انڈیا کی فضائیہ اپنے سب سے پرانے جنگی جہاز مگ 21 کو مرحلہ وار ختم کرنے کی تیاری کر رہی ہے اور اسی سلسلے میں انڈیا کی ریاست راجستھان کی نال ایئر بیس پر ایک یادگاری تقریب کا اہتمام کیا گیا۔
انڈین فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ نے راجستھان میں ہونے والی اِس تقریب کے دوران اس مشہور لڑاکا طیارے میں اُڑان بھری۔ مگ 21 کو ایک وقت تک انڈین ایئرفورس کی ’ریڑھ کی ہڈی‘ کہا جاتا تھالیکن بعدازاں اسے پیش آنے والے پے در پے حادثات کے بعد اسے 'اُڑتے تابوت' کا لقب بھی دیا گیا۔
روسی ساختہ مگ 21 طیارے پہلی بار انڈین ایئرفورس کا 1960 میں حصہ بنے تھے اور اُس کے بعد سے تقریباً چھ دہائیوں تک انڈیا نے ان لڑاکا طیاروں کا مختلف محاذوں پر استعمال کیا ہے۔ انڈین فضائیہ میں اگرچہ زیادہ تر مگ 21 لڑاکا طیاروں کو پہلے ہی کم کیا جا چکا تھا لیکن اب بھی دو سکواڈرن اس میں شامل ہیں جنھیں 19 ستمبر 2025 کو چنڈی گڑھ میں ہونے والی ایک باضابطہ تقریب میں ریٹائر کر دیا جائے گا۔
راجستھان میں ہونے والی تقریب کے دوران مگ 21 کو ریٹائر کرنے کے حوالے سے ہونے والے ایک سوال کے جواب میں انڈین فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ کا کہنا تھا کہ ’اب ہمیں آگے بڑھنا ہو گا کیونکہ یہ ٹیکنالوجی پرانی ہو چکی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو برقرار رکھنا اب بہت مشکل ہے۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس طیارے کو ریٹائر کر کے نئے پلیٹ فارمز کی طرف بڑھیں، جیسے تیجس، تیجس ایم کے 2، رافیل، اور سوکئی 30 جو پہلے ہی کام کر رہے ہیں۔ یہ نئے پلیٹ فارمز اس کی جگہ لیں گے۔‘
مگ 21 لڑاکا طیاروں کو سنہ 2022 میں ریٹائر کرنے کا منصوبہ تھا لیکن ملک میں تیار کیے گئے تیجس جہاز کی وقت پر ڈیلیوری نہ ہونے کے سبب اسے فضائیہ سے ہٹانے کے منصوبے کو التوا میں رکھا گیا۔
ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ نے مگ 21 کے ساتھ اپنی ذاتی وابستگی سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا ’مگ 21 کو ہم نے سنہ 1960 کی دہائی میں شامل کیا اور آج تک اس کا بھرپور استعمال جاری رہا۔ یہ سب سے زیادہ تیار کیے جانے والے سپر سونک لڑاکا طیاروں میں سے ایک رہا ہے۔‘
انھوں نے نال ایئر بیس پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’تقریباً 11000 کے قریب مگ 21 تیار ہوئے اور 60 سے زیادہ ممالک نے انھیں استعمال کیا۔ میرا پہلا تجربہ سنہ 1985 میں ہوا جب میں آسام میں انڈین ایئر بیس تیزپور گیا اور ہم نے ٹائپ 77 اڑایا، جو میگ 21 کا ہی ایک ورژن ہے۔‘
اے پی سنگھ کے مطابق یہ ایک شاندار لڑاکا طیارہ ہے، بہت پھرتیلا، انتہائی چالاک اور نہایت سادہ ڈیزائن کا۔ اس کے عادی ہونے کے لیے ابتدائی تربیت درکار ہوتی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ یہ ایک ایسا طیارہ ہے جسے وہ لوگ ضرور یاد کریں گے جنھوں نے انڈین ایئر فورس میں آنے کے بعد اپنے ابتدائی دنوں میں اسے اُڑایا ہے۔‘
انڈیا کی فضائیہ نے اپنے سب سے پرانے جنگی جہاز مگ-21 کو ریٹائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ قدم ایک ایسے وقت میں اٹھایا جا رہا ہے جب فضائیہ میں نئے جنگی جہازوں کی کمی ہے۔
’ریڑھ کی ہڈی‘ سے ’اڑتے تابوت‘ کے لقب تک: مگ-21 لڑاکا طیاروں کی ریٹائرمنٹ اور انڈین فضائیہ کو جنگی جہازوں کی غیر معمولی کمی کا سامناانڈین ایئرچیف کا پاکستانی طیارے گرانے کا دعویٰ اور میڈیا پر بحث: ’چلیں انڈیا نے یہ تو مانا کہ 2019 میں کوئی ایف 16 طیارہ نہیں گرا تھا‘مگ 21: انڈین ایئرفورس میں ’ریڑھ کی ہڈی‘ جیسی حیثیت سے ’اڑتے تابوت‘ کے خطاب تکعید کا دن، راولپنڈی کی فضا اور دو پائلٹس کی گرفتاری: جب پاکستانی فضائیہ نے پہلی بار انڈیا کا جاسوس طیارہ مار گرایا
یاد رہے کہ پاکستان نے 2019 میں انڈین فضائی حملوں کے جواب میں ایک انڈین لڑاکا طیارہ مِگ 21 ہی مار گرایا تھا اور ایک انڈین پائلٹ ابھینندن کو حراست میں لے لیا تھا جسے بعد ازاں ’کشیدگی کم کرنے کے لیے‘ انڈیا کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
انڈیا میں دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ مگ-21 میں کئی کمیاں تھیں۔ اس کے باوجود اس نے انڈین فضائیہ میں شامل ہونے کے بعد ہر جنگ اور لڑائی میں حصہ لیا اور ان میں اہم کردار ادا کیا۔
تجزیہ کار راہل بیدی نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ گذشتہ 62 برس میں پرواز کے دوران 200 سے زیادہ مگ 21 حادثے میں تباہ ہوئے اور ان میں کم ازکم 170 پائلٹ ہلاک ہوئے۔
مگ-21 جہازوں کی آپریشنل زندگی بہت پہلے ختم ہو چکی تھی لیکن نئے جہازوں کی شمولیت میں تاخیر سے ان جہازوں کو انڈین اور روسی ٹیکنالوجی سے وقتآ فوقتآ 'اپ گریڈ' کیا جاتا رہا۔
’آخری بار اس نے ایف 16 کو مار گرایا تھا‘Getty Images
نال ایئر بیس راجھستان کی اسی تقریب میں انڈین فضائیہ کے ترجمان جے دیپ سنگھ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’مگ 21 کی یہ تاریخ رہی ہے کہ اس نے ہر جنریشن کے طیاروں کو مار گرایا ہے اور آخری بار اس نے ایف-16 کو مار گرایا تھا۔‘
جے دیپ سنگھ نے یہ وضاحت پیش نہیں کی کہ وہ ایف 16 طیارہ کس ملک کی ملکیت تھا۔
یاد رہے کہ مئی میں ہونے والے انڈیا، پاکستان تنازع کے لگ بھگ تین ماہ بعد اگست کے آغام میں انڈین فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ نے دعویٰ کیا تھا کہ ’آپریشن سندور‘ کے دوران پاکستان کے پانچ لڑاکا طیارے اور ایک بڑا طیارہ مار گرایا گیا۔‘ انڈین ایئر چیف نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ’انڈیا نے پاکستان کن لڑاکا طیاروں کو نشانہ بنایا، لیکن انھوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انڈین حملے میں جیک آباد میں شہباز ایئر بیس کا ایک حصہ تباہ ہو گیا تھا، جہاں ایف-16 طیاروں کو بھی پارک کیا گیا تھا۔‘
انڈین ایئرفورس کے ترجمان جے دیپ سنگھ کا مزید کہنا تھا کہ ’مگ نے سنہ 1971 کی جنگ میں ایف 104 کو بھی گرایا تھا۔ انڈین فضائیہ نے جس انداز میں میگ 21 کو عملی طور پر استعمال کیا ہے دنیا کی کسی اور فضائیہ نے اس طرح استعمال نہیں کیا۔‘
انڈین فضائیہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’میرا اس طیارے کے ساتھ ذاتی تعلق ہے۔ میں نے یہ طیارہ اڑایا ہے۔ ہمیں اس کی کمی محسوس ہو گی۔ انڈین ایئر فورس کے تقریباً ہر پائلٹ، جو ابھی کے نوجوان نہیں بلکہ زرا پہلے کے زمانے کے ہیں، میگ 21 اڑانے کے بعد دوسرے طیاروں پر گئے ہیں۔‘
سوشل میڈیا پر ردعمل: ’ہمارے آسمانوں کے محافظ، گڈبائے‘Getty Images
انڈیا میں مگ 21 کے دور کے اختتام کے حوالے سے خاصی بحث ہو رہی ہے جہاں متعدد لوگ ان پرانے لڑاکا طیاروں پر تنقید کر رہے ہیں تو وہیں چند ایک ایسے لوگ بھی ہیں کہ جو مگ 21 کی انڈین ایئر فورس کے لیے خدمات کو سراہتے نظر آرہے ہیں۔
راہل کے نام سے ایک انڈین ایکس یور نے لکھا کہ ’ہم یہ کیوں چھپاتے ہیں کہ مگ 21 پہلی بار ہماری فضائیہ میں 1960 کی دہائی میں شامل ہوا تھا؟ اب اسے 60 سال سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ ان طیاروں کو اب تک 400 حادثات پیش آچکے ہیں جن میں 170 پائلٹ جان کی بازی ہار گئے۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ 'اتنی بڑی تعداد میں حادثات کے باوجود انڈین فضائیہ کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا کیونکہ کسی بھی حکومت نے وہ لڑاکا طیارے نہیں خریدے جو وقت کی ضرورت اور ہمیں درکار تھے۔‘
راہل کی ہی طرح انڈیا سے ہی تعلق رکھنے والے سبطین رضا نے لکھا کہ ’اس طیارے کی تاریخ رہی ہے کہ اس نے کامیابی کے ساتھ دشمن کے جدید ترین طیاروں کو نشانہ بنایا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس میں خود بھی بھاری نقصان یا تباہی کا امکان زیادہ رہا، جس کے نتیجے میں اکثر پائلٹ کی جان چلی گئی۔ اسی لیے اسے ’اڑتا تابوت‘ کہا جاتا ہے۔‘
جہاں اس انڈین لڑاکا طیارے پر تنقید اور مختلف سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں وہیں وی تیگی جیسے انڈین ایکس یوزرز ان کی تعریف میں بس یہ لکھ رہے ہیں ’ہمارے آسمانوں کے محافظ، گڈبائے۔‘
’ریڑھ کی ہڈی‘ سے ’اڑتے تابوت‘ کے لقب تک: مگ-21 لڑاکا طیاروں کی ریٹائرمنٹ اور انڈین فضائیہ کو جنگی جہازوں کی غیر معمولی کمی کا سامناانڈین ایئرچیف کا پاکستانی طیارے گرانے کا دعویٰ اور میڈیا پر بحث: ’چلیں انڈیا نے یہ تو مانا کہ 2019 میں کوئی ایف 16 طیارہ نہیں گرا تھا‘مگ 21: انڈین ایئرفورس میں ’ریڑھ کی ہڈی‘ جیسی حیثیت سے ’اڑتے تابوت‘ کے خطاب تکعید کا دن، راولپنڈی کی فضا اور دو پائلٹس کی گرفتاری: جب پاکستانی فضائیہ نے پہلی بار انڈیا کا جاسوس طیارہ مار گرایارفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے ’گرانے جانے‘ کے دعویٰ پر بی بی سی ویریفائی کا تجزیہ اور بھٹنڈہ کے یوٹیوبر کی کہانیسیف الاعظم: پاکستانی فضائیہ کے وہ پائلٹ جنھوں نے چھ روزہ جنگ میں اسرائیلی طیاروں کو مار گرایا