بینظیر بھٹو کی خواہش، وسطی ایشیا تک رسائی اور پاکستانی ٹرک: آئی ایس آئی اور افغان طالبان کے تعلق کی ابتدا کیسے ہوئی؟

بی بی سی اردو  |  Oct 20, 2025

Getty Images

آج سے تقریبا 30 سال قبل ایک پاکستانی وزیر اعظم نے ایک ایسا فیصلہ لیا تھا جس نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور پڑوسی ملک افغانستان میں ایک بہت چھوٹے سے مسلح گروہ کے درمیان پہلی بار رابطہ قائم کروایا۔

اس وقت سرحد کے دونوں اطراف میں ہی کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ اگلے تین برس کے اندر اندر ہی وہ چھوٹا سا مسلح گروہ تقریبا پورے افغانستان پر قابض ہو جائے گا جو اس وقت ’طالبان‘ کے نام سے مشہور ہو رہا تھا۔

لیکن پاکستان کی حکومت نے ایسا کیا فیصلہ کیا تھا جس کی وجہ سے آئی ایس آئی اور طالبان کے درمیان پہلی بار رابطہ قائم ہوا تھا؟ اور اس وقت کے آئی ایس آئی سربراہ کی طالبان کے بارے میں کیا رائے تھی؟

حال ہی میں پاکستان اور افغانستان میں برسراقتدار طالبان حکومت کے درمیان سرحدی جھڑپوں، تلخ بیانات اور حملوں کے تناظر میں کئی تجزیہ کار اس کشیدگی کو ایک پرانے تعلق کے خاتمے کی ابتدا کے طور پر دیکھ رہے ہیں جس کی بنا پر گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان پر بین الاقوامی فورمز پر انگلیاں بھی اٹھتی رہیں۔

یہ تعلق کس کروٹ بیٹھے گا، اس سوال کا جواب تو مستقبل میں پیش آنے والے واقعات طے کریں گے لیکن اس سوال کا جواب ضرور موجود ہے کہ اس تعلق کی ابتدا کیسے اور کیونکر ہوئی تھی۔

بینظیر بھٹو کی خواہش اور وسطی ایشیا

سٹیو کول کی کتاب ’گوسٹ وارز‘ میں انھوں نے سنہ 2002 میں بینظیر بھٹو سے خود انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ سابق پاکستانی وزیر اعظم نے انھیں بتایا کہ ان کی سوچ تھی کہ تجارتی راستوں کا کنٹرول ملک کے لیے فائدہ مند ہو گا۔ انھوں نے پاکستان سے کپاس اور ایندھن سمیت الیکٹرانکس مصنوعات وسطی ایشیا بھجوانے کے بارے میں غور شروع کیا۔

یہ 1994کا سال تھا اور وہ وقت تھا جب افغانستان سوویت یونین کی فوج کے انخلا شدید خانہ جنگی کا شکار تھا جہاں مختلف مسلح گروہ ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار تھے اور ہر شہر اور علاقے پر کسی نہ کسی کا کنٹرول تھا۔ ایسے میں بینظیر بھٹو کی خواہش پر عملدرآمد ہونا آسان نہ تھا۔

سٹیو کول کے مطابق ’بینظیر بھٹو نے افغانستان کے معاملے پر مختلف اداروں اور ایجنسیوں پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دیا جس میں سابق میجر جنرل اور ان کے وزیر داخلہ امور نصیر اللہ خان بابر بھی شامل تھے۔‘ نصیر اللہ بابر کا خیال تھا کہ پاکستان کو کابل کے راستے تجارت کی ضرورت نہیں اور انھوں نے قندھار اور ہرات کے جنوبی راستے کی تجویز پیش کی جو بینظیر بھٹو کو پسند آیا۔

Getty Imagesسٹیو کول کے مطابق ’بینظیر بھٹو نے افغانستان کے معاملے پر مختلف اداروں اور ایجنسیوں پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دیا‘

سٹیو کول لکھتے ہیں کہ ’بینظیر بھٹو نے سوچا کہ ان کی حکومت پشتون اکثریتی علاقوں میں سڑکیں، ٹیلی فون لائنز اور دیگر مواصلاتی نظام بنا سکتی ہے جس کے تحت مقامی افغان کمانڈروں کو ادائیگیاں کر کے جنوبی افغانستان کے راستے وسطی ایشیا تک پاکستان کی تجارت کا راستی ہموار کر دے گا۔‘ سٹیو کول کے مطابق بینظیر بھٹو نے انھیں بتایا کہ اس معاملے پر آئی ایس آئی کو بھی کوئی اختلاف نہیں تھا۔

میجر (ریٹائرڈ) آغا ہمایوں امین کی کتاب ’پاکستان آرمی تھرو دا آئیز آف پاکستانی جنرلز‘ میں نصیر اللہ خان بابر کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ نصیر اللہ بابر نے انھیں بتایا کہ ’حکومت پاکستان کی یہ سوچ تھی کہ ایک ایسا تجارتی راستہ بنایا جائے جس پر ٹرک یا ٹرین کے ذریعے سامان بھیجا یا لایا جا سکے۔‘ اس پورے معاملے میں ایک اور اہم نکتہ یہ بھی تھا کہ وسطی ایشیا کے پاس توانائی کے ذخائر بھی تھے۔ نصیر اللہ بابر نے میجر آغا ہمایوں کو دیے جانے والے انٹرویو میں اس بات کی تصدیق بھی کی۔

جب افغانستان میں پاکستانی ٹرک روک لیے گئے

سٹیو کول کی کتاب کے مطابق نصیر اللہ خان بابر کو سربراہی سونپی گئی اور اکتوبر 1994 میں متعدد ٹرکوں پر مشتمل پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کا پہلا تجرباتی کانوائے کافی تشہیر کے ساتھ روانہ ہوا۔ سٹیو کول کے مطابق نصیر اللہ بابر کا خیال تھا کہ کوئٹہ سے براستہ قندھار یہ کانوائے ترکمانستان پہنچے گا۔

تاہم سابق لیفٹینینٹ جنرل جاوید اشرف قاضی، جو اس وقت پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ تھے، نے سنہ 2021 میں پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’یہ ٹرک کاٹن لاد کر پاکستان واپس آ رہے تھے۔‘ ان کے مطابق پاکستان میں کپاس کی کمی کے پیش نظر وسطی ایشیا سے جو کپاس پہلے سمندر کے راستے درآمد کی جاتی تھی، اس تجارتی قافلے کے ذریعے براستہ سڑک سستے طریقے سے پاکستان کپاس لانا مقصود تھا۔

جاوید اشرف قاضی کے مطابق ’جب یہ قافلہ ہرات سے قندھار کے راستے پر تھا تو ایک مقامی کمانڈر نے اسے روک لیا۔ اس نے ٹرک لوٹ لیے، کپاس اور ٹرک اپنے قبضے میں لے لیے اور بندوں کو قیدی بنا لیا۔‘

طالبان سے پہلا رابطہ اور پاکستان کا ’شکریہ‘

جاوید اشرف قاضی کے مطابق جب یہ اطلاع پہنچی تو ’نصیر اللہ خان بابر نے ہم سے رابطہ کیا اور کہا کہ طالبان اس جگہ سے نزدیک ہیں، ان سے کہا جائے کہ ایکشن کریں اور ان کو چھڑوائیں۔ تو تب ہم نے ان کو اپروچ کیا اور نصیر اللہ بابر نے بھی اپنے ذرائع سے ان سے رابطہ کیا۔‘

واضح رہے کہ نصیر اللہ خان بابر ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں آئی جی ایف سی رہ چکے تھے اور ان ہی کے دور میں پہلی بار چند باغی افغان کمانڈروں کو پاکستان میں تربیت فراہم کی گئی۔ اس بات کی تصدیق خود نصیر اللہ بابر آغا ہمایوں کو دیے جانے والے انٹرویو میں کر چکے ہیں۔

جاوید اشرف قاضی کے مطابق ’انھوں (طالبان) نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم دیکھتے ہیں۔ پھر انھوں نے کارروائی کی، اس کمانڈر کے لوگ بھاگ گئے اور طالبان نے کپاس بھی چھڑوا لی اور بندے بھی چھڑوا لیے۔‘

پاکستانی ٹینک، بمباری کے نشانات اور ’باب دوستی‘: پاکستان اور افغانستان کی جھڑپوں کے بعد چمن بارڈر پر بی بی سی نے کیا دیکھا؟’ہم بچوں سمیت بس کو اڑا دیں گے‘: پشاور سکول بس کی ہائی جیکنگ، جس کا اختتام اسلام آباد میں چھ گولیوں پر ہواملا عمر: ایک آنکھ سے زخمی طالبان قائد کی خفیہ زندگی اور اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کی کہانیافغانستان میں سوویت فوج کے خلاف سٹنگر میزائل کا پہلا حملہ کرنے والے ’انجینیئر غفار‘ جنھیں امریکیوں نے راولپنڈی میں تربیت دی

جاوید اشرف قاضی کے مطابق ’یہ پہلا واقعہ تھا جب پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان باضابطہ رابطہ ہوا اور اس کارروائی کے بدلے میں ان کے مطابق شکریہ کے علاوہ کچھ نہیں دیا گیا۔‘

امریکی سفارت خانے کا خفیہ مراسلہ

اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے 20 فروری 1995کو تحریر ایک خفیہ مراسلے میں، جو اب ڈی کلاسیفائی کیا جا چکا ہے اور امریکی نیشنل سکیورٹی آرکائیو کی جانب سے جاری کردہ ’طالبان فائلز‘ کا حصہ ہے، میں بھی اس واقعے کا تذکرہ ملتا ہے تاہم اس کی تفصیلات میں کچھ فرق ہے۔

اس مراسلے میں امریکی سفارت خانے کے پولیٹیکل افسر سے ایک اہم طالبان ذرائع کی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ’طالبان کے مطابق پاکستان نے انھیں اس وقت اہمیت دینی شروع کی جب مسلح طالبان نے سپن بولدک کے علاقے میں وسطی ایشیا سے آنے والے ایک پاکستانی قافلے کو روک لیا اور متعدد دن تک روکے رکھا۔‘

طالبان ذرائع کے حوالے سے اس خفیہ امریکی مراسلے میں بتایا گیا کہ ان کا دعویٰ تھا کہ ’پاکستانی قافلے کی روانگی کے حوالے سے نصیر اللہ خان بابر نے افغان طالبان کو بتایا تک نہیں تھا اور انھوں نے قندھار سے تعلق رکھنے والے دیگر کمانڈروں سے رابطہ کیا تھا۔‘

تاہم پاکستان کی جانب سے رابطے کے بعدطالبان نے اس قافلے کو قندھار سے گزارنے کی حامی بھری اور راستے میں مقامی کمانڈروں کی جانب سے سڑک پر لگائی گئی رکاوٹیں اور چین ہٹانی شروع کر دیں جہاں ٹرکوں کو روک کر ان سے بھتہ وصول کیا جاتا تھا۔

مراسلے کے مطابق طالبان ذرائع نے امریکی عہدیدار کو بتایا کہ ’سڑک پر تقریبا ہر ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ایسی رکاوٹیں موجود تھیں لیکن جب انھوں نے کارروائی کی تو کسی کی جانب سے مزاحمت نہیں کی گئی۔‘

طالبان کے آغاز کی کہانی

لیکن کیا یہ طالبان کی طاقت کا نقطہ آغاز بھی تھا؟ یہ کہانی پاکستان اور طالبان کے درمیان اس پہلے رابطے سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ڈی کلاسیفائیڈ مراسلے کے مطابق 1994کے موسم گرما میں قندھار میں حالات اتنے خراب ہو چکے تھے کہ ایک مدرسے کے چند بچوں کا ریپ کیا گیا جس کے بعد ایک مقامی مدرسہ کے استاد، جن کا نام ملا عمر تھا، کے زیر نگرانی چند مسلح طالبان ایک مقامی تاجر حاجی بشیر نورزئی کی مالی اور عسکری مدد سے میوند کے علاقے میں فعال ہوئے۔

سٹیو کول کے مطابق طالبان کو ابتدائی دنوں میں مالی مدد دینے والوں میں حامد کرزئی بھی شامل تھے جو بعد میں افغانستان کے صدر بنے۔

Getty Imagesملا عمر کے زیر نگرانی چند مسلح طالبان ایک مقامی تاجر حاجی بشیر نورزئی کی مالی اور عسکری مدد سے میوند کے علاقے میں فعال ہوئے

اس وقت مراسلے کے مطابق ان کے ساتھ 200 لوگ تھے۔ واضح رہے کہ حاجی بشیر نورزئی کو دو سال قبل ہی ایک امریکی انجینیئر کے بدلے میں قید سے رہائی ملی ہے۔ مراسلے کے مطابق سپن بولدک دوسرا علاقہ تھا جس پر طالبان نے قبضہ کیا اور یہیں زیر زمین سرنگوں سے اسلحہ طالبان کے ہاتھ ملا جس نے ان کی عسکری طاقت میں اضافہ کیا۔

تاہم اس نکتے پر اختلاف موجود ہے کہ اسلحے کا یہ ڈپو کس کی مدد سے طالبان کو ملا۔

اگرچہ چند ذرائع پاکستان کی ایجنسی آئی ایس آئی کا نام لیتے ہیں لیکن سٹیو کول کے مطابق زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والا یہ ذخیرہ، جو 17 سرنگوں میں چھپا ہوا تھا، کسی مقامی کمانڈر کی مدد سے ہی طالبان کو ملا۔

سٹیو کول کے مطابق جاوید اشرف قاضی نے انھیں ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’ان سرنگوں میں اتنا اسلحہ موجود تھا کہ پاکستان کی آدھی فوج کو مسلح کیا جا سکتا تھا۔‘ احمد رشید کی کتاب پاکستان اور طالبان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان سرنگوں میں 18 ہزار کلاشنکوف بھی موجود تھیں۔

جاوید اشرف قاضی نے ایک پاکستانی چینل کو دیے انٹرویو میں کہا کہ ان سرنگوں اور ان میں چھپے روسی اسلحے کے بارے میں پاکستان کو بھی علم تھا اور ’یہ ایک افغان کمانڈر ملا عبدالسلام راکٹی کے زیر اثر تھا جس نے بعد میں یہ طالبان کے حوالے کر دیا۔‘

AFPبشیر نورزئی طالبان کے بانی ملا عمر کے قریبی ساتھی اور دوست تھے اور انھوں نے 1990 کی دہائی میں طالبان کی پہلی حکومت کی مالی مدد کی تھی

امریکی مراسلے کے مطابق، ایک طالبان ذرائع نے اس بات کی تردید کی کہ اسلحہ کے ذخیرے پر قبضے میں پاکستان نے ان کی مدد کی تھی۔

یہ واضح ہے کہ اس ذخیرے کی دریافت اور اس پر قبضے کے بعد طالبان کی کارروائیوں میں تیزی بھی آئی اور نومبر میں وہ قندھار پر قبضہ کر چکے تھے جہاں کے ایئر پورٹ سے انھیں چھ مگ 21 لڑاکا طیارے اور چار ایم آئی سترہ ہیلی کاپٹر بھی ملے۔

آئی ایس آئی سربراہ کی تنبیہ

سٹیو کول کے مطابق اچانک ہی بینظیر بھٹو افغانستان میں ایک نئی طاقت ابھرتے ہوئے دیکھ رہی تھیں جو وسطی ایشیا تک کے راستوں کو محفوظ اور پائیدار تجارت کے لیے کھول سکتی تھی۔ اسی دوران جاوید اشرف قاضی کی طالبان کے ایک وفد سے پہلے ملاقات بھی ہوئی۔

اس ملاقات کے بارے میں جاوید اشرف قاضی نے ایک پاکستانی ٹی وی چینل کو دیے جانے والے انٹرویو میں بتایا کہ ’اس وفد میں ملا عمر شامل نہیں تھے۔ ان کے نائب ملا ربانی وفد کی سربراہی کر رہے تھے۔ تین چار اور لوگ تھے۔ میں نے نوٹس کیا کہ ہر کسی کی کوئی جسمانی معذوری تھی۔ کسی کا بازو، کسی کی ٹانگ نہیں تھی۔‘

’انھوں نے کہا کہ ہم افغانستان کو صاف کرنا چاہتے ہیں، آپ سے درخواست ہے کہ آپ نیوٹرل رہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں پیسہ اور ہتھیار نہیں چاہیے۔ انھوں نے خوراک اور ایندھن مانگا۔‘ جاوید اشرف قاضی نے کہا کہ ’پاکستان کا طالبان کی مہم جوئی میں کوئی اور کردار نہیں تھا۔ ہم دیکھ رہے تھے کہ کیا ہو رہا ہے۔‘

جاوید اشرف قاضی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس ملاقات کی تصدیق کی اور کہا کہ ’طالبان نے بنیادی طور پر پاکستان سے افغانستان کے تنازع میں غیر جانبدار رہنے سمیت یہ درخواست کی تھی کہ اپنے راشن اور ایندھن کے لیے انھیں پاکستان حکومت کی مدد کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ دونوں پاکستان کے راستے ان تک پہنچتی ہیں اس لیے ان پر پابندی نہ عائد کی جائے۔‘

تاہم سٹیو کول کے مطابق اس وقت تک پاکستان کی خفیہ ایجنسی افغانستان میں گلبدین حکمت یار کے دھڑے کی حمایت اور مدد کر رہی تھی۔

چھ دسمبر 1994کو اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے سے لکھے جانے والے ایک خفیہ مراسلے میں کہا گیا کہ ’جاوید اشرف قاضی نے ایک شخص کو بتایا کہ آئی ایس آئی طالبان کی مدد نہیں کر رہی بلکہ انھوں نے حکومت کو بھی مشورہ دیا ہے کہ طالبان کی حمایت نہیں کرنی چاہیے‘ کیوں کہ ان کے خیال میں ’یہ ایک ایسی خطرناک اور بے قابو طاقت بن سکتے ہیں جو افغانستان سمیت پاکستان کو بھی نقصان پہنچائے گی۔‘

Getty Imagesجاوید اشرف قاضی نے کہا کہ ’پاکستان کا طالبان کی مہم جوئی میں کوئی اور کردار نہیں تھا۔ ہم دیکھ رہے تھے کہ کیا ہو رہا ہے‘

مراسلے کے اختتام پر لکھا گیا کہ ’جس شخص نے جاوید اشرف قاضی کی گفتگو کے بارے میں بتایا ہے وہ کافی قابل بھروسہ زریعہ ہے اور اس بات کا امکان نہیں کہ اس نے جاوید اشرف قاضی کی گفتگو درست نہ پہنچائی ہو۔‘

جب بی بی سی نے جاوید اشرف قاضی اس اس امریکی سفارت خانے کے مراسلے میں ان کی گفتگو کے بارے میں رابطہ کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’مجھے یاد نہیں کہ اس وقت میں نے ایسا کچھ کہا۔‘

ایندھن، مشینری اور پیسہ

تاہم امریکی مراسلے میں لکھا گیا کہ ’اس کے باوجود اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ طالبان کو کسی نہ کسی ذریعے سے مدد ضرور مل رہی ہے۔‘

سٹیو کول نے ’گوسٹ وارز‘ میں بینظیر بھٹو کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ سابق وزیر اعظم کے مطابق اس پہلی ملاقات کے بعد ’پاکستان کی انٹیلیجنس کی جانب سے خفیہ امداد کی درخواستیں آنے لگیں جو ایندھن سے شروع ہوئیں اور پھر مشینری تک پہنچ گئیں۔ پھر پاکستان نے پیسہ بھی دینا شروع کر دیا۔‘

سٹیو کول کے مطابق بینظیر بھٹو نے انھیں بتایا کہ ’آئی ایس آئی افسران کا کہنا تھا کہ پیسے، تربیت اور سامان کی مدد سے اس بات کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی کہ افغان طالبان پاکستان کے حامی رہیں گے۔‘

بینظیر بھٹو کا حوالہ دیتے ہوئے سٹیو کول لکھتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم نے انھیں بتایا کہ ’میں نے پیسہ جاری کرنا شروع کر دیا لیکن ایک بار جب میں نے اجازت دے دی تو مجھے نہیں معلوم کہ ان کو کتنا پیسہ دیا گیا۔ میں یہ جانتی ہوں کہ یہ بہت زیادہ تھا۔‘

تاہم جب بی بی سی نے اس وقت کے آئی ایس آئی سربراہ لیفٹینینٹ جنرل جاوید اشرف قاضی سے بینظیر بھٹو کی جانب سے کی گئی گفتگو کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ان کے دور میں ان کی جانب سے وزیر اعظم سے ایسی کوئی درخواست نہیں کی گئی ’جس میں طالبان کی مدد کے لیے پیسے یا کچھ اور مانگا گیا ہو۔‘

جاوید اشرف قاضی کے مطابق طالبان کو قندھار اور بعد میں ہرات پر قبضے سے حکومتی خزانے تک بھی رسائی مل چکی تھی۔

اکتوبر 1995 میں بطور آئی ایس آئی سربراہ لیفٹینینٹ جنرل جاوید اشرف قاضی کی مدت ملازمت ختم ہوئی اور ان کی جگہ لیفٹینینٹ جنرل نسیم رانا نے لے لی تھی۔

خود بینظیر بھٹو نے اس دور میں بطور وزیر اعظم جو بیانات دیے ان میں یہی موقف اپنایا گیا کہ افغانستان کے تنازع میں پاکستان غیر جانب دار ہے۔ 18 فروری 1995 کو فلپائن میں بات کرتے ہوئے بینظیر بھٹو نے کہا کہ ’جب سے ہماری حکومت آئی ہے ہم افغانستان میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے، ہمارا کوئی فیورٹ نہیں ہے۔‘

اگلے سال، ستمبر 1996 میں، برطانیہ کے دورے کے دوران بینظیر بھٹو سے جب طالبان کی مدد کے الزامات کے بارے میں سوال ہوا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’ہم طالبان کی حمایت نہیں کر رہے۔ میں اس کی تردید کرتی ہوں۔‘

صرف تین دن قبل طالبان کابل پر قبضہ کر چکے تھے۔

تاہم بینظیر بھٹو نے افغانستان میں سوویت یونین فوج کے خلاف جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ماضی میں مغربی دنیا نے پاکستان کے راستے پیسہ اور ہتھیار افغانستان بھجوائے لیکن اس وقت پاکستان کی مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ ہم طالبان یا کسی بھی گروہ کو پیسہ، اسلحہ یا کسی قسم کی مدد فراہم کر سکیں۔‘

ملا عمر: ایک آنکھ سے زخمی طالبان قائد کی خفیہ زندگی اور اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کی کہانیجب ملا عمر نے چینی سفیر کی جانب سے تحفے میں دیا گیا چینی مٹی سے بنا اونٹ کا مجسمہ توڑاافغانستان میں سوویت فوج کے خلاف سٹنگر میزائل کا پہلا حملہ کرنے والے ’انجینیئر غفار‘ جنھیں امریکیوں نے راولپنڈی میں تربیت دیافغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے ’سلطنتوں کا قبرستان‘ بناتا ہے’ہم بچوں سمیت بس کو اڑا دیں گے‘: پشاور سکول بس کی ہائی جیکنگ، جس کا اختتام اسلام آباد میں چھ گولیوں پر ہواوہ بھٹو جو اپنی بہن کے دور حکومت میں مارے گئے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More