Getty Imagesپنجاب حکومت نے توڑ پھوڑ اور پرتشدد احتجاج کے سبب تحریک لبیک پر پابندی لگانے کی تجویز دی
پاکستان کے صوبے پنجاب کی حکومت نے گذشتہ ہفتے ہونے والے مظاہروں کے بعد مذہبی و سیاسی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں ایک سمری وفاقی حکومت کو بھجوائی گئی ہے۔
پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے جمعے کو لاہور میں پریس کانفرنس میں بتایا کہ پنجاب کابینہ نے ٹی ایل پی پر پابندی کی منظوری دی ہے۔
انھوں نے کہا کہ مذہبی جماعت نے احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ کی اور املاک کو نقصان پہنچایا، اس لیے ریاست نے فیصلہ کیا کہ پاکستان ایسے احتجاج اور توڑ پھوڑ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ ٹی ایل پی پر پابندی کے لیے سمری وفاقی حکومت کو ارسال کر دی گئی۔
پنجاب کابینہ نے وفاقی حکومت کو تجویز دی ہے کہ ’اس شدت پسند جماعت اور اس کی قیادت کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت فورتھ شیڈول میں ڈالیں۔‘
واضح رہے کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت دہشت گردی یا مذہبی شدت پسندی میں ملوث مشتبہ افراد کو فورتھ شیڈول میں ڈال دیا جاتا ہے۔
تحریک لیبک پر ایک بار پھر پابندی کی باتیں کیوںسعد رضوی سمیت ٹی ایل پی قیادت کے خلاف انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج: مریدکے میں پولیس آپریشن کے دوران کیا ہوا؟ٹی ایل پی ایک نئی بوتل میںکیا تحریکِ لبیک پر پابندی مؤثر ثابت ہو گی؟خادم رضوی سے سعد رضوی تک: تحریک لبیک کے پُرتشدد دھرنوں اور ’کامیاب‘ معاہدوں کے چھ سال
پنجاب حکومت کی جانب سے ٹی ایل پی پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب مریدکے میں تحریک لبیک کے مارچ پر پولیس کے کریک ڈاؤن اور مبینہ ہلاکتوں اور تشدد کے خلاف نمازِ جمعے کے بعد صوبے بھر میں احتجاج کا اعلان کیا تھا۔
مذہبی و سیاسی جماعت تحریکِ لیبک پاکستان نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے سامنے احتجاج کرنے کے لیے لاہور سے اسلام آباد کی جانب غزہ مارچ کی کال دی تھی۔
حکومت اور ٹی ایل پی کے مابین مذاکرات کامیاب نہ ہونے کے سبب ریلی کو روکنے پر احتجاج پرتشدد ہو گیا تھا۔ مریدکے کے مقام پر پولیس اور مظاہرین کے مابین شدید جھڑپیں ہوئیں جس میں پولیس کے ایک ایس ایچ او ہلاک ہوئے جبکہ ٹی ایل پی نے بھی اپنے کارکنوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا، جس کی بی بی سی آزاد ذریعے سے تصدیق نہیں کر سکا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ تحریکِ لبیک پاکستان پر پابندی عائد کرنے کی بات سامنے آ رہی ہے۔ سنہ 2021 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے اس جماعت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کی تھی۔
اپریل 2021 میں بھی پنجاب حکومت نے پرتشدد مظاہروں کے بعد تحریک لبیک پر پابندی عائد کرنے کے لیے وفاقی سے رابطہ کیا تھا اور وفاقی کابینہ نے انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے تحت تحریک لبیک پر پابندی عائد کی تھی۔
تاہم صرف سات ماہ کے عرصے کے بعد ٹی ایل پی کے احتجاج کے نتیجے میں اس وقت کی حکومت نے ایک معاہدے کے تحت یہ پابندی ہٹا دی تھی۔
یاد رہے کہ بطورِ سیاسی جماعت تحریکِ لبیک الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسرڈ ہے اور جماعت نے 2024 کے انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا۔
پاکستان میں سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا طریقہ
وفاقی حکومت کسی سیاسی جماعت پر آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت پابندی عائد کرنے کی کارروائی کر سکتی ہے۔
کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کے لیے وفاقی کابینہ سے منظوری لی جاتی ہے۔
آرٹیکل 17 کے مطابق پاکستان کی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ایسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کر سکتی ہے جو پاکستان کی خودمختاری اور ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہو۔
سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج شائق عثمانی نے اس حوالے سے بی بی سی اردو کو بتایا تھا کہ ’آئین کا آرٹیکل 17 یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت پاکستان کی خودمختاری یا ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہو تو اس سیاسی جماعت پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔‘
’اس کے لیے (وفاقی کابینہ کے) فیصلے کے بعد 15 دن میں سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کرنا ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق اگر سپریم کورٹ یہ سمجھتی ہے کہ حکومت کے پاس موجود ثبوت کارروائی کے لیے کافی ہیں تو وہ الیکشن کمیشن کو حکم دے سکتی ہے کہ اس سیاسی جماعت کو تحلیل کر دیا جائے۔
Getty Imagesتحریک لیبک نے ماضی میں بھی کئی بار مظاہرے کیے ہیںتحریک لیبک پر پابندی سے کیا انتہا پسندی کم ہو گی؟
سیاسی مبصرین کے خیال میں پاکستان میں مختلف اوقات میں سیاسی یا دیگر مذہبی جماعتوں پر پابندیوں عائد کی گئی ہیں لیکن جن مسائل کو جواز بنا کر پابندیاں لگائی گئی ہیں وہ جوں کے توں موجود ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ تاریخی طور پر یہ ثابت ہوا کہ چاہے سیاسی یا مذہبی جماعتیں ہوں، پابندیوں کے نتائج کبھی بھی مثبت نہیں آئے۔
بی بی سی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ گذشتہ بیس سال کے دوران درجنوں مذہبی جماعتوں اور دہشت گردی میں ملوث تنظیموں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں لیکن کیا ملک میں شدت پسندی کم ہوئی یا نہیں بلکہ وہ پہلے سے زیادہ ہوئی۔
انھوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ مسائل کو حل کرنے کے لیے جو طریقہ ہے وہی صحیح نہیں کیونکہ جن عوامل کی وجہ سے ملک میں شدت پسندی یا دہشت گردی پھیلی، اُن کے بارے میں کبھی سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا گیا۔
تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ ’دہشت گردی کے خاتمے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کا قانون بنایا گیا لیکن پھر کیا ہوا کہ اس قانون کو سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا، خود نواز شریف پر بھی دہشت گردی کا مقدمہ درج ہوا۔‘
ان کے مطابق راتوں رات تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں بن جاتی ہیں جب اہداف پورے ہو جاتے ہیں وہ پھر انھیں ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ مسائل بہت ہیں لیکن اُن کے حل کے لیے سنجیدگی نہیں۔
Getty Imagesماضی میں کن سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کی گئی؟
تحریکِ لبیک کے علاوہ ماضی میں حکومت کی جانب سے سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کی مثالیں موجود ہیں۔
جولائی 1954 میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں پابندی عائد کی گئی تھی۔
جماعت اسلامی بھی ماضی میں پابندی کی زد میں آ چکی ہے۔ پاکستان کے پہلے فوجی صدر ایوب خان کے دور میں جماعت اسلامی کو بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑا جب 1964 میں حکومت نے ریاست مخالف سرگرمیوں اور غیر ملکی فنڈنگ کے الزام میں جماعت اسلامی کو کالعدم قرار دے کر اس کے اہم رہنماؤں کو گرفتار کیا۔ جماعت اسلامی کی جانب سے اس پابندی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا اور عدالتِ عظمیٰ نے یہ پابندی ختم کر دی تھی۔
اس کے علاوہ 1971 میں صدر جنرل یحییٰ خان نے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی پر بھی پابندی عائد کی تھی۔
نیشنل عوامی پارٹی کا قیام 1967 میں عمل میں آیا تھا اور قیام کے ابتدائی آٹھ برس میں ہی اسے دو مرتبہ پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل یحییٰ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے بھی 1975 میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی تھی۔
ماضی قریب میں جن جماعتوں کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا ان میں سندھی قوم پرست جماعت جسقم بھی شامل ہے جس پر مئی 2020 میں وزارتِ داخلہ نے پابندی لگائی تھی۔
تحریک لبیک کے ممکنہ احتجاج کے پیش نظر پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، خیبرپختونخوا حکومت کا مریدکے واقعے کے خلاف آج احتجاج کا اعلانتحریک لبیک کے نئے سربراہ سعد رضوی کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟سعد حسین رضوی، دیگر ٹی ایل پی رہنماؤں کے خلاف دہشتگردی، قتل کے مقدمے درجسعد رضوی سمیت ٹی ایل پی قیادت کے خلاف انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج: مریدکے میں پولیس آپریشن کے دوران کیا ہوا؟حکومت جیتے گی یا تحریک لبیک کے سعد رضوی؟