BBC
نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ اُن کے لیے سب سے اہم بات غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنا، فلسطینیوں کی آواز کو بلند کرنا اور اُن مقامی تنظیموں کی مدد کرنا ہے جو غزہ اور دیگر ممالک میں فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کر رہی ہیں۔
بی بی سی افریقہ کی مدینہ مایشانو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وہ اِس سوال کا جواب دے رہی تھیں کہ اگرچہ انھوں نے غزہ پر کُھل کر بات کی ہے اور فلسطینی بچوں کے لیے امداد بھی دی ہے، مگر کیا اُن کے خیال میں یہ کافی ہے؟
ملالہ کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ کافی نہیں ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم عمل چھوڑ دیں۔میرے لیے سب سے اہم یہی ہے۔‘
مدینہ مایشانو کو دیے گئے انٹرویو میں ملالہ نے نائجیریا میں ملالہ فنڈ کے کام، تعلیم کے فروغ اور بچپن کی شادیوں کے خاتمے کے لیے اپنی کوششوں پر بات کی۔ انھوں نے اپنی آنے والی کتاب ’فائنڈنگ مائی وے‘ کا ذکر کیا، جس میں شناخت، ذہنی صحت اور شہرت کے دباؤ جیسے ذاتی موضوعات پر کُھل کر اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔
ملالہ نے غزہ میں جاری نسل کشی کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینیوں کی حمایت اور جنگ بندی کے مطالبے پر زور دیا، ساتھ ہی اسرائیل سے متعلق تنقید کا جواب بھی دیا۔
ملالہ کا کہنا ہے کہ انھیں اپنی جدوجہد یا فیصلوں پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے، کیونکہ اُن کی کوششیں دنیا بھر کی لڑکیوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لائی ہیں۔
BBCملالہ نے نائجیریا کے دورے کے دوران بی بی سی افریقہ کی مدینہ مایشانو کو انٹرویو دیا ہے
غزہ کے حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے ملالہ کا کہنا تھا کہ ’ہم پچھلے دو سال سے مقامی تنظیموں کی مدد کر رہے ہیں۔ میں نے حال ہی میں ’انارا‘ نامی تنظیم کے منصوبے دیکھے جو تعلیم، ذہنی صحت اور طبی مدد فراہم کر رہی ہے۔ وہ ان بچوں کی سرجری کر رہے ہیں جن کے اعضا ضائع ہو گئے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر میرا دل ٹوٹ گیا۔‘
یاد رہے کہ ماضی میں ملالہ کو اُن بین الاقوامی شخصیات کے ساتھ کام کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے جو اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں۔
اس تنقید کے حوالے سے ملالہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ’میرے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ میرا مؤقف واضح ہو۔ میں ہمیشہ تشدد اور ظلم کے شکار لوگوں کے ساتھ کھڑی ہوں۔ میں فلسطینی عوام کی کئی سالوں سے حمایت کر رہی ہوں۔ ملالہ فنڈ اور ذاتی طور پر ہم نے مقامی تنظیموں کو ایک ملین ڈالر تک کی گرانٹس دی ہیں جو بچوں کو تعلیم اور ذہنی مدد فراہم کر رہی ہیں۔‘
’ہمیں بس یہ واضح کرنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اگر کچھ لوگ انھی اقدار پر یقین نہیں رکھتے تو ان سے فاصلہ رکھنا چاہیے یا صاف مؤقف دینا چاہیے۔‘
ہیلری کلنٹن کے ساتھ ایک میوزیکل کے حوالے سے ہونے والی تنقید پر وہ کہتی ہیں کہ ’سوشل میڈیا پر لوگ حقائق کو جوڑ کر مفروضے بنا لیتے ہیں۔‘
ملالہ نے بتایا کہ اس میوزیکل کے کئی پروڈیوسرز تھے۔ ’میرا مقصد صرف ایک ایسا میوزیکل سپورٹ کرنا تھا جو خواتین کے حقِ رائے دہی اور انھیں بااختیار بنانے کے بارے میں تھا۔ میں نہیں جانتی تھی کہ اور کون اس میں شامل ہو رہا ہے۔ کسی بھی وقت کوئی بھی پروڈیوسر بن سکتا ہے، اس لیے یہ الزامات حقیقت پر مبنی نہیں تھے۔‘
انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’میں یہاں اپنا دفاع کرنے نہیں آئی۔ اصل توجہ غزہ پر ہونی چاہیے۔ ہمیں ایک آواز بن کر اسرائیل پر دباؤ ڈالنا ہو گا کہ یہ نسل کشی ختم ہونی چاہیے۔‘
Getty Imagesہیلری کلنٹن کے ساتھ ایک میوزیکل کے حوالے سے ہونے والی تنقید پر وہ کہتی ہیں کہ ’سوشل میڈیا پر لوگ حقائق کو جوڑ کر مفروضے بنا لیتے ہیں‘کیا ملالہ کو ڈر ہے کہ غزہ پر مؤقف رکھنے سے ان کا اثرورسوخ یا فنڈنگ متاثر ہو سکتی ہے؟
جب میزبان نے اُن سے پوچھا کہ وہ خود کو ایک کارکن سمجھتی ہیں یا سیاستدان؟ ملالہ کا کہنا تھا کہ ان کے لیے بات بس اتنی ہے کہ بچوں کے محفوظ مستقبل کے لیے آواز اٹھائی جائے اور ہر لڑکی کو تعلیم کا حق ملے۔ ’یہ میری زندگی کا مشن ہے۔ چاہے وہ ملالہ فنڈ کے ذریعے ہو یا کہانی سنانے یا کھیلوں کے ذریعے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’لیکن جب دنیا میں جنگ اور نسل کشی ہو رہی ہو تو لاکھوں بچوں کا مستقبل ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے میرا مقصد ان بحرانوں پر روشنی ڈالنا اور خواتین و بچوں کے ساتھ کھڑا رہنا ہے۔‘
صدر ٹرمپ کے غزہ کے حوالے سے بیانات اور اقدامات پر وہ کہتی ہیں کہ ’پیغام بالکل واضح ہے: نسل کشی بند کرو۔ اسرائیل پر دباؤ ڈالو۔ لوگوں کو بھوک سے مارا جا رہا ہے، زبردستی بے گھر کیا جا رہا ہے، بچے قتل کیے جا رہے ہیں۔‘
ملالہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے مصر میں کچھ فلسطینی بچوں سے ملاقات کی۔ ’وہ ناقابلِ تصور صدمے سے گزر رہے ہیں۔ عالمی رہنماؤں کو اب ’اگر مگر‘ بند کر کے ایکشن لینا ہو گا۔‘
جب مدینہ مایشانو نے ان سے پوچھا کہ کیا انھیں ڈر ہے کہ غزہ پر مؤقف سے ان کے اثرورسوخ یا فنڈنگ پر اثر پڑ سکتا ہے؟
انھوں نے جواب دیا کہ ’میرے نزدیک سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسان اپنے ایمان اور یقین پر قائم رہے۔ اگر لوگ آپ کی حمایت چھوڑ دیں تو یہ اُن کی مرضی ہے۔‘
فائنڈنگ مائی وے: ’یہ میرے لیے خود کو دوبارہ متعارف کروانے کا عمل ہے‘
ملالہ نے حال ہی میں ایک نئی کتاب لکھی ہے جس کا نام ’فائنڈنگ مائی وے‘ ہے۔ یہ کتاب ابھی شائع نہیں ہوئی۔ ملالہ کے مطابق یہ کتاب ان کی زندگی کی سب سے ذاتی عکاسی ہے جو اس سے قبل انھوں نے کبھی شیئر نہیں کی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں ہسپتال میں کومہ کی حالت میں تھی، تب دنیا مجھے ایک بہادر، نڈر نوجوان کارکن کے طور پر دیکھ رہی تھی، مگر میں صرف پندرہ سال کی تھی اور خود کو پہچانتی تک نہیں تھی کہ میں کون ہوں۔‘
ملالہ کے مطابق انھوں نے اس کتاب میں اپنی زندگی کے بعد کے سفر کے بارے میں کھل کر بات کی ہے، ’اپنے سکول کے دنوں کے بارے میں جو تنہائی میں گزرے، اپنے کالج کے دنوں کے بارے میں جب میں نے فیصلہ کیا کہ تھوڑی لاپرواہ طالبہ بنوں۔‘
’دوستیوں اور محبت کے بارے میں اور ذہنی صحت پر بات کی ہے کیونکہ یہ وہ چیز تھی جو کئی سال بعد حملے کے اثر کے طور پر مجھ پر ظاہر ہوئی۔ میں نے اپنے احساسات کا اظہار بہت کھل کر کیا ہے اور چاہا ہے کہ پڑھنے والے اس سفر میں میرے ساتھ رہیں۔ یہ میرے لیے ایک طرح سے خود کو دوبارہ متعارف کروانے کا عمل ہے۔‘
ملالہ نے ایک بار کہا تھا کہ دنیا ان کا نام جانتی ہے، لیکن ان کو نہیں جانتی۔ اس بات سے ان کا کیا مراد تھی؟
اس کے جواب میں وہ کہتی ہیں کہ میڈیا اور عوامی زندگی میں موجودگی نے انھیں خود کو مکمل طور پر ظاہر کرنے سے روکے رکھا۔ ’اس کتاب میں، میں نے اپنے ذاتی سفر پر زیادہ بات کی ہے۔ سرگرمی یا ایکٹیوزم میری زندگی کا مستقل مشن ہے لیکن انسان صرف ایک کردار تک محدود نہیں ہوتا۔‘
ملالہ کے لیے دوست بنانا مشکل کیوں تھا؟ کیا شہرت ان کے آڑے آتی رہی
طالبان کے حملے کے بعد ملنے والی شہرت نے ملالہ کے بچپن کو کس طرح متاثر کیا، اس حوالے سے وہ بتاتی ہیں کہ جب وہ حملے سے صحتیاب ہوئیں تو برطانیہ میں ایک بالکل نئے ملک میں سکول شروع کیا جہاں ان کے لیے دوست بنانا بہت مشکل تھا۔
’سکول کے اختتام تک میری صرف ایک دوست تھی۔ جب میں یونیورسٹی جانے لگی تو میرا ایک ہی مقصد تھا کہ میں زیادہ سے زیادہ دوست بناؤں، کیونکہ دوست انسان کو ایک بہتر شخصیت بننے میں مدد دیتے ہیں۔‘
ملالہ بتاتی ہیں کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ اب ان کے بہت سے دوست ہیں جنھوں نے مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کے لیے دوست بنانا مشکل تھا اور اس کی وجہ ان کی شہرت تھی۔
’لوگ سمجھتے تھے کہ وہ مجھے جانتے ہیں۔ وہ مجھے ٹی وی پر دیکھ چکے تھے۔ ان کے ذہن میں میری ایک طے شدہ شبیہ تھی۔۔۔ وہ بہادر ملالہ جو پندرہ سال کی عمر میں طالبان کے حملے سے بچ گئی۔ میرے لیے ان سے عام باتیں کرنا مشکل تھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں وہ ایک عام سی لڑکی تھیں۔۔ شرارتی، باتونی، دوستوں میں گھری رہنے والی۔ وہ چاہتی تھیں کہ لوگ سمجھیں کہ آپ سرگرم کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عام انسان بھی ہیں۔ ان کے مطابق سکول کے دنوں میں وہ یہ توازن برقرار نہیں رکھ سکیں مگر کالج کے زمانے میں انھوں نے اسے اپنی زندگی میں شامل کیا۔
ہیلری کلنٹن کے ساتھ کام، غزہ جنگ پر ’خاموشی‘: غزہ کے لوگوں کے لیے میری حمایت پر کوئی کنفیوژن نہیں ہونی چاہیے، ملالہ کا تنقید پر جوابشادی اور پارٹنرشپ: ’ملالہ اُن منجمد ذہنوں کو ہلانے میں کامیاب رہیں جو کچھ بھی مان لیتے ہیں‘ملالہ یوسفزئی: طالبان کی ایک گولی کا زخم جو نو برس بعد بھی بھر نہیں سکامیں ہوں ملالہ کا باپ!
ملالہ بتاتی ہیں کہ خود پر طالبان کے حملے کے سات یا آٹھ سال بعد انھوں نے تھراپی شروع کی۔
’جب میں جسمانی طور پر صحتیاب ہوئی تو مجھے لگا کہ صحتیاب ہونے کا مطلب بس یہی ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر ایک گولی کے زخم بھر گئے تو اب بات کرنے یا احساسات پر بات کرنے کی کیا ضرورت؟ لیکن کئی سال بعد صدمہ، یادیں، فلیش بیک سب واپس آئے اور انھوں نے مجھے توڑ دیا۔‘
ملالہ کہتی ہیں کہ اگر آپ ان چیزوں کو وقت پر حل نہ کریں تو وہ ایک دن یکدم واپس آ کر آپ کو توڑ دیتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کی ذہنی صحت کے بارے میں سوچ مکمل طور پر بدل گئی ہے۔
’شروع میں میں نے سوچا کہ کوئی مجھے نہیں سمجھ پائے گا، میری صورتحال بالکل منفرد ہے۔ مگر چند سیشنز کے بعد مجھے احساس ہوا کہ یہ دراصل گفتگو اور احساسات کو سمجھنے کا عمل ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ وہ دوا لکھ دیں گے اور سب ٹھیک ہو جائے گا، مگر یہ عمل بات کرنے، سمجھنے اور آپ پر جو گزری اس کو قبول کرنے کا ہوتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ جب آپ اس سب کا سامنا کرتے ہیں تو انکا اثر کم ہوتا جاتا ہے اور اب تھراپی ان کی زندگی کا حصہ ہے۔
Getty Images’جب میں جسمانی طور پر صحتیاب ہوئی تو مجھے لگا کہ صحتیاب ہونے کا مطلب بس یہی ہے۔ لیکن کئی سال بعد صدمہ، یادیں، فلیش بیک سب واپس آئے اور انھوں نے مجھے توڑ دیا‘والدہ اکثر کہتی تھیں ’اگر تم جینز پہنو گی تو تمہاری کزنز یا خاندان والے کیا سوچیں گے؟‘
اس سے قبل دیے گئے انٹرویوز میں ملالہ کو اکثر کہتے سنا گیا ہے کہ ان کی والدہ بچپن میں سخت تھیں اور ان کا تعلق زیادہ آسان نہیں رہا۔
تاہم اب ان کا کہنا ہے کہ ’اب ہم آہستہ آہستہ دوست بن رہے ہیں۔‘
ملالہ کا کہنا ہے کہ اب وہ سمجھتی ہیں کہ وہ کیوں سخت تھیں۔ ’ان کا بچپن مجھ سے بالکل مختلف تھا۔ ان کے زمانے میں لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں تھی۔ پہناوے کے حوالے سے ان پر سختی کی جاتی، باہر جانے پر اصرار کرتیں تو ڈانٹ پڑتی۔ ان کے نزدیک لڑکی کو گھر کے اندر ہی رہنا چاہیے تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ میں کسی مشکل میں پڑوں، اس لیے وہ محتاط تھیں۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ان کی والدہ اکثر کہتی تھیں ’اگر تم جینز پہنو گی تو تمہاری کزنز یا خاندان والے کیا سوچیں گے؟‘
ملالہ کے مطابق ان کی والدہ کے لیے ضروری تھا کہ وہ (ملالہ) اپنی ثقافت کی نمائندگی کریں۔
’میں کہتی تھی ’امی، میں ابھی یونیورسٹی میں پڑھتی ہوں، سب جینز پہنتے ہیں، یہ لباس باعزت بھی ہے اور عام بھی‘ ہم اکثر اسی بات پر بحث کرتے رہتے۔ لیکن میں جانتی تھی کہ ان کی نیت ہمیشہ نیک تھی۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک قدامت پسند ماں ہونے کے باوجود جب ملالہ 11 سال کی عمر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز اٹھانے لگیں تو ان کی والدہ کا ردعمل کیا تھا؟
ملالہ کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ لباس اور میل جول کے لحاظ سے قدامت پسند ہیں مگر وہ بہت بہادر خاتون ہیں۔ ’انھوں نے مجھے اور میرے والد کو بولنے سے کبھی نہیں روکا۔ وہ جانتی تھیں کہ تعلیم لڑکیوں کے بہتر مستقبل کی کنجی ہے۔ انھوں نے پاکستان میں کئی لڑکیوں کی زندگیاں بچائیں۔ ایک لڑکی جو گیارہ یا بارہ سال کی تھی، اس کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی، میری ماں نے اس کی مدد کی اور اسے بچایا۔‘
Getty Imagesملالہ کے مطابق ان کی والدہ کے لیے ضروری تھا کہ وہ (ملالہ) اپنی ثقافت کی نمائندگی کریں’پاکستان کے کچھ حصوں میں طالبان کی واپسی تشویشناک ہے‘
اس انٹرویو میں ملالہ نے پاکستان اور افغانستان میں طالبان کے دوبارہ ابھرنے پر تشویش ظاہر کی اور افغان خواتین کی جدوجہد کو سراہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کے کچھ حصوں میں طالبان کی واپسی تشویشناک ہے۔ طالبان لڑکیوں کی تعلیم پر یقین نہیں رکھتے۔ انھوں نے افغانستان میں خواتین کے تعلیم، کام اور آزادی کے خلاف سو سے زائد فرمان جاری کیے ہیں۔ میں امید کرتی ہوں کہ پاکستان سمیت تمام ممالک لڑکیوں کے حقوق کا تحفظ کریں گے۔‘
ملالہ کا کہنا تھا کہ افغان اور پاکستانی خواتین کارکنان ان کی امید ہیں۔ ’وہ ہار نہیں مان رہیں۔ وہ ریڈیو، ٹی وی، اور خفیہ سکولوں کے ذریعے تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ناقابلِ شکست ہیں۔ مگر انھیں حمایت اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔‘
’ہمیں مزید دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ چار سال گزر چکے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ دنیا صرف الفاظ استعمال کر رہی ہے اور طالبان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ ہمیں صرف مذمت سے آگے بڑھنا ہو گا۔‘
افغانستان کے علاوہ اب امریکہ جیسے ملکوں میں بھی کتابیں بین کی جا رہی ہیں۔
لوگ تعلیم کو ایک خطرہ کیوں سمجھتے ہیں؟ اس کے جواب میں ملالہ کہتی ہیں کہ کیونکہ تعلیم طاقت ہے۔ ’جب تعلیم کو محدود یا کسی ایک نظریے کے فروغ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو وہ تعلیم نہیں رہتی، برین واشنگ بن جاتی ہے۔‘
ملالہ کہتی ہیں کہ ہمیں بچوں کو تنقیدی سوچ، مختلف نظریات اور علم کی آزادی دینی چاہیے تاکہ وہ خود سوچ سکیں، فیصلہ کر سکیں، اور اپنا مستقبل بنا سکیں۔
Getty Images’اکثر میں سوچتی ہوں کہ کاش میں اپنی پرانی زندگی میں واپس جا سکتی‘کیا ملالہ کو اپنے فیصلوں پر کبھی کوئی پچھتاوا ہوتا ہے؟
جب مدینہ مایشانو نے ان سے پوچھا کہ کیا انھیں کسی چیز کا پچھتاوا ہے یا اگر انھیں اپنی پرانی زندگی میں واپس جانے کا موقع ملے تو وہ کچھ مختلف کریں گی؟
ملالہ کہتی ہیں کہ وہ پچھتاوے کے بارے میں نہیں سوچتیں کیونکہ اگر ہم ماضی میں پھنس جائیں تو آگے نہیں بڑھ سکتے۔
ملالہ کے ساتھ جو کچھ ہوا، بچپن میں ہونے والے حملے سے لے کر شہرت اور آج کی ملالہ تک، اس سب کے بارے میں وہ کیا آپ سوچتی ہیں؟
وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ ’اکثر میں سوچتی ہوں کہ کاش میں اپنی پرانی زندگی میں واپس جا سکتی، پاکستان میں اپنی زندگی جاری رکھ سکتی۔ مگر جب میں دیکھتی ہوں کہ اب میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ایک عالمی تحریک کا حصہ ہوں جو لڑکیوں کے لیے حقیقی تبدیلی لا رہی ہیں، تو مجھے لگتا ہے کہ حالات جیسے بھی تھے، یہ راستہ اہم ہے۔‘
’میں پیچھے مڑ کر کچھ بدلنا نہیں چاہوں گی کیونکہ آج ہم جو تبدیلی لا رہے ہیں اس کا ہر لمحہ بہت ہم ہے۔‘
ملالہ نے بی بی سی کو یہ انٹرویو اپنے نائجیریا کے دورے کے دوران دیا ہے۔
عالمی سطح پر نائجیریا میں سکول سے باہر بچوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اس حوالے سے ملالہ کا کہنا تھا کہ ’میں ہمیشہ یہ سوچتی ہوں کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جو کسی بچی کو سکول جانے سے روکتی ہیں؟ یہی سوال مجھے راتوں کو جگائے رکھتا ہے۔‘
’اس کے لیے سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ ہم مقامی تعلیمی کارکنوں کے ساتھ مل کر کام کریں۔‘
شادی اور پارٹنرشپ: ’ملالہ اُن منجمد ذہنوں کو ہلانے میں کامیاب رہیں جو کچھ بھی مان لیتے ہیں‘ملالہ یوسفزئی، عصر ملک کا نکاح: نئے بندھن کی کس نے اور کیسے مبارکباد دی؟ہیلری کلنٹن کے ساتھ کام، غزہ جنگ پر ’خاموشی‘: غزہ کے لوگوں کے لیے میری حمایت پر کوئی کنفیوژن نہیں ہونی چاہیے، ملالہ کا تنقید پر جوابملالہ یوسفزئی: طالبان کی ایک گولی کا زخم جو نو برس بعد بھی بھر نہیں سکا