سلال ڈیم: کیا انڈیا کے ڈیمز پنجاب کے دریاؤں میں دوبارہ سیلاب کا باعث بن سکتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Sep 02, 2025

Getty Imagesانڈیا کے زیرِ انتظام میں موجود سلال ڈیم جو دریائے چناب پر واقع ہے

انڈیا میں موجود سلال ڈیم اس وقت زیرِ بحث آیا جب پاکستان میں مقامی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر بارہا اس خدشے کا اظہار کیا گیا کہ اس ڈیم سے لاکھوں کیوسک پانی چھوڑنے سے پنجاب کے دریائے چناب میں دوبارہ سیلاب آ سکتا ہے۔

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں دریائے چناب پر واقع سلال ڈیم رواں سال مئی میں بھی خبروں میں آیا تھا جب پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد اس کا صرف گیٹ کھولا گیا تھا جس کا مقصد انڈین میڈیا کے مطابق سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بعد پاکستان جانے والے پانی کو محدود کرنا تھا۔

مگر اس بار انڈین خبر رساں ادارے پی ٹی آئی نے 30 اگست کو ایک ویڈیو شیئر کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سلال ڈیم کے تمام گیٹ کھلے رکھے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے مطابق ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ شدید بارشوں کے باعث دریائے چناب میں پانی کی سطح بڑھ چکی ہے اور حکام اس کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں تاکہ ملحقہ علاقوں میں سیلاب سے بچا جا سکے۔

دوسری طرف اتوار کو پاکستان کے صوبہ پنجاب میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈی ایم اے کے ڈی جی عرفان علی کاٹھیا نے سلال ڈیم کے سپل ویز کھولے جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کی طرف سے دریائے چناب یا دیگر دریاؤں میں پانی چھوڑنے کی تازہ صورتحال سرکاری طور پر نہیں بتائی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ سلال ڈیم پاکستان کے ہیڈ مرالہ سے 78 کلومیٹر دور ہے۔

Getty Imagesماہرین کے مطابق سلال ڈیم ایک ہائیڈرو پاور پروجیکٹ ہے جس کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت قدرے کم ہے دریائے چناب پر بنے سلال ڈیم کی کیا اہمیت ہے؟

سلال ڈیم انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک ہائیڈرو پاور پروجیکٹ ہے جس سے پیدا ہونے والی بجلی جموں و کشمیر کے ساتھ ساتھ اتر پردیش، پنجاب، ہریانہ، دلی، ہماچل پردیش، چندی گڑھ اور راجستھان منتقل کی جاتی ہے۔

یہ ڈیم دریائے چناب پر جموں کے ضلع ریاسی میں واقع ہے اور اس میں تقریباً 690 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان ورلڈ بینک کی ثالثی میں 1960 کے سندھ طاس معاہدے میں ابتدائی مشکلات اس وقت پیدا ہوئی تھیں جب انڈیا نے مغربی دریاؤں پر ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کی تعمیر شروع کی تھی۔ پاکستان کو خدشہ تھا کہ ان منصوبوں سے پاکستان میں پانی کا بہاؤ کم ہو جائے گا۔ دونوں ممالک کے ماہرین نے سلال ڈیم کے تنازع کو 1978 میں بات چیت کے ذریعے حل کیا تھا جس کے مطابق انڈیا باہمی رضامندی کے بغیر اس کے ڈیزائن میں رد و بدل نہیں کر سکتا۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سلال ڈیم پر معاہدے کے خلاف تھے۔ انھیں خدشہ تھا کہ انڈیا مغربی دریاؤں پر بنائے گئے ڈیم پاکستان کے خلاف جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے، یعنی پانی روک کر دریاؤں کو خشک کر دینا یا اچانک پانی چھوڑ دینا جس سے سیلاب آ جائے۔

تاہم انڈیا کا اصرار رہا ہے کہ اِن ڈیمز کا بنیادی مقصد توانائی پیدا کرنا ہے، نہ کہ پانی ذخیرہ کرنا۔

پاکستان میں آبی امور کے ماہر ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا ہے کہ سلال ڈیم دراصل ایک ہائیڈرو پاور پروجیکٹ ہے جس میں پانی کے سٹوریج کی صلاحیت کسی بڑے ڈیم کے مقابلے بہت کم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے سپیل ویز کی پانی خارج کرنے کی صلاحیت آٹھ لاکھ کیوسک ہے۔ ’اگر آٹھ لاکھ کا ریلا چھوڑا جائے تو چند گھنٹوں سے بھی کم وقت میں ڈیم کا لیول گِر جاتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس کے ذریعے دریائے چناب میں چھوڑے جانے والے پانی کو پاکستان تک پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ سکتے ہیں اور تب تک یہ ریلا آٹھ لاکھ کیوسک کا نہیں رہتا۔ ’جب تک یہ پانی پاکستان میں موجود مرالہ ڈیم میں داخل ہوگا تو اس کی شدت بہت کم ہوجائے گی اور اس کا دورانیہ بڑھ جائے گا۔‘

ان کی رائے میں ایسا چھوٹا سیلاب کسی نقصان کا باعث نہیں بن سکتا۔

حسن عباس کا کہنا ہے کہ سلال ڈیم کے سپل ویز کھول دیے جانا پاکستان میں کسی بڑے خطرے کی بات نہیں۔ ’اگر اس کے ساتھ قدرتی طور پر بھی بہت زیادہ پانی آ رہا ہو کہ آٹھ لاکھ کیوسک کے ریلے کے علاوہ بھی پیچھے ڈیم میں بارشوں کا پانی آتا جا رہا ہے تو یہ ریلا بہت بڑا ہو جائے گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ایسے میں قصور کسی انڈین ڈیم کا نہیں بلکہ یہ قدرتی آفت ہے۔ ’اگر ڈیم نہ بھی ہوتا تو یہ پانی پاکستان کی طرف آنا تھا۔‘

آبی امور کے ماہر کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں کوئی بڑا سیلابی ریلا آ سکتا ہے تو وہ صرف اس صورت میں کہ اگر انڈین ڈیمز خالی کر دیے جانے کے باوجود مون سون بارشوں کے باعث سیلاب کا سلسلہ جاری رہے۔

’معمول کا عمل یا نفسیاتی حربہ‘: انڈیا بگلیہار ڈیم پر کیا کر رہا ہے اور اس سے پاکستان کس حد تک متاثر ہو سکتا ہے؟’پانی یا خون‘: سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر بلاول بھٹو سمیت پاکستانی سیاستدانوں کی انڈیا کو وارننگ اور مودی کے وزرا کا ردعملانڈیا اور پاکستان کے درمیان پانی کے مسئلے پر جنگ کا خطرہ کتنا حقیقی ہے؟سندھ طاس معاہدے کی معطلی: کیا انڈیا پاکستان آنے والے دریاؤں کا پانی روک سکتا ہے؟Getty Imagesپاکستان کے صوبہ پنجاب کے حکام کے مطابق حالیہ بارشوں اور سیلاب سے سینکڑوں دیہات زیرِ آب آئے ہیں’پانی چھوڑنے کی معلومات شیئر نہیں کی گئی‘

پی ڈی ایم اے کے ترجمان مظہر حسین نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اگرچہ انڈیا کے مقامی ذرائع ابلاغ سے یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ سلال ڈیم کے گیٹس گھولے گئے تاہم ڈیم سے ’آٹھ لاکھ کیوسک‘ پانی چھوڑنے کی کوئی معلومات شیئر نہیں کی گئی۔

خیال رہے کہ پہلگام حملے کے بعد انڈیا نے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا تھا جسے پاکستان کی طرف سے عالمی ثالثی عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا۔

مظہر حسین کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اچھے نہیں لیکن اگر ’اس قدر بڑی مقدار میں پانی چھوڑا گیا ہوتا تو وہ اب تک پہنچ چکا ہوتا۔‘

مظہر حسین نے کہا کہ اس کے باوجود متعلقہ حکام کو ممکنہ سیلاب کے بارے میں الرٹ کر دیا گیا ہے۔

پی ڈی ایم اے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ چونکہ پانی چھوڑنے کی معلومات سرکاری سطح پر شیئر نہیں کی جا رہی اس لیے پاکستان میں حکام کو سرحد پار میڈیا رپورٹس پر بھی نظر رکھنی پڑتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی حکام اس حوالے سے آگاہ ہیں کہ انڈیا کے مشرقی دریاؤں پر واقع کئی ڈیمز بھر چکے ہیں اور وہاں مزید بارشوں کی پیشگوئی کی گئی ہے۔

یکم ستمبر کو جاری کیے گئے انڈیا کے فلڈ فورکاسٹ مانیٹرنگ ڈائریکٹوریٹ کے اعلامیے کے مطابق ملک میں 19 ایسے مقامات ہیں جہاں شدید سیلابی صورتحال ہے جبکہ 32 مقامات پر پانی کا بہاؤ معمول سے زیادہ ہے۔

انڈیا کے محکمۂ موسمیات نے ریاسی سمیت جموں کشمیر کے کئی علاقوں میں اگلے دو روز کے دوران شدید بارشوں کی پیشگوئی کی ہے جس سے دریائے چناب، جہلم اور توی میں سیلاب کا خطرہ ہے۔

Getty Imagesماہرین کا کہنا ہے کہ پنجاب کے دریاؤں پر بنے ڈیمز کھولنے پر پہلے انڈیا کا نقصان ہو گا

خیال رہے کہ رواں برس اپریل میں پہلگام میں حملے کے بعد انڈیا نے دونوں ممالک کے درمیان چھ دہائی پرانے سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا تھا۔

صرف یہی نہیں رواں برس مئی میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر حملے بھی کیے تھے۔ انڈیا نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان پہلگام حملے میں ملوث تھا جبکہ پاکستان اس الزام کی متعدد بار تردید کر چکا ہے۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی بین الاقوامی قانون کی ’سنگین خلاف ورزی‘ ہے۔

کیا پنجاب میں دوبارہ سیلاب آنے کا خطرہ ہے؟

پاکستان کے سابق انڈس واٹر کمشنر سید جماعت علی شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈیا پر یہ لازم ہے کہ جیسے ہی دریاؤں میں غیر معمولی بہاؤ ہو تو اس کی معلومات پاکستان کو دی جائے گی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ رواں سال انڈیا نے سیلاب سے متعلق کچھ معلومات پاکستان کو دی ہیں مگر یہ بروقت نہیں دی گئی۔ ’جب دریاؤں پر دباؤ بڑھ جاتا ہے تو اس کی معلومات دباؤ کم ہونے تک دی جانی چاہیے تھی۔‘

ان کی رائے میں اس کی وجہ سے پاکستان میں ’ارلی وارننگ‘ اور ریسکیو کا نظام کمزور ہوا لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ مون سون کی شدید بارشوں کی وجہ سے جو پانی پاکستان کی طرف آ رہا ہے اسے انڈیا نہیں روک سکتا تھا اور نہ ہی پاکستان اس کا رُخ بدل سکتا تھا۔

جماعت علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس میں بھی کوئی ہرج نہیں کہ انڈس واٹر کمشنرز کی بجائے انسانی ہمدردی کی خاطر دونوں حکومتیں ایک دوسرے کو یہ معلومات فراہم کریں لیکن وہ زور دیتے ہیں کہ یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو معطل نہیں رکھا جا سکتا۔

وہ تسلیم کرتے ہیں کہ معلومات کی کمی کے باعث پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ادھر آبی امور کے ماہر حسن عباس کہتے ہیں کہ انڈیا کے تین بڑے ڈیمز بگلیہار (چناب)، پونگ (بیاس) اور تھین (راوی) میں پانی کی زیادہ سٹوریج ہے اور یہ بڑے ریلے چھوڑ سکتے ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اگر انڈیا شاک ویو کے مقصد سے ان سے کوئی بڑا ریلا چھوڑتا ہے تو اس سے پہلے انڈیا میں نقصان ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ راوی، بیاس اور چناب کے دریاؤں میں یہ شاک ویوز پاکستان کو متاثر کرنے سے پہلے خود انڈیا کو متاثر کر سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی طور پر انڈیا کی ’آبی جارحیت‘ کا دعویٰ کیا جاتا ہے مگر ہمیں حقیقت کو سمجھنا چاہیے۔

اس سوال پر کیا کہ پنجاب کے دریاؤں میں دوبارہ سیلاب آ سکتا ہے، حسن عباس نے متنبہ کیا کہ اس خطرے کو خارج از امکان نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ’پہلا سیلاب زمین میں بڑے پیمانے پر جذب ہو جاتا ہے کیونکہ اس سے پہلے زمین خشک ہوتی ہے لیکن اگر قدرتی طور پر مزید کلاؤڈ برسٹ ہوں اور مون سون کی شدید بارشیں ہونے لگیں تو اس سے مزید فلڈنگ ہوتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر بارشیں دوبارہ اسی شدت کی ہوئیں جیسے پہلے ہوئی ہیں تو سیلاب کی صورتحال پہلے سے زیادہ سنگین ہو سکتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ خطرہ اس وقت تک نہیں ٹل سکتا جب تک مون سون کا سیزن ختم نہیں ہو جاتا۔

انڈیا، پاکستان، چین: خطے میں اب ’پانی پر جنگوں‘ کا خطرہسندھ طاس معاہدے کی معطلی: کیا انڈیا پاکستان آنے والے دریاؤں کا پانی روک سکتا ہے؟انڈیا اور پاکستان کے درمیان پانی کے مسئلے پر جنگ کا خطرہ کتنا حقیقی ہے؟’پانی یا خون‘: سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر بلاول بھٹو سمیت پاکستانی سیاستدانوں کی انڈیا کو وارننگ اور مودی کے وزرا کا ردعمل’معمول کا عمل یا نفسیاتی حربہ‘: انڈیا بگلیہار ڈیم پر کیا کر رہا ہے اور اس سے پاکستان کس حد تک متاثر ہو سکتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More