Getty Imagesکہا جاتا ہے کہ درگاہ میں کوئی بھوکا نہیں سوتا
’درگاہ اجمیر میں داخل ہوتے ہی یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پورا شہر اس مرکز کے گِرد سمٹ آیا ہے۔ تنگ گلیاں گلاب کی خوشبو، اگربتی اور لوبان کا دھواں اور تیل میں تلی مٹھائیوں سے اٹھتی مہک۔۔۔ یہاں سب راستے بس اُس بڑے سفید گنبد کی طرف جاتے ہیں جو پرانے شہر کے اوپر خاموشی سے اُبھرتا ہے۔‘
یہ درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے آستانے کے ایک خادم سید الیاس مہاراج (مرحوم) کی بیٹی سمیرہ سیفکی بچپن کی یاد کا حصہ ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ اُن کے والد کا سایہ بچپن میں ہی اُن کے سر سے اٹھ گیا اور والدہ نے میکے کی راہ لی اور یوں اجمیر سے سینکڑوں میل دور الہ آباد میں اُن کی پرورش ہوئی۔
سمیرہ کا اپنے ’ددھیال‘ یعنی اجمیر سے رشتہ کبھی نہ ٹوٹا۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب وہ اجمیر جاتیں تو دادی انھیں درگاہ میں خواتین کے لیے مخصوص دروازے سے ایسے وقت پر آستانے پر لے جاتیں جب وہاں کم بھیڑ ہوتی اور پھر ننھی سمیرہ کے سر کو خواجہ معین الدین چشتی کے مقبرے پر چڑھی چادروں سے مس کیا جاتا۔
وہ بتاتی ہیں کہ وہاں ایک کونے پر باقاعدہ سجدہ گاہ بنا ہے جہاں آنے والے عقیدت مند تعظیم میں اپنا ماتھا ٹیکتے ہیں۔
دادی انھیں صندل چٹاتیں اور سمیرہ وہاں جلنے والی موم بتیوں کی روشنی میں کھو جاتیں۔ اُن کی یادوں میں دیگیں چڑھانا، بالٹیوں میں اِس تبرک کا ہر خادم کے گھر پہنچانا، مغرب کے وقت ڈنکا بجنا، پھر روشنی ہونا اور قوالی کی محفلوں کا جمنا شامل ہے۔
معروف تاریخ نویس اور دہلی یونیورسٹی میں عہد وسطی کی تاریخ کے پروفیسر سید ظہیر حسین جعفری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’غریب نواز کے نام سے مشہور اجمیر کی درگاہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں صدیوں سے تاریخ، عقیدت اور ثقافت یکجا ہوتی آئی ہے۔‘
ایک صوفی درویش کی آمد
تاریخی حوالوں کے مطابق جب 12ویں صدی میں خواجہ معین الدین اجمیر تشریف لائے تو یہ خطہ بادشاہوں اور لشکروں کی کشمکش میں بٹا ہوا تھا۔ پروفیسر جعفری کہتے ہیں کہ اسی لیے اس زمانے میں آنے والے صوفیا نے لشکر کے راستوں سے دور اپنے مسکن بنائے اور مخلوق خدا کی خدمت کو اپنایا۔
انھوں نے بتایا کہ 11ویں صدی میں شمال مغربی ہندوستان اسلامی تعلیمات اور صوفیا کا مسکن بن گیا تھا۔ چنانچہ 1036 میں لاہور میں داتا گنج بخش کی خانقاہ پوری شان کے ساتھ چل رہی تھی، اسی طرح 13ویں صدی میں بہا الدین زکریا ملتانی کی درگاہ سہروردی سلسلے کا مرکز بن چکی تھی۔
اس سے قبل اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی کی خانقاہ چشتی سلسلے کا روحانی مرکز بنی اور پھر پاک پتن میں بابا فرید کا مزار چشتیہ سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد اور آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک سٹڈیز کے فیلو معین احمد نظامی کہتے ہیں کہ خواجہ معین الدین چشتی نے باقاعدہ چشتی سلسلے کے قواعد و ضوابط ترتیب دیے جس پر اُن کے زیادہ تر خلفا (جانشین شاگردوں) نے عمل کیا۔
وہ اپنے ایک مضمون میں لکھتےہیں کہ ’سیر الاولیا میں اُن سے منسوب اقوال انھیں ایک ہمدرد آدمی کے طور پر ظاہر کرتے ہیں اور اُن کے روادار خیالات نے جنوبی ایشیا میں چشتی نظام کی بنیاد کو مضبوط بنانے میں مدد کی۔‘
’دریا جیسی سخاوت اور زمین جیسی مہمان نوازی‘BBCایسا لگتا ہے کہ ہر راستہ اور دروازہ درگاہ کی جانب کھلتا ہے
’انھوں نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ وہ دریا جیسی سخاوت، سورج جیسی محبت اور زمین جیسی مہمان نوازی کا مظاہرہ کریں۔ انھوں نے مذہب کی تشریح انسانی خدمت کے حوالے سے کی اور غریبوں اور مصیبت زدہ لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ عبادت کی اعلی ترین شکل کی نشاندہی کی۔‘
معین احمد کے مطابق خواجہ معین الدین چشتی کی تعلیمات میں سب سے انقلابی پہلو عبادت کا تصور تھا۔ انھوں نے انسانیت کی خدمت کو خدا کی عبادت کے برابر قرار دیا۔
کتاب ’سیر الاولیا‘ میں روایت ہے کہ وہ اپنے مریدوں کو نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ ’خدا کی سب سے اعلیٰ عبادت یہ ہے کہ مصیبت زدہ لوگوں کی پریشانیاں دور کی جائیں، بے بسوں اور بے کسوں کی ضرورتیں پوری کی جائیں اور بھوکوں کو کھانا کھلایا جائے۔‘
معین احمد بتاتے ہیں کہ اُن کے بعد آنے والے چشتی سلسلے کے اہم ترین صوفی شیخ نظام الدین اولیا نے عبادت کو دو حصوں میں تقسیم کیا: ’اطاعتِ لازمی اور اطاعتِ متعدی (فوائد الفؤاد)۔‘
پروفیسر نظامی کے مطابق ’یہ تقسیم براہِ راست خواجہ معین الدین کی تعلیمات سے متاثر لگتی ہے۔ ان کے مشہور اور بار بار نقل کیے جانے والے اقوال میں ایک یہ بھی ہے کہ انسان کو تین صفات اپنانی چاہییں: ’دریا کی طرح سخاوت، سورج کی طرح شفقت اور زمین کی طرح مہمان نوازی۔‘
مختصر حالات زندگیGetty Imagesاکبر بادشاہ کی اجمیر درگاہ پر حاضری کی تصویر کشی
معین احمد نظامی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ معین الدین چشتی کی زندگی کو دوبارہ ترتیب دینے میں سب سے بڑی دشواری معاصر تاریخی حوالہ جات کی شدید کمی ہے کیونکہ اُس زمانے کی سیاسی تاریخیں (جو جوزجانی، فخر مدبر، حسن نظامی نے تحریر کیں) صوفی مشائخ کے حالات کا احاطہ نہیں کرتیں کیونکہ اُس دور میں رائج تاریخ نگاری میں یہ رواج نہیں تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’جو ملفوظات خواجہ معین الدین سے منسوب کیے گئے ہیں، اُن میں سے چند بعد میں گھڑے ہوئے ثابت ہوئے، اس لیے اُن پر مکمل بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ان سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ انھیں ان کے قریبی خلفا کس نظر سے دیکھتے تھے۔‘
معتبر ملفوظات (جیسے فوائد الفؤاد، خیر المجالس اور سرور الصدور) میں اُن کا ذکر نہایت کم ملتا ہے۔ جو سوانحی تذکرے اُن کا ذکرکرتے ہیں، وہ بھی ایک صدی بعد لکھے گئے۔ سب سے پہلا تذکرہ جو معین الدین چشتی کی کچھ تفصیل پیش کرتا ہے وہ ’سیر الاولیا‘ ہے، جو 14ویں صدی میں امیر خُرد نے لکھا۔
معین احمد کے مطابق ’اُن کا سب سے تفصیلی بیان ’سیر العارفین‘ میں ملتا ہے جو شیخ حمید بن فضل اللہ جَمالی نے 16ویں صدی کے آغاز میں لکھا۔ مصنف نے وہ تمام مقامات دیکھے جہاں کہا جاتا ہے کہ خواجہ معین الدین نے اپنے ابتدائی سال گزارے تھے تاہم، یہ بعید از قیاس ہے کہ وہ ان کے وصال کے تقریباً تین سو سال بعد کوئی مستند معلومات حاصل کر پاتے۔ پھر بھی ان کا بیان کچھ اعتبار رکھتا ہے۔ بعد کے تذکروں میں، سوائے ’اخبار الاخیار‘ کے، حقیقت اور افسانہ خلط ملط ہو گئے ہیں۔‘
بہرحال دستیاب غیرمصدقہ معلومات کے مطبق خواجہ معین الدین سجزی ایران کے صوبے سیستان میں پیدا ہوئے اور سفر کرتے کرتے اجمیر پہنچے، جہاں انھوں نے پہاڑوں کے دامن میں اپنا مسکن بنایا اور یہیں پر وفات پائی۔
مورخ مہرو جعفر اپنی کتاب ’دی بُک آف معین الدین چشتی‘ میں لکھتی ہیں کہ معین الدین چشتی 14 برس کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے۔ ایک صوفی ابراہیم قندوزی سے اُن کی اتفاقی ملاقات نے انھیں تلاش حق اور روحانیت کی طرف مائل کیا۔
وہ 20 برس کی عمر تک دور دراز کے شہروں اور ملکوں کا سفر کر چکے تھے۔ انھوں نے منطق، قواعد، فلسفہ، اخلاقیات اور اسلامی تعلیم بخارا اور سمرقند کے مدارس میں حاصل کی۔
افغانستان کے صوبے ہرات میں ان کی ملاقات چشتی سلسلے کے صوفی خواجہ عثمان ہارونی سے ہوئی اور انھی سے انھیں خلافت ملی۔ جس کے بعد معین الدین سجزی معین الدین چشتی بن گئے۔ انھوں نے قطب الدین بختیار کاکی کو اپنا پہلا شاگرد بنایا جن کا ذکر ہم اس سے قبل شائع ہونے والی تحریر میں تفصیل سے کر چکے ہیں۔
پروفیسر جعفری کے مطابق صوفیا ٹھٹھہ سے ملتان اور پھر ملتان سے لاہور ہوتے ہوئے ہندوستان کے گوشے گوشے میں پھیلے۔ اسی طرح معین الدین چشتی ملتان سے لاہور اور دلی گئے اور سنہ 1191 کے آس پاس اجمیر پہنچے۔
قطب الدین بختیار کاکی: انڈیا میں قوالی متعارف کرانے والے بزرگ، جن کے مزار پر بادشاہوں سے عام افراد تک اپنی مرادیں لے کر آتے ہیںدرگاہ اجمیر شریف: ایک ’غریب نواز‘ کی آخری آرام گاہ جہاں دنیا بھر سے رہنما چادر چڑھانے آتے ہیںسات بہنوں کی درگاہ جہاں آج بھی خواتین منتیں لے کر آتی ہیںقطب مینار سے اجمیر شریف کی درگاہ تک انڈیا میں وہ دس سے زیادہ مقامات جہاں ’مندر مسجد‘ کا تنازع چل رہا ہے
مؤرخ مہرو جعفر کے مطابق یہیں اُن کی ملاقات اپنی اہلیہ بی بی امت اللہ سے ہوئی اور انھوں نے اجمیر میں قیام کرنے کا فیصلہ کیا۔
’بی بی اور معین الدین چشتی کا چھوٹا سا مٹی کا مکان بہت جلد بے گھر اور بھوکے لوگوں اور سکون تلاش کرنے والوں کی پناہ گاہ بن گیا۔ اُن کی سخاوت اور بے لوث خدمت کے جذبے کے سبب انھیں لوگوں نے غریب نواز کا خطاب دیا۔‘
پریشانیون کا سامنا
معین احمد بتاتے ہیں کہ ’سیر الاولیاء‘ کے مطابق خواجہ معین الدین چشتی اجمیر اُس وقت پہنچے جب ابھی ترکوں کی فتوحات نہیں ہوئیں تھیں اور اس خطے پر پرتھوی راج چوہان کی حکمرانی مستحکم تھی۔
کہا جاتا ہے کہ پرتھوی راج نے خواجہ معین الدین کی تبلیغی کوششوں کی مخالفت کی اور ان کے پیروکاروں کو ستایا۔ تب انھوں نے فرمایا تھا کہ ’ہم نے پرتھوی راج کو زندہ پکڑ کر لشکرِ اسلام کے حوالے کر دیا۔‘
تاریخی حوالوں کے مطابق اسی کے بعد سلطان شہاب الدین غوری غزنی سے لشکر لے کر آئے اور پرتھوی راج کو شکست دے کر زندہ گرفتار کر لیا۔ ایک ایسا ہی بیان ’اخبار الاخیار‘ میں بھی ملتا ہے جو 17ویں صدی کے اوائل میں لکھا گیا۔
معین احمد کے مطابق ’اگرچہ معاصر ماخذات میں اس کی تصدیق نہیں ملتی، لیکن اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صوفیا اور چشتی جماعتوں نے ایسے قصے سنبھال کر رکھے اور نسل در نسل سُناتے رہے۔ ان حکایات نے خواجہ معین الدین کی شخصیت کو ایسا مقام بخشا کہ اجمیر مسلمانوں کے لیے مقدس سرزمین بن گیا۔‘
بادشاہوں کی حاضریGetty Imagesپاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے بھی اجمیر کی درگاہ پر حاضری دی تھی
اگرچہ صوفیا نے ہمیشہ شاہ وقت سے دوریاں برقرار رکھیں لیکن اُن کی درگاہیں اُن کے عطیات سے چمکتی رہیں۔ محمد بن تغلق کے زمانے سے لے کر آخری مغل بادشاہ تک صرف صوفیا اور خواص ہی نہیں بلکہ حکمران بھی ان کے مزار پر حاضری دیتے رہے۔
اگر دیکھا جائے تو انڈیا کے تاریخی مقامات میں تاج محل کے بعد اگر دنیا بھر کے لوگوں کے لیے کوئی جگہ قابل زیارت ہے تو وہ خواجہ معین الدین چشتی کا مزار ہے جو آج بھی انڈیا کے سب سے زیادہ زیارت کیے جانے والے صوفی مراکز میں شمار ہوتا ہے۔
تاریخی طور پر یہ مقام حکمرانوں اور خواص کے ساتھ ساتھ عام لوگوں میں بھی یکساں مقبول رہا ہے، خواہ ان کا کوئی بھی مذہب، نسل یا ذات ہو۔
پروفیسر معین احمد بتاتے ہیں کہ پہلی باقاعدہ زیارت کا ذکر سلطان محمد بن تغلق کا ملتا ہے جو غالباً 1332 میں ہوا تھا۔ صرف دہلی کے سلاطین ہی نہیں بلکہ مالوہ اور مانڈو کے خلجی حکمرانوں کا بھی 15ویں صدی کے آخر میں اس مزار سے گہرا تعلق رہا۔
مغلوں کے لیے خواجہ معین الدین سرپرست بزرگ کے طور پر اُبھرے۔ سب سے پہلے اکبر نے اُن کے مزار میں خصوصی دلچسپی لی اور ان کی سرپرستی سے درگاہ کی حالت یکسر بدل گئی۔ بعد کے سبھی مغل بادشاہ اس مزار سے وابستہ رہے اور مختلف عمارتیں تعمیر کروا کر اس میں اضافہ کرتے گئے۔
جہانگیر نے اجمیر میں تین سال قیام کے دوران نو مرتبہ مزار کی زیارت کی۔ شاہ جہاں نے اپنے عہد میں پانچ مرتبہ یہاں آ کر حاضری دی اور مزار کے احاطے میں ایک مسجد تعمیر کروائی۔ ان کی بیٹی جہاں آرا بیگم بھی حضرت خواجہ کی مخلص مرید تھیں۔
یہ مزار صرف روحانی مرکز ہی نہ رہا بلکہ سیاسی حیثیت بھی اختیار کر گیا اور اجمیر محض ایک صوفی بزرگ کے مزار والا شہر نہ رہا بلکہ وہ مقام بن گیا جہاں ایمان اور سلطنت کا میل ہوا۔
BBCسمیرہ بتاتی ہیں کہ دوسری درگاہوں کے برعکس خواجہ کے مزار کے اندرونی حصے میں بھی خواتین کو جانے کی اجازت ہےآزادی کے بعد
آزادی کے بعد 1950 کی دہائی میں انڈیا کے پہلے وزیر اعظم نہرو نے اجمیر شریف کی درگاہ کی زیارت کی۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ دینیات کے سابق صدر پروفیسر اختر الواسع نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ انڈیا کی واحد درگاہ ہے جو انڈین پارلیمان کے درگاہ خواجہ صاحب ایکٹ، 1955 کے ذریعے چلتا ہے۔ اس ایکٹ نے اجمیر میں درگاہ کے انتظام کے لیے ایک قانونی ادارے کے طور پر درگاہ کمیٹی کی تشکیل کا انتظام کیا۔
پروفیسر اختر الواسع اس ادارے کے ایک زمانے تک رکن اور صدر بھی رہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ آج جو کچھ بھی ہیں انہی صوفیوں کی بدولت ہیں۔
ان کے مطابق تقریباً تمام وزرائے اعظم نے درگاہ کا دورہ کیا۔ سمیرہ سیف نے دعویٰ کیا کہ اُن کے کزن سید سلمان چشتی کے ذریعے انڈیا کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی اجمیر کی درگاہ کے لیے چادریں بھیجتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ انھوں نے اپنے دادا کی تصویر وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ساتھ دیکھی جب انھوں نے درگاہ کا دورہ کیا تھا۔
جب پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے انڈیا کا دورہ کیا تھا تو انھوں نے بھی اجمیر میں حاضری دی تھی جبکہ بی جے پی کے پہلے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کا اس مزار کا دورہ خاصی شہرت رکھتا ہے۔
موسیقی اور عقیدتGetty Images
40 سالہ سمیرہ سیف دہلی کے نواح نوئيڈا میں ’فلیورز بائی سمیرہ‘ نامی ریستوراں چلاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ مزار کے صحن میں ہر شام محفل قوالی منعقد ہوتی ہے جو ایک روحانی فضا تیار کرتی ہے۔
انھوں نے اجمیر میں اپنے چچا سید شارق سے ہماری فون پر بات کروائی تو انھوں نے کہا کہ دوسرے مذہبی مقامات کی طرح وہاں بھی روحانیت محسوس کی جا سکتی ہے۔ اُن کا عقیدہ ہے کہ اس قدر بھیڑ میں بھی لوگ عقیدت میں سرشار نظر آتے ہیں۔
سید شارق نے کہا کہ وہاں آنے والے اگر صدق دل سے کوئی منت مانگتے ہیں تو ان کی منتیں پوری ہوتی ہیں اور انھوں نے لوگوں کی منتیں پوری ہوتے دیکھی ہیں۔
ہم نے ان سے پوچھا کہ حضرت معین الدین چشتی بذات خود ایک شاعر تھے تو کیا ان کے کلام وہاں پڑھے جاتے ہیں یا ان کا قوالی میں استعمال ہوتا ہے تو انھوں نے کہا کہ اس بابت انھیں علم نہیں۔ البتہ وہاںصوفیانہ کلام پڑھے جاتے ہیں جو عشقِ حقیقی کے جذبات سے لبریز ہوتے ہیں اور عقیدت مندوں کے دل کو سکون بخشتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ امیر خسرو کے کلام کو جب ستاروں کے نیچے گنبد کے سائے میں گایا جاتا ہے تو عبادت اور فن کے درمیان کی لکیر دھندلا جاتی ہے۔ صدیوں سے فنکار یہاں محض گانے کے لیے نہیں بلکہ دعا کرنے کے لیے آتے رہے ہیں، جس نے درگاہ کو سُروں کی پناہ گاہ بنا دیا۔
عرس: وصال کی خوشیBBCعرس کے موقع پر درگاہ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی
ہر سال خواجہ معین الدین کے وصال کی برسی یعنی عرس کے موقع پر اجمیر زائرین کے سمندر میں بدل جاتا ہے۔
سمیرہ بتاتی ہیں کہ اس کا اہتمام کافی پہلے سے کیا جاتا ہے۔ خادموں کے گھر مہمانوں سے بھر جاتے ہیں۔ خادموں کے خاندان کی خواتین اوپر والی منزلوں میں منتقل ہو جاتی ہیں اور نیچے والی منزلیں زیارت کرنے والوں کے لیے کھول دی جاتی ہیں جنھیں ’مہمانان خواجہ‘ کہتے ہیں۔
صوفیوں کے نزدیک موت اختتام نہیں بلکہ محبوب سے وصال ہے، اس لیے عرس غم بھی ہے اور جشن بھی۔ جلوس، نعت و قوالی، لنگر اور دعائیں مل کر ایک ایسا میلہ بناتی ہیں جہاں امیر و غریب، ہندو و مسلمان، مقامی و پردیسی سب ایک ہی دامنِ رحمت میں سمٹ آتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ آٹھ سو سال سے زیادہ عرصے سے ان کا عرس جاری ہے۔ سمیرہ نے رواں سال عرس کا کیلنڈر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ 16 دسمبر کو پرچم کشائی ہو گی اور 20 دسمبر کو عرس کی ابتدا ہو گی اور جنتی دروازہ کھولا جائے گا۔
ان کے مطابق یہ دروازہ سال میں صرف تین یا چار بار کھلتا ہے۔ ایک عرس کے موقع پر یکم رجب سے چھ رجب تک کھلتا ہے۔ دوسرے عید الفطر کے موقع پر صبح فجر سے ڈھائی بجے دوپہر تک۔ تیسرے عید کے چھٹے دن خواجہ کے پیر و مرشد خواجہ عثمان ہارونی کے حوالے سے اور پھر دسویں ذی الحجہ کو یہ دروازہ صبح سے ظہر تک کھلا رہتا ہے۔
ہم نے سید شارق سے جنتی دروازے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ یہ وہ راستہ ہے جہاں سے خواجہ اپنے گھر سے نکل کر اپنی عبادت یا مراقبے کی جگہ پر آتے تھے۔ ان کی قبر اسی مراقبے کی جگہ کے بہت نیچے ہے جبکہ تاج محل کی طرح اوپر اس کا صرف عکس بنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ روایت کے مطابق اس دروازے سے گزرنے والوں کی مرادیں پوری ہوتی ہیں اور اسی لیے اس کا بہت سے لوگ بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔
بالی وڈ کے لیے مخصوص دنAFP via Getty Imagesاداکارہ پرینکا چوپڑا نے سنہ 2011 میں اجمیر درگاہ کی زیارت کی تھی
22 دسمبر کو بالی وڈ کے اداکاروں کی جانب سے چادر چڑھائی جائے گی۔ انھوں نے بتایا کہ اداکار گوندہ کی جانب سے وہاں ہر سال قیمتی چادریں چڑھائی جاتی ہیں جبکہ دوسرے بہت سے اداکاروں کی جانب سے وہاں چادریں پہنچتی رہتی ہیں۔
ہم نے سید شارق سے پوچھا کہ روزانہ اتنی چادریں چڑھائی جاتی ہیں تو ان چادروں کا کیا ہوتا ہے تو انھوں نے بتایا کہ قیمتی چادریں کمیٹی والے رکھتے ہیں اور روزانہ چادریں بدلتے ہیں جبکہ عام چادریں تقسیم کر دی جاتی ہیں۔
کہاں تقسیم کی جاتی ہیں اس کا جواب سیمرہ نے دیا کہ یہ خادموں کے گھروں کو جاتی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ چھٹی شریف جو کہ عرس کا آخری دن ہوتا ہے اس دن صبح کو معین الدین چشتی کی درگاہ کو دودھ سے غسل دیا جاتا ہے۔
سمیرہ سیف نے بتایا کہ درگاہ کے خادموں کے خاندان کی خواتین عرس کے زمانے میں بھیڑ کی وجہ سے ادھر کا رخ نہیں کرتیں۔ انھیں اپنی دادی کی یہ بات آج تک یاد ہے کہ وہ بچوں کو عرس کے زمانے میں آستانے کی جانب جانے سے منع کرتیں اور کہتی تھیں کہ 'وہاں بہت سے بیمار آتے ہیں اس لیے خواتین اور بچوں کو دور رکھو۔‘
کبھی کبھی متنازع ہونے کے باوجود اجمیر کی درگاہ ہمیشہ وہ جگہ رہی ہے جہاں تفریقیں مٹ جاتی ہیں۔ ہندو جالیوں پر دھاگے باندھتے ہیں، سکھ سجدہ کرتے ہیں، مسلمان چادر چڑھاتے ہیں اور بے مذہب بھی اپنی دعائیں اس فضا میں سرگوشیوں میں کرتے ہیں۔ یہ درگاہ عقیدے سے زیادہ شوق طلب کی اور مذہبی پابندیوں سے زیادہ امید کی جگہ ہے۔
سمیرہ بتاتی ہیں کہ عرس کے علاوہ وہاں محرم کی تقریب بہت ہی اہتمام سے ادا کی جاتی ہے۔ ہم نے اس بابت سید شارق سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ان کا شجرہ نسب چونکہ امام زین العابدین اور پھر حسن، حسین اور علی سے جا ملتا ہے، اسی لیے یہاں محرم کا اہتمام نظر آتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ یہاں بسنت بہت دھوم دھام سے منائی جاتی ہے اور تمام خادم پیلے یا بسنتی رنگ میں نظر آتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ روایت بعد میں دہلی کے خواجہ حضرت نظام الدین کے آستانے سے آئی اور اس کا حصہ بن گئی۔
منت کی دیگیں
سمیرہ بتاتی ہیں کہ دو طرح کی دیگیں چڑھتی ہیں ایک چھوٹی ایک بڑی۔ چھوٹی ديگ سے جو تبرک نکلتا ہے وہ بھی اتنا ہوتا ہے کہ کوئی بھوکا نہ رہے اور ہر وقت کسی نہ کسی کی جانب سے نیاز یا منت کی چھوٹی بڑی دیگیں چڑھتی رہتی ہیں۔
یہ دیگیں عقیدت مندوں کے پیسوں سے بنائی جاتی ہیں اور خادموں کے گھرانوں سے لے کے زائرین اور وہاں موجود ہر کس و ناکس کو مفت فراہم کی جاتی ہیں۔
اس کے علاوہ نذرانے بھی پیش کیے جاتے ہیں جو کمیٹی کے ذریعے خادموں میں برابر برابر تقسیم کیے جاتے ہیں۔ لیکن سید شارق کا کہنا ہے کہ اس سے خادموں کے بچوں کی تعلیم کے اخراجات برداشت کیے جاتے ہیں۔
ہم نے پوچھا کہ وہاں کتنے خادم ہوں گے تو سید شارق نے بتایا کہ 1100 سے زیادہ خادموں کے خاندان آباد ہیں جبکہ سمیرہ نے بتایا کہ پہلے ان میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا رواج تھا۔ ان کے والد اور دادا نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کی لیکن اب خادموں کے لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا رواج زیادہ ہے، لڑکے تو عام طور پر 12ویں کے بعد خدمت میں لگ جاتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ وہاں اتنے نذرانے آتے ہیں کہ وہ سب بغیر کوئی کام کیے زندگی بھر کھا سکتے ہیں۔
اگرچہ سید شارق نے اس بابت کوئی واضح بات نہیں کہی لیکن درگاہ کے نذرانے کے سلسلے میں ایک مقدمہ سنہ 1991 میں ہوا تھا جس کا فیصلہ سنہ 2013 میں سنایا گيا تھا۔
درگاہ کے دیوان یعنی سجادہ نشین نے عدالت سے رجوع کیا تھا کہ اجمیر میواڑ عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرایا جائے۔ ان کے مطابق 1933 میں دیے گئے فیصلے میں نذرانے پر سجادہ نشین اور خادمین دونوں فریقوں کو مساوی حقوق دیے گئے تھے لیکن دیوان کا کہنا ہے کہ انھیں ان کا حصہ نہیں دیا جا رہا تھا۔
سید شارق کا کہنا ہے کہ درگاہ کے باہر کے ذمہ داری سرکاری سطح پر ادا کی جاتی ہے لیکن درگاہ کے اندر کا سارا معاملہ خادموں کے ذمے ہے۔
Getty Imagesمغل بادشاہ جہانگیر نے چابیاں چار خاندانوں کو عطا کی تھیں اور ایک، ایک ہفتے کے لیے چابی ایک خاندان کے پاس ہوتی تھیکلید برداری
سمیرہ نے ’کلید برداری‘ کی روایت کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ دن کے حساب سے ہر خاندان کے حصے میں آستانے کی چابی دی جاتی ہے۔
جب ہم نے سید شارق سے چابیوں کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ مغل بادشاہ جہانگیر نے اس وقت چابیاں چار خاندانوں کو عطا کی تھیں اور ایک، ایک ہفتے کے لیے چابی ایک خاندان کے پاس ہوتی تھی۔
یہ چابیاں دراصل آستانے کی چابیاں ہیں اور جس خاندان کے پاس وہ چابی ہوتی ہے اسی کی ذمہ داری صبح آستانے کو کھولنے اور رات میں بند کرنے کی ہوتی ہے۔
اجمیر میں سنگِ مرمر کا فرش صدیوں کے لمس سے چمک رہا ہے، صحنوں میں بادشاہوں اور فقیروں کی گونج سنائی دیتی ہے اور گلاب کی خوشبو آج بھی مزار پر نچھاور ہوتی ہے۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں تاریخ سانس لیتی ہے، جہاں ثقافت زندہ ہے اور جہاں غریب نواز کا یہ قول آج بھی شہر کے دل میں گونجتا ہے کہ ’سب سے بڑی عبادت انسانیت کی خدمت ہے۔‘
قطب الدین بختیار کاکی: انڈیا میں قوالی متعارف کرانے والے بزرگ، جن کے مزار پر بادشاہوں سے عام افراد تک اپنی مرادیں لے کر آتے ہیںقطب مینار سے اجمیر شریف کی درگاہ تک انڈیا میں وہ دس سے زیادہ مقامات جہاں ’مندر مسجد‘ کا تنازع چل رہا ہےدرگاہ اجمیر شریف: ایک ’غریب نواز‘ کی آخری آرام گاہ جہاں دنیا بھر سے رہنما چادر چڑھانے آتے ہیںسات بہنوں کی درگاہ جہاں آج بھی خواتین منتیں لے کر آتی ہیںدلی میں نظام الدین درگاہ پر بسنت پنچمی کا انوکھا جشنانڈیا میں ’خدا کے نام پر‘ وقف کی گئی لاکھوں ایکڑ اراضی کا قانون تبدیل: ’آج مسلمان نشانے پر ہیں، کل کوئی اور ہوگا‘