وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کے لیے نیا کنٹری بیوٹری پنشن فنڈ اسکیم باقاعدہ طور پر نافذ کر دیا ہے، جس کے تحت اب ملازمین اپنی پنشن کے لیے تنخواہ کا 10 فیصد حصہ جمع کرائیں گے جبکہ حکومت کی جانب سے 12 فیصد کنٹری بیوشن دی جائے گی۔
وزارتِ خزانہ کے ریگولیشن ڈیپارٹمنٹ نے فیڈرل گورنمنٹ ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن پنشن فنڈ اسکیم رولز 2024 جاری کر دیے ہیں جو پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کے تحت بنائے گئے ہیں۔ اس نئے نظام کے تحت مجموعی طور پر 22 فیصد حصہ پنشن فنڈ میں جمع ہوگا۔
وزارت خزانہ کے مطابق یہ اسکیم ان وفاقی ملازمین پر لاگو ہوگی جو یکم جولائی 2024 یا اس کے بعد بھرتی ہوئے ہیں جبکہ مسلح افواج کے اہلکاروں پر اس کا اطلاق یکم جولائی 2025 سے ہوگا۔ موجودہ سرکاری ملازمین پر یہ نظام لاگو نہیں ہوگا۔
یہ اسکیم آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی سفارشات پر متعارف کرائی گئی ہے تاکہ حکومت پر بڑھتے ہوئے پنشن اخراجات کے مالی بوجھ کو کم کیا جا سکے۔
حکومت نے نئے نظام کے لیے مالی سال 25-2024 میں 10 ارب روپے اور 26-2025 میں 4 ارب 30 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق اس نظام کے تحت ملازمین اپنی تنخواہ کا 10 فیصد حصہ خود جمع کرائیں گے اور حکومت، بطور آجر، ملازم کی قابلِ حساب تنخواہ کا 12 فیصد حصہ ادا کرے گی۔
علاوہ ازیں ریٹائرمنٹ پر ملازمین کو اپنی پنشن رقم کا 25 فیصد حصہ نکالنے کی اجازت ہوگی باقی رقم سرمایہ کاری میں رکھی جائے گی جبکہ ملازمین ریٹائرمنٹ سے قبل فنڈ سے کوئی رقم نہیں نکال سکیں گے۔
وزارت خزانہ کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پنشن اکاؤنٹس کا ریکارڈ اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر کے ذریعے رکھا جائے گا جو فنڈز کی منتقلی اور نگرانی بھی کرے گا۔ اس نظام کی نگرانی کے لیے ایک نان بینکنگ فنانس کمپنی قائم کی جائے گی جو عبوری طور پر فنڈ مینجمنٹ کی ذمہ داریاں انجام دے گی۔
ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کا پنشن خرچ موجودہ مالی سال میں 10 کھرب 5 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 29 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ صرف مسلح افواج کے پنشن اخراجات کا تخمینہ 742 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ اقدام پاکستان کے مالی ڈھانچے میں ایک بڑی اصلاح ہے جو ڈیفائنڈ بینیفٹ سے ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن سسٹم کی طرف منتقلی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اسکیم مستقبل کے سرکاری ملازمین کے لیے زیادہ شفاف، مستحکم اور پائیدار پنشن نظام فراہم کرے گی۔