ٹرمپ کی بے رخی کے بعد مودی کی نظریں چین پر: بدلتی صورتحال میں انڈیا کے پاس کیا راستے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Aug 22, 2025

Getty Images

اس مہینے کی 27 تاریخ سے انڈیا سے امریکہ جانے والی مصنوعات پر 50 فیصد کی محصولات کا نفاذ ہونے والا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال میں جن ملکوں پر ٹیرف نافذ کیے، یہ ان میں سب سے زیادہ شرح والی ٹیرف میں سے ہے۔

امریکہ نے انڈیا کی برآمدات پر پہلے صرف 25 فیصد ٹیرف نافذ کیا لیکن بعد میں انڈیا کے روس سے تیل خریدنے کی سزا کے طور پر 25 فیصد مزید ٹیرف عائد کیا۔

یہی نہیں انڈیا سے تجارتی معاہدے کے لیے جو بات چیت چل رہی تھی وہ بھی امریکہ نے غیر معینہ مدت کے کے لیے ملتوی کر دی۔ دونوں ملکوں کے بہترین تعلقات کے پس منطر میں امریکہ کے ان سخت اقدامات کے لیے انڈیا قطعی تیار نہیں تھا۔

امریکہ انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تقر یباً 133 ارب ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔ انڈیا اربوں ڈالر کے ملبوسات، ہیرے موتی، جواہرات، ادویات اور الیکٹرانکس کا ساز وسامان امریکہ برآمد کرتا ہے۔

ٹیرف کے نفاذ سے ان شعبوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ نئے آرڈر معطل کر دیے گئے ہیں، لاکھوں ملازمتوں پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

امریکہ کا رویہ مزید سخت ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے انڈیا روس سے تیل خرید کر اسے پوری دنیا میں فروخت کر کہ نہ صرف منافع کما رہا ہے بلکہ وہ روس کے جنگی مشین کو طاقت فراہم کر رہا ہے۔

امریکہ نے انڈیا سے کہا ہے کہ ’وہ روس سے تیل خریدنا بند کر دے ورنہ اس کے خلاف مزید اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔‘

Getty Imagesامریکہ کی قربت کے لیے چین اور روس سے فاصلے، جو مٹنے لگے ہیں

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ ایک عشرے میں امریکہ سے قریبی تعلقات کی کوشش میں اس پر انحصار بہت زیادہ بڑھا دیا تھا۔

سنہ 2020 میں مشرقی لداخ کے گلوان خطے میں چین اور انڈیا کے فوجیوں کے درمیان خونریز جھڑپ کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات بہت تلخ ہو گئے تھے۔ امریکہ سے قربت حاصل کرنے کی کوشش میں اس پورے عرصے میں انڈیا کے چین سے تعلقات انتہائی تلخ رہے۔

یہی نہیں ایک مرحلے پر انڈیا نے اپنے سب سے قریبی دوست ملک روس کو بھی نظر انداز کرنا شروع کر دیا تھا لیکن اب اچانک چین سے تعلقات بہتری کی طرف بڑھتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔

تجزیہ کار نروپما سبرامنین کہتی ہیں ’گلوان کے ٹکراؤ کے بعد وزیر اعظم کے منھ سے چین کا نام نہیں نکلتا تھا۔ ان کے منھ پر کبھی شی جن پنگ کا نام نہیں آتا تھا۔ پانچ سال بعد انھوں نے چین کا ناملیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس مہینے کے اواخر میں ‎ایس سی او کے سربراہی اجلاس کے دوران صدر شی جن پنگ سے ملاقات گے۔‘

اس ہفتے کے اوائل میں چین کے وزیر خارجہ وانگ یی انڈیا کے دورے پر آئے۔ انھوں نے اپنے انڈین ہم منصب ایس جے شنکر کے علاوہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال سے تجارت کی بحالی اور سرحدی تنازعات کے پہلوؤں پر تفصیلی مذاکرات کیے۔ دونوں ملکوں نے تعلقات معمول پر لانے کے لیے نایاب معدنیات، فرٹیلائزر اور دوسرے ساز وسامان کی سپلائی بحال کرنے اور جلد ہی دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست پروازیں اور ویزوں کے اجرا کے حوالے سے کام کرنے پر اتفاق کیا۔ اس کے علاوہ سرحدی معاملات کو جلد حل کرنے کی بھی بات کی گئی۔

کچھ دن پہلے اجیت ڈوبھال ماسکو کے دورے پر تھے۔ اب ایس جے شنکر ماسکو گئے ہیں۔ وہاں وہ روس سے تجارت کو وسیع کرنے کے ایک معاہدے پر بات چیت کریں گے۔ وہ آئندہ مہینوں میں صدر پوتن کے انڈیا دورے کے بارے میں بھی بات چیت کریں گے۔

امریکی ’پابندیوں‘ کے بعد انڈیا کی چین سے تعلقات بحال کرنے کی کوشش: کیا پوتن مودی کی مشکل کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟تجارتی ہتھیار، ’ٹرمپ سے مایوسی‘ اور روس: کیا انڈیا چین سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟انڈیا کے وزیر خارجہ کا پانچ سال میں چین کا پہلا دورہ کیا پاکستان سمیت امریکہ اور روس کے لیے بھی ایک پیغام ہے؟کیا انڈیا پر 50 فیصد ٹیرف کا اعلان پاکستان کے لیے امریکہ میں برآمدات بڑھانے کا سنہری موقع ہے؟کیا ان قربتوں کی وجہ امریکی ٹیرف ہیں؟

چین اور روس سے انڈیا کے تعلقات میں اب ایک نیا جوش دیکھنے میں آیا ہے۔ تو کیا صدر ٹرمپ کی ٹیرف کی افراتفری نے انڈیا کو چین اور روس کی طرف دھکیل دیا؟

عالمی امور کی تجزیہ کار نروپما سبرامنین کہتی ہیں انڈیا کے اقتصادی ماہرین ، اقتصادی مشیر اورپالیسی ساز ایک عرصے سے یہ کہہ رہے تھے کہ چین کی سرمایہ کاری کے بغیر انڈیا اپنی معیشت کو تیزی سے آگے نہیں لے جا سکتا۔

’انڈیا کو کئی شعبوں میں چینی سرمایہ کاری اور ان کے ساز وسامان کی ضرورت ہے۔ چین کی معیشت بھی کچھ کمزور ہوئی۔ اس لیے یہ دونوں ملکوں کے حق میں تھا کہ وہ تعقات کوبہتر بنائیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پوری دنیا میں افراتفری پیدا کر دی۔ اس کے نتیجے میں ہر ملک کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کر رہا ہے۔ انڈیا اور چین کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی جو کوششیں گذشتہ ایک برس سے چل رہی تھی وہ صدر ٹرمپ کے اقدامات کے بات اور بھی تیز ہو گئی ہیں۔‘

بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار نینیما باسو کہتی ہیں کہ ’جس وقت انڈیا اور امریکہ کے درمیان تجارتی معاہدے پر بات چیت چل رہی تھی اس وقت صدر ٹرمپ نے تیس سے زیادہ بار انڈیا اور پاکستان کی جنگ کا ذکر کیا اور یہ کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی انھوں نے کروائی تھی۔ انڈیا نے اس کی تردید کی اور یہ معاملہ دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ تلخی کا سبب بنا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’جنگ بندی میں صدر ٹرمپ کے کردار کا اعتراف نہ کرنے کے سبب روسی تیل خریدنے کا بہانہ بنا کر انڈیا کے خلاف اضافی محصولات نافذ کی گئیں۔‘

انڈیا کے پاس کیا راستے ہیں؟Getty Images

نینیما کا کہنا ہے کہ انڈیا نے 2019 میں امریکہ کے دباؤ میں آ کر ایران سے تیل لینا بند کر دیا جبکہ ایران انڈیا کے سب سے بڑے سپلائر میں شامل تھا اور قریب ہونے کی وجہ سے اس کا تیل بھی سستا پڑتا تھا۔

’اب اگر امریکہ کے دباؤ میں انڈیا روس سے بھی تیل لینا بند کر دے تو انڈین معیشت کے لیے بہت مشکل صورتحال پیدا ہو جائے گی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’روس انڈیا کا سٹرٹیجک اور دفاعی پارٹنر ہے۔ انڈیا ان رشتوں سے سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ میرے خیال میں انڈیا روس سے تیل خریدنا بند نہیں کرے گا۔ ایک پہلو اور بھی ہے۔ انڈیا کو ایران سے بھی تیل لینا شروع کر دینا چاہیے۔ ایرانکسی ملک سے جنگ نہیں کر رہا، اس نے کسی ملک پر حملہ نہیں کیا۔ اس کے اوپر امریکہ نے یکطرفہ پابندی لگا رکھی ہے۔ اگر انڈیا سخت جواب دینا چاہتا ہے تو اسے ایران سے تیل خریدنا شروع کر دینا چاہیے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ انڈیا اور امریکہ کے تعلقات میں جو کشیدگی آئی، اس کے نتیجے میں انڈیا نے یہ محسوس کیا کہ چین سے جو معاملات ہیں ان کو جلد حل کر کے تعلقات معمول پر لانے میں ہی فائدہ ہے۔

انھوں نے وضاحت کی کہ ’اگر امریکی ٹیرف پوری طرح نافذ ہو گئے اور اضافی ٹیرف بھی لگا دیے گئے تو اس سے انڈیا کے ایکسپورٹرز اور تاجروں کو تو مشکلوں کا سامنا کرنا ہی پڑے گا بلکہ اس کا انڈین معیشت پر بھی بہت بڑا اثر پڑے گا۔ انڈیا نے امریکہ پر بہت زیادہ انحصار کرنے کی غلطی کی اور چین سے تعلقات کو ایک دم سرد مہری کی نذر کر دیا۔ اب انڈیا یہ سمجھ گیا ہے کہ اسے چین کے ساتھ بھی ٹریڈ ڈیل کرنی چاہیے۔ وہ صرف امریکہ پر انحصار نہیں کر سکتا۔‘

نروپما سبرامنین کہتی ہیں کہ صدر ٹرمپ کے اقدامات کے بعد انڈیا کی سٹریٹجک کمزوریاں سامنے آگئی ہیں۔ اس کی اقتصادی کمزوریاں پہلے ہی سامنے آ چکی ہیں لیکن کیا چین انڈیا سے اپنے سرحدی تنازعات حل کرے گا، کیا ایل اے سی سے فوجیں پیچھے ہٹیں گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

وہ کہتی ہیں ’انڈیا کا ماننا ہے کہ چین نے حالیہ جنگ میں پاکستان کی مدد کی، چین کے جہاز میزائل سب اس جنگ میں شامل تھے لیکن انڈیا نے چین سے سرکاری سطح پر یہ سوالات نہیں اٹھائے کیونکہ اس کی کمزوری سامنے ہے۔ چین انڈیا کے مقابلے ایک طاقتور ملک ہے۔‘

نیمنما کہتی ہیں کہ ’چین کی سفارت کاریبہت منظّم ہے اور وہ اسے بہت سمارٹ طریقے سے چلاتے ہیں اور اس میں بہت خوبصورتی سے توازن بھی رکھتے ہیں۔‘

’وزیر خارجہ وانگ یی کے دلی دورے میں بات چیت کے بعد چین نے نایاب معدنیات، فرٹیلائزر اور سرنگیں کھودنے والی بھاری مشینیوں کی سپلائی انڈیا کے لیے بحال کرنے کا اعلان کیا۔ ان کی سپلائی رکنے سے انڈیا میں بہت سے مسائل پیدا ہو رہے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ انڈیا نے بھی اس کے عوض کوئی وعدہ کیا ہو گا، جس کے بارے میں بعد میں پتہ چلے گا۔‘

نینیما کے مطابق ’اگر آپ کو دنیا کی دو سپر معیشتوں کے درمیان اپنی معیشت چلانی ہے تو آپ چین کے ساتھ بالکل ناطہ توڑ کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ انڈیا اور چین کی سرحدی کشیدگی تو کم ہو گئی لیکن سرحدوں سے فوجیں اب بھی پیچھے نہیں ہٹی ہیں۔ وہ تنازع ابھی بھی حل نہیں ہوا۔ اس لیے انڈیا ذرا محتاط ہے لیکن وہ چین کو نظر انداز کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘

دفا‏عی تجزیہ کار پروین ساہنی کہتے ہیں کہ ’گزشتہ عشروں میں چین اور انڈیا دونوں ملکوں نے ترقی کی لیکن ان دونوں کی ترقی کا کوئی مقابلہ نہیں۔ چین اتنا آگے نکل گیا کہ اب وہ دنیا کی ایک بڑی طاقت بن چکا ہے اوروہ تن تنہا دنیا کی سیاست اور معیشت پر اثر انداز ہوتا ہے۔‘

’لیکن انڈیا یہ سوچتا ہے کہ وہ بھی بہت ترقی کر چکا ہے اور وہ اپنے لوگوں کو یہ بتاتا ہے وہ چین کا سیاسی اور اقتصادی محاذ پر مد مقابل ہے اور چین سے سرحدی تنازع نہ حل کرنے کے لیے اسی کو عذر بنا لیا گیا۔‘

تنازعات جو بہتر تعلقات کی راہ میں حائل ہیں

چین کی سب سے لمبی سرحد انڈیا سے ملتی ہے اور دونوں ملکوں کے سرحدی تنازعات بہت پیچیدہ نوعیت کے ہیں۔ انھیں حل کرنے کے لیےاعلی سطح پر مذاکرات ہوتے رہے ہیں لیکن ان میں کوئی بنیادی پیشرفت نہیں ہوئی۔

تجزیہ کار نروپما سبرامنین کہتی ہیں کہ ’جب تک سرحدی تنازعات حل نہیں ہوتے تب تک انڈیا کے چین سے تعلقات میں استحکام نہیں آئے گا۔ سرحدی تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں ممالک ایک جنگ لڑ چکے ہیں۔دونوں مکوں کے درمیان ایک باہمی عدم اعتبار کا مسئلہ ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے یہ سوچ ہوا کرتی تھی کہ انڈیا کو یہ قبول کرنا پڑے گا کہ چین کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے ہیں تو اسے زمین کے بدلے زمین دینی ہو گی۔ شاید اروناچل پردیش کی جگہ لداخ میں زمین کا کچھ حصہ دینا پڑسکتا ہے۔ ایک طرح کی حقیقت پسندی تھی لیکن اب اس طرح کی باتیں زیادہ نہیں سنائی دے رہی مگر یہ پھر بھی کسی نہ کسی طرح اسی تصور کی طرف بڑھ رہا ہے کہ بارڈر ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے ہی تعلقاتبہتر کیے جائیں۔‘

ٹیرف اور تلخ تعلقات کیا انڈیا اور امریکہ میں دوری کو مزید بڑھائیں گے؟ پروین ساہنی کہتے ہیں کہ مودی حکومت امریکہ سے تعلقات دوبارہ بہتر کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔

’مودی حکومت نے امریکی نظام میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر دی ہے اور یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انڈیا سے باہر آر ایس ایس کے سب سے زیادہ پیروکار امریکہ میں ہیں۔ وہ انڈیا پر دباؤ بنائیں رکھیں گے۔‘

نروپما کا کہنا ہے امریکہ کے تعلقات انڈیا کے ساتھ برقرار رہیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک ہے اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ انڈیا کو امریکہ کی ضرورت رہے گی لیکن دونوں ملکوں کے تعلقات میں جو استحکام تھا، وہ اب نہیں رہے گا اور اس نوعیت کے تعلقات دوبارہ قائم کرنے میں شاید صدر ٹرمپ کے جانے کے بعد بھی کئی برس لگ جائیں گے۔‘

امریکی ’پابندیوں‘ کے بعد انڈیا کی چین سے تعلقات بحال کرنے کی کوشش: کیا پوتن مودی کی مشکل کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟تجارتی ہتھیار، ’ٹرمپ سے مایوسی‘ اور روس: کیا انڈیا چین سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟انڈیا کے وزیر خارجہ کا پانچ سال میں چین کا پہلا دورہ کیا پاکستان سمیت امریکہ اور روس کے لیے بھی ایک پیغام ہے؟انڈیا چین تعلقات: مودی کے بیجنگ سے متعلق ’مثبت بیانات‘ چیلنجز کو کم کرنے میں مددگار ہو سکتے؟’ٹیرف کنگ‘ پر 25 فیصد محصول اور اضافی جرمانے: کیا امریکی صدر کا دباؤ انڈیا کو روس سے دور کر پائے گا؟کیا انڈیا پر 50 فیصد ٹیرف کا اعلان پاکستان کے لیے امریکہ میں برآمدات بڑھانے کا سنہری موقع ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More