بُلاقی شاہ: سود پر قرض دینے والا وہ شخص آدھا لاہور جس کا مقروض تھا

بی بی سی اردو  |  Aug 27, 2025

صوبائی دارالحکومت لاہور کے اندرون شہر میں واقع ’گُمٹی بازار‘ میں 17 اپریل 1929 کو مکمل ہونے والی اس عمارت تک دہلی دروازے کی جانب سے بھی جایا جا سکتا تھا، لیکن 12 دروازوں اور ایک موری پر مشتمل لاہور کے اس قدیمی علاقے کے رہائشی آصف بٹ یہاں 19ویں صدی کے بنے پانی والا تالاب کی جانب سے گئے تھے۔

آصف بٹ نے اس عمارت کی پیشانی پر اُبھرے ہوئے انگریزی حروف پڑھنا شروع کیے: ’بی۔۔۔ اس کے بعد کچھ حروف گِرے ہوئے ہیں اور پھر’کے‘ ہے اور۔۔۔‘

میں خود اس عمارت تک نہیں جا پایا تھا لیکن فون پر آصف بٹ کی زبانی یہ حروف سُن کر میں نے الفاظ مکمل کر لیے تو انھوں نے بھی وہ دہرا دیے: ’بُلاقی مل اینڈ سن بینکرز، لاہور۔‘

ان کا اصل نام کو بُلاقی مل تھا مگر تاریخ دانوں کے مطابق وہ بُلاقی شاہ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ لاہور میں اپنے زمانے کے یہ سب سے بڑے ساہوکار لوگوں کو سود پر قرض دیتے تھے۔

دانشور چندرترِکھا کے مطابق ’آدھا پنجاب اُن کا قرض دار تھا۔‘

اپنے ایک وی لاگ میں ترِکھا بتاتے ہیں کہ ’بُلاقی شاہ کی بہیوں (رجسٹر) میں بڑے بڑے زمین داروں کے انگوٹھے لگے ہوئے تھے یا دستخط موجود تھے۔ وہ کبھی کسی کو ناامید نہیں کرتے تھے۔ خواتین کے لیے الگ مسند تھی جس پر وہ انھیں عزت و احترام سے بٹھاتے۔ پھراُن کی ضرورت دریافت کرتے۔ خواتین وہاں آتی تو برقع میں تھیں لیکن خود کو ایسا محفوظ سمجھتیں کہ برقع ایک طرف رکھ دیتی تھیں۔ اپنی ضرورت بتاتیں کہ کوئی شادی ہے یا جشن ہے۔ اگر کوئی (قرض کے عوض) زیور رہن رکھتا تو لالا بے فکر ہو جایا کرتے تھے۔‘

پنجاب کی اُس دور کی معاشی صورتِحال کا احاطہ کرتے ہوئے مؤرخ اشتیاق احمد اپنی کتاب ’دی پنجاب بلڈڈ، پارٹیشنڈ اینڈ کلینزڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سماج کا ہر طبقہ کسی نہ کسی سطح پر ساہوکار کا مقروض تھا، لیکن مسلمانوں کو اس کی معاشی گرفت سب سے زیادہ کھٹکتی تھی۔‘

اُن کے مطابق لاہور کے بُلاقی شاہ اس عام ساہوکار نظام کی بہترین مثال سمجھے جاتے تھے جن کے سامنے بڑے سے بڑا زمیندار بھی مقروض نظر آتا۔

منیر احمد منیر کی کتاب ’مٹتا ہوا لاہور‘ میں موچی دروازہ کے رہائشی حافظ معراج دین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’100 روپیہ لو گے، تو وہ پہلے تین ماہ کا سود کاٹ لے گا، بلاقی شاہ ذبح کرتا تھا، سود پرپیسے دے کر۔‘

دانشورعبد اللہ ملک اپنی کتاب ’پرانی محفلیں یاد آرہی ہیں‘ میں لکھتے ہیں کہ لاہورکے سب سے بڑے ساہو کار بلاقی شاہ سے اکثر مسلمان زمیندار یا نچلے درمیانے طبقے کے سفید پوش قرض لیتے تھے۔ یہاں تک کہ ہمارا خاندان بھی بلاقی شاہ کا مقروض تھا۔

عبداللہ ملک لکھتے ہیں کہ ’بُلاقی شاہ کی امارت سے تو (میرے) دادا جان بھی خوف کھاتے تھے۔ بلاقی شاہ کا خوف اور دہشت میرے ذہن میں بیٹھ چکی تھی۔ ایک دن میں دادا جان کی انگلی تھامے گمٹی بازار سے گزر رہا تھا۔ میرا دھیان نیچے سڑک پر تھا کہ اچانک رک کر دادا جان نے کہا کہ بیٹے بُلاقی شاہ کو سلام کرو۔‘

’بُلاقی شاہ کا نام سنتے ہی میں سہم گیا۔ اُن کی طرف دیکھا لیکن خوف اور دہشت مجھ پر اس قدرطاری تھی کہ کھڑے کھڑے میرا پیشاب خطا ہو گیا۔ یہ دیکھ کر بُلاقی شاہ ذرا سا مسکرائے اور مجھے جینے کی دعا دے کر آگے بڑھ گئے۔‘

حافظ معراج دین کا کہنا تھا کہ بڑے بڑے رئیسوں کی جائیدادیں بُلاقی شاہ کے پاس رہن تھیں۔

کتاب ’مٹتا ہوا لاہور‘ ہی میں سیاستدان اور وکیل سید احمد سعید کرمانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’بُلاقی شاہ کے مقروض افراد میں میاں ممتاز دولتانہ کے والد خان بہادراحمد یار دولتانہ بھی شامل تھے۔‘

انگریزی زبان کے ایک میگزین ’دی پاکستان ریویو‘ کے سنہ 1971 کے ایک شمارے میں ایک مضمون نگار(جن کا نام کوشش کے باوجود پڑھا نہیں جا سکا) نے لکھا کہ1920 کی دہائی کے وسط میں ’میرے دادا حاجی احمد بخش، جو ایک فارسی شاعر اور علامہ محمد اقبال کےدوست تھے، نے (لاہور میں) اپنی 65 کنال زمین بیچنے کا ارادہ کیا۔ یہ زمین 20 ہزار روپے کے عوض لاہور کے سب سے بڑے ساہوکار بُلاقی شاہ کے پاس رہن تھی۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’میرےبڑوں کی بگڑتی مالی حالت پر شدید فکر مند ہو کر علامہ اقبال نے میرے دادا کو زمین بیچنے سے سختی سے منع کیا۔‘

’انھوں نے کہا کہ زمینکو کسی نہ کسی طرح سے بچاؤ۔ بہتر ہے کہ تم زیور بیچ دو یا پھر اپنے چند مکان فروخت کر کے بلاقی کا قرضہ ادا کر دو۔ وقت کے ساتھ ساتھ تمہارے پوتے خاندان کی بگڑیقسمت کو سنبھال لیں گے۔‘

’لیکن بدنصیبی یہ ہوئی کہ میرے دادا نے اُن کی نصیحت پر کان نہ دھرے۔‘

’لاہور کا سلطان‘: وہ ٹھیکے دار جنھوں نے ’چھوٹی اینٹ کی ہوس‘ میں مساجد تک منہدم کیںسراج الدولہ کے قتل کا معمہ اور ’نمک حرام ڈیوڑھی‘: 250 سال سے ’غداری کا طعنہ‘ سننے والے میر جعفر کے ورثا کی کہانیلاہور کے ہندو سے مسلمان ہونے والے وکیل اور سیرت نگار جو جیل بھیجنے والے چیف جسٹس کو ’ہٹا کر ہیرو بنے‘ مگر موت غربت میں ہوئیلاہور کو لاہور بنانے والے سر گنگا رام کون تھے؟

سنہ 2013 میں 104 سال کی عمر میں وفات پانے والے فوٹو جرنلسٹ ایف ای چودھری نے ’اب وہ لاہورکہاں؟‘ کے عنوان تلے چھپے اپنے طویل انٹرویو میں صحافی منیر احمد منیر کو بتایا کہ لاہورکے آدھے مسلمان بلاقی شاہ کے مقروض تھے۔ وہ بڑے لوگوں کو بڑا قرض دیا کرتے تھے۔ ’مزنگ کے جتنے بڑے شاہ تھے، اُن کی حویلیاں بلاقی شاہ کے پاس گروی تھیں۔‘

ایف ای چودھری اپنے انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ ’بلاقی شاہ کے بچے سینٹ اینتھونی سکول میں پڑھتے تھے۔‘

البتہ معراج دین کا کہنا ہے کہ بلاقی شاہ مخیر بھی تھے۔ پیٹر اوبورن اپنی کتاب ’وونڈڈ ٹائیگر، اے ہسٹری آف کرکٹ ان پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ بلاقی شاہ کریسنٹ کرکٹ کلب کے بڑے سرپرستوں میں سے ایک تھے۔

’یہ کلب لاہور کے موچی دروازے کے کرکٹ کے شوقین رہائشیوں نے بنایا تھا اور لالا امرناتھ اس کے مشہورترین کھلاڑی تھے۔‘

ایف ای چودھری بتاتے ہیں کہ ایک بار بلاقی شاہ بیمار پڑ گئے۔ اُن کے قرض دار اُن کا حال چال پوچھنے آتے۔

’شاہ جی کیہ حال اے؟‘ (شاہ جی، کیا حال ہے؟)

’وہ جواب دیتے کہ یار کچھ پتا نہیں کب میری پھونک نکل جائے‘ (یار کچھ پتا نہیں کب میرا دم نکل جائے)

’اوئے منیم (منشی) ادھر آ۔ بتا چودھری صاحب کے کتنے پیسے ہیں؟

’وہ دستاویز کھول کر بتاتا کہ انھوں نے 200 روپے لیے تھے فلاں سال۔‘

’اوئے پھاڑ دے اِن کاکھاتا، میرا حال پوچھنے آئے ہیں۔‘

’دوسرا قرضدار آ گیا تو پوچھا: اوئے اس کے کتنے پیسے ہیں؟‘

’جی، دوہزار ہیں۔‘

’پھاڑ دے۔ سود بہتیرا ہم کھا بیٹھے ہیں۔‘

چودھری بتاتے ہیں کہ دیکھا دیکھی حال پوچھنے کے بہانے سب پہنچنے لگے۔ ’لاکھوں روپے قرض لینے والے بھی پہنچ گئے: ’شاہ جی سنا ہے آپ بیمار ہیں۔‘

’ہاں یار پرماتما دی مرضی۔‘

’پندرہ بیس منٹ ہو گئے، آدھا گھنٹہ ہو گیا، انھوں نے کہا ہی نہیں کہ لا اس کا حساب اور پھاڑ دے۔‘

’پھر بلاقی شاہ خود ہی کہتے: اچھا تسی جا کے آرام کرو، تہاڈی بڑی مہربانی‘ (اچھا اب آپ جا کرآرام کریں، آپ کا شکریہ)

’یہ ان دنوں مشہورہوا تھا کہ بلاقی شاہ نے چھوٹوں (چھوٹے قرض داروں ) کے کھاتے پھاڑ دیے، بڑوں (بڑے قرض داروں) کے نہیں پھاڑے۔‘

بلاقی شاہ کے اپنے کچھ قرض داروں کے ساتھ ان معاملات پر ہونے والے جھگڑے عدالتوں میں بھی جاتے۔ ان مقدمات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ان سے قرض صرف مسلمان ہی نہیں لیتے تھے۔

اکتوبر 1901 کی ’سول ججمنٹس‘ نامی ایک دستاویز میں مقدمہ نمبر 96 کی تفصیلات سے علم ہوتا ہے کہ انیسویںصدیکے آخری برسوں میںبُلاقی شاہ نے ریلوے کے ایک یورپی افسر ٹی جی ایکرز کو ڈیڑھ ہزار روپے قرض ماہانہ تین فیصد کی شرح سود پر دیا۔

ایکرز نے کچھ سود تو ادا کیا مگر اصل رقم وقت پر واپس نہ کر سکے۔ نچلی عدالتوں نے یہ کہہ کر سود کم کر دیا کہ اتنی زیادہ شرح سود جائز نہیں ہے۔

مگر جب مقدمہ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس ہیریس کے سامنے آیا تو انھوں نے قرار دیا کہ ایکرز نے قرض کا معاہدہ اپنے ہاتھ سے لکھا تھا، کسی دباؤ یا فریب کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔

یوں بُلاقی مل کی اپیل منظور کر لی گئی۔ عدالت نے اُن کے حق میں پوری رقم یعنی 2065 روپے کی ڈگری جاری کر دی۔

برطانوی دورکے مقدمات کی ایک دستاویز ’آل انڈیا رپورٹر‘ سے چیف جسٹس کینسنگٹن اور جج شاہ دین کے سامنے دو فروری 1914 کے ایک مقدمے کا بھی پتا چلتا ہے۔

بُلاقی شاہ نے قرض کی شرط کے مطابق دو برس کا سود ادا نہ ہونے پر دُونی چند کی رہن شدہ جائیداد پر قبضے کی کوشش کی تھی لیکن عدالتِ عالیہ نے اسے خلافقانون قرار دیا۔

بلاقی شاہ کو لاہور کے سب سے بڑے ساہوکار قرار دیتے ہوئے صحافی مجید شیخ نے اپنے ایک مضمون میں بیان کیا ہے کہ ’ایکخاصے معتبرعمر رسیدہ شخص نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ بلاقی شاہ کو علم ہوا کہ ان کا بیٹا ٹبی بازار (بازارِ حُسن) کثرت سے جانے لگا ہے تو ایک رات وہ بھی وہاں جا پہنچے اور بیٹے کے سامنے بیٹھ گئے۔‘

’ان کا بیٹا ناچنے والیوں پر جتنی رقم نچھاور کرتا، بلاقی شاہ اس سے دگنا نذرانہ ان کو دیتے۔ آخر دونوں باپ بیٹا خالی ہاتھ گھر لوٹے۔‘

’اس پر بلاقی شاہ کے بیٹے کو اندازہ ہو گیا کہ وہاں (بازار میں) کسی کو اُن سے کوئی غرض نہیں، وہ تو بس اُن کی دولت کے باعث ناز نخرے اٹھاتی ہیں۔ یوں اس نے وہاں جانے کی عادت ترک کر دی۔ اس سے ٹبی گلی والوں کو اس قدر نقصان ہوا کہ ان کا ایک وفد باقاعدہ بلاقی شاہ کے پاس آیا اور انھیں اس رات محفل میں نچھاور کی گئی تمام رقم پیش کی اور درخواست کی کہ وہ اپنے بیٹے کو ٹبی گلی آنے کی اجازت دے دیں۔ بلاقی شاہ نے رقم ان سے لے لیاور کہا کہ وہ وہاں سے چلے جائیں۔‘

شیخ لکھتے ہیں کہ ’مجھے یاد ہے میرے والد نے مجھے بتایا تھا کہ (پاکستان بننے سے پہلے) بلاقی شاہ کے پوتے ’لاٹو شاہ‘ یا رام پرکاش ان کے ہم جماعت اور کالج کی کرکٹ ٹیم میں ان کے ساتھی تھے۔ لاٹو اور (بعد میں صحافی بننے والے) مظہرعلی خان صرف دو ایسے طالب علم تھے جو اپنی کاروں میں کالج آتے تھے۔ لاٹو صرف ریشمی لباس اور مظہر علی خان کھدر کا لباس پہنتے تھے۔‘

اسد سلیم شیخ نے اپنی کتاب ’ٹھنڈی سڑک: مال روڈ لاہور کا تاریخی، ثقافتی اور ادبی منظر نامہ‘ میں لکھا کہ قیام پاکستان سے پہلے مسجد شہدا کے سامنے موجودہ صادق پلازہ کی نُکڑ پر ’ٹوبیکوِسٹ‘ نام کی دُکان تھی۔ ’اس کے مالک بلاقی شاہ کے پوتے تھے، دکان پر ہر قسم کے تمباکو رکھتے تھے۔‘

تقسیم ہند پر بلاقی شاہ کے خاندان کو لاہور سے ہجرت کرنا پڑی اور ترِکھا کے مطابق جب فساداتشروع ہوئے تو قرض داروں کے رجسٹر کے صفحات لاہور کی نالیوں میں کٹے پھٹے پائے گئے۔

مجید شیخ نے لکھا کہانڈیا میں بلاقی شاہ نے اپنے رجسٹر پھاڑ دیے اور کہا کہ میں سب کو معاف کرتا ہوں۔‘

لیکن اپنی کتاب ’دی بارک آف اے پین: اے مسلینی آف آرٹیکلز اینڈ اسپیچز‘ میں فقیر سید اعجاز الدین لکھتے ہیں کہ تقریباً تمام زمیندار جنھوں نے ان سے قرض لیا تھا، اپنی زمینیں بطور ضمانت گروی رکھ چکے تھے۔ 1947 میں بلاقی شاہ کو اپنا قیمتی رجسٹر ساتھ لے کر ہندوستان ہجرت کرنا پڑی تاہم ضمانتیں تقسیم کے اس طرف ہی رہ گئیں۔

ثنا مہرا، ڈیہرہ دون، انڈیامیں رہتی ہیں۔ اُن سے ہمارا رابطہ نہیں ہو پایا لیکن وہ سوشل میڈیا پر دعویٰ کرتی ہیں کہ بلاقی شاہ اُن کے پردادا تھے۔

’ان کی آخری وارث (میری دادی، شریمتی وجے لکشمی مہرا) کورونا کے باعث انتقال کر گئی تھیں۔ شادی سے پہلے ان کا نام راما کماری تھا۔ وہ ہمیشہ گمٹی بازار، وکٹوریہ سکول/ نونہال حویلی اور دوسری یادوں کا ذکر کرتیں اور زندگی کے آخری لمحے تک لاہور جانا چاہتی تھیں مگر بدقسمتی سے نہ جا سکیں۔‘

وہ1929 میں لاہور میں پیدا ہوئیں۔ یہ وہی سال ہے جب بلاقی شاہ نے گمٹیبازار میں چار منزلہ عمارت کی تعمیر مکمل کی۔

اپنی کتاب ’لاہور آوارگی‘ میں مستنصر حسین تارڑ نے اس عمارت کی تحسین یوں کی: ’بلاقی شاہ کا شاہانہ گھر ایک مرصع شاہکار تھا، جسے سیمنٹ کے بیل بوٹوں، گل دستوں، محراب دار بالکونیوں، آہنی جنگلوں کی خوش نمائی سے سجایا گیا تھا۔ اس کی بالکونیوں کو سہارا دیتے ستون نزاکت اور حسن کی باہیں تھے۔ داخلے کے دروازے کی آرائش تو دل میں اتر جاتی تھی۔‘

چند روز پہلے جب آصف بٹ نے اس عمارت کو دیکھا تو بتایا کہ آج کل وہاں جوتے بنتے ہیں۔ نیچے چار دکانیں ہیں جو چمڑے سے متعلق اشیا مثلاً جوتے وغیرہ کا کاروبارکرتی ہیں۔ ایک رنگ اور کیمیکل کی دکان ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ لاہورکے گمٹی بازارمیں جہاں یہ بوسیدہ عمارت واقع ہے، وہاں زیادہ تر لوگوں کو اب بلاقی شاہ کے بارے میں معلومات نہیں ہیں، یعنی وہی شخص جن کا آدھا شہر مقروض تھا۔

’لاہور کا سلطان‘: وہ ٹھیکے دار جنھوں نے ’چھوٹی اینٹ کی ہوس‘ میں مساجد تک منہدم کیںوہ زمانہ جب لاہور میں بحری جہاز بنتے اور دریائی تجارت ہوتی تھیلاہور کو لاہور بنانے والے سر گنگا رام کون تھے؟لاہور کے ہندو سے مسلمان ہونے والے وکیل اور سیرت نگار جو جیل بھیجنے والے چیف جسٹس کو ’ہٹا کر ہیرو بنے‘ مگر موت غربت میں ہوئیسراج الدولہ کے قتل کا معمہ اور ’نمک حرام ڈیوڑھی‘: 250 سال سے ’غداری کا طعنہ‘ سننے والے میر جعفر کے ورثا کی کہانی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More