Getty Imagesیہ آن لائن کمزور لوگوں کا اپنا نشانہ بناتے ہیں
جب ایک 14 سالہ لڑکی نے اپنی ہی عُمر کے دیگر نوجوانوں سے آن لائن بات کرنا شروع کی تو اُن کی والدہ کے لیے زیادہ پریشان کُن اور تشویش کا باعث نہیں تھا۔
لیکن جب چند ہفتوں کے اندر کرسٹینا (تبدیل شدہ نام) نے یہ محسوس کیا کہ اُن کی بیٹی کا رویّہ نہ صرف یکسر تبدیل ہو رہا ہے بلکہ وہ قابو سے باہر ہورہی ہیں۔
ان کی بیٹی ’764‘ نامی ایک آن لائن انتہائی دائیں بازو کے ’شیطانی گروپ‘ کے جال میں پھنس گئی تھیں۔ ایسے گروپس بنیادی طور پر نوعُمر لڑکوں اور نوجوان مردوں پر مشتمل ہوتے ہیں جن کا مقصد بس لڑکیوں کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔
بین الاقوامی گروپ کی سرگرمیوں کے سلسلے میں کم از کم چار برطانوی نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں مغربی سسیکس کے ہورشام سے تعلق رکھنے والے 764 ممبر کیمرون فینیگن بھی شامل ہیں۔ جنوری میں انھیں چھ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
انتباہ: اس مضمون میں پیش کی جانے والی چند تفصیلات کُچھ قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔
کرسٹینا کا کہنا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ 764 نامی گروپ کی جانب سے ایک ایسے چیٹ روم میں شامل ہونے کے بعد نشانہ بنایا گیا کہ جہاں لوگ خود کو نقصان پہنچانے کے بارے میں بات ہو رہی تھی۔
یہ گروپ متاثرین کو جنسی حرکتیں کرنے، خود کو نقصان پہنچانے اور یہاں تک کہ براہ راست ویڈیو کالز کے دوران خودکشی کی کوشش کرنے پر آمادہ کرتا ہے جبکہ اس کے ارکان یہ سب ہوتا دیکھتے ہیں۔
کرسٹینا نے کہا کہ 764 کے ایک ممبر نے ان کی بیٹی سے یہ سب کروانے سے پہلے اُنھیں اعتماد میں لیا تاکہ وہ اُنھیںیہ سب کرنے پر آمادہ کر سکیں۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نے اپنی والدہ کو بریسٹ کینسر کی سٹیج فور کی تشخیص ہو جانے کے بعد اپنی زندگی کے لیے لڑتے ہوئے دیکھا اور یہ سب دیکھنا اتنا مشکل نہیں تھا کہ جتنا میرے لیے اپنی بیٹی کو خراب ہوتے ہوئے دیکھنا تھا۔‘
’وہ کسی کو کینسر سے مرتے ہوئے دیکھنے سے کہیں زیادہ تیزی سے بدتر حالات کی جانب بڑھ رہی تھیں بلکہ خراب ہو چُکی تھیں۔‘
BBCاس طرح کے گروپس میں بڑھتی تعداد پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے
کرسٹینا نے کہا کہ اپنی بیٹی کو 764 نامی شیطانی گروپ کی گرفت سے آزاد کروانا انتہائی مُشکل تھا۔
’میں بس ان کو روکنے کی کوشش میں لگی رہی، ان سے بات کرنا بند کرنے کوشش جاری رہی، لیکن اُن کے دباؤ اور اثر و رسوخ کی سطح کم ہونے کو نہیں آرہی تھی۔‘
’انھوں نے اسے اس حد تک اپنا عادی بنا لیا تھا کہ وہ بس یہ سمجھنے لگی تھی کہ وہ اُن کے بغیر بھی اور اُن کے ساتھ بھی کوئی معنی نہیں رکھتی۔‘
کرسٹینا اور ان کی بیٹی آہستہ آہستہ اپنی زندگیوں کو دوبارہ معمول پر لانے کی کوشش میں ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ ’اب وہ یہ چاہتی ہیں کہ دیگر بچوں کے والدین ان گروپس سے منسلک خطرات کو سمجھیں اور اپنے بچوں کو ان سے دور رکھنے کی ہر مُمکن کوشش کریں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ان گروپس کی وجہ سے میری بیٹی نے کھانا پینا اور یہاں تک کہ سونا بھی چھوڑ دیا تھا وہ تنہا رہنے لگی تھی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ایک ماں کی حیثیت سے میں نے اپنے آپ کو کبھی بھی اس قدر بے بس اور تنہا محسوس نہیں کیا تھا کہ جتنا میں اپنی بیٹی کو دیکھنے کے بعد محسوس کرتی تھی۔ میں خوفزدہ، بے بس اور نااُمید ہو چُکی تھی یوں لگنے لگا تھا کہ بس اب میرے ہاتھ میں کُچھ بھی نہیں اور اب میری بیٹی کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔‘
نیشنل کرائم ایجنسی این سی اے 764 جیسے گروہوں کو ’سب سے زیادہ شدید اور سنگین آن لائن خطرات‘ میں سے ایک سمجھتی ہے جس سے وہ نمٹنے کی کوشش میں ہے۔
این سی اے میں بچوں کے جنسی استحصال سے نمٹنے کے لیے قائم یونٹ کے سربراہ روب رچرڈسن کا کہنا ہے کہ ’اس طرح کے گروہوں کے ارکان کم عمر ہوتے ہیں اور ان کے جرائم سے متعلق اطلاع کم دی جاتی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’متاثرین سے بات کرنا قانون نافذ کرنے والے ادارے کے لوگوں کے لیے کافی مُشکل ہوتا ہے اور اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ ان متاثرین کا کم عُمر ہونا ہوتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’متاثرین کو اکثر یہ سمجھنے میں مُشکل ہوتی ہے کہ وہ کسی کے بُرے کاموں کا نشانہ بن رہے ہیں اور وہ خود متاثرین میں شامل ہیں، لہذا اس وجہ سے بھی ان سے بات کرنا انتہائی مُشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے معاملات میں نوجوان لڑکیاں ناقابل یقین حد تک کمزور ہو جاتی ہیں اور سوچنے سمجھنے سے قاصر ہو جاتی ہیں۔‘
’والدین کے لیے مشورہ یہ ہے کہ وہ اس بات پر توجہ دیں کہ اُن کے بچے آن لائن کیا کر رہے ہیں اور اس کام کے لیے والدین نگرانی والے ٹولز استعمال کریں اور اپنے بچوں کو ایسے گروپس سے دور رکھنے کی کوشش کریں۔‘
مولی روز فاؤنڈیشن 14 سالہ مولی رسل کی یاد میں قائم کی جانے والی ایک فلاحی تنظیم ہے۔ خیال رہے کہ مولی روز نے آن لائن نقصان دہ مواد دیکھنے کے بعد خودکشی کر لی تھی۔ اس فاؤنڈیشن نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ 764 جیسے گروپس میں ’انتہائی تیزی سے اضافہ‘ ہو رہا ہے۔
فاؤنڈیشن کے سربراہ اینڈی بیروز نے کہا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ یہ گروہ کھلے عام اُن بڑے پلیٹ فارمز پر سرگرم ہیں جنھیں اس ملک کے زیادہ تر بچے روزانہ کی بنیاد پر استعمال کر رہے ہیں۔‘
’یہ گروپ واقعی خودکشی اور خود کو نقصان پہنچانے والے کاموں کی ترغیب دینے میں پیش پیش ہیں جس کا ہمارے نوجوان سامنا کر رہے ہیں۔‘
واضح رہے کہ ’764 نیٹ ورک‘ نامی یہ گروپ سنہ 2020 میں ایک امریکی نوعمر بریڈلی کیڈن ہیڈ نے اُس وقت قائم کیا کہ جب وہ صرف 15 سال کے تھے۔ گروپ کے اس نام کے بارے خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس کا نام ٹیکساس میں اس کے آبائی شہر کے پوسٹل کوڈ کے ایک حصے سے لیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق یہ ایک بین الاقوامی نیٹ ورک کا حصہ ہے جس میں دائیں بازو کے انتہا پسند گروہ شامل ہیں جنھوں نے ’عسکری شدت پسندی کے نظریے‘ کو اپنایا ہے۔
جب کرسٹینا کی بیٹی کو نشانہ بنایا گیا اسی زمانے میں 764 کے آن لائن چیٹس میں فینیگن بھی شامل ہوئے۔ انھوں نے ان چیٹس کے دوران اس نے دوسرے ارکان کے سامنے فخر سے بتایا کہ وہ بچوں کو خود کو نقصان پہنچانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
گرفتاری کے بعد جب فینیگن (جو اس وقت 18 سال کے تھے) سے پولیس نے پوچھا کہ وہ 764 کے بارے میں کیا جانتا ہے تو انھوں نے کہا کہ ’وہ نسلی، ذہنی صحت کے مسائل والے یا ذہنی طور پر کمزور لوگوں کو کسی بھی مقصد کے لیے بلیک میل کرتے رہے ہیں۔‘
انھوں نے خودکشی پر اُکسانے، دہشت گردی سے متعلق ایک ہدایت نامہ رکھنے اور بچوں کی فحش تصاویر رکھنے کے جرم کا اعتراف کیا۔
سزا سناتے وقت جسٹس جے نے کہا کہ فینیگن ’عوام کے لیے سنگین نقصان کا باعث بن رہے ہیں خاص طور پر وہ ہمارے نوجوانوں کے لیے ایک بڑے خطرے‘ ہیں۔
انسداد دہشت گردی پولیس نے متنبہ کیا ہے کہ یہ گروپ سماج کے لیے ’بہت ہی بڑا خطرہ‘ ہے۔
کاؤنٹر ٹیرر ازم پولسنگ ساؤتھ ایسٹ (جنوب مشرقی انسداد دہشت گردی پولیس) ہیمپشائر، کینٹ، سرے، سسیکس اور ٹیمز ویلی میں پولیس فورسز کے ساتھ رابطہ کاری اور خصوصی معاونت فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔ یہ تنظیم سنہ 2009 سے یہ تعاون فراہم کر رہی ہے۔
تنظیم کی سربراہ چیف سپرنٹنڈنٹ کلیر فنلے، نے کہا کہ ’کیمرون فینیگن کا مقدمہ واقعی اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ آن لائن گروہ کس حد تک نوجوانوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔‘
’اس سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ والدین، سرپرستوں اور نگرانوں کو زیادہ سے زیادہ آگاہ کیا جائے کہ خطرہ کیا ہے اور نوجوان کس چیز کی طرف کھنچے چلے جا رہے ہیں۔‘
گزشتہ سال امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی نے 764 کے بارے میں ایک غیر معمولی انتباہ جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ یہ گروہ ’دھمکی، بلیک میل اور دھوکے سے متاثرین کو خود کو نقصان پہنچانے، جنسی حرکات کرنے یا خودکشی کے لائیو سٹریم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔‘
ایف بی آئی کے مطابق، 764 اور دیگر آن لائن نیٹ ورکس سے وابستہ 250 افراد کے خلاف تحقیقات شروع کی گئی ہیں۔
764 سے منسلک افراد کو بچوں کے ساتھ زیادتی، اغوا اور قتل کے الزامات میں کم از کم آٹھ ممالک، بشمول برطانیہ، میں گرفتار کیا گیا ہے۔
اگر آپ اس خبر میں بیان کردہ مسائل سے متاثر ہیں، تو مدد اور رہنمائی کے لیے بی بی سی ایکشن لائن سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
بی بی سی کے نئے پوڈکاسٹ ’ازیوم نتھنگ: کری ایشن آف اے ٹین ایج سیٹانسٹ‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کیمرون فینیگن کے مقدمے کے چیف تفتیشی افسر نے کہا کہ انھیں خدشہ ہے کہ مزید نوجوان ایسے گروہوں سے متاثر ہو کر پرتشدد جرائم کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’زیادہ سے زیادہ لوگ، جو ابتدا میں (764) میں صرف اس لیے شامل ہوئے تھے کہ انھیں کمزور لوگوں کا مذاق اڑانا یا بم سے متعلق افواہیں پھیلا کر اپنی تفریح کے لیے لوگوں اور شغل لگتا تھا، اب دراصل اسی گروہ کے اندر بہت سے لوگ انتہا پسند بن چکے ہیں۔‘
خود کشی کے لیے زہر بیچنے والا شخص، جس نے آن لائن فورم کے ذریعے سمندر پار مہلک کیمیکل پہنچایا انڈیا میں جوڑے کی فیس بک لائیو میں خودکشی کی کوشش: ’میری موت کے ذمہ دار مودی ہوں گے‘انڈیا: آن لائن گیم میں پیسے گنوانے کے بعد بچے کی خودکشیہر 40 سیکنڈ میں ایک مرد خودکشی کرتا ہے۔۔۔نوجوان لڑکیوں کے ’خودکشی‘ سے متعلق انسٹاگرام گروپ کا انکشافامریکہ جا کر صنفی شناخت تبدیل کرنے والی سعودی ٹرانس جینڈر کی خودکشی اور ایک پراسرار وکیل کی تلاش