غزہ کے محصور عوام کے لیے امداد لے جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا سے گرفتار مشہور ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ کے ساتھ اسرائیلی فورسز کے غیر انسانی سلوک کی تفصیلات سامنے آ گئی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے نے انکشاف کیا ہے کہ سویڈن کی وزارتِ خارجہ کو موصول ایک ای میل میں جیل کے اندر گریٹا کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ ای میل کے مطابق سویڈش سفارتی نمائندے نے جیل میں گریٹا سے ملاقات کی جہاں انہوں نے بتایا کہ انہیں انتہائی کم پانی اور خوراک دی جا رہی ہے، وہ غلیظ اور تنگ کوٹھڑی میں قید ہیں، اور کھٹملوں کے کاٹنے سے جسم پر خارش اور زخم ہوگئے ہیں۔
ای میل میں مزید کہا گیا کہ گریٹا تھنبرگ کو گھنٹوں تک زمین پر بٹھا کر رکھا گیا اور ان کے ساتھ مسلسل سخت برتاؤ کیا جا رہا ہے۔ ایک قیدی کے مطابق اسرائیلی اہلکاروں نے انہیں زبردستی اسرائیلی جھنڈا تھماتے ہوئے تصاویر لینے پر مجبور کیا۔
اسرائیلی قید سے رہائی پانے والے ترک کارکن ارسن چلیک نے ترک خبررساں ادارے کو بتایا کہ جیل میں گریٹا پر جسمانی تشدد کیا گیا۔ ان کے بقول، “انہوں نے ہماری آنکھوں کے سامنے گریٹا کو بالوں سے گھسیٹا، مارا پیٹا، اور اسرائیلی پرچم کو چومنے پر مجبور کیا تاکہ دوسروں میں خوف پیدا ہو۔”
اسی فلوٹیلا میں شریک اطالوی صحافی لورینزو ڈی آگوسٹینو نے استنبول واپسی پر میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ اسرائیلی اہلکاروں نے گریٹا کو اسرائیلی پرچم میں لپیٹ کر ایک ’ٹرافی‘ کی طرح پیش کیا۔
واضح رہے کہ اسرائیلی حراست سے رہائی کے بعد 137 انسانی حقوق کے کارکن، جن میں 36 ترک شہری بھی شامل تھے، ترکیے کے شہر استنبول پہنچ چکے ہیں۔ ان کارکنوں کا تعلق امریکا، برطانیہ، اٹلی، اردن، کویت، لیبیا، الجزائر، ماریطانیہ، ملائیشیا، بحرین، مراکش، سوئٹزرلینڈ اور تیونس سے ہے۔
یہ انکشافات اس وقت سامنے آئے ہیں جب عالمی سطح پر اسرائیل کے رویے اور فلوٹیلا شرکا کے ساتھ سلوک پر شدید تنقید کی جا رہی ہے، اور کئی انسانی حقوق تنظیموں نے گریٹا تھنبرگ سمیت تمام گرفتار کارکنوں کے لیے بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔