چینی ساحل سے کچھ کلو میٹر دور واقع تائیوان کا جزیرہ کنمن میں۔ یہ ایک عام جمعے کی صبح تھی مگر پھر فضائی حملے کے سائرن نے پُرسکون ماحول کو بدل کر رکھ دیا۔
ایک مقامی حکومتی دفتر میں لوگ لائٹیں بند کر دیتے ہیں اور میزوں کے نیچے چھپ جاتے ہیں۔ کچھ لوگ زیر زمین کار پارکنگ میں پناہ لے لیتے ہیں۔ قریبی ہسپتال میں طبی عملہ خون کے لت پت زخمیوں کے علاج کے لیے دوڑتا ہے۔
مگر یہ خون جعلی تھا اور زخمی افراد دراصل وہ اداکار تھے جو رضاکارانہ طور پر آئے تھے۔ وہ سرکاری ملازمین کے ساتھ مل کر سول ڈیفنس اور فوجی مشقوں میں حصہ لے رہے تھے جن کا انعقاد گذشتہ ماہ تائیوان میں کیا گیا۔
اس کا مقصد چین کی طرف سے کسی ممکنہ حملے کی تیاری کرنا ہے۔
Tessa Wong/ BBCممکنہ چینی حملے کی تیاری کے لیے دفاعی مشقیں
چین نے عرصہ دراز سے خود مختار تائیوان کو ضم کرنے کا عہد کر رکھا ہے اور اس نے کبھی طاقت کے استعمال کے راستے کو خارج الامکان قرار نہیں دیا ہے۔ تائیوان میں اس دھمکی پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ صدر ولیئم لائی نے گذشتہ سال یہ عہدہ سنبھالا تھا اور وہ اپنے دفاع کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔
تاہم ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنے ہی لوگوں کو یہ باور کروانا ہے کہ یہ ایک سنگین خطرہ اور اس پر فوری اقدامات درکار ہیں۔ اگرچہ اس دفاعی مہم نے حمایت حاصل کی ہے مگر اس پر تنازع بھی پیدا ہوا ہے۔
BBC
تائپے میں فنانس کے شعبے سے وابستہ بین کہتے ہیں کہ ’ہمیں دفاعی مشقوں کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ چین سے کچھ خطرہ ضرور ہے لیکن چینی مداخلت کے امکانات کم ہیں۔ اگر وہ ہم پر حملہ کرنا چاہتے تو کب کا کر چکے ہوتے۔‘
بین کی طرح تائیوان کی اکثریت کا خیال ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں چینی حملے کا امکان کم ہے۔ یہ سروے فوج سے منسلک تھنک ٹینک آئی این ڈی ایس آر نے مئی میں جاری کیا تھا۔
امریکہ نے بھی اس حوالے سے اتنباہ جاری کر رکھا ہے کہبیجنگ 2027 تک اپنی فوج کو اس مداخلت کے قابل بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔
تائیوان میں فوجی تیاریاں
صدر ولیئم لائی اور ان کی حکومت اکثر یہ کہتے ہیں کہ ’جنگ کی تیاری کے ذریعے ہم جنگ کو روک رہے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ تائیوان لڑائی نہیں چاہتا مگر اپنے دفاع کا حق استعمال کر رہا ہے۔
فوجی اصلاحات کے علاوہ وہ اگلے سال تک دفاعی اخراجات میں 23 فیصد اضافہ چاہتے ہیں جو کہ 31 ارب ڈالر بنتا ہے اور ملک کی جی ڈی پی کا تین فیصد حصہ ہو گا۔
ان پر امریکہ کا دباؤ ہے کہ وہ اپنا دفاعی بجٹ بڑھائیں۔ صدر لائی نے 2030 تک اسے پانچ فیصد تک بڑھانے کا وعدہ کیا ہے۔
Ritchie B Tongo/ EPA/Shutterstockتائیوان کے صدر اور ان کی حکومت نے فوجی اصلاحات کی ہیں اور دفاعی بجٹ بڑھایا ہے
فوج میں لازمی بھرتی کے پروگرام کے تحت تائیوان نے فوج کے لیے تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیا ہے اور فوجی تربیت کو مزید سخت بنایا ہے۔
اس کا مقصد فوجی دستوں کی قلت اور کم مورال جیسے مسائل کو ختم کرنا ہے۔ سپاہیوں کی جانب سے پہلے خراب تربیت کی شکایت کی جاتی تھی اور انھیں نرم رویوں کے باعث 'سٹرابری سپاہی' کا لقب دیا جاتا تھا۔
سالانہ 'ہان کوانگ وار گیمز' میں ممکنہ چینی حملے پر فوجی ردعمل کی تیاری کی جاتی ہے۔ اب ان میں اصلاحات لائی گئی ہیں اور حقیقی حالات کے لیے سخت مشقیں کرائی جاتی ہیں۔
رواں سال سب سے بڑے پیمانے پر اور طویل مشقیں کرائی گئیں جن میں 22 ہزار ریزور فوجیوں نے حصہ لیا۔ گذشتہ سال کے مقابلے یہ تعداد 50 فیصد زیادہ تھی۔ گرے زون وار فیئر اور گمراہ کن معلومات کی مہم سے نمٹنے کے علاوہ اس بار شہری علاقوں میں بھی لڑائی کے امکانات پر توجہ دی گئی ہے۔
زیڈ 10 ایم ای: پاکستانی فوج کا نیا چینی ساختہ جنگی ہیلی کاپٹر جس کا موازنہ انڈیا کے ’امریکی اپاچی‘ سے کیا جا رہا ہے’چین پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا‘: وہ ڈیم منصوبہ جسے انڈیا کے خلاف ایک ’بم‘ سمجھا جا رہا ہےدو میل فی سیکنڈ کی رفتار والے ہائپر سونک میزائل کی دوڑ جو اپنے اہداف کو ’خاک میں ملا سکتے ہیں‘’نوکری کرنے کا ڈرامہ‘: ایسی کمپنیاں جہاں کام کرنے کے لیے نوجوان خود پیسے دیتے ہیںRITCHIE B TONGO/EPA/Shutterstockفوجیوں کی تنخواہیں اور مراعات بڑھا دی گئی ہیں
ان مشقوں کے دوران فوجی اہلکاروں نے دشمن دستوں سے ٹرانسپورٹ کے نظام، موٹر ویز اور شہری علاقوں کو محفوظ رکھنے کے لیے لڑائی کی تیاری کی۔ تائپے میں انھوں نے دریا کنارے پارک پر ہیلی کاپٹروں میں میزائل لوڈ کرنے کی پریکٹس کی۔ ایک سکول کو ٹینک کی ورکشاپ میں تبدیل کیا گیا۔
حکومت شہریوں کو مداخلت کے لیے تیار کر رہی ہے اور اسی لیے سول ڈیفنس مشقوں کے تسلسل اور وسعت کو بڑھایا گیا ہے۔
انخلا، فضائی حملے اور ریسکیو کی تیاری
گذشتہ ماہ سب سے بڑی مشقوں میں 'اربن ریزلیئنس ایکسرسائز' بھی شامل تھی۔
کئی دنوں تک تائیوان کے ہر بڑے شہری علاقے میں باری باری فضائی حملوں کی مشقیں منعقد کی گئیں۔ متعلقہ اضلاع کے رہائشیوں کو گھروں میں رہنا پڑتا تھا جبکہ ہوٹلوں، دکانوں اور ریستورانوں کو کاروبار روکنا پڑا۔ مسافر ٹرین اور طیارے پر سفر نہیں کر سکتے تھے۔ اگر کوئی حکم کی خلاف ورزی کرتا تو اسے جرمانہ کیا جا سکتا تھا۔
Ritchie B Tongo/ EPA/Shutterstockتائپے کے لوگوں نے آگ بجھانے اور عمارتوں سے اترنے کی مشقوں میں حصہ لیا
ڈاؤن ٹاؤن تائپے میں ایمرجنسی ٹیمیں اور رضاکاروں نے زخمیوں کو لے جانے، آگ بجھانے اور ایسی عمارتوں سے اترنے کی پریکٹس کی جن پر بظاہر میزائل حملہ کیا گیا تھا۔
طبی ٹیمیں عام شہریوں کو کار پارکنگ میں لے گئیں، ان کے زخموں پر پٹی کی اور خیموں میں انھیں ڈرپ لگائی گئی۔
تائیوان کے بعض لوگ ان مشقوں کے حق میں ہیں۔ ایک دفتر میں کام کرنے والے سٹینلی وی کہتے ہیں کہ 'مجھے لگتا ہے یہ اچھی چیز ہے۔ کیونکہ خطرہ بڑھ گیا ہے۔'
'دیکھیں کیسے چین نے ہمیں گھیر لیا ہے۔' وہ چین کی ان مشقوں کا حوالہ دے رہے تھے جن میں تائیوان کے بحری بیڑے کا محاصرا کیا گیا ہے۔
آئی ٹی کے شعبے میں کام کرنے والے رے یانگ کہتے ہیں کہ 'میں چین کے ساتھ پراُمن طریقے سے ایک ساتھ رہنے پر یقین رکھتا ہوں۔ لیکن ہمیں اپنا دفاع بھی بڑھانا ہوگا۔'
'یوکرین جنگ سے قبل مجھے اس کا خیال نہیں تھا (کہ چین حملہ کر سکتا ہے)۔ لیکن جب یوکرین جنگ ہوئی تو میں نے یہ ماننا شروع کر دیا کہ یہ ہو سکتا ہے۔'
Tessa Wong/ BBCتائیوان کے بعض لوگ ان مشقوں کے حق میں ہیں
مگر کچھ لوگ ان مشقوں کو مسترد کرتے ہیں۔ انجینیئر مسٹرلیو کہتے ہیں کہ 'اگر حملہ ہوا بھی تو ہم کیا کر سکیں گے؟'
'مجھے نہیں پتا آیا وہ مداخلت کریں گے یا نہیں۔ یہ خطرہ تو ہمیشہ ہی رہا ہے۔'
’وہ ہم عام لوگوں کو کیوں تکلیف پہنچائیں گے؟‘
کنمن جزیرے پر 1940 اور 1950 کی دہائیوں کے دوران چین اور تائیوان کی افواج کے درمیان ہلاکت خیز چھڑپیں ہوئی تھیں۔ کسی ممکنہ حملے کی صورت میں اسے فرنٹ لائن سمجھا جاتا ہے۔
مگر سمندر پار تعلقات اور معاشی روابط کے باعث کنمن کے کئی لوگ چین سے اپنی قربت کو فائدہ مند سمجھتے ہیں، نہ کہ نقصان دہ۔
کنمن کی معیشت کو چینی سیاحوں سے فائدہ پہنچا ہے۔ قریبی چینی شہر شیامین سے سیاح بحری جہازوں پر اس جزیرے کا رُخ کرتے ہیں۔
Tessa Wong/ BBCکنمن نے دکاندار جنھوں نے بچپن میں چینی شیلنگ دیکھی تھی
77 سالہ یانگ پیلنگ کنمن میں روایتی کھانوں کی دکان چلاتی ہیں۔ بچپن میں انھوں نے اس جزیرے پر شیامین سے چینی فورسز کی شیلنگ دیکھی تھی۔
وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’ہم پہاڑوں پر جنگلی سبزیاں جمع کر رہے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ وہ بارودی مواد سے کنمن کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘
یانگ اور ان کے خاندان نے پہاڑی غاروں میں چھپ کر جان بچائی۔ گاؤں میں باقی افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔
دہائیوں بعد اب وہ شیامین سے آنے والے سیاحوں کا اپنی دکان پر خیرمقدم کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ 'چین اب ہم پر حملہ نہیں کرے گا۔ ہم سب چینی ہیں، ہم ایک خاندان ہیں۔ وہ ہم عام لوگوں کو کیوں تکلیف پہنچائیں گے؟'
سڑک کنارے قریبی دکان پر شین اس بات سے متفق ہیں۔ 'اگر وہ ہماری عمارتیں تباہ کر دیں گے اور ہمیں قتل کر دیں گے تو زمین پر دعوے کا مقصد کیا ہوگا؟ انھیں ایسا تائیوان ملے گا جہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ اس سے ان کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔'
تائیوان کے کئی لوگوں کو لگتا ہے کہ چین کو یہ مداخلت بہت مہنگی پڑے گا اور اس کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔ بیجنگ نے بارہا کہا ہے کہ وہ 'پُرامن اتحاد' چاہتا ہے۔ کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین تائیوان کو اپنی حالت میں برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
Ritchie B Tongo / EPA/Shutterstockتائیوان کے صدر نے منتبہ کیا ہے کہ چین ان کے ملک کو ضم کرنے کی تیاری کر رہا ہے
لیکن تائیوان کے صدر لائی کہتے ہیں کہ چین ایک 'بیرونی دشمن قوت' ہے جو تائیوان کو 'ضم کرنا' چاہتی ہے۔
تائیوان کے لیے طویل عرصے سے یہ سہارا رہا ہے کہ امریکہ قانون کے تحت تائیوان کی سلامتی کا ضامن ہے۔ سرویز میں لوگوں کو لگتا ہے کہ ٹرمپ کے حالیہ دور میں یہ حمایت کم ہوئی ہے تاہم کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کوئی حملہ ہوا تو امریکہ تائیوان کی مدد کرے گا جبکہ چین امریکہ کے ساتھ براہ راست فوجی لڑائی نہیں چاہے گا۔
آئی این ڈی ایس آر کے دفاعی تجزیہ کار شین مینگشی کا کہنا ہے کہ 'یہ کوئی معصومانہ خیال نہیں ہے کہ چین تائیوان کے لیے کوئی خطرہ نہیں اور کبھی تائیوان پر حملہ نہیں کرے گا۔
'چینی صدر تائیوان کے لیے سٹریٹیجک جنگ کے ارادے رکھتے ہیں۔ لیکن چین کی موجودہ فوجی صلاحیت کا امریکہ سے موازنہ نہیں۔'
Shufu Liu / Office of the President/Anadolu via Getty Imagesتائیوان کے صدر لائی چین کو 'بیرونی دشمن قوت' کہتے ہیں
یہ خیال بھی کیا جاتا ہے کہ بین الاقوامی برداری تائیوان کی مدد کرے گی کیونکہ عالمی سیمی کنڈکٹر انڈسٹری میں اس کی بہت اہمیت ہے۔
آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے تائیوان سینٹر میں سیاسی امور کے ماہر وین تی سونگ کہتے ہیں کہ دہائیوں کی دھمکیوں کے بعد اب 'چین اب اس بچے کی طرح ہے جو متنبہ کر چکا ہے۔'
’نفسیاتی طور پر آپ ہر دھمکی پر سنجیدہ نہیں ہو سکتے۔ لوگ اپنی ذہن صحت کے لیے ان دھمکیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔'
چین تائیوان میں مداخلت کرے گا یا نہیں؟
یہ تائیوان میں عرصہ دراز سے ایک بحث رہی ہے۔ گذشتہ سال ولیئم لائی کے انتخاب کے بعد اس معاملے پر مزید غور کیا جا رہا ہے۔
لائی کے مطابق تائیوان کبھی بھی چین کا حصہ نہیں تھا۔ ان کی جماعت ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی (ڈی پی پی) کو چینی حکومت 'علیحدگی پسند' کہتی ہے۔
بیجنگ نے لائی کی حکومت پر اشتعال انگیزی کا الزام لگایا ہے، خاص کر دفاعی مہم کے ذریعے۔ گذشتہ ماہ چینی وزارت دفاع نے ان مشقوں کو ڈی پی پی حکام کے 'جنگی جنون' سے تشبیہ دی تھی۔
تائیوان کی طرف سے باقاعدہ آزادی کا اعلان چین کی طرف سے فوجی اقدام کا باعث بن سکتا ہے۔ چینی قانون کے مطابق تائیوان کی علیحدگی کو روکنے کے لیے 'غیر پُرامن طریقے' استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ لائی کا کہنا ہے کہ تائیوان ایک خود مختار ریاست ہے لہذا اسے آزادی کا اعلان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
Getty Imagesچین نے تائیوان کی فضائی حدود اور پانیوں میں جنگی طیارے اور بحری جہاز بھیجنا بڑھا دیا ہے
دھمکیوں کے علاوہ چین نے تائیوان کی فضائی حدود اور پانیوں میں جنگی طیارے اور بحری جہاز بھیجنے کے سلسلے کو بڑھا دیا ہے۔
چین نے کبھی اس امریکی دعوے کی تصدیق نہیں کی کہ اس کی طرف سے 2027 تک تائیوان میں مداخلت کی فوجی تیاری کر جا رہی ہے۔
ماہرین منقسم ہیں کہ آیا چین جلد مداخلت کرے گا یا نہیں۔ لیکن کئی متفق ہیں کہ تناؤ اور چینی فوجی اقدامات لڑائی کا امکان بڑھا رہے ہیں۔
ساحل سمندر پر لینڈنگ، میزائل حملے اور مواصلاتی سبوتاژ
چین کئی طریقوں سے تائیوان پر حملہ کر سکتا ہے۔ تائیوان کے ساحلوں پر لینڈنگ سے میزائل حملوں تک، یہ فضائی یا سمندری رکاوٹیں کھڑی کر سکتا ہے۔ یا پھر زیرِ سمندر مواصلاتی کیبلز کاٹ سکتا ہے۔
تائیوان کی حکومت نے ایک ٹی وی سیریز تیار کی ہے جس میں چینی مداخلت کو افسانوی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
لیکن تائیوان کی حکومت سمیت کئی لوگوں کا خیال ہے کہ مداخلت پہلے سے شروع ہو چکی ہے، یعنی چین تائیوان کے عام لوگوں کے دل و دماغ جیتنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ایک دن اتحاد کا خواب پورا کیا جا سکے۔
PEDRO PARDO/AFP via Getty Imagesماہرین کے مطابق چین تائیوان میں مداخلت کے کئی طریقے اپنا سکتا ہے
سرکاری طور پر چین تائیوان کے ساتھ ثقافتی روابط کے ساتھ ساتھ تجارتی اور معاشی تعلقات کا خواہاں ہے۔ مگر تجزیہ کاروں اور تائیوان کے حکام کے مطابق غیر سرکاری طور پر بیجنگ نے تائیوان میں گمراہ کن مہمات اور اثر و رسوخ کے آپریشنز میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
سویڈن کی یونیورسٹی آف گوتھنبرگ کی ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ کئی سال تک بیرونی حکومت کی طرف سے سب سے زیادہ گمراہ کن معلومات کی مہمات تائیوان میں ہوئیں ہیں۔
مارچ میں لائی نے متنبہ کیا تھا کہ چین تائیوان کی معیشت، ثقافت، میڈیا اور حتیٰ کہ حکومت کے اندر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے اور انھوں نے سکیورٹی سخت کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔
تائیوان کی فوج کے کئی افسران کو چین کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں قید کیا گیا ہے۔ لائی کے سابقہ قریبی ساتھی سمیت ڈی پی پی کے کئی ارکان پر بھی جاسوسی کا الزام لگا ہے۔
دریں اثنا چین سے دوستانہ تعلق رکھنے والی تائیوان کی معروف شخصیات، سوشل میڈیا انفلوئنسرز اور تائیوان کے شہریوں کے چینی شوہروں یا بیویوں کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔ بعض کو ڈی پورٹ کیا گیا یا زبردستی واپس جانے کو کہا گیا۔
لائی نے چین کے قریب سمجھے جانے والے سیاسی حریفوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے متنازع منصوبے کی بھی حمایت کی ہے۔
’لائی احمقانہ انداز میں چین سے بات کرتے ہیں‘
دفاعی مہم کے لیے عوامی حمایت کے کچھ آثار ضرور نظر آ رہے ہیں۔ آئی این ڈی ایس آر کے سروے میں معلوم ہوا کہ تائیوان کے نصف عوام کو دفاعی اخراجات میں اضافہ منظور ہے۔ اس سے بھی زیادہ لوگ امریکہ سے ہتھیار خریدنے کے حق میں ہیں۔
مگر ایک غیر یقینی کی کیفیت ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ دفاعی مہم اور صدر لائی کا بیانیہ چین کو ناراض کر رہا ہے اور اس کی وجہ سے جنگ چھڑ سکتی ہے۔
Tessa Wong/ BBCبعض مبصرین کا خیال ہے کہ دفاعی مہم چین کو ناراض کر سکتی ہے
کنمن کی ایک دکان میں شین کا کہنا ہے کہ 'مجھے لگتا ہے کہ چین بہت سادہ ہے۔ جب تک آپ انھیں یہ نہیں بتائیں گے کہ آپ کو آزادی چاہیے تب تک وہ کچھ نہیں کریں گے۔'
'لیکن ولیئم لائی احمقانہ انداز سے چین کی بات کرتے ہیں۔۔۔ آپ کو معلوم نہیں ایک دن شی جن پنگ ہم سے ناخوش ہو کر حملہ کر دیں۔'
سرویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ تائیوان کی اکثریت حالات کو برقرار رکھنا چاہتی ہی۔ نہ ہی وہ چین سے اتحاد چاہتے ہیں اور نہ ہی سرکاری طور پر آزادی کا اعلان کرنا چاہتے ہیں۔
سیاسی اپوزیشن بشمول کے ایم ٹی پارٹی نے الزام لگایا ہے کہ چینی مداخلت کے نام پر ڈی پی پی کی حکومت نے خوف پیدا کر کے سیاسی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
مگر کئی لوگ چاہتے ہیں کہ تائیوان کے عوام چین کے خلاف کھڑے ہوں۔
ڈاکٹر شین کہتے ہیں کہ 'لوگ جانتے ہیں کہ چین تائیوان کے لیے خطرہ ہے اور طاقت استعمال کر سکتا ہے، جس کی وہ تیاری کر رہا ہے۔'
'اسی لیے قومی سلامتی کے حکام اور فوج کو سب سے پہلے اس کی تیاری کرنا ہو گی۔'
دو میل فی سیکنڈ کی رفتار والے ہائپر سونک میزائل کی دوڑ جو اپنے اہداف کو ’خاک میں ملا سکتے ہیں‘’نوکری کرنے کا ڈرامہ‘: ایسی کمپنیاں جہاں کام کرنے کے لیے نوجوان خود پیسے دیتے ہیںہیکرز، خفیہ کیبلز اور جاسوسی کے خدشات: برطانیہ میں چین کا نیا مجوزہ سفارتخانہ متنازع کیوں بن رہا ہے؟زیڈ 10 ایم ای: پاکستانی فوج کا نیا چینی ساختہ جنگی ہیلی کاپٹر جس کا موازنہ انڈیا کے ’امریکی اپاچی‘ سے کیا جا رہا ہے’چین پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا‘: وہ ڈیم منصوبہ جسے انڈیا کے خلاف ایک ’بم‘ سمجھا جا رہا ہے