اوپر کی بارش ملی جبکہ آج بھی اسی سے ملتی جلتی صورتحال کی توقع ہے جبکہ سندھ میں اس وقت بھی بارش برساتا سسٹم گزر رہا ہے۔‘
امیر لغاری کہتے ہیں کہ ’ہم بارش کے موجودہ سلسلے میں توقع کر رہے تھے کہ یہ اپ لفٹ بارش ہو گی اور اس سلسلہ کو انڈین گجرات کی سمت نکلنا تھا تاہم کراچی میں شدید گرمی کے باعث بارش کے نظام کو تقویت ملی اور اس کے سبب بارش غیر معمولی اور شدید ہوئیں۔‘
یاد رہے کہ کراچی میں گزشتہ بدھ سے گرمی پڑنا شروع ہوئی تھی اور محکمہ موسمیات کے مطابق اس دوران کراچی میں درجہ حرارت 32 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر جا پہنچا تھا۔
محکمہ موسمیات نے متنبہ کیا ہے کہ مون سون کے تحت 27 اگست اور تین ستمبر کو بھی بارش برسانے والا نظام کراچی میں موجود ہو گا جس میں معمول کے مطابق بارش کا امکان موجود ہے۔
تو اس سے قبل کراچی میں اس شدت کی یا غیر معمولی بارشیں کب ہوئیں؟
اس سوال کے جواب میں چیف میٹرولوجسٹ نے بتایا کہ کراچی میں 2020 میں ایک روز(24 گھنٹوں) میں ہونے والی بارش 366 ملی میٹر ایک ریکارڈ تھی جبکہ محض ایک گھنٹے میں 166 ملی میٹر بارش سات اگست 1979 میں ہوئی تھی۔
کراچی میں بارش: ’آسمان دیکھو تو دل جھوم جائے، روڈ دیکھو تو دماغ گھوم جائے‘پاکستان میں مون سون کی ’قبل از وقت‘ بارشوں اور سیلاب سے درجنوں ہلاکتیں، سیاحوں کو محتاط رہنے کی ہدایت’آپ زمین پر نہیں، کسی کے گھر پر کھڑے ہیں‘: بونیر کا وہ گاؤں جہاں ’ہر پتھر کے نیچے کسی کا مکان دبا ہے‘’سکینہ کے خاندان میں کوئی مرد نہیں بچا، ایک نسل دفن ہو گئی‘: کشمیر اور خیبر پختونخوا میں سیلاب سے کئی گھر اجڑ گئے
معمول سے زیادہ بارش کے بعد اربن فلڈنگ کے باعث متعدد سڑکیں اور شاہراہیں تالاب کا منظر پیش کرنے لگیں اور دفاتر اور کام سے واپس آنے والے سڑکوں پر پھنستے گئے۔ اور یوں یہ صورتحال سوشل میڈیا پر بھی ٹرینڈ کرتی رہی۔
سماجی کارکن عمار علی جان نے اس صورت حال پر لکھا کہ ’کراچی کے مناظر اور خبریں دل دہلا دینے والی ہیں۔ ایک ایسا شہر جس کا حجم دنیا کے بہت سے ممالک سے بڑا ہے اسے بے یاد و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے اور اس کا احتساب کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ اس صورتحال سے صرف کراچی میں رہنے والوں کو نہیں بلکہ پورے ملک کے شہریوں کو پریشان ہونا چاہیے۔‘
سنگر اور ایکٹر فرحان سعید نے لکھا کہ ’میرا دل کراچی کی اس صورتحال پر ٹوٹ گیا ہے۔ تاہم آپ سب ایک بار پھراسی صورت حال میں زندہ رہیں گے اور آپ کو ایسا ہی رکھا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں آپ لاہور کو دیکھیں تو آپ فرق کو محسوس کریں گے۔ میری خواہش ہے کہ میں کراچی کو ابھرتے ہوئے دیکھوں جہاں کے لوگ ہمت و حوصلے والے اور پیارے لوگ ہیں اور جو واقعی محفوظ رہنے کے مستحق ہیں۔‘
’نالوں کی جگہ بنگلے اور نئی سوسائٹیز کی خراب پلاننگ‘
کراچی میں فلاحی تنظیمایدھی کے سربراہ فیصل ایدھی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بارش کے دورانکرنٹ لگنے، پانی میں ڈوبنے کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں۔ پوری پوری موٹر سائیکلیں پانی میں ڈوب جاتی ہیں جنھیں ریسکیو کرنا مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔‘
ان کےمطابق ’ہماری ریسکیو کے لیے زیادہ گاڑیاں چھوٹی ہوتی ہیں تو جب سڑکوں پر تین سے چار فٹ پانی آتا ہے تو وہ گاڑیاں نہیں چل پاتیں اس لیے بارش کے پانی کی صورت میں عام دنوں میں چلنے والا 90 فیصد کے قریب نیٹ ورک بیٹھ جاتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’ پھر فلڈ ریسکیو والا نیٹ ورک متحرک ہوتا ہے تاہم اتنی بڑی آبادی میں ہم کیا اور کتنا کر سکتے ہیں کیونکہ ہر علاقے سے کالز آ رہی ہوتی ہیں۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’کراچی میں جتنی نئی سوسائٹیاں بنی ہیں انھوں نے نالے نہیں بنائے۔ تو بارش کی صورت میں سڑکیں نالے بن جاتی ہیں۔ تو پوری ماسٹر پلاننگ کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ نالوں کی جگہ جب بنگلے بن جائیں گے تو یہی ہو گا۔‘
فیصل ایدھی نے الزام عائد کیا کہ ’ہر سال انھی جگہ پر نالے بھرتے ہیں جہاں سب کو پتا ہے۔ وہ مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔ نالوں کے راستے سوسائٹیوں نے بند کر دیے ہیں۔ سو سو فٹ کے نالے ڈیفنس میں 40 فٹ کے کر دیے گئے اور ان پر بنگلے بنا دیے گئے۔‘
Getty Images
یاد رہے کہ کراچی میں منگل کے روز بارشوں سے متعلقہ واقعات میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ سید کے مطابق بارش کے دوران مختلف حادثات اور واقعات میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ اموات دیوار گرنے، کرنٹ لگنے اور گٹر میں گرنے کی وجہ سے ہوئی ہیں۔
دوسری جانب گذشتہ روز کی شدید بارش کے بعد صوبائی حکومت نے کراچی میں عام تعطیل کا اعلان کیا ہے ۔
وزیر اعلی مراد علی شاہ اور میئر کراچی مرتضیٰ وہاب گذشتہ رات شہر میں پانی کی نکاسی کے کام کی نگرانی کے لیے گشت کرتے رہے جس کے بعد شارع فیصل، ایم اے جناح روڈ اور آئی آئی چندریگر روڈ سے پانی کی نکاسی کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
ٹریفک پولیس کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق، اس وقت طارق روڈ انڈر پاس، ڈرگ روڈ انڈر پاس، ناظم آباد نمبر 1، ناظم آباد نمبر 2 انڈر پاس، لیاقت آباد انڈر پاس، سہراب گوٹھ انڈر پاس زیر آب ہیں جہاں سے ٹریفک کو متبادل راستے پر موڑا جا رہا ہے۔
بارش کے بعد ملیر ندی میں پانی کے بہاؤ میں تیزی کی وجہ سے کورنگی کاز وے کو بند کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے کورنگی جانے والی ٹریفک کی آمد رفت متاثر ہو رہی ہے۔
’آپ زمین پر نہیں، کسی کے گھر پر کھڑے ہیں‘: بونیر کا وہ گاؤں جہاں ’ہر پتھر کے نیچے کسی کا مکان دبا ہے‘’سکینہ کے خاندان میں کوئی مرد نہیں بچا، ایک نسل دفن ہو گئی‘: کشمیر اور خیبر پختونخوا میں سیلاب سے کئی گھر اجڑ گئےکراچی میں بارش: ’آسمان دیکھو تو دل جھوم جائے، روڈ دیکھو تو دماغ گھوم جائے‘پاکستان میں مون سون کی ’قبل از وقت‘ بارشوں اور سیلاب سے درجنوں ہلاکتیں، سیاحوں کو محتاط رہنے کی ہدایتجب سیلابی ریلے نے عطا آباد جھیل کنارے ہوٹل کا رُخ کیا: ’راستے میں موجود گاڑیاں پھنس گئیں، لوگ اندر محصور ہو گئے تھے‘’کراچی میں بارش سے وہی افراتفری پھیل جاتی ہے جو ہڑتال کی کال پر ہوتی تھی‘