پاکستان میں حالیہ بارشوں اور دریاؤں کے طغیانی نے جہاں عام لوگوں کو اجاڑ دیا ہے، وہیں ایک خاص بحث سوشل میڈیا پر زور پکڑ گئی ہے۔ اس بحث کے مرکز میں ہیں ڈاکٹر نبیہہ علی خان، جو پڑھی لکھی، پُرزور بات کرنے والی اور سماجی موضوعات پر سرگرم ایک نامور خاتون ہیں۔ معاشرتی مسائل پر کھل کر آواز اٹھانے والی ڈاکٹر نبیہہ کو ہمیشہ ایک مثبت، دلائل سے بات کرنے والی شخصیت سمجھا گیا، البتہ اس بار ان کی ویڈیوز پر جہاں کئی لوگ ان کے ساتھ ہم آواز ہیں وہیں کچھ الٹا تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں
ڈاکٹر نبیہہ نے اپنی ایک ویڈیو میں بڑے جذباتی انداز میں بتایا کہ لاہور کی نجی سوسائٹی میں ان کا کروڑوں روپے کا گھر، قیمتی سامان اور ایک ایک لاکھ روپے کے سوٹ پانی میں ڈوب گئے ہیں۔ بلاشبہ، یہ نقصان کسی کے لئے بھی شدید تکلیف دہ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ سب کچھ برسوں کی محنت کا ثمر ہوتا ہے۔ مگر عوام کا کہنا ہے کہ ایک سماجی ایکٹوسٹ اور خواتین کے حقوق کی علمبردار ہوتے ہوئے ان کی گفتگو میں صرف اپنی ذات، اپنا نقصان اور اپنی قیمتی اشیا ہی کیوں نمایاں رہیں؟
وہ خواتین کہاں گئیں جن کے نام پر وہ ہمیشہ آواز بلند کرتی رہیں؟ وہ غریب بچیاں اور ماں باپ کہاں ہیں جنہیں سیلاب نے نہ صرف گھر بار سے محروم کیا بلکہ انہیں سڑکوں پر کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا ہے؟ ان بے سہارا خواتین کے دکھ، ان کی عزتوں کے خطرات اور ان کے ماں باپ کے دلوں پر گزرنے والے کرب پر ڈاکٹر نبیہہ کی زبان خاموش کیوں رہی؟ ناقدین کا کہنا ہے کہ جس طرح انہوں نے ہمیشہ عورت کے مسائل کو اپنی گفتگو کا مرکز بنایا، اسی طرح اس آفت میں بھی ان متاثرہ خواتین کی حالتِ زار کو اجاگر کرنا چاہیے تھا۔ مگر افسوس کہ اس بار ان کی تقریر صرف اپنی ذات کے گرد گھومتی دکھائی دی۔ ناقدین کے مطابق جب کوئی شخصیت خود کو سماجی رہنما یا آئیڈیل بنا کر پیش کرتی ہے تو عوام اس سے بلند معیار کی توقع رکھتے ہیں۔ اگر ایسے میں وہ صرف اپنے دکھ کو اجاگر کرے اور دوسروں کے غم کو نظر انداز کر دے، تو لوگ لازمی سوال اٹھاتے ہیں۔ جبکہ کچھ صارفین کا خیال ہے کہ مذکورہ سوسائٹی، دریا کی زمین تھیں اور ڈاکٹر نبیہہ جیسی خاتون کو اس بات کا خیال پہلے رکھنا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ کچھ صارفین نے ان کی بنائی گئی ویڈیوز میں اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ پانی اگرچہ سڑک پر موجود ہے لیکن ان کے گھر کے دروازے کو چھو بھی نہیں رہا لہذا اسے سیلاب کا نام نہ دیا جائے۔

دوسری طرف ڈاکٹر نبیہہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ گھر 2020 میں تعمیر کروایا تھا اور گزشتہ پانچ برس سے وہیں رہائش پذیر تھیں۔ ان کے مطابق اس وقت اس رہائشی اسکیم کو مکمل این او سی جاری ہو چکا تھا، جس کے بعد ہی عوام نے اپنے گھروں کی تعمیر کا آغاز کیا تھا۔ مگر حالیہ بارشوں اور دریائے راوی کے پانی نے اس پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ سوسائٹی کی انتظامیہ ان کے نقصانات کا ازالہ کرے اور ان کے 3 مہینے کے بجلی کے بل معاف کرے۔